نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ

اللہ تعالی کوسب سے پسندیدہ عمل کسی مسلمان کو خوشی فراہم کرنا ہے ۔ (المعجم الأوسط:6026)
خوشی فطرت انسانی ہے اور اسکے بے شمار روحانی جسمانی فوائد ہیں وہ لوگ بہت ہی خوش بخت ہیں جو لوگوں کے کام آتے ہیں ۔ آسانیاں پید اکرتے ہیں ،خوشیا ں بانٹتے ہیں خدا ترسی اہل اسلام کا شیوہ ہے اور پہچان ہے ، رحمتوں،برکتوں کے دروازے انہی پہ کھلتے ہیں اور باران رحمت کا وہی مستحق ٹھہرتا ہے جوایمان لانے کے بعد خدا ترسی کا مظاہرہ کرتا ہے اسلامی بھائی چارے کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی کریں اس سے اچھے طریقے سے پیش آئیں اس کی خوشی پہ اسے مبارک باد دیں اور اسکے دکھ درد میں شریک ہوں یہ چیز بندہ کے ایمان کی علامت اور عقیدہ کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى(متفق علیہ)

’’مسلمان آپس میں محبت ،رحمدلی او رشفقت میں ایک جسد واحد کی طرح ہیں جسد کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘
اگر آپ دوسرے کے ساتھ مسکراہٹ سے پیش آتے ہیں اچھی بات کرتے ہیں ،ضرورت پڑنے پہ اسکی مدد کرتے ہیں اس کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آتے ہیں اپنے دل میں اسکے لیے خیر کا پہلو رکھتے ہیں ،اپنے تجربہ و معلوما ت سے اسکی مدد کرتے ہیں تو اسکا اجر اللہ تعالی کبھی بھی ضائع نہیں فرماتے بلکہ اسکی اللہ کے ہاں بہت ہی قدرو منزلت اور فضیلت ہے ،۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں :

وَخَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ(المعجم الاوسط5787)

بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور ارشاد نبوی ﷺہے :
وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ
جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی اسکی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2699)
آپکی خیر خواہی کے حقدار سب سے پہلے آپ کے والدین، بہن بھائی ،عزیز و اقارب ہمسائے اور دوست ہیں ۔
اگر ہم نبی معلم ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے آپ بچوں کو خوش کرنے کے لئے انکے ساتھ کھیلتے بھی تھے ،مرد ،عورت ،بوڑھے کے ساتھ چل کر اسکی ضرورت پوری کرتے جب آپ ﷺ پہ سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے توسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا
اس طرح آپ کی ہمت بندھاتی ہیں ۔

وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ(صحیح البخاری:3)

اللہ کی قسم اللہ آپکو رسوا نہیں کرے گا آپ تو رشتہ جوڑتے ہیں ،عاجز لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں فقیروں اور ناداروں کی مدد کرتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں ایسا کیوں نہ ہو جب آپ ﷺ خودفرماتے ہیں
مِنْ أَفْضَلِ الْعَمَلِ إِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِنِ
اپنے مسلمان بھائی کو خوشی پہنچانا بہترین اعمال میں سے ہیں ۔(شعب الايمان:7274)
صحیح مسلم میں ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک عورت جسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی وہ آپ ﷺ کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے اللہ کے رسول ﷺ مجھے آپ سے کام ہے آپ ﷺ فرماتے اے ام فلان !تم جہاں چاہو میں وہاں جاکر میں آپکی ضرورت پوری کرنے کے لیے تیا ر ہوں اور پھر آپ ﷺ اس کے ساتھ چل کر جاتے ہیں اور اسکی ضرو رت کو پورا کرتے ہیں ۔
صحابہ کرام کس طرح ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتے تھے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں بغیر کسی عذر کے جنگ میں شریک نہیں ہوپائے نبی کریم ﷺ خود بھی اور صحابہ کو سوشل بائیکاٹ کاکہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالی انکی توبہ قبول کرلیں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میری توبہ قبول ہو تی تو آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے کہ ایک صحابی مجھے خوشخبری سنانےکے لیے اپنے گھوڑے پہ سوار ہوکر آتا ہے تاکہ جلدی سے جلدی مجھے خوشخبری دی جائے دوسرا صحابی دور سے پہاڑ پہ چڑھ کر آواز لگاتا ہے کہ کعب اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میںمسجد نبوی ﷺ میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کرنےآتا ہوں لوگ مجھے مبارک باد دینے میں سبقت کرتے ہیں۔ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ مہاجر صحابی بھاگ کر میری طرف آتے ہیں اور مجھے تو بہ قبول ہونے کی خوشخبری سناتے ہیں۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پہ جب منافقین نےجھوٹی تہمت لگائی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر رورہی تھی تو ایک انصاری عورت اسی مصیبت کی گھڑی میں میرے پاس آتی ہے اور میرے ساتھ مل کر رونا شروع کر دیتی ہے ۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ کئی لوگ دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر یا تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں اور کوئی بھی تکلیف دینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے دوسروں پہ ظلم کرتا ہے ۔غیروں کا حق مارتا ہے یہ شققی القلب انسان دوسروں کو بے چین کرکے راحت محسوس کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھول جاتا ہے جسے طبرانی نےروایت کیا ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کہتا ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند کون سے لوگ ہیں اوراسی طرح کونسے کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جو لوگ دوسروں کے لیے سود مند ہیں وہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں اور اللہ کو سب زیادہ عمل یہ پسند ہے کہ تم کسی مسلمان کو خوشی دو اس سے تکلیف کو دور کرو یااس کا قرض ادا کرو یا اسکی بھوک مٹاؤ

وَلِأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ(المعجم الأوسط6026)

اور میں کسی بھائی کی مدد کے لیے اس کے ساتھ چل کر جاؤں میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں اس مسجد (یعنی مسجد النبوی ﷺ)میں ایک مہینہ اعتکاف کروں
غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو
اس دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو
ہمیں چاہے ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصہ کا دیا جلاتے رہیںاور دامے ،درمے،قدمے ،سخنے جس طرح اور جس قسم کی بھی مدد اللہ کے حاجت مند بندوںکو کرسکیں کرتے رہیں ۔
خوشیاں بانٹنے کے لیے بہت زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑتی بلکہ آپ کسی کی بات کو توجہ سے سنیں ، اس سے پیار اور دھیمے لہجے میں بات کریں، کسی کو اچھا مشورہ دے دیں ، کسی کی دکھ تکلیف میں ساتھ دے کر اس کے دکھ کو ہلکہ کرسکتے ہیں اگر مالی استطاعت ہے تو کسی کاقرض اتاردیں، عزیز واقارب، دوست واحباب کو گفٹ (ہدیہ) دے دیں۔
کسی کے سلام کا جواب مسکراہٹ سے دے دیں ، صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن جریر البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ کے چہرۂ انور پہ مسکراہٹ ہی دیکھی ۔
طبرانی کی روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’بہترین عمل یہ ہے کہ آپ کسی مومن کو خوشی پہنچائیں ، اس کی سترپوشی کریں یا اس کی بھوک کو مٹائیں یا اس کی کسی ضرورت کو پورا کر دیں۔
دعا ہے اللہ مجھے اور آپکو خوشیاں بانٹنے والا اور لوگوں کے رستے سے کانٹے چننے والا بنا ئے ۔آمین
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے