15-104- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو ابْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ مَا قَالَ عَمْرٌو قَالَ أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ

عبداللہ بن یوسف، لیث، سعید بن ابی سعید، ابوشر یح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عمرو بن سعید (والی مدینہ) جب ابن زبیر سے لڑنے کے لئے لشکروں کو مکہ کی طرف روانہ کر رہا تھا تو میں نے اس سے کہا اے امیر! مجھے اجازت دیں، تو میں تجھ سے ایک ایسی بات کہوں جس کو نبی کریم ﷺنے فتح کے دوسرے دن کھڑے ہو کر فرمایا تھا۔ اس کو میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور اس کو میرے دل نے یاد رکھا ہے اور جب آپ اس کو بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں آپ نے اللہ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر فرمایا کہ مکہ (میں جدال وقتال وغیرہ) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے آدمیوں نے نہیں حرام کیا، پس جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے جائز نہیں کہ مکہ میں خون ریزی کرے اور نہ (یہ جائز ہے کہ) وہاں کوئی درخت کاٹا جائے پھر اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے لڑنے سے (ان چیزوں کا) جواز بیان کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول کو اجازت دے دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی ایک گھڑی بھر دن کی وہاں اجازت دی تھی پھر آج اس کی حرمت ویسی ہی ہوگئی جیسی کل تھی، پھر حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو (یہ خبر) پہنچادے، ابوشریح سے کہا گیا کہ (اس حدیث کو سن کر) عمرو نے کیا جواب دیا؟ انہوں نے کہا کہ (یہ جواب دیا کہ) اے ابوشریح میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، حرم کسی باغی کو اور خون کر کے بھاگ جانے والے کو پناہ نہیں دیتا۔
When ‘Amr bin Said was sending the troops to Makkah (to fight ‘Abdullah bin Az-Zubair) I said to him, ‘O chief! Allow me to tell you what the Prophet said on the day following the conquests of Makkah. My ears heard and my heart comprehended, and I saw him with my own eyes, when he said it. He glorified and praised Allah and then said, “Allah and not the people has made Makkah a sanctuary. So anybody who has belief in Allah and the Last Day (i.e. a Muslim) should neither shed blood in it nor cut down its trees. If anybody argues that fighting is allowed in Makkah as Allah’s Apostle did fight (in Makkah ) tell him that Allah gave permission to His Apostle, but He did not give it to you. The Prophet added: Allah allowed me only for a few hours on that day (of the conquest) and today (now) its sanctity is the same (valid) as it was before. So it is incumbent upon those who are present to convey it (this information) to those who are absent.” Abu- Shuraih was asked, “What did ‘Amr reply?” He said ‘Amr said, “O Abu Shuraih! I know better than you (in this respect). Makkah does not give protection to one who disobeys (Allah) or runs after committing murder, or theft (and takes refuge in Makkah).
شرح الکلمات:
الْبُعُوثَ :جنگی لشکر
وَعَاهُ:اسے یاد کیا
ائْذَنْ لِي:مجھے اجازت دیں
يَسْفِكَ: وہ خون بہاتا ہے
لَا يَعْضِدَ: وہ نہیںکا ٹتا
وَلْيُبَلِّغِ:چاہے کہ وہ پہنچا دے
لَا يُعِيذُ: وہ پناہ نہیں دیتا
عَاصِيًا : کوئی گناہ گار یا باغی
فَارًّا :بھاگنے والا
بِخَرْبَةٍ:خیانت
تراجم الرواۃ :
1 نام و نسب :عبد اللہ بن یوسف التنیسی الکلاعی المصریآبائی وطن دمشق ہے مگر بعد میںمصر میں سکونت اختیا رکی ۔
کنیت: ابو محمد
محدثین کے ہاں رتبہ: امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں سطح زمین پر موطا کےرواۃ سے عبد اللہ بن یوسف سے زیادہ سچا کوئی نہیں ۔امام عبداللہ بن ابی حاتم فرماتے ہیں: ثقہ۔امام الدارقطنی بھی انکے بارے میں فرما تے ہیں کہ وہ ثقہ تھے۔
وفات : عبداللہ بن یوسف التنیسی نے 218ھجری کو مصر میںوفات پائی ۔
2نام و نسب :اللیث بن سعد بن عبد الرحمن الفہمی
کنیت : ابو الحارث الفہمی ۔
محدثین کے ہاں رتبہ:عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے والد محترم امام احمد حنبل فرمایا کرتے تھے کہ
اصح الناس حدیثا عن سعید المقبری لیث بن سعدامام ابن حجر رحمہ اللہ کے ہاں رتبہ ثقہ ،ثبت فقیہ امام
ولادت ووفات : اللیث بن سعید 94ھجری میں پیدا ہوئے اور 175ھجری میں وفات پائی ۔
3نام و نسب :سعید بن ابی سعید ان کا نام کیسان اللیثی المقبری المدنی
سعید بن ابی سعید بہت سے صحابہ کرام کے شاگرد ہیں جن میں مشہور سیدنا ابو ہریرہ ،سعد بن ابی وقاص ،سعید الخدری ،ابی شریح الخزاعی ،سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین شامل ہیں ۔
کنیت : ابو سعد
محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ سعید بن ابی سعید صدوق تھے ۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: لیس بہ بأس امام ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ثقۃ ولکن تغیر قبل موتہ باربع سنین
وفات:سعید بن ابی سعید نے 120ھجری میں وفات پائی
4نام و نسب : خویلد بن عمر بن صنجر بن عبد العزی بن معاویہ ۔فتح مکہ کے وقت اسلام میں داخل ہوئے صحابی جلیل قراء صحابہ کرام میں شمار ہو تا ہے ۔
کنیت :ابو شریح الخزاعی العدوی الکعبی
مرویات : ابو شریح ؄کی تقریبا 20مرویات ہیں ۔
وفات: ابو شریح؄68ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔
تشریح :
عمرو بن سعید بن عاص جوکہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہم کی جانب سے مدینہ منورہ کا گورنر تھا اور وہ مکہ مکرمہ میں سیدناعبدا للہ بن زبیر ؄کے مقابلےکے لیے لشکر کی تیاری میں مصروف تھا ۔ابو شریح خویلد بن عمر و الخزاعی ان کے پاس تشریف لائے اور اسے نصیحت کر نے لے لیے حکیمانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
جناب امیر میں نے نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک فرمان پورے غور سے سنا جو میںنے دل میں بٹھالیا آپ نے حمد و ثنا ء کے بعد یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مکہ معظمہ کو ا س دن سے حرم قرار دیا ہے جب سےاس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا اسے لوگوں نے حرم قرار نہیں دیا لہذا جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہے اس لے کیے مکہ معظمہ میں کسی کا خون بہا نا یا کسی درخت کو کاٹنا جائز نہیں کوئی اگر یہ کہتا ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی میں جنگ لڑی تھی تو اسے بتادیا جائے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دن کے کچھ حصے کے لیے اجازت دی تھی اور پھر دوبارہ اس کی حرمت پہلے کی طرح لوٹ آئی آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا تھا جو لو گ یہاں موجو د ہیں وہ میر اپیغام ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں مو جود نہیں چونکہ میں اس دن وہاں موجود تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ کا پیغام آپ کو سنا رہا ہوں کیونکہ آپ وہاں موجود نہ تھے لوگوں نے ابو شریح سے پوچھا کہ مدینہ کے گورنر عمرو بن سعید بن عاص نے کیاجواب دیا تھا فرمایا کہ اس نے میری نصیحت بھری گفتگو سن کر یہ کہا :اے بو شریح میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں سنیے حرم کسی گنہگار بھگوڑے قاتل یا بھگوڑے چور کو پناہ نہیں دیتا ۔
عمرو بن سعید کا یہ جواب اس موقع پر درست نہیں تھا کیونکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ان حضرات سے کہیں زیادہ افضل تھے جن کے مقابلے کے لیے مدینے سے لشکر روانہ کیا جارہا تھا ۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے