حقوقِ انسانیت کی دفعہ اوّل تکریمِ رسالت ہے۔ ایمانِ بالرسل اور ایمان بَر رسالتِ مٰابﷺ تقاضا ایمان ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف آیت 157، النساء 59، 64، 65، العمران 31، 32 اور سورۃ الاحزاب اور الفتح کا بغور مطالعہ کیجیے۔ جن کا مختصراً اجمالی خاکہ پیشِ خدمت ہے۔
اطاعتِ رسولﷺ۔
اتباعِ رسول ﷺیعنی ہو بہو رسولﷺ کی پیروی کا عزم ۔
اتباعِ رسول ﷺمیں باقی سب اطاعتوں کی نفی کرنا۔
آپﷺ کو ہی حاکم اور جج تسلیم کرنا۔
آپﷺ کی مخالفت نہ کرنا۔
آپﷺ کے فرامین کو ہی کافی سمجھنا۔
آپﷺ سے خیر خواہی کا جذبہ رکھنا۔
محبت رسولﷺ۔
حُبِّ رسولﷺ کے تقاضے، کہ (کائنات میں اور کسی سے ایسی محبت نہ ہو)
ادبِ رسول ﷺکہ (کائنات بھر میں اور کسی کا ایسا ادب نہ کیا جائے)
نصرتِ رسول ﷺکہ (بوقتِ ضرورت نبیؐ اور دینِ محمدؐ کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہو)
صلوٰۃ علی الرسولﷺ(آپﷺ پہ درودوسلام کی کثرت کرنا اور تسلسل کے ساتھ درود پڑھتے رہنا)
تکریمِ رسول کریم ﷺ و آلِ رسول ﷺاور تکریمِ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن

اور تکریمِ بناتِ رسول ﷺ۔

تکریمِ صحابہؓ(آپﷺ کے تمام صحابہ کرامؓ سے دلی احترام کا جذبہ اور ناموس صحابہؓ کے دفاع کا عزم)
دفاعِ حرمت قرآن مجید

دفاعِ حدیث اور سنت رسولﷺ
دفاعِ حرمتِ حرمین شریفین اور شعائرِ اسلام وغیرہتحفظ وارثانِ نبوت(یعنی آئمہ مساجد اور علماء اسلام کے حقوق کا تحفظ) آزاد اسلامی عدلیہ کا قیام۔
عزمِ جہاد فی سبیل اللہ۔
یہ بنیادی حقوق ہیں، جن کی ادائیگی ایک مسلم کے لیے لازم ہے اور ان حقوق کے تحفظ اور دفاع کے لیے ایک آزاد اسلامی عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے۔
حقوقِ رسالت پہ جان بھی قربان ہے
یہی میرا دین ہے یہی میرا ایمان ہے
مسئلہ حقوقِ رسالت ﷺ: 
حقوقِ رسالتؐ کا تقاضا ہے ان دنوں
اُنؐ پہ اپنا مال و جان لٹائے جا
عصرِ حاضر میں
حقوقِ انسانی کے نام سے بہت سی ہیومن رائٹس تنظیمیں،
ویلفیئر ادارے اور تحریکیں،سرکاری و غیر سرکاری بے شمار
(NGO’s) سرگرم عمل ہیں۔ جو کہ حقوقِ انسانیت کے نہایت پر کشش نعروں کے ساتھ خدمتِ انسانیت کے لیے ہر لمحہ بیقرار دکھائی دیتی ہیں۔
اس مناسبت سے اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی ہر سال 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس روز شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔ انسانی اقدار و اخلاق اور حقوق پر بڑی دُھواں دھار تقریریں اور بیانات جاری کئے جاتے ہیں۔
اور نام نہاد اقوام متحدہ کے وضع کردہ انسانی حقوق کے چارٹر کا خوب پرچار کیاجاتا ہے۔
اقوامِ عالم نے جو انسانی حقوق کے چارٹرز شائع کئے ہیں وہ دراصل محسنِ انسانیتﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع ہی سے ماخوذ ہیں۔
وہ رسولِ رحمتِ عالمﷺ، جس نے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا اور انسانیت کو شرفِ فضیلت بخشا۔
اُنﷺ کی تعلیمات تو انسانوں کے علاوہ حیوانوں، جانوروں، پرندوں، بلکہ حشرات الارض کے حقوق کے تحفظ کی یکساں آئینہ دار ہیں۔ جس کا اعتراف تو متعصب غیر مسلم مفکرین اور مستشرقین بھی کرتے ہیں۔
وہ جو انسانیت کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ تھا
وہ جو انسانیت کا محسنِ حقیقی تھا
وہ جسے رحمۃللعالمینﷺ نے انسانی فلاح کے لیے بہترین نمونہ اور اُسوئہ حسنہ قرار دیا ہے۔
اور جس کی زندگی کے شب و روز اظہر من الشمس ہیں۔ وہ جو انسانی فلاح و ہدایت کے لیے ہر لمحہ بے چین رہا،اور پتھر کھا کر اپنا جسم لہو لہان کروا کر بھی انسانیت کی خیر خواہی کا دم بھرتا رہا۔سبحان اللہ
آپ ﷺ کے حقوق کوتو ہم نے یونہی فراموش کر رکھا ہے۔ آپﷺ کے حقوق کی بجا آوری اور ادب و احترام نوعِ انسانی پر ایسا لازم ہے، جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جس کی نبوت و رسالت پہ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے اُس کی مرضی، ایمان لائے گا، تو دنیا و آخرت کی کامیابی اس کا مقدر ہو گا۔ اگر دنیا میں کما حقہٗ کامیابی حاصل نہ ہو سکی ،تو آخرت کی کامیابی و کامرانی تو انشاء اللہ یقینی ہے۔
مگر ایک بات یاد رکھیئے ، کہ رسولِ رحمت ِ عالمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی و بے ادبی کا کسی کو بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ وہ نام نہاد کلمہ گوہی کیوں نہ ہو؟
یہاں بھی ایک بات یاد رکھئے گا!
کہ کوئی گیا گزرا اور بد عمل مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی مسلمان اس جرم میں ملوث ہو تو اسے مسلمانوں کی جماعت سے خارج سمجھیئے گا۔ کیونکہ وہ منافق ہی ہو سکتا ہے۔ مسلم ایسی جسارت کبھی نہیں کر سکتا۔
وہ قادیانی مرتدیاکوئی منکر ختم نبوت ہی ہو سکتا ہے
بقول شاعر:
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اس ذاتِ برحق کو رسولِ برحقﷺ سمجھنے والے ہر صاحبِ ایمان پر سب سے بڑا حق یہ ہےکہ معاشرے میں اپنی عملی زندگی کا نمونہ پیش کرتے ہوئے آپﷺ کے طریق زندگی (اُسوئہ حسنہ) کو تمام طریق ہائے زندگی پر غالب کرنے کی جدوجہد کرتا رہے۔
اور حتی الامکان حقوقِ رسالتﷺ کا دفاع اس کی زندگی کا مشن اور منہج ہو۔
وہ دین جس کے لیے ہمارے پیارے رسول علیہ السلام نے بڑی قربانیاں دیں۔ جو پوری زندگی ہمارے لیے بے چین رہے۔ ہم نے بحیثیت مسلم اس کے لیے کیا کردار ادا کیا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ آج ہم دین کے نام لیوا تو ضرور ہیں،مگر اپنے مفاد کے لیے دین کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)
کیا ہم نے شعوری طو رپر کبھی حقوقِ رسالتﷺ کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے؟
کہ اس محسنِ انسانیت اور رئوف و رحیم کے بھی ہم پر کوئی حقوق ہیں؟ جن کا تحفظ اور ادائیگی تقاضائے ایمان ہے!
جبکہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
یَآٰ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُوْلِہٖ (النساء136)
’’ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائو۔‘‘
یہاں ایمان والوں کو مزید ایمان کی تائید کرنا نہایت غور طلب ہے۔
رسول اللہﷺ پر شعوری و قلبی ایمان،رسالتﷺ کا بنیادی حق ہے،کہ اس ہستی اقدس و مقدس پر خلوصِ دل سے ایمان لائو، یہ رب العالمین کا بھی اہل ایمان سے بنیادی تقاضا ہے۔
آج لوگوں کی غالب اکثریت صرف کلمہ گو ہے۔ ان کا شمار کلمہ گو برادری میں تو شامل ہے مگر اہلِ ایمان میں نہیں؟ کیونکہ ایک کلمہ گو مسلمان اور حقیقی مسلمان میںبہت فرق ہے۔ کلمہ گو تو سب ہیں، جبکہ حقیقی مومن تلاش کرناپڑے گا۔
دورِ رسالتﷺ میں بعض لوگوں کو دعویٰ ایمان باِلرسالتﷺ کے باوجود انہیں اعلانیہ طورپر منافق اور جھوٹا کہا گیا ہے۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے تفسیر سورئہ المنافقون:1)
ان منافقین کے برعکس جو صدقِ دل سے ایمان لائے اور رسالت محمدیہﷺ کی تصدیق کی۔ انہیں اسی دنیا میں اللہ رب العزت نے اپنی رضا ء و خوشنودی کی دائمی سند عطا کرتے ہوئے جنت کی ڈگری عطا کر دی۔
اور انہیں ’’رضی اللہ عنہم ورضواعنہ‘‘ کے ابدی خطاب سے نوازا۔ (سبحان اللہ)
تین گروں کو اللہ عزوجل نے یقیناً جنت کی خوشخبری سے نوازا ہے اور ان کے ایمان کی باقاعدہ تصدیق کی ہے۔
اولاً:سابقینِ اوّلین(وہ مہاجرینِ مکہ جنھوں نے ایمان میں سبقت حاصل کی)
ثانیا:انصارِ مدینہ (مہاجرین کا استقبال کرنے والے)
ثالثًا:وہ خوش نصیب جو (مہاجر ینؓ و انصارؓ) کے منہج پہ چلنے والے اور ان کی پیروی کرنے والے اہلِ ایمان (جن میں بفضل اللہ ہم بھی شامل ہیں۔)جنتی قرار دیا۔
(تفصیلات کے لیے دیکھئے تفسیر سورۃ التوبہ :100)
صحابہؓ کو یہ مقام کیونکر حاصل ہوا۔ ان کے خالص ایمان اور جذبۂ ایثار کی بدولت، کہ انہوں نے دامے، درمے، قدمے، سخنے، ہر سطح پر اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کی آواز پر لبیک کہا۔ اور کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کیا۔
اورجو صدقِ دل سے ایمان نہ لائے، اُن کے نفاق کی بدولت انہیں اسی دنیا میں منافق اور جہنمی قرار دیا۔اَللّٰھُمّ اَجِرنَا مِنَ النّار (آمین)
حقوقِ رسالت ﷺ کا تحفظ کیسے؟
حقوقِ رسالت اور ناموس و حرمتِ رسولﷺ کا تحفظ فقط نظریہ جہاد ہی کے ذریعہ ممکن ہے،کیونکہ توہین رسالت کے مرتکبین اور منکرین خاتم النبیین(مرتدین) کو نظریہ جہاد سے ہی اپنے انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے۔یہی منہج نبویﷺ ہے۔
کونسا منہج؟ جو رحمۃللعالمین خاتم النبیین امام المجاہدین اور سلطانِ مدینہ سیّدنا و مولانامحمدﷺکی قیادت و سیادت میں مرحلہ وار مکہ کی گلیوں میں، شعب بن ہاشم کی تنہائیوں اور تاریکیوں میں پروان چڑھتا رہا۔
کون سانظریہ؟ جو مکے کے گرم گرم نوکیلے، پتھروں، ریگ زاروں اور انگاروںمیں سلگتا رہا۔
کونسا منہج؟ جو دارِ ارقمؓ اور صحنِ حرم میں بتدریجاً نشوونما پاتا رہا۔
کونسا منہج؟ جو ہجرت کی کٹھن راتوں جبلِ ثور کے سنگ ریزوں اور غارِ ثورمیں پنپتا رہا۔
کونسامنہج؟ جو بدر و احد اور یمامہ میں خون میں لت پت رہا۔
کونسا منہج؟ جو خالدؓو ابو عبیدہؓ، زیدؓ و اسامہؓ بن زیدؓ، عکرمہؓ ، مثنیٰؓ اور سعد بن وقاصؓ کی قیادت میں اپنی جوانیاں لٹاتا رہا۔
کونسا منہج؟ جو غزوئہ حدیبیہ کے موقع پر انگڑائیاں لیتا رہا اور بالآخر فتح مکہ کی صورت میں رضوانِ الٰہی کا باعث بنا۔
کونسا منہج؟ جس نے قیصر و کسریٰ کے جاہ وجلال کو خاک میں ملا دیا۔
کونسا منہج؟ جو ابو بصیرؓوابو جندلؓ کی صورت میں دشمنانِ اسلام کے لیے دردِ سر بنا رہا۔
کونسامنہج؟ جو تیرھویں صدی ہجری میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شکل میں سکھوں اور انگریزوں سے برسرِ پیکارہا۔ اور کبھی حیدر علیؒ و سلطان ٹیپو شہیدؒ کی آواز میں انگریزوں کو للکارتا رہا۔
اور1857ء کی جنگ آزادی کے ردِّ عمل میں عبور دریائے شور(کالے پانیوں) اور تختہ دار پر جھولتا رہا۔
بالآخر یہی منہج تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا سبب بنا۔
یہی نظریۂ جہاد تا ابد مظلوم انسانیت سے ہمدردی و خیر خواہی، حقوقِ انسانیت کا داعی، حقوقِ رسالتﷺ کے تحفظ کا ضامن اور امن و سلامتی کا پیامبر رہے گا۔
افسوس! آج ہم اس منہج نبوی ﷺ کے ترک کے سبب ہر سو ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اور ذلت و مسکنت مسلمانوں کا خاصہ بن چکا ہے۔ ہمارے قبلۂ اول پہ صیہونیت کا قبضہ ہے اور ساری دنیا اسرائیلی جارحیت کو دیکھ رہی ہے۔ عالم اسلام پر قبرستان سا سناٹا طاری ہے۔ یہ منہج نبوی ﷺسے انحراف اور سیکولر فکر کا نتیجہ ہے۔اور یہ سیکولریت پسندی روز بروز جڑ پکڑ رہی ہے۔
دشمن کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ جب تک ان میں جہاد کا جذبہ موجود ہے اور مسلمان منہج نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہیں تو انہیں مغلوب نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ انہیں جہاد سے خالی کر دیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے اس نے ایسی ایسی تحریکیں اُٹھائیں کہ بظاہر ان پر اسلام کی چھاپ بھی لگی ہو،اور اندرونی طورپر وہ اسلام دشمن عناصر کی ایجنٹ ہوں۔ یوں یہ اسلام نما تحریکیں بھی مارِ آستیں ثابت ہوئیں۔ جن میں آج کل داعش نامی تنظیم کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ابتدائی کڑی عبداللہ بن سبا سے جا کر ملتی ہے۔ جس نے اسلام کے لبادے میں یہودیت کے باطنی عقائد و افکار کو فروغ دیا اور تار وزِ ایں اسلام کے خلاف ان کی سازشیں جاری ہیں۔ جہاد دشمن تحریکات میں بہائیت و بابیت، صیہونیت اور قادیانیت بھی ہیں۔ بہائیت و قادیانیت کو اسرائیل و امریکہ کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس طرح فری میسن بھی ایک صہیونی تحریک ہے جس کے دنیا بھر میں ممبرز موجود ہیں۔پاکستان میں بھی اعلیٰ پیمانہ پر یہ تحریک اثر انداز ہے۔ ان میں سب سے کم عمر تحریک قادیانیت و مرزائیت کی ہے جو کہ 1857ء کی تحریک آزادی کے ردِّ عمل میں معرض وجود میں لائی گئی۔اس سلسلہ میں فتح مکہ کے بعد ذرا یک نظر فاتحِ مکہ سیّدنا محمد عربیﷺ کی انقلابی اصطلاحات کا بغور جائزہ لیجئے۔
اوّلاً:بیت اللہ کو بتوں سے پاک کر دیا گیا۔
ثانیاً:جہالت کی تمام رسومات کے خاتمے کا اعلان مثلاً لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، سود کا خاتمہ اور بیت اللہ کا برہنہ ہو کر طواف کرنا وغیرہ۔
ثالثاً:جزیرۃ العرب میں تمام مراکزِ شرک کے خاتمے کی منصوبہ بندی اور فوجی کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ۔
رابعاً:ہر قسم کی سیاسی ڈپلومیسی اور مصلحت پسندی سے گریز کرتے ہوئے پیغمبرانہ حکمت ِ عملی (منہج نبویﷺ) کا اعلان۔
جس کی بدولت اہلِ مکہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔
خامساً: ہر قسم کی انتقامی کارروائی کی بجائے عفوِ عام (عام معافی) کا اعلان۔
سادساً : توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے مردو زن کی سزائے موت کے ڈیتھ وارنٹ (Death Warrent) جاری کرنے کا اعلان۔ کہ اگر وہ غلافِ کعبہ سے بھی لپٹے ہوئے پائے جائیں تو ان کے سر قلم کر دئیے جائیں۔
سادساً:خون کے پیاسوں اور جانی دشمنوں کے علاوہ توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والوں میں جو خدمتِ عالیہ میں از خود حاضر ہو کر معافی کے خواستگار ہوئے۔ انہیں معاف کر دیا گیا۔ بدترین دشمنوں کے ساتھ ایسا حسنِ سلوک؟یہی تو آپﷺ کی رحمۃ للعالمینﷺ صفت ہے۔یہی منہج نبویﷺ اور اسوئہ نبوت ہے۔
نوٹ:مجرمینِ توہینِ رسالت اور حقوقِ رسالتﷺ کی نفی کرنے والوں کو صرف رسولِ رحمت عالمﷺ ہی معاف کر سکتے تھے۔
آپﷺ کے بعد ایسے مجرمین کومعاف کرنے کا اب اختیار کسی کے پاس نہیں ہے ۔
لہٰذا توہین رسالت کے مجرمین کو بذریعہ عدالت ہی سزا دلوائی جا سکتی ہے اور کسی بھی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار حاصل نہیں۔بقول شاعر
ہزار نقد بہ بازارِ کائنات آمد
یکے بسکہ صاحبِ عیّار ما نرسد
(کائنات کے بازار میں ہزار نقد لائیں(ان میںسے)۔ ایک سکہ بھی ہمارے خالص سونے کے سکہ کو نہیںپہنچ سکتا۔)
اگرچہ حسن فروشاں بجلوہ آمدہ اند
کس بہ حسن و لطافت بیارِما نہ رسد
(اگرچہ بہت سے حسین جلوہ گر ہوئے ہیں، لیکن ان میں کوئی بھی(ہمارے حقیقی محبوبﷺ) کے حسن و لطافت کو نہیں پہنچ سکا۔)سبحان اللہ
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے