مولانا محمد ابراہیم آروی

درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے جونامور اُٹھے ان میں ایک مولاناحافظ ابراہیم آروی تھے جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اورمدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:36’’مقدمہ‘‘)

سید صاحب لکھتے ہیں

’’ہندوستان میں اہل حدیث کے نام سے تحریک مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اور ان کے شاگردوں کے ذریعہ شروع ہوئی اس تحریک کا ایک خاص فائدہ یہ ہوا کہ طبیعتوں کا جمود دور ہوا اور جب ایک بند ٹوٹا تو اجتہاد کے دوسرے دروازے بھی کھلے۔ مولوی نذیر حسین کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم صاحب آروی خاص حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوشگوار پُر درد واعظ تھے، وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال ان ہی کے دل میں آیا اور انہوں نے 1890ء میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لیے جلسہ مذاکرہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بسال جلسہ آرہ میں ہوتا تھا ۔ مولانا ابراہیم صاحب نے سفر حجاز میں 1322ھ میں انتقال فرمایا‘‘۔ (حیات شبلی ، ص:308)

مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی

سید صاحب فرماتے ہیں کہ

’’درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی میں سے ایک نامور مولانا شمس الحق ڈیانوی صاحب عون المعبود ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔(تراجم علمائے حدیث ہند، ص:37’’مقدمہ‘‘)

مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری

سید صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ

1 درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے ایک نامور حافظ عبد اللہ غازی پوری ہیں جنہوں نے درس وتدریس کے ذریعہ خدمت کی اور کہا جاسکتاہے کہ مولانا سید نذیر حسین صاحب کے بعد درس کا اتنا بڑا حلقہ اورشاگردوں کا مجمع ان کے سوا کسی اور شاگردوں میں نہیں ملا۔(تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:37’’مقدمہ‘‘)

2 (مدرسہ احمدیہ آرہ) میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری (م 1337ھ) سالہا سال تک پڑھاتے رہے ۔ مولانا عبد السلام مبارکپوری، مولانا عبد الرحمان مبارکپوری اور ہمارے مرحوم دوست مولانا ابو بکر محمد شیث جون پوری اور بہت سے علماء یہاں کےشاگرد ہیں حافظ صاحب کے بعد مدرسہ پر زوال آیا۔(حیات شبلی ، ص:308)

3جناب مولانا عبد اللہ غازی کا واقعہ وفات علماء کے طبقہ میں خاص حیثیت سے اثر انگیز ہے مولانائے مرحوم نے گو لمبی عمر پائی لیکن اس خیال سے کہ وہ اس عہد میں اگلی صحبتوں کے تنہا یادگار تھے ہم ان کے لیے اس سے دراز عمر کے متوقع تھے ۔ مولانا اتباع سنت ،تقویٰ وطہارت، زہدوورع، تبحر علم، وسعت نظر اور کتاب وسنت کی تفسیر وتعبیر میں یگانہ عہد تھے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہوں نے علم دینیہ خصوصاً کتاب مجید اور حدیث شریف کے درس وتدریس میں گزارا اور سینکڑوں طلباء ان کے فیض تربیت سے علماء بن کرنکلے ۔ ابتداء چشمہ رحمت غازی پور اور پھر مدرسہ آرہ میں اپنا مسند درس بچھایا اور آخر عمر میں دلّی کے دار الحدیث میں قیام فرمایا لیکن خانگی حوادث کے باعث پریشان حال رہے اب افسوس کہ یہ شمع نور وہدایت 21 صفر 1337ھ مطابق 26 نومبر 1918ء کو ہمیشہ کیلئے بجھ گئی ۔ رحمۃ اللہ تعالی (یادرفتگان ، ص:40)

مولانا عبد الرحمان مبارکپوری

سید صاحب فرماتے ہیں کہ

درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے ایک اور نامور تربیت یافتہ ہمارے ضلع اعظم گڑھ میں مولانا عبدالرحمان مرحوم مبارک پوری تھے جنہوں نے تدریس وتحدیث کے ساتھ ساتھ جامع ترمذی کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (عربی) لکھی۔(تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:37’’مقدمہ‘‘ )

مولانا ابو علی اثری مرحوم لکھتے ہیں کہ

سید صاحب مولانا عبد الرحمان مبارک پوری کے فضل وکمال اور تبحر حدیث ورجال حدیث کے بہت معترف تھے ۔ مصر،شام وحجاز کے جو علمی سیاح دار المصنفین آتے تو سید صاحب’’ صاحب الحدیث اور رحل الحدیث ‘‘ کہہ کر ان سے غائبانہ تعارف کراتے تھے اور وہ یہاں سے ہوکر ان کی زیارت کے لیے مبارک پور جاتے تھے ان کی شرح ترمذی شائع ہوئی تو خاص طور سے مبارک پور آدمی بھیج کر منگوائی اس کے ایک عرصہ بعد اس کا فاضلانہ مقدمہ الگ کتابی صورت میں شائع ہوا تو اس کو بھی منگوایا مولانائے مبارکپوری سے سید صاحب کی ملاقات ہوئی تھی یا نہیں اس کی تحقیق اب تک نہیں ہوسکی ہے ظن غالب ہے کہ ملاقات نہیں ہوئی۔(سیدنا سلیمان ندوی، ص:204)

علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی، علامہ شیخ محمد بن حسین بن محسن ،علامہ خلیل عرب بن محمد بن حسین بن محسن

علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ

1بھوپال ایک زمانہ میں علمائے حدیث کا مرکز رہا ۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ،  ص:36’’مقدمہ‘‘)

2 مشہور محدث یمنی شیخ حسین صاحب عرب کے جو نواب صدیق حسن خان مرحوم کی قدردانی سے بھوپال میں رہ گئے تھے اور ہزاروں علماء اور محدثین کے استاد تھے۔

3 شیخ محمد صاحب عرب ندوہ میں مدرس ادب تھے۔

4شیخ محمد خلیل عرب صاحب نے ندوہ میں تعلیم پائی ، فراغت کے بعد مدرسہ عالیہ کلکتہ اورپھر لکھنو یونیورسٹی میں بھی عربی کے استاد مقر رہوئے چند سال کے بعد مزاج کی ناسازی کے سبب مستعفیٰ ہوکر بھوپال چلے گئے اور اس وقت 1940ء/1359ھ مجلس علماء بھوپال کے رکن میں جو ریاست بھوپال کا ایک معزز وسرکاری منصب ہے۔ (حیات شبلی ، ص:200)

سن ہائے وفات :

علامہ حسین بن محسن ( م 1327ھ) علامہ محمد بن حسین (م 1344ھ) ، علامہ خلیل عرب ( م 1966ء)

مولانا محمد بن یوسف سورتی

مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ

مولانا محمد سورتی اس  عہد میں مستثنیٰ دل ودماغ اور مافوق العادۃ حافظ وقابلیت کے آدمی تھے، بڑے وسیع النظر اور وسیع المطالعہ تھے ، عربی لغت پر ان کو عبور تھا اپنے مسلک میں بہت متشدد تھے۔

سید صاحب کے تعلقات تو ہم ذوقی کی بنا پر مولانا سورتی سے بہت زمانہ سےتھے لیکن دار المصنفین کے قیام اور معارف کے اجراء کے بعد اور زیادہ وسیع ہوگئے تھے۔ سیرت نبوی ﷺکے بعض مباحث سے ان کو اختلاف تھا ، اس پر انہوں نے مضامین بھی لکھے تھے اور سید صاحب نے ان کے جوابات بھی دیئے تھے اس بحث ومباحثہ میں کبھی طرفین کا لب ولہجہ سخت ہوجاتا تھا لیکن اس کا ذاتی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، ان کا انتقال ہوا تو سید صاحب نے ان کا بہت پُر زور ماتم لکھا ان کے علم وکمال اور خوبیوں کو بہت سراہا اور علم وفن کے اس ناقابل تلافی نقصان پر خون کے آنسو روئے۔ (سید سلیمان ندوی،ص:201)

سید صاحب نے مولانا سورتی کے انتقال پر جو تعزیتی شذرہ معارف میں لکھا اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے: ’’مولانا محمد سورتی کی وفات ایک علمی حادثہ ہے مرحوم اس عہد کے مستثنیٰ دل ودماغ اور حافظہ کے صاحب علم تھے جہاں تک میری اطلاع ہے اس وقت اتنا وسیع النظر،وسیع المطالعہ، کثیر الحافظہ عالم موجود نہیں،صرف ونحو، لغت وادب واخبار وانساب ورجال کے اس زمانہ میں درحقیقت وہ امام تھے، وہ چند ماہ سے مرض استستا میں مبتلا تھے علی گڑھ میں ان دنوں قیام تھا اوروہیں7اگست 1942 بروز جمعہ وفات پائی۔‘‘

مرحوم مسلکاً اہلحدیث تھے اور اپنے مسلک میں بے حد غالی تھے ، طبیعت بے قرار کسی ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتے تھے، ساتھ ہی نہایت سادہ مزاج ، بے تکلف احباب پرور فیاض اور مستغنیٰ تھے ، کھانے اور کھلانے کے بے حد شوقین تھے ہمیشہ مقروض اور خانہ بدوش رہتے تھے۔

مرحوم کا پایہ علم وادب اور رجال وانساب واخبار میں اتنا اونچا تھا کہ اس عہد میں اس کی نظیر مشکل تھی جو کتاب دیکھتے تھے وہ ان کے حافظہ کی قید میں آجاتی تھی سینکڑوں نادر عربی قصائد،ہزاروں عربی اشعار وانساب نوک زبان تھے ، ان کو دیکھ کر یقین آتا تھا کہ ابتدائی اسلامی صدیوں میں علماء،ادباء اور محدثین کے وسعت حافظہ کی جو عجیب وغریب مثالیں تاریخوں میں مذکور ہیں وہ یقیناً صحیح ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (یادرفتگان ، ص:232۔233)

مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی

مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ( م 1378ھ) بلند پایہ عالم دین، عربی کے نامور ادیب، دانشور، مصنف اور مولانا ابو الکلام آزاد کے منظور نظر اور ان کے سفر وحضر کے ساتھی تھے ، مولانا آزاد کے ساتھ ان کی رفاقت تقریباً 40 سال تک محیط ہے۔ مولانا ابو الکلام کے حالات میں ان کی کتاب’’ذکر آزاد‘‘ ادبی  وعلمی کی دنیا میں ایک سنگ میل ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے ۔ مولانا ابو علی اثری لکھتے ہیں کہ

سید صاحب ان کی منفرد صلاحیتوں کی بنا پر ان کو بہت عزیز رکھتے تھے ، مولانا عبد الرزاق عربی میں کلکتہ سے اخبار الجامعہ نکالتے تھے، اس میں انہی کی فرمائش سے کبھی کبھی سید صاحب بھی مضامین لکھتے تھے۔ ایک دفعہ دارالمصنفین تشریف لائے ، سید صاحب نے ان الفاظ میں ان سے میرا تعارف کرایا کہ

یہ آپ کے ہم عقیدہ اور ہم مسلک ہیں

وہ یہ سن کر بہت محظوز ہوئے اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔مولانا ملیح آبادی نے اپنی تنہا ذات سے بدعات ومحدثات، خصوصاً تعزیہ پرستی اور قبرپرستی اور دوسرے امور بدعیہ کے خلاف اُردو میں اتنا صالح لٹریچر اکٹھا کر دیا ہے کہ اتنا پوری جماعت اہل حدیث نے بھی نہ کیا ہوگا۔ اس توفیق ایزدی پر وہ تنہا بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوں کم ہے۔(سید سلیمان ندوی، ص:202۔203)

مولانا عبد السلام مبارکپوری

مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ) برصغیر پاک وہند میں ذی وقار عالم دین تھے، جن علمائے حدیث نے درس وتدریس میں بہت زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل کی ان میں مولانا عبد السلام مبارکپوری بھی شامل تھے۔ ان کے انتقال پر مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ اپنے اخبار اہلحدیث میں لکھا۔

آہ! مولانا عبد السلام مرحوم

مولانا موصوف صحیح معنوں میں ایک عالم علوم کے مدرس تھے ، مدرسین کی تلاش میں جب نظر پڑتی تو آپ ہی پر پہلے پڑتی۔(بحوالہ : تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:400)

مولانا ابو علی اثری مرحوم لکھتے ہیں کہ

حیات شبلی میں سید صاحب نے اعظم گڑھ کے بعض مردم خیز قصبات ودیہات کے سلسلہ میں مبارک پور کا بھی ذکر کیا ہے کہ پچھلے برسوں میں یہاں بھی چند نامور علماء پیدا ہوئے ان کا اشارہ صاحب تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی مولانا عبد الرحمان مبارک پوری اور ان کے شاگرد اور معاصر مولانا عبد السلام مبارک پوری صاحب سیرۃ البخاری کی طرف تھا لیکن ان کا نام نہیں لیا۔

مولانا عبد السلام کا کچھ دنوں قیام بانکی پور پٹنہ میں بھی رہا انہوں نے اپنی کتاب تاریخ المنوال خدا بخش لائبریری پٹنہ ہی میں بیٹھ کر لکھی تھی اور سیرۃ البخاری وہیں کے قیام کا فیض تھا۔ اس تقریب سے ان کے اورسید میں کافی تعلقات ہوگئے تھے ایک مرتبہ وہ سید صاحب سے ملنے کے لیےشبلی منزل آئے تو ان کو دیکھ کر سید صاحب باغ باغ ہوگئے اور بار بار یہ شعر پڑھتے رہے ۔

وہ آئے گھر میں ہمار ےخدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ان کی سیرت البخاری ریویو کے لیے آئی تو خود اپنے قلم سے اس پر ریویو لکھا اور بڑی پسندیدگی کا اظہار کیا اور لکھا کہ اپنے موضوع پر یہ بہترین کتاب ہے۔(سید سلیمان ندوی،ص:203۔204)

مولانا عبد القادر قصوری

جب حجاز پر قبضہ وتصرف کے شریفوں اور نجدیوں میں جنگ چھڑی تو آل انڈیا خلافت کمیٹی کی طرف سے ایک سہ رکنی وفد جو تین مختلف ومتضاد مسلک کے لوگوں پر مشتمل تھا لیکن مسئلہ حجاز میں یہ مستمد تھے۔

حسب ذیل علمائے کرام پر مشتمل تھا۔

1 مولانا عبد القادر قصوری(م 1942ء) جماعت اہلحدیث کے سرخیل(رکن)

2 مولانا عبد الماجد بدایونی(م 1931ء) بریلوی جماعت کے مشہور عالم اور سحر بیان خطیب (رکن)

3 علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1953ء) ان دونوں حضرات کے بین بین (صدر وفد)

مولانا ابو علی اثری سید صاحب اور مولانا عبد القادر قصوری کے مابین جو مراسم اور تعلقات تھے حسب ذیل الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں کہ

سفر حجاز میں مولانا عبد القادر قصوری کی محبت کے جو نقوش سید صاحب کے دل ودماغ پر مرتسم ہوئے وہ زندگی کے آخر تک باقی رہے۔ مولانا قصوری سے نظریاتی اتحاد تو پہلے سے تھا، حجاز کے معاملے میں بھی حسن اتفاق سے یہ دونوں بزرگ ہم آہنگ ہوگئے ۔ سید صاحب کو مولانا قصوری اور ان کے تمام لائق صاحبزادگان سے جو ایک سے ایک بڑھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور یورپ ریزن تھے، بڑا اخلاص تمہارے مولانا قصوری کا انتقال ہوا تو سید صاحب نے معارف میں ماتم لکھا۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:205)

سید صاحب نے مولانا قصوری کی وفات پر معارف میں جو ماتمی شذرہ لکھا ، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔

پنجاب کے نامور وکیل اور عالم، مجاہد سیاسیات مولانا عبدالقادر قصوری کی وفات کی خبر سے بڑا صدمہ ہوا۔ قصور ضلع لاہور ان کا وطن تھا اور وہیں وکالت کرتے تھے اور اچھے نامور وکیل تھے،عربی کے عالم،دینیات کے فاضل اور انگریزی سے واقف تھے۔

مرحوم مسلکاً اہل حدیث تھے ، نہایت دیندار، متواضع، ملنسار،پابند وضع علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصانیف کے شائق تھے اور انہی کی تحقیقات پر ان کا عمل تھا ، خلافت حجاز اور کانگرس میں بیش از بیش حصہ لیا۔

مرحوم کو خاکسار سے گوناگوں تعلقات قلبی تھے ، خیالات میں بہت کچھ ہم آہنگی تھی ، سب سے آخر بات یہ کہ وفد خلافت میں جو 1924ء میں جدہ تک جاسکا تھا وہ خاکسار کے ساتھ تھے گو وفد کی صدارت برائے نام میرے نام تھی مگر ان کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جاتا تھا ۔ جدہ کے نہایت پُر خطر موقعوں پر جب جان کا خطرہ بھی تھا وہ برابر ہمت بڑھاتے رہتے تھے۔مکلا،سوڈان، جدہ اور قاہرہ میں ہر جگہ وہ ساتھ تھے افسوس اس وفد کے تین ممبروں میں دو مولانا عبد الماجد بدایونی اور مولانا عبد القادر قصوری چل بسے ، اب صرف ایک باقی رہے معلوم نہیں وہ بھی کئی دن کے لیے۔(معارف،دسمبر 1942ء/ ذی قعدہ 1361ھ ۔ یادرفتگان ، ص:241۔242)

علامہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری

علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ مصنف رحمۃ للعالمین بلند عالم دین،مفسر قرآن ، بلند پایہ محدث، مورخ،محقق اور سیرت نگار تھے ان کے اخلاق وعادات اور سیرت وکردارکے بارے میں سردیوان سنگھ مفتون ایڈیٹراخبار’’ریاست‘‘ لکھتے ہیں کہ

’’ جس نے انسانوں میں فرشتہ دیکھنا ہے وہ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری کو دیکھ لے۔‘‘

مولانا ابو علی اثری قاضی صاحب اور سید صاحب کے تعلقات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

قاضی محمد سلیمان صاحب منصورپوری منصف رحمۃ للعالمین ندوۃ العلماء کے ایک دیرینہ رکن تھے۔ اسی وساطت سے سید صاحب کو ان سے تعارف ہوا اور اس تعارف نے آہستہ آہستہ اُنس ومودت اور اخلاص ومحبت کی صورت اختیار کر لی جب ملاقات ہوجاتی تو دیر تک دونوں بزرگ ہم ذوقی کا لطف اٹھاتے۔ سیرت، جدید مناظرات، کلام اور محاسن اسلام کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو رہتی اور اس لطف میں تھوڑی دیر کے لیے ہر چیز فراموش ہوجاتی۔(سید سلیمان ندوی، ص:208)

قاضی صاحب کی رحلت پر سید صاحب نے معارف میں تعزیتی شذرہ لکھا ، ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔

وہ مشرقی فاضل جس کی موت پر آج ہم کو ماتم کرنا ہے، وہ قاضی محمد سلیمان منصور پوری سابق جج پٹیالہ اور سیرت کی مشہور کتاب’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے مصنف ہیں ۔ وہ علم وعمل،زہد وکمال اور فضل وورع دونوں کے جامع تھے ، روشن دل اور دماغ تھے ان کے جدید وقدیم دونوں خیالات حد اعتدال پر تھے۔ عربی زبان اور علوم دین کے مبصر عالم تھے۔ توراۃ وانجیل پر فاضلانہ وناقدانہ نگاہ رکھتے تھے۔ غیر مسلموں سے مناظرہ کے شائق تھے مگر ان کے مناظرہ کا طرز سنجیدگی،متانت اور عالمانہ وقار کے ساتھ تھا۔ مسلکاً اہل حدیث تھے مگر اماموں اور مجتہدوں کی دل سے عزت اور ان کی محنتوں اور جاں فشانیوں کی پوری قدر کرتے تھے۔ (معارف ، جولائی 1930ء ۔ یادرفتگان ، ص:106)

قاضی صاحب 1348ھ میں حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے اور واپسی پر جہاز میں وفات پائی اور ان کی نعش سمندری لہروں کے سپرد کر دی گئی۔

دریں بحر کشتی فرد شد ہزار

کہ پیدا نشد تختہ بر کنار

مولانا سلامت اللہ جیراج پوری

مولانا سلامت اللہ صاحب حافظ محمد اسلم جیراج پوری استاد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے استاد تھے ، مولانا سلامت اللہ آخر میں نواب صدیق حسن خاں کی طلب پر بھوپال چلے گئے تھے۔ نواب صاحب نے وظیفہ کر دیا تھا اور بھوپال کے بعض مدرسوں کے اہتمام کی خدمت سپرد کر دی تھی۔ 1322ھ / 1904ء میں وفات پائی ہمارے استاد مولانا حفیظ اللہ صاحب بھی ان کے ابتدائی شاگردوں میں ہیں۔ (حیات شبلی ، ص:100)

مولانا عبد الحلیم شرر لکھنوی

مولانا عبد الحلیم شرر بلند پایہ عالم دین ، صاحب تصانیف کثیرہ اور نامور صحافی تھے۔ان کا سن ولادت 1860ء ہے آپ کا جن اخبارات ورسائل کے ساتھ تعلق رہا ، ان کے نام یہ ہیں:

اسسٹنٹ ایڈیٹر اودھ اخبار

ایڈیٹر ماہنامہ دلگراز لکھنو

مولانا شرر نے 1926ء میں وفات پائی۔

علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ

مولانا شرر اپنے نظری مسلک کے لحاظ سے فقہاء اہلحدیث اور عقیدہ اشعری تھے مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے شاگرد تھے۔ (حیات شبلی ، ص:826)

مولانا شرر کی وفات پر سید صاحب نے معارف میں جو مضمون تحریر فرمایا ، اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

مولانا عبد الحلیم شرر لکھنوی ایڈیٹر دلگراز انشاپردازوں میں سب سے پرانے انشاپرداز تھے، 71 برس کی عمر میں بعارضہ فالج وفات پائی۔ مولانا کا میلان زیادہ تر اہلحدیث کے مسئلہ کی طرف تھا اور عقائد میں وہ سخت غالی اشعری تھے ۔ امام ابو الحسن اشعری سے ان کو خاص عقیدت تھی ، وہ عربی ادب، محاضرات وتاریخ کے بھی ماہر تھے ، مرحوم اخلاق کے لحاظ سے باوضع خاکسار، پابند اوقات اور ملنسار تھے ، چھوٹوں سے ملنے میں ان کی عزت وتعظیم اور ان کے کارناموں کی قدر شناسی میں کبھی کوتاہی نہ کرتے تھے۔ دلگرازجو ان کا خاص رسالہ تھا ، جس میں زیادہ تر تاریخی مضامین اور قصص شائع کیا کرتے تھے ، ہماری زبان کے نامور مصنف،ہندوستان کا فخر اور لکھنو کی آبرو تھے، ان کے فانی جسم نے مفارقت کی مگر ان کی ابدی زندگی ان شاء اللہ ہمیشہ قائم اور باقی رہے گی۔ (یادرفتگان ، ص: 74تا 76)

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے