حکمت و دانائی

وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (حٰم السجدۃ: 34)

’’اے نبی! نیکی اور بُرائی برابر نہیںہو سکتے آپ بُرائی کا دفاع اچھائی کے ساتھ کریں ۔ دیکھیں جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا دلی دوست بن جائے گا۔‘‘
ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظررکھنا چاہیے کہ اچھائی اوربرائی ،نیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اوراس کا پرچارکرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد بازاور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اورغیر اللہ کی محبت میں غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔

 جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدت کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتاہے اورتوحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بے ادب کہتا ہے۔ موحّد کے لیے بے دین یا اس کے ہم معنٰی لفظ استعمال کرتاہے ۔اس لیے مکے کے کافر صحابہ کو صابی کہتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں داعی کی دانش اورحکمت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اوربڑے حوصلے کی ضرورت ہے، یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میںہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اوربرائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں:

1 الدّاعی کااخلاق اورکردار اچھا ہونا چاہیے۔
2 الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔
3 الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اختیار کرنا چاہیے۔
اس کے باوجود کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ بُرائی کا جواب بُرائی کے ساتھ دینے سے ماحول میںتلخی بڑھتی ہے۔ جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ جس سے داعی کی بجائے دوسرے کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ بُرا آدمی اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص کسی تعصّب اور مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسنِ سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو مخاطب کررہاہے اگر وہ نرم نہیںہوں گے تو ان میںسے کچھ لوگ اس کی دعوت پر ضرور متوجہ ہوںگے جو بالآخر اس کے ہمسفر بن جائیں گے۔
ہر دور میں اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ ستر سال پہلے اکثر مساجد میں جب توحیدوسنت کی بات کی جاتی توبات کرنے
والے کو مسجد سے اٹھا کرباہر پھینک دیا جاتا تھا، لوگوں
میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔برائی کا جواب اچھائی سے دینا ، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں یہ کام وہی مبلّغ اورکارکن کرسکتا ہے جسے مِشن عزیزاوراپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ عام مبلّغ مخالف کی بات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اوراپنے دھڑے کے لیے اُسے ذلّت سمجھتاہےحالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر ِاسلامe اورکسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیںدیا یہاں تک کہ نبی کریمeنے ذاتی معاملہ میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیںفرمایا،
اگرچہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے ۔

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (النحل: 34)

’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ایسے لوگوں سے بہت اچھے طریقے کے ساتھ بحث کر و۔ یقیناً آپ کا رب زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی جانتا ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی ﷺ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا لیکن اس کے باوجود حکم ہوا کہ آپ لوگوں کو حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ دین حنیف کی طرف دعوت دیں۔ اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں ۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے ۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقعہ محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے ۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں ۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی ،خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ کَرَاھَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا (رواہ البخاری: باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ
’’سیدناعبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ ہم اُکتا نہ جائیں ۔ ‘‘
عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً (رواہ مسلم: باب النَّھْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)

’’عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود  فرماتے ہیں کہ تم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو اور وہ لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے ۔ ‘‘

قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہٗ (رواہ البخاری: کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ )

’’سیدنا علی  فرماتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جسے وہ سمجھتے ہوں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے‘‘

قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

’’فر ما دیں یہی میرا راستہ ہے کہ میںپوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتاہوں، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے ، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔‘‘ (یوسف:108)
اے نبیﷺ! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتائیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرّا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس فرمان میں نبی اکرمe کی زبانِ اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میںلوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ ’’اللہ‘‘ کی طرف بلائوں۔
یاد رہے کہ قرآن مجید میں عقیدہ توحید اور اہم باتوں کے اظہار کے لیے پہلے ’’قُلْ‘‘ کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم  نے ہی بیان کی ہے ۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتّباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اورمرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے، ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبّت سے بھی منع کیا ہے۔ (البقرۃ:۲۲۱)
داعی کی چیدہ چیدہ صفات:
۱۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے ۔ (یونس: ۱۵)
۲۔داعی کو سب سے پہلے خود مسلمان یعنی ’’اللہ‘‘ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام: ۱۶۳)
۳۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے ۔ (المدثر:۴)
۴۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے ۔ (المدثر : ۶)
۵۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے ۔ (المدثر :۲)
۶۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل: ۱۲۵ )
۷۔داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے ۔ (حم السجدۃ: ۳۴ )
۸۔ داعی کو حوصلہ مند ہونا چاہیے ۔ ( المدثر: ۷)
۹۔ داعی کو عملی نمونہ بننا چاہیے ۔ (یونس: ۱۶)
حصولِ علم کے لئے دعا
ایک مبلغ کو ہمیشہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ مطالعہ سے علم میں رسوخ، ذہن میں کشادگی اور فہم و استدلال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایسی ضرورت ہے کہ اس سے انبیاء کرام بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ اس لیے قرآن مجید نے سیدناموسیٰ ؈ اور نبی کریمﷺ کے بارے میں فرمایا:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَ يَسِّرْ لِيْ اَمْرِيْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ(طٰہٰ:25تا 28)

’’موسیٰ نے دعا کی کہ اے میرےرب! میرا سینہ کھول دے، میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ ‘‘

فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰی اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا

’’ اللہ ہی حقیقی بادشاہ اور بلند وبالا ہے، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کریں جب تک کہ اس کی وحی مکمل نہ ہوجائے اور دعا کریں کہ اے میرے رب! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔‘‘ (طٰہٰ: 114)
یہاں نبی ﷺ کو ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ساتھ قرآن مجید کو وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں دِقت پیش نہ آئے۔ لہٰذا آپ عجلت سے کام لینے کی بجائے اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرتے رہیں کہ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ یہاں علم سے مراد وحی کا علم ہے، مفسرین نے آپ کا جلدی کرنے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں آپ eاس غرض کے ساتھ جلد ی جلدی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ ضبطِ قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں، بس آپ غور سے سنتے جائیں، قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ (القیامۃ:۱۷)سورہ اعلیٰ میں فرمایا ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے ۔ (اعلیٰ:۶)

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ

’’اے نبی! کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے بھاری بوجھ اُتار دیا۔ (الانشراح:1۔2)
’’سیدنا سہل بن سعد ساعدی  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا: بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ (رواہ الترمذی: باب ماجاء فی التانی)
سیدناعبداللہ بن عباس  بیان کرتے ہیںکہ نبی مکرم e نے قبیلہ عبدالقیس کے رئیس ’’اشج‘‘ سے کہا‘ تجھ میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتاہے۔ ایک بردباری اور دوسرا معاملات کے بارے میں غور و فکر ہے۔
(مسلم: باب الامر بالایمان باللہ و رسولہ)
’’سیدنامعاویہt رسولِ اکرمeسے بیان کرتے ہیںکہ رسول مکرمe نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ ‘‘(رواہ البخاری: کتاب العلم)

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (الزمر:22)

’کیا وہ شخص جس کا سینہ ’’اللہ‘‘ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی روشنی میں چل رہا ہے، اس کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جن کے دل اللہ کی نصیحت کے بارے میں سخت ہو گئے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اسلام کی پہلی دعوت ’’اللہ‘‘کی ذات اور اس کی صفات پر اس طرح ایمان لانا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جو شخص توحید اور دین کو سمجھنےکی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے جس بنا پر اس کے سینے میں ہدایت کا نور پیدا ہوتاہے۔ ایسا شخص بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے رب پر راضی رہتاہے ، اسے غیر معمولی کامیابی اور خوشی نصیب ہوتی تو آپے سے باہر نہیںہوتا۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا دل کفر وشرک اور گناہوں کی وجہ سے سخت ہو، اسے نصیحت کی جائے تو اس سے چڑتاہے اوراللہ کی توحید کےتذکرےسے بدکتا ہے۔اس قسم کے لوگ راہِ راست سے اس قدر بھٹک جاتے ہیں کہ ان کی گمراہی میںرتی بھربھی شک نہیں رہتاکیونکہ ان کے دل اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔

مستقل مزاجی

يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ

’’اے رسول !جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیاگیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیںپہنچایا، اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘(المائدۃ: 67)
الرّسول سے مراد سرور دوعالم eکی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں ،لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں، دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، آپ کو ہرحال میں من وعن لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچانا ہے اگرآپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادانہیں کیا۔
یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ مدینہ کے حالات کے پیش نظر آپ اپنے ساتھ مسلح پہرے دار رکھتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا کھلے الفاظ میں اعلان فرما دیا ہے۔

وَ لَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ

’’اور جنہوں نے ظلم کیاان کی طر ف نہ جھکنا ورنہ تمہیں آگ آلے گی اور اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں ہو گا۔ پھر تمہاری مد د نہ کی جائے گی ۔ ‘‘ (ھود:113)
کفار، مشرکین اور یہود و نصاریٰ اس حد تک آپ کی مخالفت پر اتر آئے تھے کہ آپ کو صادق و امین ماننے کے باوجود آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتےتھے۔ جس کا بحیثیت انسان آپ کو بہت رنج ہوتا تھا۔ اس موقعہ پر آپ کی ڈھارس بندھانے ،آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مستقل مزاجی کا سبق دینے کے لیے درج ذیل ہدایات دی گئی ہیں۔
۱۔جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ا س پر قائم رہیں ۔
۲۔کسی حال میں بھی اللہ کی نازل کردہ وحی سے سرتابی نہ کریں۔
۳۔ ہر دم یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
۴۔ظالموں کی طرف کسی صورت نہیںجھکنا۔
۵۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں۔
استقامت کا معنی ہے اِدھراُدھر جھکنے کی بجائے سیدھا کھڑے رہنا۔ جس کا تقاضا ہے کہ ایک داعی نہ کسی قسم کے دبائو کی پرواہ کرے اور نہ ہی کسی مفاد اورلالچ میں آئے۔ ایسا شخص ہی صحیح معنوںمیں حق کا ترجمان اور اس کا پاسبان ہوسکتاہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ’’وَلَا تَرْکَنُوْا‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی ہے کہ دنیا کا کوئی خوف آپ اور آپ کے متبعین کو باطل کے سامنے جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ اگر تم لوگ جھک گئے تو پھر تمہیں جہنم کی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی تمہارا خیر خواہ اور مدد گار نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے