علامہ سید سلیمان ندوی(1884ء۔1953ء) علوم اسلامیہ کے بحر زخّار تھے ان کی شخصیت ہمہ گیر اور کثیر الجہت تھی وہ ایک عظیم المرتبت عالم، مورخ،محقق، عربی، فارسی اور اُردو کے نامور ادیب، صحافی، مصنف اور سیاست دان تھے۔ علم وفضل کے اعتبار سے جامع الکمالات والصفات تھے۔ علامہ اقبال (م 1938ء) جیسے عظیم مفکر اور شاعر نے ان کے علم وفضل ، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ علامہ اقبال اپنے ایک مکتوب 28 اپریل 1918ء سید صاحب کو لکھتے ہیں کہ ’’ آج مولانا ابو الکلام کا خط آیا ، انہوں نے بھی میری اس ناچیز کوشش کو بہت پسند فرمایا ہے مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاد الکل ہیں۔ اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہوگا۔ (اقبال نامہ 1/80)
جب سید صاحب کی کتاب’’سیرت عائشہ ‘‘ 1924ء میں شائع ہوئی اور علامہ اقبال کے مطالعہ میں آئی تو سید صاحب کو خط ارسال کیا
” سیرت عائشہ کے لئے سراپا سپاس ہوں ۔ یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے ۔ اس کتاب کے پڑھنے سے میرے علم میں مفید اضافہ ہو گا خدائے تعالیٰ جزائے خیر دے ۔ “ ( اقبال نامہ ۱/۱۱۳ )
سید صاحب کی کتاب’’خیام‘‘ کی اشاعت پر علامہ اقبال نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا :
” عمر خیام پر آپ نے کچھ لکھ دیا ہے ۔ اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا ۔ الحمد للہ کہ اب اس بحث کا خاتمہ آپ کی تصنیف سے ہوا ۔ “(اقبال نامہ ۱/۱۷۸)
علامہ سید سلیمان ندوی کی ذات تعارف کی محتاج نہیں وہ اپنے علمی تبحر اور فضل وکمال کے اعتبار سے مفسر بھی تھے ، مورخ بھی ،محدث بھی تھے ، محقق بھی ، معلم بھی تھے، متکلم بھی ،مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی ،مدبر بھی تھے اور مفکر بھی ، ادیب بھی تھے اور دانشور بھی ،فلسفی بھی تھے اور شاعر بھی ، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد اور ضخیم کتابیں لکھیں اور برصغیر کے نامور اہل علم اور اہل قلم سے خراج تحسین حاصل کیا۔ ان میں سیرۃ النبی (ﷺ) ، سیرت عائشہ، حیات امام مالک، تاریخ ارض القرآن،خیام،خطبات مدراس،نقوش سلیمانی،حیات شبلی،رحمت عالم،عربوں کی جہاز رانی، عرب وہند کے تعلقات اور یادرفتگان بہت مشہور ہیں۔
سید صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا، انہوں نے بے شمار علمی، دینی، مذہبی، تاریخی، تحقیقی ،ادبی، تنقیدی اور سیاسی مقالات ومضامین بھی لکھے جو ماہنامہ الندوہ لکھنؤ، ہفت روزہ الہلال کلکتہ اور ماہنامہ معارف اعظم گڑھ میں شائع ہوئے۔ ان میں بعض مقالات ومضامین اتنے طویل تھے کہ وہ سید صاحب کی زندگی ہی میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ مثلاً
1 رسالہ اہل سنت والجماعۃ ( جو عقائد میں ہے)
2 خواتین اسلام کے شجاعانہ کارنامے
3 برید فرنگ
4 دنیائے اسلام اور مسئلہ خلافت
5 خلافت اور ہندوستان
6 لاہور کا ایک مہندس خاندان( جس نے تاج اور لال
قلعہ بنایا)یہ تحقیقی مقالہ سید صاحب نے اپریل 1933ء
میں ادارہ معارف اسلامیہ لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھا اس اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی اس مقالہ میں سید صاحب نے مستند شہادتوں سے مدلل کرتے ہوئے بتایاتھا کہ ’’تاج محل کا معماردر حقیقت نادر العصر استاد احمد معمار ہے جو ہندسہ، ہیئت اور ریاضیات کا بڑا عالم تھا۔ (مقالات سلیمان ۱/۲۹۳)

خطبات

سید صاحب کی درج ذیل کتابیں ان کے دینی،علمی، تحقیقی اور ادبی وتنقیدی خطبات کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے مختلف شہروں میں ادبی ،تاریخی اور تعلیمی کانفرنسوں میں ارشاد فرمائے۔ ان میں بعض کانفرنسوں کی آپ نے صدارت بھی کی۔
1 خطبات مدراس
2 عرب وہند کے تعلقات
3عربوں کی جہاز رانی
4خیام
5نقوش سلیمان
خطبات مدراس :
سید صاحب نے اکتوبر 1925ء میں مدراس مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کی دعوت پر مدراس کا سفر کیا اور وہاں سیرت نبوی ﷺ پر آٹھ خطبات ارشاد فرمائے یہ خطبات سیرت نبوی کا جوہر اور عطر ہیں۔ (حیات سلیمان ، ص:۳۸۹)
خطبات کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1 انسانیت کی تکمیل صرف انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں سے ہوسکتی ہے۔
2 عالمگیر اور دائمی نمونہ عمل صرف محمد رسول اللہ ﷺ  کی سیرت ہے ۔
3 سیرت محمد ی کا تاریخی پہلو ( تاریخیت)
4سیرت محمدی کا تکمیلی پہلو ( کاملیت)
5 سیرت محمد ی کی جامعیت
6 سیرت محمدی کا عملی پہلو ( عملیت)
7 پیغمبر اسلام کا پیغام
8 پیغمبر محمدی ﷺ (خطبات مدراس ، ص:5)
ان خطبات کا انگریزی ترجمہ بنام Living Proghet اور عربی ترجمہ بنام ’’ الرسالۃ المحمدیۃ‘‘ شائع ہوچکا ہے۔
انگریزی مترجم : محترم سعید الحق وینوی
عربی مترجم : مولانا محمد ناظم ندوی (علامہ سید سلیمان ندوی (شخصیت وادبی خدمات ) ، ص:۹۰)
عرب وہند کے تعلقات :
سید صاحب نے مارچ 1929ء میں ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد کی دعوت پر’’عرب وہند کے تعلقات‘‘ کے موضوع پر خطبات ارشاد فرمائے، یہ خطبات سید صاحب کی تحقیقات عالیہ اور وسعت معلومات کا تماشا گاہ ہیں ۔
ان خطبات میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ان کا وہ عہد زریں یاد دلایا ہے جب دونوں گونا اور مختلف النوع تعلقات کے رشتوں میں منسلک تھے ۔(أیضاً ، ص:۹۰)
سید صاحب نے ان خطبات میں ثابت کیا ہے کہ اس ملک سے عربوں کا تعلق اسلام کے ظہور سے صدیوں پہلے تھا عرب تاجر یہاں دوسرے ملکوں کا مال لاتے تھے اور یہاں کا مال دوسرے ملکوں میں لے جاکر بیچتے تھے۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:۱۱۳)
عربوں کی جہاز رانی :
یہ خطبات سید صاحب نے مارچ 1931ء میں حکومت بمبئی کے شعبہ تعلیم کی دعوت پر چار خطبات پر ارشاد ہے ، ان خطبات کا موضوع تاریخ ہے ، ان خطبات میں زمانہ جاہلیت اور اسلام میں عربوں کی جہاز رانی، عربوں کی دنیا کے سمندروں سے واقفیت، ان کے بعض بحری انکشافات، عربوں کے سامان آلات اور ان کی بحر محیط کو عبور کرنے کی کوششوں وغیرہ سے مبسوط بحث کی گئی ہے۔ (معارف اعظم گڑھ ، سلیمان نمبر ، ص:۲۰۵)
یہ خطبات بھی سید صاحب کی ذہانت،قوت حافظہ،ذوق تحقیق اور وسعت معلومات کا تماشا گاہ ہیں، سید صاحب نے نفس قرآن مجید اور دوسرے جغرافیائی وتاریخی ماخذ کی مدد سے دو ہفتہ میں تیار کر لیئے۔(سید سلیمان ندوی ، ص:۱۱۵)
خیام :
سید صاحب نے دسمبر 1920ء میںآل انڈیا اور نیٹل کانفرنس کے اجلاس پٹنہ میں ایک مقالہ پڑھا۔ یہ مقالہ علمی وادبی حلقوں میں بہت پسند کیاگیا توسید صاحب نےاس میں بعض مباحث بڑھا کر ایک مستقل کتاب کی شکل دے دی۔
مغربی مصنفین خیام کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے ۔ ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ خیام جیسے نامور حکیم اور جلیل القدر فاضل کو اہل یورپ نے ایک عیاش اور بدمست رندلا ابالی کی شکل میں پیش کیا تھا جو پیشہ شاہد وشراب میں غرق رہتا اور جس کا مقصد حیات صرف رندی اور عیش پرستی تھی ۔ پیش نظر کتاب میں سید صاحب نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ خیام کی اصل تصویر اس سے قطعی مختلف ہے وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم فلسفی،ہئیت، نجوم اور ریاضیات کا بہت بڑا عالم اور دوسرے علوم عقلیہ کی مہارت میں مفقود النظیر تھا اس کی زندگی زاہدانہ تھی ، مذہبی حیثیت سے وہ ایک دیندار مسلمان تھا۔ (علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیت وادبی خدمات) ، ص:۱۷۲)
نقوش سلیمانی :
یہ کتاب سید صاحب کےادبي مضامين كا مجموعه هے اور تین ابواب پر مشتمل ہے ۔
1خطبات
2مقالات
3مقدمات
1اس کتاب میں 6خطبات ہیں جو ہندوستان کی موقر ادبی کانفرنسوں میں بحیثیت صدر ارشاد فرمائے۔
2 14 مقالات ہیں
3 9مقدمات ہیںجو سید صاحب دوسرے مصنفین کی کتابوں پر رقم فرمائے ۔(علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیت وادبی خدمات) ، ص:۱۳۱۔۱۳۲)
مولانا عبد المادر دریا آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
نقوش سلیمانی ۔ کتاب کیا ہے ۔ سید صاحب کے کمالات، ادبی وتنقیدی کی ایک مہر زدہ دستاویز۔(معارف اعظم گڑھ (سلیمان نمبر) ، ص:۲۳۲)
سید صاحب کا سفر افغانستان :
اکتوبر 1933ء میں شاہ نادر خاں نے علامہ اقبال (م۱۹۳۸ء) ڈاکٹر سرراس مسعود(سابق وزیر تعلیم ریاست بھوپال(م۱۹۳۸ء) اور علامہ سید سلیمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔ شاہ نادر خان کی یہ دعوت اپنے ملک میں مذہبی وعربی تعلیم کے نصاب کے سلسلہ میں مشورہ طلب کرنا تھا۔سید صاحب نے اپنے اس سفر کی روئداد ’’سیر افغانستان ‘‘ کے نام ’’معارف ‘‘ میں شائع کی ،بعد میں اس کوکتابی صورت میں شائع کیاگیا۔
بھوپال کے قاضی القضاۃ اور امیر جامعہ مشرقیہ :
1946ء میں اعلیٰ حضرت نواب حمیداللہ خان رحمہ اللہ والئے ریاست بھوپال نےسید صاحب کوپیش کش کی کہ وہ ریاست کےدارالقضاءاور عربی مدارس کواپنی نگرانی میں لے کرخالص مذہبی اوراسلامی رنگ میں ڈھال دیں ۔ سید صاحب نےعربی مدارس کی اصلاح وترقی کےکام کواپنے خالص ذوق کےمطابق پاکہ اس پیش کش کوقبول کرلیا ۔اور جون 1949ء میں بھوپال کےقاضی القضاء اورجامعہ مشرقیہ کےامیر کےمنصب پرمامو ر ہوئے۔ لیکن دارالمصنفین اورندوۃ العلماء سےتعلقات بدستور قائم رہےجس مقصد کےلیے انہوں نے بھوپال کا قیام منظور کیا تھا۔اس کی تکمیل میں اکتوبر 1949ء تک تگ ودو کرتے رہے ۔(نزھۃ الخواطر ۸/۱۶۵)
مگر اگست 1947ء کے بعد انقلابات کی ریاست کے لیل ونہار ہی بدل دیئے۔
پاکستان آمد :
اکتوبر 1949ء میں اپنی اہلیہ اور صاحبزادے سلمان ندوی کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور شاہ سعود رحمہ اللہ کے مہمان خصوصی ہوئے۔(تذکرۂ سلیمان ، ص:۲۰۴)
اور جون 1950ء میں پاکستان منتقل ہوگئے پاکستان میں سید صاحب کے مذہبی، قومی، تعلیمی اور علمی وادبی مشاغل جاری رہے۔
حکومت پاکستان نےدستور سازی کےسلسلہ میں ادارہ تعلیماتِ اسلام کےنام سےعلماءکا ایک بورڈ بنایا تھا۔سید صاحب کواس بورڈ کی صدارت کی پیش کش ہوئی۔آپ نے کچھ شرائط کےساتھ صدارت قبول کرلی ۔(حیات سلیمان ، ص:۲۰۴)
وفات :
1953ء میں سید صاحب نے ڈھاکہ کا سفر کیا وہاں سے لکھنو تشریف لے گئے کچھ دن بعد کراچی تشریف لے آئے اور علیل ہوگئے آخر اس علم وفضل کے آفتاب نے 22 نومبر 1953ء مطابق 14ربیع الاول 1373ھ کو71سال کی عمر میں رحلت فرمائی اور ان كي تدفين مولانا شبير احمد عثماني رحمه الله كے پہلو میں ہوئی۔(معارف اعظم گڑھ ، سلیمان نمبر ، ص:۳۰۲)
اعتراف عظمت :
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) کے سید صاحب سے دیرینہ مراسم تھے اور دیر تک رہے اور مکاتبت بھی رہی۔
حدیث نبوی ﷺ کے بارے میں علمائے ندوہ کا نظریہ علمائے سلف کے نظریہ سے الگ ہے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث(ایک تنقیدی جائزہ) میں منکرین احادیث ‘‘ کا ایک جدول ترتیب دیا ہے جس کے نمبر 10 میں تحریر فرماتے ہیں :
مولانا شبلی مرحوم ، مولانا حمید الدین فراہی ،مولانا ابو الاعلی مودودی ، مولانا امین احسن اصلاحی اور نام فرزندان ندوہ باستثنائے حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ
یہ حضرات حدیث کے منکر نہیں لیکن ان کا انداز فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحکار معلوم ہوتاہے اور طریقۂ گفتگو سے انکار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ (جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ، ص: ۴۷ ، طبع اول ، دین محمد پریس لاہور ۱۳۷۶ھ )
سید صاحب رحمہ اللہ اپنے فقہی مسلک کے بارے میں تراجم علمائے حدیث ہند مصنفہ مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م 1966ء) کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’میں سنت کا پیرو اور توحید خالص کا معتقد ہوں ، سنت کو دلیل راہ مانتا ہوں اور علماء کے لیے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا جانتا ہوں اور حق کو ائمہ سلف میں کسی ایک میں منحصر نہیں سمجھتا اب اس پر آپ مجھے جو چاہیں سمجھ لیں
آزادہ رو ہوں اور میرا مسلک صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
( تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:۳۴ طبع دہلی ۱۹۳۸ء)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م ۱۹۶۸ء) اپنے ایک مکتوب بنام ایڈیٹر الاعتصام لکھتے ہیں کہ
مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم سے میرے تعلقات نیاز مندانہ تھے۔‘‘ (مقالات وفتاوی شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ، ص:۶۶۹ ، طبع ۲۰۱۶ء)
سید صاحب معتمد تعلیم ندوۃ العلما|ء تھے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی سفارش پر مولانا محمد حنیف ندوی (م ۱۹۸۷ء) اور مولانا عبد القادر ندوی (م ۲۰۱۱ء) ماموں کانجن کو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخلہ دیا۔
مولانا محمد حنیف ندوی :
محمد حنیف ندوی ( ۱۹۰۸۔۱۹۸۷ء) علمائے اہلحدیث میں کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ بلند پایہ مفسر قرآن، محدث دوراں، فقیہ، مجتہد، مؤرخ، محقق، نقاد، مبصر، مدبر، مفکر، دانشور، ادیب ، متکلم، معلم، صحافی،فلسفی، مدرس، مصنف، مقرر، شیریں بیان ، سحر بیان خطیب اور عمرانیاں میں یکتا اور زبان ثلاثہ ( عربی،فارسی،اردو) میں یگانہ روزگار تھے۔
۱۹۲۵ء میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی کی تحریک پر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخل ہوئے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی نے علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے نام ایک سفارشی خط دیا۔
(سید صاحب اس وقت ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم تھے) مولانا محمد حنیف کو ندوہ میں داخلہ مل گیا ۔ ۱۹۳۰ء میں مولانا محمد حنیف ندوۃ سے فارغ ہوئے اور محمد حنیف سے محمد حنیف ندوی کہلانے لگے ۔ فراغت کے بعد کچھ عرصہ دار المصنفین اعظم گڑھ میں سید صاحب کے زیر سایہ رہے۔ اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے اور سال کے آخر میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تحریک پر جامع مسجد مبارک اہلحدیث اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے خطیب مقرر ہوئے اور 18 سال تک (۱۹۴۸ء) مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ اور بعد نماز مغرب درس قرآن ارشاد فرماتے رہے اس عرصہ میں تین بار درس قرآن مجید ختم کیا مولانا محمد حنیف ندوی نے ۱۳ جولائی ۱۹۸۷ء میں لاہور میں وفات پائی اور وحدت کالونی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
مؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) کا مولانا محمد حنیف ندوی سے 40 سال تعلق رہا۔ مولانا بھٹی لکھتے ہیں کہ
محمد حنیف ندوی کی شخصیت میں بڑی جاذبیت تھی اور اسلوب کلام نہایت مؤثر تھا۔ 1948ء سے لیکر ان کی وفات جولائی 1987ء تک تقریباً 40 برس میرا ان سے تعلق رہا۔ تعلق کیا بے پناہ مراسم رہے نہ کوئی میری بات ان سے مخفی تھی اور نہ میں ان کے کسی معاملے سے بےخبر تھا۔ (قافلہ حدیث ، ص:۴۸۰۔۴۸۱)
راقم نے اپنی آنکھوں سے بے شمار دفعہ لاہور میں اکٹھے دیکھا ہے ۔ بھٹی صاحب مولانا محمد حنیف ندوی کی سید سلیمان ندوی سے ایک ملاقات کا ذکر بالفاظ ذیل کرتے ہیں اس مقالات میں بھٹی صاحب مولانا محمد حنیف کے ہمراہ تھے۔
(یہ بات ذہن میں رکھیے کہ مولانا محمد حنیف اور سید صاحب میں بے تکلفی تھی کیونکہ مولانا حنیف صاحب تقریباً6 ماہ دار المصنفین اعظم گڑھ میں سید صاحب کے زیر تربیت رہے تھے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی کی تحریر :
لکھتے ہیں کہ 1951ء میں علامہ سید سلیمان ندوی جامعہ اشرفیہ کے جلسے میں لاہور تشریف لائے۔ اس وقت جامعہ اشرفیہ نیلہ گنبد میں مول چند بلڈنگ میں تھا۔ ’’الاعتصام‘‘ ان دنوں گوجرانوالہ سے شائع ہوتا تھا اور میں معاون مدیر کی حیثیت سے اس اخبار سے منسلک تھا میں اور مولانا ندوی سید صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ اشرفیہ گئے وہ ایک کمرے میں قیام فرما تھے اور ایک صاحب ان کے پاس بیٹھے تھے ہم گئے تو وہ صاحب اُٹھ کر چلے گئے۔ شاید وہ اس انتظار میں تھے کہ کوئی آئے تو میں جاؤں۔ سید صاحب کو میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا اور پھر یہی رویت آخری رؤیت ثابت ہوئی اس سے کئی سال پہلے سید صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ بیعت وارادت میں شامل ہوچکے تھے۔
مولانا حنیف ندوی کو دیکھ کر سید صاحب بہت خوش ہوئے بغل گیر ہوکر ملے۔ خیر وعافیت کے مبادلے اور اِدھر اُدھر کی چند باتیں ہوئیں ۔
مولانا نے سید صاحب سے فرمایا :
آپ نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کو ’’بہشتی زیور‘‘ کے قدموں میں ڈال دیا ہے سید صاحب نیچے دری پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے انہوں نے جسم کو تھوڑی سی حرکت دی اور مسکراتے ہوئے فرمایا
آپ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو آپ بھی یہی کریں گے ۔
مولانا نے جواب دیا
میرا ابھی یہی خیال ہے کہ آپ پر عمر کا اثر ہے۔
یہ الفاظ سن کر سید صاحب کے چہرے پر اور مسکراہٹ پھیل گئی اور خاموشی اختیار فرمائی۔
اس کمرے کی دیوار پر جس میں سید صاحب کا قیام تھا۔ جامعہ اشرفیہ کے اس جلسے کا اشتہار لٹک رہا تھا۔ مولانا کی اس پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ ہر عالم کے نام کے ساتھ ’’حضرت‘‘ کا لفظ مرقوم تھا لیکن سید صاحب کو ’’مورخ اسلام سید سلیمان ندوی‘‘ لکھا گیا ہے ۔
مولانا نے کہا ’’ یہ اشتہار دیکھیے اس حلقے میں آپ ہمیشہ ’’مورخ‘‘ ہی رہیں گے آپ کی ’’حضرت‘‘ بننے کی خواہش یہاں کبھی پوری نہیں ہوگی۔ ’’حضرت‘‘ وہی لوگ ہوں گے جو پہلے سے اس حلقے سے وابستہ ہیں۔ یہ اعزاز آپ کو نہیں ملے گا۔
سید صاحب نے ہلکا سا تبسم فرمایا لیکن مولانا کے اس طنز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ (قافلہ حدیث ، ص: ۳۳۹ تا ۳۴۱)
سید صاحب کے اہلحدیث احباب
سید صاحب کے حلقہ احباب میں اہلحدیث علماء کی بڑی تعداد شامل تھی۔ جن میں اکثر احباب کا ذکر انہوں نے اپنی کئی کتابوں میں کیا ہے۔ (حیات شبلی ، یادرفتگان)
ان علمائے اہلحدیث کا مختصرذکرذیل میں سید صاحب کے الفاظ میں کیا جاتاہے۔
مولوی فیض اللہ مئوي
یہ مئوناتھ بھنجن (ضلع اعظم گڑھ) کے باشندہ تھے۔ آخر میں مطب کرنے لگے تھے اسی تعلق سے دانا پور میں رہتے تھے وہیں ۱۲ ربیع الاول ۱۳۱۶ھ / ۱۸۹۸ء وفات پائی ۔ (حیات شبلی ، ص:۷۱)
مولوی ابو المکارم محمد علی مئوي
مولوی ابو المکارم محمد علی مئوی مولوی فیض اللہ مئوی کے صاحبزادہ تھے جو مولوی سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے اور جنہوں نے مختلف مسائل پر چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے۔ ۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۲ ء میں وفات پائی۔
(حیات شبلی ، ص:۷۱)
مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
مولانا شبلی کے ابتدائی عربی کےاستاد مولانا فیض اللہ مئوی کے لائق صاحبزادے مولانا ابو المکارم محمد علی صاحب موجد روغن احمر سے بڑے تعلقات تھے انہوں نے سیرت کے بعض مباحث پر دو ایک تنقیدی رسالے بھی لکھے تھے وہ اکثر اپنی علمی ضرورتوں اور سید صاحب سے تبادلہ خیالات کے لیے دار المصنفین آتے تھے۔ سید صاحب ان کا بڑا احترام کرتے تھے جب تک ان کا قیام رہتا اپنا سارا کام چھوڑ کے انہی سے مشغول رہتے ، علمی مذاکرہ اور تبادلہ خیال کرتے۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:۲۰۰)
مولانا سید نذیر حسین دہلوی :
سید صاحب تراجم علمائے حدیث ہند کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ علماء اہلحدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں مرحوم کے قلم اور مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔بھوپال ایک زمانہ تک علمائے حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے اور دہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین کی مسند درس بچھی تھی اور جوق درجوق طالبین حدیث مشرق ومغرب سے ان کی درسگاہ کا رخ کر رہے تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:۳۶)
سید صاحب اپنی آخری تصنیف ’’حیات شبلی‘‘ میں لکھتے ہیں
’’ مولانا شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد مولانا سید نذیر حسین صاحب بہاری دہلوی میں (مولانا سید نذیر حسین صاحب) کے ذریعہ سے اہلحدیث کے سلسلہ کو بڑی ترقی ہوئی۔ موصوف کے شاگردوں کا بڑا حلقہ تھا انہوں نے ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل کر اپنے طریقہ کی اشاعت کی ان کے مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں ۔
پنجاب میں مولانا عبد اللہ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا عبد المنان وزیر آبادی وغیرہ یورپ کے خطہ میں مولانا امیر حسن سہوانی،  مولانا بشیر صاحب سہوانی،مولانا عبد اللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی ، مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی(در بھنگہ) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری اعظم گڑھی رحمہم اللہ اجمعین ۔ (حیات شبلی ، ص:۴۶۔۴۷)
(جاري ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے