پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے مخصوص جگہوں کو بلند مقام عطا فرمایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ کو اللہ تعالی نے مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک راتوں رات سیر کروائی، یا اللہ! اُن پر، اُن کی آل اور تمام متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ [الأنفال: 29]

’’ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو اللہ تمہیں [حق و باطل کے مابین] تفریق کی قوت عطا کرے گا، تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے ۔‘‘

حمد و صلاۃ کے بعد:

ہر مسلمان کے دل میں ایک بہت ہی اہم مسئلہ جا گزین ہے اور وہ ہے مسجد اقصی کا مسئلہ ؛ بیت المقدس قبلہ اول ، حرمین شریفین کے بعد تیسری اعلی ترین مسجد اور سید ثقلین ﷺ کی جائے اسرا ہے ۔
یہ عصر حاضر کا ایسا اہم ترین مسئلہ ہے کہ مسلم معاشرے کے ہر فرد کے ذہن میں ہر وقت اجاگر رہتا ہے؛ چاہے وہ مسلم معاشرہ بذات خود کسی بھی بحران کا شکار ہو یا ان کے اپنے حالات جس قدر بھی خراب ہوں مسئلہ فلسطین کبھی بھی ذہنوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔
بیت المقدس اور اس کے احاطے میں مسجد اقصی کا وجود مسلمانوں کے ہاں عقیدے سے متعلقہ مسئلہ ہے، اس کا مسلمانوں کی تاریخ سے نا قابل فراموش اور گہرا تعلق ہے، بیت المقدس اور مسجد اقصی کے اس تاریخی تعلق کو کسی بھی صورت اسلامی تاریخ سے نکالنا ممکن نہیں؛ کیونکہ یہ امت کی پہچان ہے، یہ امت اسلامیہ کی اساسی علامت اور امت اسلامیہ کے ہاں مقدس مقام ہے۔
بیت المقدس کو یہ مقام حاصل کیوں نہ ہو! اللہ کی کتاب صبح شام ہمیں یاد کرواتی ہیں کہ:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِير

پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروا دی، جس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت فرمائی، تا کہ ہم اپنے بندے کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الإسراء: 1]
مسجد اقصی ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کی جانب قرب الہی کی جستجو میں رخت سفر باندھا جا سکتا ہے، ان تینوں جگہوں کی جانب اللہ کا فضل طلب کرنے کے لیے سفر کر سکتے ہیں، جیساکہ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث ثابت ہیں۔
سر زمین بیت المقدس محشر [جمع ہونے] اور منشر [دوبارہ زندہ ہونے]کی جگہ ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی لونڈسیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں بتلائیں” تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ جمع ہونے اور زندہ ہونے کی جگہ ہے‘‘۔( اس روایت کو ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
بیت المقدس کا اسلام میں بلند مقام ہے، بیت المقدس کی اعلی ترین امتیازی صفات بھی ہیں؛ چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آپس میں بات کر رہے تھے کہ کون سی مسجد افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ کی مسجد یا مسجد بیت المقدس؟” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس کی چار نمازوں سے افضل ہے، بیت المقدس نماز کے لیے بہترین جگہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ گھوڑے کی رسی کے برابر بیت المقدس سے اتنی قریب جگہ جہاں سے بیت المقدس نظر آئے وہ بندے کے لیے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو۔‘‘( اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے، نیز امام ذہبی نے امام حاکم کی موافقت بھی کی ہے)
اس حدیث پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے ہاں مسجد اقصی اور بیت المقدس کی شان کتنی عظیم تھی کہ انہوں نے مسجد اقصی کا موازنہ مسجد نبوی سے کیا۔
بیت المقدس کی اسلام میں اتنی فضیلت کیوں نہ ہو! یہ تو رسول اللہ ﷺ کی جائے اسرا ہے، یہاں سے ہی آپ کو آسمانوں کی جانب لے جایا گیا؛ چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس براق کو لایا گیا، وہ سفید رنگ کا گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا جانور ہے، وہ اپنا قدم حد نگاہ پر رکھتا ہے، تو میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچ گیا ۔آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے براق کو کڑے سے باندھ دیا جہاں انبیائے کرام [اپنی سواریاں]باندھتے ہیں۔آپ نے یہ بھی بتلایا کہ: پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور وہاں پر دو رکعات ادا کیں، پھر اس کے بعد سیدناجبریل علیہ السلام میرے پاس شراب کا برتن اور ایک دودھ کا برتن لائے ؛ تو میں نے دودھ کا انتخاب کیا، تو جبریل نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے، اس کے بعد جبریل ہمیں آسمان کی جانب لے گئے۔ (مسلم)
بیت المقدس کے عظیم فضائل میںسیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس وقت سیدناسلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں مانگیں: 1قوت فیصلہ جو اللہ تعالی کے فیصلوں کے عین مطابق ہو۔ 2ایسی بادشاہی جو ان کے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ 3اور اس مسجد میں نماز کی نیت سے آنے والا کوئی بھی ہو وہ جب یہاں سے واپس نکلے تو اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو جیسے اس کی ماں نے اسے آج جنم دیا ہےتو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پہلی دو دعائیں تو ان کی قبول ہو گئیں تھیں اور مجھے امید ہے کہ تیسری بھی قبول ہو گئی ہو گی۔(نسائی، ابن ماجہ نے اسے روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے)
اسلامی بھائیو!بیت المقدس اور مسجد اقصی کی اسلام میں بہت فضیلت اور امتیازی خوبیاں ہیں، انہی خوبیوں نے بہت سے مسلم علمائے کرام کو مجبور کیا کہ صدیوں سے بیت المقدس کی فضیلت ،شان اور حقوق کے متعلق مستقل تالیفات لکھتے چلے آئیں، چنانچہ اہل علم کی بہت بڑی تعداد نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی مسلمانوں کے ہاں اہمیت اور فضیلت اجاگر کرنے کے لیے کتابیں لکھیں ان علمائے کرام میں سے چند یہ ہیں:
بہاؤ الدین ابن عساکر ان کی کتاب: “الجامع المستقصى في فضائل المسجد الأقصى” ہے۔
امین الدین ابن ہبۃ اللہ شافعی ان کی کتاب: “كتاب الأنس في فضائل القدس” ہے۔
برہان الدین فزاری ان کی کتاب: “باعث النفوس إلى زيارة القدس المحروس” ہے۔
شہاب الدین احمد بن محمد مقدسی ان کی کتاب: “مثير الغرام إلى زيارة القدس والشام” ہے۔
حسین حسینی، ان کی کتاب: “الروض المغرس في فضائل البيت المقدس” ہے۔
ابن جوزی ان کی کتاب “فضائل القدس”ہے۔
اور علامہ سیوطی کی کتاب: ” اتحاف الأخصاء بفضل المسجد الأقصى”ہے۔ اللہ تعالی تمام مسلم علمائے کرام پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
اسی لیے تمام کے تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک اور خطے سے ہو ، وہ کسی بھی جگہ کے رہائشی ہوں، سب مسلمان کسی بھی ایسے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے جو مسئلہ قدس اور مسجد اقصی پر منفی اثرات مرتب کرے؛ کیونکہ یہ اسلامی مقدسات ہیں کسی صورت میں ان کی بے حرمتی کی گنجائش نہیں۔ بلکہ بیت المقدس کے متعلق منفی اقدامات مسلمانوں کو اپنے مسلّمہ حقوق مزید پر زور طریقے سے مانگنے پر ابھارتے ہیں، ان کے مطالبے اپنے حقوق لینے، ظالم کو روکنے اور مظلوم کی مدد کے مقررہ اصولوں کے عین مطابق ہیں، ان کے یہ مطالبے سابقہ تمام آسمانی شریعتوں اور عالمی دستور میں بھی موجود ہے۔
آج پوری دنیا اس قسم کے کسی بھی اقدام کو ان تمام عالمی قرار دادوں کی خلاف ورزی شمار کرتی ہے جس میں واضح ہے کہ بیت المقدس اسلامی دار الحکومت ہے نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔
مسلم اقوام! امت مسلمہ کے مسائل دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مسلمانو! مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لیے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی، اس لیے مسلمانو! اللہ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اللہ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بھر پور کوشش اور محنت بھی ہو۔
امت مسلمہ کی مدد اور فتح دل و جان کے ساتھ دینِ الہی کی مدد سے ہو گی، دین الہی کو تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں اور اسے عملی شکل دیں۔ چنانچہ جس دن بھی امت دین الہی پر عمل پیرا ہو جائے گی، اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابند بن جائے گی، پوری امت اپنے تمام تر عملی اقدامات حقیقی دین سے حاصل کرے گی کہ جس دین کی بنیاد پر مسجد اقصی کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے تو تب امت مؤثر علاج اور مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

اگر تم اللہ [کے دین]کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔ [محمد: 7]
کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہ تمام تر صحابہ کرام نے مسجد اقصی کو تب آزاد کروایا تھا جب انہوں نے غلبہ اسلام کیلئے دل و جان سے عملی اقدامات کئے تھے۔
اسلامی بھائیو!جس دن دلوں پر قرآن و سنت کا راج ہو گا، زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر اس کی گواہی دیں گے تو مسلمان کبھی بھی کمزور اور ذلیل نہیں ہوں گے، انہیں کسی قسم کی پستی اور تنزلی کا سامنا نہیں ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے سچا وعدہ بتلا دیا ہے کہ:

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ [آل عمران: 139]

اور نہ ہی کمزوری دکھاؤ اور غم بھی نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب ہو۔
مسلمانوں پر اب وقت آگیا ہے اور فلسطینی مسلمانوں پر خصوصاً ؛ کیونکہ انہیں خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے ،ان چیلنجز نے پوری امت کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے کہ وہ نیکی اور تقوی کی بنیاد پر باہمی بھائی چارہ قائم کریں، دینی اور دیگر مفادات کے پیش نظر باہمی اختلافات ختم کریں، آپس کے جھگڑوں کا باعث بننے والے اسباب کو جڑ سے نکال پھینکیں۔ باہمی عداوت سے نکل کر اخوت کی جانب ، دلی کدورت سے صاف دلی کی جانب، منہ موڑنے کی بجائے دل جوڑنے کی جانب آئیں، ایک دوسرے کی کوتاہیوں سے صرف نظر کریں اور باہمی اتحاد و اتفاق کی راہ ہموار کریں۔ گروہ بندی اور تعصب اتار پھینکیں اور سلف صالحین والی اسلامی اخوت ایمانی محبت کی روح اپنائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

’’اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، باہمی تنازعات میں مت پڑو ، ورنہ ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا تک اکھڑ جائے گی، اس [کی اطاعت] پر ڈٹ جاؤ، بیشک اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
[سورۃ الأنفال: 46]
مسلمان جس وقت بھی اپنی حالت کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل طور پر ڈھال لیں گے کہ کسی بھی اعتبار سے کمی باقی نہ رہے، اسلامی تعلیمات کو ہی مکمل طور پر بالا دستی دیں ، ظاہر و باطن ہر طرح سے شریعت پر ہی عمل پیرا ہوں، اسلامی تعلیمات کے سائے تلے اسلام کے لیے زندگی گزاریں جیسا کہ سلف صالحین نے اپنی زندگیاں گزاریں، تو ان کی کوئی بھی کوشش اور کاوش ناکام نہیں ہو گی چاہے حالات کتنے ہی بگڑ جائیں، ان کے راستے میں کبھی اندھیرا نہیں ہو گا چاہے کتنی ہی رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں، شرط یہ ہے کہ جب تک وہ اسلام پر قائم رہیں، اسلامی احکامات کی پابندی کریں، نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہوں اور انہی کو مضبوطی سے تھام کر رکھیں، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ اللهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [الحج: 38]

’’بیشک اللہ تعالی ایمان لانے والوں کا دفاع فرماتا ہے۔ ‘‘
بصورت دیگر جب امت میں شہوت پرستی ، گمراہ کن لہو و لعب، ہوس پرستی، اور شبہات کا راج رہے تو امت پر جارحیت، مصیبتیں اور ہر قسم کی بلائیں اور بحران آتے رہیں گے؛ کیا اللہ تعالی نے ہمیں صاف لفظوں میں نہیں فرمایا:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ [الشورى: 30]

’’اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے کیے دھرے کی وجہ سے ہےاور اللہ بہت سی چیزوں سے درگزر فرما لیتا ہے۔‘‘
اسی طرح کیااللہ تعالی نے عزوۂ احد کے متعلق نہیں فرمایا

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [آل عمران: 165]

’’بھلا جب (احد کے دن) تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ یہ کہاں سے آ گئی ؟ حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم کافروں کو پہنچا چکے ہو؟ آپ ان مسلمانوں سے کہہ دیں کہ: یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
قارئین کرام !یہ بات لازمی ہے کہ امت کو یقین کے تمام درجات کے ساتھ یہ یقین ہو جانا چاہیے کہ اس وقت جان لیوا بحرانوں اور گری ہوئی حالت سے نجات حقیقی اسلام کے ذریعے ہی ملے گی کہ جس کی بنیاد عقیدہ توحید پر قائم ہو ، جس میں صحیح منہج کی اتباع ہو ، کتاب و سنت کو سلف صالحین کے مطابق سمجھا جائے؛ تو یہی وہ بنیادی اساس ہے جس میں شان و شوکت ، غلبہ اور نصرت کا راز پنہاں ہے، اس کے لیے آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ جس وقت انہوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو تمہیں تعجب خیز معلومات ملیں گی، ہمارے پروردگار کا فرمان ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ [الأنعام: 82]

’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم [شرک] سے آلودہ نہیں کیا؛ تو انہی لوگوں کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ‘‘
ہمارے پروردگار کا یہ سچا وعدہ ہے اور اللہ تعالی کی بتلائی ہوئی خبریں بھی سچی ہیں:

وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ [الروم: 47]

’’اور مومنوں کی مدد ہم پر حق ہے۔ ‘‘
ایسے ہی فرمایا:

وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ [المنافقون: 8]

’’عزت تو اللہ ، اللہ کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے؛ لیکن منافق اس بات سے نا آشنا ہیں۔‘‘
اسی طرح فرمایا: قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ [المؤمنون: 1]
’’یقینی بات ہے کہ مومن کامیاب ہو گئے۔‘‘
مسلم اقوام! تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز ہیں کہ مسجد اقصی ، بیت المقدس، اور فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ [التوبۃ: 105]

’’تم اقدامات کرو؛ تمہاری پیش قدمی کو اللہ، اللہ کا رسول اور مومنین عنقریب ملاحظہ کر لیں گے۔‘‘
کسی بھی اقدام کے لیے گہری بصیرت اور کامل حکمت کا ہونا از حد ضروری ہے کہ انہی دونوں کی بدولت امت اسلامیہ متنوع چیلنجز کا مقابلہ ہر صورت میں کر سکتی ہے۔ اس کے لیے آپس میں تعاون، مدد اور شانہ بشانہ چلیں نہ کہ گالم گلوچ، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کھول لیں۔ اس طریقے پر عمل کریں تو ظالم کو ظلم سے روکا جا سکتا ہے اور امت اسلامیہ کو فتح اور کامیابی حاصل ہو گی۔
نیز امت کو در پیش مسائل کے لیے گہری نظر و فکر کی ضرورت ہے کہ جن کی بدولت جذباتی بھنور کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات سامنے آئیں، متوازن اور بہتر طریقہ کار اپنا کر مخلص کاوشوں کو یکجا کریں، اپنائے گئے ٹھوس موقفوں کو مضبوط طریقے سے مربوط بنائیں، دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سید الانبیاء والمرسلین کی شریعت کے سائے تلے اقدامات کریں جو کہ پوری دنیا کو امن و سلامتی، خوشحالی اور امان کی جانب گامزن کر سکتی ہے۔
یہ بھی ضروری امر ہے کہ امت کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی تمام تر کاوشیں ناقابل تردید دلائل اور ناطقہ بند کر دینے والے اسلوب میں ہونی چاہییں، لڑائی جھگڑے والا انداز نہ ہو، کسی خاص قوم، یا خاص تنظیم اور گروہ، یا علاقائی ایجنڈوں کا ان میں کوئی عمل دخل نہ ہو؛ کیونکہ ایسے تمام اقدامات سے امت کو ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے

فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ [المؤمنون: 53]

’’پھر وہ اپنے معاملے میں کئی گروہ ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالی کے اس فرمان کی تعمیل بھی ضروری ہے:

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ [الأنبياء: 92]

یقیناً یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن و سنت کو بابرکت بنائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اپنے سمیت تمام مسلمانوں کے لیے گناہوں کی بخشش اللہ تعالی سے مانگتا ہوں، آپ بھی اسی سے بخشش مانگیں، وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

میں اللہ تعالی کی پاکیزہ اور بابرکت الفاظ میں ڈھیروں حمد بیان کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ یا اللہ! ان پر ان کی آل، ان کے صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

عدل و انصاف کرنے والے مسلمانو! مملکت حرمین کے حکمران اور عوام سب کا ہر اسلامی اور عربی مسئلے کے حوالے سے ایک اعلی کردار اور واضح موقف رہا ہے، زمینی حقائق اس بات کے اولین گواہ ہیں ، ان مسائل میں فلسطین کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اس ملک اور یہاں کی قیادت کا مسئلہ فلسطین کے بارے میں ٹھوس ،واضح اور غیر متزلزل موقف ہے، اس میں کسی بھی قسم کی لچک نہیں آسکتی، مملکت حرمین کے ہاں مسئلہ فلسطین کو تمام تر صورتوں میں ترجیح حاصل ہے؛ خصوصاً متوقع اقتصادی اور سیاسی حوالے سے ۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان حفظہ اللہ کے عہد میں انصاف پسند پوری دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے اس مسئلے کی حمایت کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے خصوصی اہمیت دی کہ یہ عرب کا معاملہ ہونے سے پہلے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے، در حقیقت یہ موقف اس ملک کی ذمہ داری بھی ہے اور اس مسئلے میں اللہ کے سامنے جواب دہ بھی ہے، نیز یہ موقف اسلامی پیغام اور عالمی اہمیت کی وجہ سے اس ملک کا اعزاز ہے۔
اس لیے کسی بھی متکبر کے لیے اس ملک کی کاوشوں پر نکتہ چینی کی گنجائش نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارے اپنے کسی ہٹ دھرم، خبطی اور شکوک و شبہات میں پڑے شخص کے لیے کوئی گنجائش باقی ہے کہ وہ ملکی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات پر قدغن لگائے۔ ان کی ذمہ داری تو یہ بنتی ہے کہ اللہ سے ڈریں اور یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ مملکت حرمین شریفین یا دیگر کسی بھی ملک کے خلاف اٹھنے والی مخبوط الحواس تحریکیں در اصل اسلام کے مرکز اور اسلام کے حقیقی محافظین کے خلاف ہیں، یہ بات بھی سمجھ لیں کہ ان تحریکوں کے ذریعے در حقیقت وہ اپنے آپ کو ہی دھوکا دے رہے ہیں اور امت کی جڑیں کاٹ رہیں ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ [البقرة: 9]

’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں ؛ حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو ہی دھوکا دے رہیں اور انہیں اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔‘‘
یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اس ملک کے منہج کا محور اسلام ہے جو کسی کی تعریف یا مذمت سے متزلزل نہیں ہوتا، یا کسی حاسد اور موقع تلاش کرنے والوں سے متاثر نہیں ہوتا، اور اللہ تعالی ہر ایک کے ارادوں سے باخبر ہے اور وہی راہِ راست کی جانب رہنمائی کرنے والا ہے۔
اللہ تعالی نے ہمیں نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، یا اللہ! ہمارے نبی اور حبیب محمد ﷺ پر رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے