اسلام کے نام پر بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بعض نام نہاد ایسے مسلمان بھی ہیں جو نہ تو اسلام کو ماننے کو تیار ہیں ، نہ نظریۂ پاکستان اور نہ ہی اسلامی حدودوقوانین کو کوئی اہمیت دیتے ہیں یہ نہ تو مذہبی ہیں اور نہ ہی لبرل ، نہ جانے کسی مٹی کا خمیر ہیں؟ دعویداراس اسلامی ملک کی حکمرانی کے ہیں، کہلانے میں مسلمان بھی ہیں مگر سورت اخلاص پڑھنی نہیں آتی حتی کہ اسلام کا اہم ترین رکن نماز تک پڑھنی نہیں آتی بلکہ سنت طریقہ سے نماز میں ہاتھ باندھنے نہیں آتے ۔ یہ منظر گزشتہ دنوں ایک فوت شدہ خاتون کے جنازہ میں دیکھنے کو ملا وہ موصوفہ قادیانیوں کی بہو اور عیسائی نوجوان کی ساس عاصمہ جہانگیر تھی جنہوں نے شانِ رسالت محمدیہ ﷺ کے گستاخوں کے حق میں کیس ترجیحا لڑے۔ 90 کی دہائی کی ابتداء میں بھارت میں ایک لیکچر کے دوران اسلامی حدود وسزاؤں کو وحشیانہ قرار دیا ، والدین کی عزت کوخاک میں ملا کر گھروں سے بھاگ کر کورٹ میرج کرنے والی لڑکیوں کو پناہ دے کر بے حیائی کو فروغ دیتی رہی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف کبھی لب کشائی نہیں کی جبکہ اسلام مخالف سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہیں ان کا شوہر میاں طاہر جہانگیر قادیانی ہے ، عاصمہ کے بارے میں بھی عمومی تأثر یہی تھا کہ وہ خود بھی قادیانی تھی ۔ شاید اس لیے عام طور پر اسلام کا مذاق اڑاتیں اور ہمیشہ تحفظ ناموس رسالت کے قانون اور وفاقی شرعی عدالت کی مخالفت کرتی رہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ لیکن وہ لوگ خوش قسمت کہ جن کا خاتمہ بالخیر ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهِ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:102)

’’اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔‘‘
جہاں تک عاصمہ جہانگیر کے اسلام کا تعلق ہے تو انکا اسلام تو مشکوک ہے اگرچہ یہ خود ایک نام نہاد مسلمان، ملک غلام جیلانی پاکستان مخالف انسان کی بیٹی تھی مگر اس کا شوہر ایک قادیانی ہے جوکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کی ذیلی شق نمبر 3 میں واضح طور پر تحریر ہے کہ قادیانی بشمول لاہوری گروپ غیر مسلم ہیں، عاصمہ جہانگیر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے پارلیمنٹ کے فیصلے کی بھی ہمیشہ مخالفت کرتی رہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کے مطابق عاصمہ جہانگیر کواگر نام نہاد ، دین بیزار لبرل مسلمان مان بھی لیا جائے تو بھی اسلام شعائر کو کھلواڑ بناکر مردوزن کا مخلوط نماز جنازہ پڑھنا کونسا اسلام ہے ؟ جبکہ اسلام تو عام حالا ت میں بھی مخلوط مجالس سے منع کرتا ہے ، مساجد میں خواتین کا نماز کے لیے آنے کی کڑی شرائط عائد کرتا ہے تاکہ بےپردگی اور بے حیائی کا شائبہ تک نہ ہونماز جنازہ فرض کفایہ ہے اگر بعض لوگ ادا کرلیں تو دوسروں سے یہ فرض ساقط ہوجاتا ہے عورتوں پر نمازجنازہ فرض کفایہ بھی نہیں اگر خواتین شریک ہونا چاہیں تو شروط وقیود کو ملحوظ خاطر رکھ کر شرکت کر سکتی ہیں مگر ان کی صفیں مردوں سے بالکل الگ اور پیچھے رکھی ہیں۔صحیح احادیث میں تو عورتوں کا جنازہ کے ساتھ جانا ممنوع ہے
جیسا کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

نُهِيْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا (صحیح بخاری ، حدیث:1278 کتاب الجنائز )

’’ہمیں(یعنی عورتوں) کو جنازے کے ساتھ جانے سے منع کیاگیاہے اگرچہ سختی بھی نہیں کی گئی۔ ‘‘

مگر بے پردہ ہوکر اختلاط کی شکل میں نمازجنازہ پڑھنا تو کسی طرح بھی جائز نہیں بلکہ ایسا کرنا شریعت اسلامیہ اورشعائر اسلام کا مذاق اڑانے کے مترادف اور قرآن وسنت کے واضح احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اپنی زندگی میں ہمیشہ متنازعہ کردار کی حامل رہی وہ بڑی بے باکی سے شعائر اسلام کی توہین کرتی رہیں توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی قانونی معاونت حاصل رہی۔ اغیار کو خوش کرنے کے لیے اس عورت کے مرنے کے بعد بھی جنازےمیں اسلامی شعائر کی تضحیک کی گئی اور اپنے والدین کا ناخلف متنازع شخص حیدرفاروق مودودی نے اپنے سر پر ہندوؤں کی مخصوص علامت والی ٹوپی پہنے نماز جنازہ پڑھائی ۔ نظر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ قدرت کی طرف سے انتقام ہی ہے کہ جس اسلام کے شعائر کو مذاق بنایا آج جب میت کو بخشش کے لیے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہوئی ہے وہ استغفار وطلب مغفرت کا اجتماع خود مذاق کا منظر پیش کر رہا تھا لوگ زبردستی ایسی شخصیت کو جنت میں داخل کروانا چاہ رہے ہیں جس نے ہمیشہ اس خالق جنت کے احکام کا مذاق اڑایا۔فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
پاکستان جہاں عوام کی اکثریت اسلام، نظریۂ ختم نبوت اور نظریۂ پاکستان کے لیے اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے مگر اسلام، ختم نبوت اور قرار داد مقاصد پر کوئی آنچ برداشت نہیں کر سکتے ۔ ایسے ملک میں اس طرح مخلوط اجتماع کرنا اسلامی عقائد کے ساتھ کھیلنا اور کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہے ایسے ہی محرکات اور اسباب سے شدت پسندی اور دہشت گردی کو تحریک ملتی ہے اس لیے ہم ارباب اقتدار ،سیکورٹی اداروں اورچیف جسٹس صاحب سے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ آئندہ ایسے اسلام مخالف اعمال کے ارتکاب سے روکا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا واحدملک ہے جو کہ ایک بہت بڑی نعمت ہے یہ ملک ہے تو ادارے ہیں اس لیے تمام اداروںبشمول حکومت،عدلیہ اور فوج کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام اسلام اور ملک کی حفاظت کےلیے اپنی ذمہ داری کو کما حقہ ادا کریں ورنہ کل قیامت کے دن اپنے وظیفۂ منصبی میں خیانت کے جرم میں گرفتار ہوسکتے ہیں اس رسوائی وذلت سے بچنے کے لیے ابھی وقت ہے۔
مزید یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ حکومت پنجا ب یونیورسٹی کے تحت چلنے والے لاء کالج کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اگر ایسا ہے تو اس کی پر زور مذمت کرنی چاہیے کیونکہ عاصمہ جہانگیر نے اسلام ،ملک وقوم کی خدمت کا کونسا ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے بلکہ اس خاتون نے تو اپنی پوری زندگی اسلامی ثقافت ،تہذیب اور اسلامی اقداروروایات کو تبا ہ کرنے میں بسر کردی ، اورحقوق انسانی کے نام سے اسلام اور ملک دشمنی قوتوں خاص طور پر قادیانیت کو پروان چڑھانے کے لیے انہوں نے جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے اظہر من الشمس ہے ان کی روشن خیالی فکر ارتدار کا سبب بنی وہ خود ببانگ کہا کرتی تھیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ایسی متنازع خاتون کے نام سے کسی مؤقر ادارے کومنسوب کرنا ملک ،اسلام اور طلبا ء و طالبات کےساتھ زیادتی ہوگی حکومت کو ایسا قدم اٹھانے سے باز رہنا چاہیے ورنہ پاکستان کی عوام یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ یہ اسی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستانی قوم خاص طورپر نسل نو کے دل ودماغ کو اسلامی نظریات و افکا ر سے دور ہٹا کر بے دینی اور بے حیائی کو عام کیا جارہا ہے۔
جن لوگوں نےاسلام ،ملک و ملت اور معاشرے کے لیے گراںقدر خدمات انجام دی ہوںتعلیمی اداروں کی نسبت ان کی طرف کرنا ایک اچھی روایت ہے مگر اس عورت کا کوئی ایسا کردار نہیں رہا جس کی وجہ سے اسے یہ اعزاز دیا جائے اگر دینا ہی ہے توان سپوتوں کودو کہ جنہوںنے اپنی جان اسلام ،ملک وقوم کے لیے قربان کی ان شہداءاسلام کو اس اعزاز سے نوازا جائے ۔
مجرم کوسر عام سزا دینا :
اسلامی شریعت اس بات پر بہت زور دیتی ہے کہ مجرم کو سر عام سزا دی جائے تاکہ مجرم کو نشان ِعبرت بناکر دوسروں کو جرائم سے روکنا سزا کا اصل مقصد جو کہ سر عام سزا دئیے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا قرآن کریم میں بھی اس کا واضح طور پر حکم موجود ہے :

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (النور:2)

’’زنا کار عورت اور مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے ۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں غیر شادی شدہ زانی مرد اور عورت کو 100کوڑوں کی سزا بتائی گئی اور اسلام کا فوجداری قانون ثابت کیا گیا ہے نفاذ قانون میں ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو مجرم کوسر عام سزا دینا یہ قانون فطرت ہے ملک وقوم اور معاشرے میں امن امان پیدا کرنے کا واحدحل ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے