اسلام میں عورت کے کردار پر پہلے بھی بہت اچھا اور معیاری کام ہوچکا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہر گزرتے وقت سے زیادہ آنے والے وقت میں بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ہر آنے والا نیا دور عورت کے کردار کو متزلزل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قرآان میں اللہ پاک نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ

’اے نبی ﷺ جب آپ کے پاس مومنات آئیں تو آپ ﷺ اس بات کی ان سے بیعت لیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھیرائیں گی اور نہ ہی وہ چوری کریں گی اور نہ ہی وہ زنا کریںگی اور نہ ہی وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی وہ بہتان گھڑیں گی جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور معروف کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی بس ان سے بیعت لے لو اور ان کی حفاظت اور مغفرت کے لئے دعا کرو بے شک اللہ تعالی مغفرت فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں ۔(۱)

قرآان پاک میں نہ صرف عورت کے کردار کو بیان کیا گیا ہے بلکہ جتنے بھی اہم مسائل تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں انہی میں سے ایک اہم مسئلہ عورت کا بھی ہے ۔

مختلف مذاہب میں عورت کا مقام

قدیم تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو کسی قدر مستند معلومات ہمیں یونانیوں اور رومیوں کے عہدسے ملتی ہیں۔ انہوں نے تہزیب و تمدن اور علوم و فنون پہ بے انتہا ترقی کی لیکن پھر بھی وہ عورت کے بارے میں ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہےلیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عورت کی قدرو منزلت ان کے نزدیک کیا تھی۔ ان سب کے بارے میں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں لیکن اسلام سے پہلے دنیا میں جتنے بھی مذاہب رہے ہیں ان سب کا مطالعہ کر کے اگر نچوڑ لیا جائے توعورت کی حیثیت کچھ اس طرح سامنے آتی ہے ۔

1  عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے جو ٹیڑھی ہوتی ہے اس لئے عورت کی سوچ کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔

2  عورت کی وجہ سے آدم کو پرسکون جنت سے نکلنا پڑا ۔

3  عقلی اعتبار سے عورت ’ناقص‘ ہے۔

4  عورت مکمل ’فتنہ‘ ہے ۔

5  عورت کی فکر ’صفر‘ ہے ۔

6  عورت کی گواہی ’آدھی ‘ہے ۔

7  مرد کی خوشنودی کرنا ہی عورت کا اصل ’کام‘ ہے۔

8  عورت ’نجس و ناپاک‘ ہے ۔

9  عورت سے مشورہ لینا’ حماقت‘ ہے۔

0  عورت کی مختصر عقل اس کے’ جزبات ‘کے تابع ہے۔

+  عو رت مکرو فریب کا دوسرا نام ہے وغیرہ وغیرہ ۔ (۲)

 قرآن پاک میں عورت کے انفرادی اور اجتماعی، دونوں حقوق و فرائص بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ میں پھر وہی بات دہرائوں گی کہ شاید قارئین کو لگے کہ پرانا موضوع ہے لیکن اس پرانے موضوع کو پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آج کا دور جسے ہم بڑے فخر سے جدید اور ترقی یافتہ دور کہتے ہیں اس میں عورت اسلامی پیرائے میں ڈھلی ہوئی ہے ؟جب تک ہم اسلام سے قبل عورت کی حالت کو نہیں سمجھیں گے، ہم اسلام میں دیئے گئے حقوق اور آزادی کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ اسلام نے کس طرح آکر عورتوں کو ایک نئی زندگی بخشی ۔

 اسلام سے قبل

یہاں اسلام سے قبل عورت کے مقام و مرتبے کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ ہم خواتین اس بات کو اور زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں کے اسلام نہ صرف ایک نیا اور مکمل دین ہمارے لئے لایا بلکہ خواتین کے لئے نئی زندگی بھی لیکر آیا۔ اسلام سے قبل دنیا نے عورت کو ایک غیر مفید چیز سمجھ کر پستی کے ایسے دلدل میں پھینک دیا تھا جس کہ بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی ۔ اسلام سے قبل عورت کی قدرو منزلت کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) جب ان میں سے کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو (غم کی وجہ سے) اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے (۳)

یعنی اسلام سے قبل بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جا تا تھا۔ اسلام ہی وہ پہلا دین ہے جس نے اس حرکت کو حرام قرار دیااور عورت کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ اس کی عزت کا بھی خوب اہتمام کرتے ہوئے اللہ تعا لی نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ

’’اور جب زندہ گاڑھی ہوئی بچی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی۔‘‘(۴)

 اسلام سے قبل عورت وراثت سے محروم تھی لیکن اسلام نے آکر اسے وراثت میں حصے دار بنایا۔ اسلام سے پہلے عورتوں پر ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ انہیں زبردستی ورثے میں لے لیتے تھے ۔ یعنی اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجاتا تو اس کے وارثوں میں سے کوئی بھی شخص اس عورت پر کپڑا ڈالتا اور اس کا وارث بن جاتا تاکہ میت کے جس مال کی وارث وہ عورت ہے ، اس مال کا وارث وہ بن جائے ۔ اس طرح وہ شخص عورت کے نفس کا اس عورت سے بھی زیادہ حق دار ہوجاتا اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا۔(۵) اور فرمایا کہ

اے ایمان والو!تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔‘‘(۶)

 جب اسلام آیا تو زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ عورت کو نکاح سے روکے رکھتے اس کو اس کے حق سے بھی محروم رکھتے اور شوہر اپنی بیوی کو اس وقت تک طلاق نہ دیتا جب تک وہ عورت اس کو اپنے اوپر خرچ کیا ہوا مال واپس نہ لوٹا دیتی ۔باپ اپنی بیٹی کو اور بھائی اپنی بہن کواگر چاہتے تو شادی سے روکے رکھتے ۔ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اسے فدیے (حق مہر کی واپسی) کے سوا طلاق دیتا۔ اسلام نے اس عمل کو بھی سخت ناپسند کیا ۔(۷)

 قرآن میں ارشاد ہے کہ

اور ان کو اس لئے نہ روک رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں۔(۸)

 اسلام سے قبل عورت اپنے شوہر کے ظلم و ستم کا شکار تھی۔  اسلام نے آکر اس کی ممانعت کی اور حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو جیسا کہ تم اپنے ساتھ کرتے ہو اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں جس عورت کا شوہر فوت ہو جاتا اس کی عدت ایک سال ہوتی تھی جس کو اسلام نے تخفیف کرکے ایک تہائی کردیاور حکم دیا کہ

تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور (دس) دن عدت میں رکھیں ۔(۹)

ہم نے اندازہ لگایا کہ اسلام سے قبل عورت کس قدر پستی اور ذلت کا شکار تھی ۔ اسلام نے آکر عورت کے لئے صدائے احتجاج بلند کیا اور اسے معاشرہ کا نا صرف ایک فعال رکن قرار دیابلکہ مرد کے برابر کا درجہ بھی دیا ۔

اسلام میں عورت کے حقوق و فرائض

ہم نے مختلف مزاہب میں اور اسلام سے قبل عورت کے مقام و مرتبے کا جائزہ لیا ۔ اب اگر ہم قرآن کی روشنی میں عورت کا مقام دیکھیں تو قرآ ن دوسرے مزاہب کے بر عکس عورت کے کردار کو پانچ اہم شعبوں سے تقسیم کرتا ہے ۔

1  مساوات               2  درجات

3قانونِ شہادت         4 قانونِ وراثت

5  حدودوتعزیرات (۱۰)

اور جو کوئی نیک عمل کرے گا ، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔(۱۱)

اسلامی معاشرے میں جس طرح مردوں کے کچھ حقوق ہیں بالکل اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح جس طرح مردوں پر کچھ فرائض ہیں اسی طرح عورتوں پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ بحیثیت ایک شہری تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے بحیثیتِ مرد اور بحیثیتِ عورت ان دونوں کے حقوق اور فرائض میں اختلاف ضرور ہے ۔

اسلام عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ الگ قرار دیتا ہے جس کی بنا پر جدید دور کا انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد سے کم درجہ دیا ہے ۔(۱۲)

 اسلام مساواتِ مرد و زن کے مغربی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتاجس کی رو سے مرد اور عورت کی صلاحیتیں زندگی کے ہر شعبے میں برابر ہیں ۔ کیونکہ اسلام نے عورت پہ خاندان کی کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہوئی ہیںلہٰذا ان کی موجودگی میں عورت پہ ریاستی ذمہ داریاں ڈالنا خلافِ انصاف ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی جو حالت تھی اس سے اہلِ علم اچھی طرح باخبر ہیں۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیا ہے ، اس کے حقوق و رعایات کا وہ سامان مہیا کیا ہے جس کی مثال کسی اور تاریخ میں نہیں ملتی۔ عورت اگر بیٹی ہے تو اس کی کفالت والدین کے ذمہ ہے، اگر بیوی ہے تو اس کی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے، اگر ماں ہے تو اولاد اس کی ذمہ داری پوری کریگی اور اگر بہن ہے تو بھائی اس کی نگہداشت کریں گے۔ گویا اسلام نے عورت کو زندگی کے ہر درجے میںاور عمر کے ہر حصے میں معاشی یا معاشرتی پریشانیوں سے محفوظ کر دیا ہے۔ حفاظت و عافیت کا یہ حصار صرف مزہبِ اسلام نے ہی قائم کیا ہے۔ (۱۳)

اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے ۔(۱۴)

حقوق کے حوالے سے اگر ہم بات کریں توہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے مرد اور عورت کو برابری کے حقوق دیئے ہیں  جس میں سب سے پہلے تو اسلام نے عورت کو عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا ہے۔ اسے پرورش کا حق دیا ہے، تعلیم کا حق دیا ہے، نکاح کا حق، مہر کا حق، نان و نفقہ کا حق، کاروبار اور عمل کی آزادی کا حق، مال و جائیداد کا حق، عزت و آبرو کا حق، تنقید و احتساب کا حق غرض کہ کہیں بھی اسلام نے عورت کو حقوق دینے میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔نکاح و طلاق میں اس کی پسندیدگی و نا پسندیدگی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اسلام نے نکاح و طلاق میں اسے خاص حقوق عطا کیے اسی طرح اسے وہ تمام تمدنی اور معاشرتی حقوق عطا کیے جو مردوں کو حاصل تھے ۔

اللہ پاک نے عورت پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں جن کو پورا کرکے وہ اپنے خاندان کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالتی ہے اور ان فرائض کو پورا کرنے کے بعد ہی اس کا کردار نکھر کر سامنے آتا ہے۔ بحیثیت ماں عورت کی اہمیت کا اندازہ اس جملے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘یعنی ماں کو اللہ رب العزت نے اتنا بڑا درجہ دیا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔(۱۵)

ماں کے حمل کی مشقت اور رضاعت وہ عمل ہیں جن کی بدولت اللہ نے ماں کو اتنا بڑا درجہ دیا ۔ موجودہ دور میں جو کہ فتنوں سے بھرا ہوا ہے ، اس میں ماں کے اوپر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرکے اس کے ذہن میں اسلام کا نقش قائم کرے اور دوسری یہ کہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت کے ساتھ نئی نسل کو غیر اسلامی تہذیب و معاشرت سے بھی بچائے ۔ دینی تعلیم میں صرف نماز روزہ کی تلقین ہی نہیں بلکہ دین میں غورو فکر کرنااور قرآن کو بطورِ ہدایت سمجھنے پر بھی زور دینا شامل ہے ۔

بحیثیت بیوی اللہ تعا لی نے عورت پہ بہت فرائض متعین کئے ہیں ۔ ان میں شوہر کی عزت، اپنی عزت کا خیال رکھنا، اس کے مال اور اولاد کی نگرانی کرناشامل ہیں۔  اسی طرح عورت پر پردے کے احکامات بھی عائد ہوتے ہیں جن کی بنا پر اس پر فرض ہے کے اسلامی احکامات کی پابندی کرے۔قرآن پاک میں ان احکامات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریںسوائے اپنے خاوند کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے ۔( ۱۶)

اب اگر ہم جدیددنیا کی عورت پہ نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو حقوق مسلمان عورت کو اسلام نے چودہ سو سال پہلے دئیے تھے ان کی ابتدا ہماری جدید دنیا میں انیسویں صدی سے ہوئی ہے اور صحیح معنوں میں کامیابی بیسویں صدی میں آکر ہوئی ۔ بیسویں صدی کے نصف ثانی تک بیشتر معاشروں میں عورتوں کو مردوں جیسے قانونی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔مانا کہ بہت سی خواتین نے کئی حقوق حاصل بھی کرلئے لیکن ابھی بھی کئی مردوں کا خیال ہے کہ وہ ان کہ ہم پلہ نہیں ہیں ۔زیادہ تر مردوں نے خواتین کو ایک محدود کردار سے آگے بڑھنے کی مخالفت کی ہے۔ (۱۷)

عورتوں کے عقلی طور پر گھٹیا ہونے کے مقبولِ عام خیال نے زیادہ تر معاشروں میں عورتوں کی تعلیم کو محدود رکھنے پر مائل کیا ۔ انیسویں صدی سے پہلے تک عورتوں کو مساوی حقوق دینے سے انکار پر کبھی کبھار احتجاج ہوا جس کے کوئی دیرپا نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ کیونکہ زیادہ تر عورتیں تعلیم کی کمی اور مالی وسائل کی کمی کا شکار تھیں لہٰذا اپنی کمتر حیثیت کو قبول کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بہت سے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق صرف امیر طبقے کو ہی حاصل تھے ۔جس کی بناء پر عورتوں کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ بھی مالی مسائل کا شکار تھا۔ (۱۸)

انیسویں صدی میں یورپ و شمالی امریکہ کی حکومتوں نے جب مردوں کی مساوات کی ضمانت دینے والے نئے قوانین تیار کرنا شروع کئے تو عورتوں نے اور ان کے ساتھ کچھ مردوں نے بھی عورتوں کو مساوی حقوق دینے کا مطالبہ کیا ۔ساتھ ہی یورپ اور شمالی امریکہ میں صنعتی انقلاب نے مرد اور عورت کے کردار کو مزید الگ کردیا۔ صنعتی انقلاب سے قبل زیادہ تر لوگ کھیتوں میں کام کرتے تھے جس کے لئے گھروں سے باہر نہیں جانا پڑتا تھا ۔ عورتوں اور مردوں نے بہت سے کام آپس میں بانٹ رکھے تھے ۔ صنعت کاری نے مردوں کو گھر سے دور رہنے پر مجبور کیااور گھر اور کام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ عورت کا جائز مقام گھر میں ہے اور مرد کے ذمہ معاشی ذمہ داری ہے ۔  ۱۹۲۰  اور ۱۹۶۰ میں جا کر خواتین اپنے کچھ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔(۱۹)

یہاں اس بحث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مسلمان عورت کو کبھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھانی پڑی ۔ اللہ سبحان تعالی نے اسے پہلے ہی سے اس سے بڑھ کر اور بہتر حقوق عطا کئے ہیں ۔ ہمیں ان حقوق کے لئے نہ تو کہیں احتجاج کرنا پڑا اور نہ ہی کہیں کسی پلیٹ فارم کو استعمال کرنا پڑا ۔ مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ ان حقوق کی قدر کرے اور ان کا غلط استعمال نہ کرے اگر عورت اللہ کی نظر میں اچھا بننا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرےجو عورت اپنی ذمہ داریوں کواحسن طریقوں سے ادا کرتی ہے تو اس کا حق اس کو ضرور ملتا ہے۔ ذمہ داریوں کو بھول کر حق مانگنا کسی اسلامی عورت کا شعار نہیں ہے ۔

اے دخترِ اسلام

لگتی ہے کلی کتنی بھلی شاخِ چمن پر

ہاتھوں میں پہنچ کر کوئی قیمت نہیں رہتی

جو شمع سرعام لٹاتی ہے اجالے

اس شمع کی گھر میں کوئی عزت نہیں رہتی

تسلیم کہ پردہ ہوا کرتا ہے نظر کا

نظروں میں بھی برداشت کی قوت نہیں رہتی

مردوں کے اگر شانہ بشانہ رہے عورت

کچھ اور ہی بن جاتی ہے، عورت نہیں رہتی

جھانک اپنے گریبان میں کیا ہو گیا تجھ کو

حیرت سے تجھے تکتا ہے آئینۂ ایام

اے دخترِ اسلام

خود اپنی جڑوں پر ہی چلاتی ہے درانتی

بربادی احساس ِ نمو مانگ رہی ہے

کب بخشی گئی ہیں تجھے آزادیاں اتنی

جو حق ہی نہیں ہے تیرا تو مانگ رہی ہے

میں تو ترے ماتھے پہ پسینہ بھی نہ دیکھوں

مجھ سے میری غیرت کا لہو مانگ رہی ہے

جنت ہے تیرے پائوں میں فرمایا نبی ﷺ نے

دریا پہ کھڑی ہوکہ سبو مانگ رہی ہے

وہ رتبۂ عالی کوئی مذہب نہیں دیتا

کرتا ہے جو عطا عورت کو مذہبِِ اسلام

اے دخترِ اسلام

( مظفر وارثی)

حوالہ جات

  ۱ ۔ سورۃالممتحنہ،  آیت نمبر ۱۲

  ۲ ۔ قرآن کی نظر میں عورت، ہما آغا، فینسی پرنٹ، کراچی،  ۲۰۰۶، ص نمبر  ۱۲

  ۳ ۔ سورۃ النحل، آیت نمبر  ۵۸

  ۴  ۔سورۃالتکویر ، آیت نمبر  ۹،۸

  ۵ ۔ تحفہ نسواں مسلم خواتین کے مخصوص مسائل اور فرائض ، ڈاکٹر صالح بن فوزان، ادارہ مطبوعاتِ خواتین، لاہور

  ۶  ۔سورۃالنساء،  آیت نمبر ۱۹

  ۷ ۔ تحفہ نسواں، ایضا ،  ص نمبر  ۱۹

  ۸  ۔سورۃالنساء،  آیت نمبر  ۱۹

  ۹ ۔ سورۃ البقرہ،  آیت نمبر  ۲۳۴

  ۱۰  ۔ہما آغا ، ایضا ، ص نمبر  ۱۳

  ۱۱ – سورۃ النساء ،  آیت نمبر  ۱۲۴

  ۱۲ – خاتونِ اسلام، مولانا وحید الدین خان،  فضلی سنز، کراچی،  ۱۹۹۸

  ۱۳ – عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین، حافظ صلاح الدین یوسف، دارالاسلام، کراچی

  ۱۴  ۔سورۃالبقرہ، آیت نمبر ۲۲۸

 ۱۵ ۔سورۃ الاحکاف،  آیت نمبر ۱۵

  ۱۶ ۔سورۃ النور، آیت نمبر  ۳۱- ۲۴

 ۱۷ ۔ عالمی انسائیکلو پیڈیا، یاسر جواد، الفیصل، لاہور،  ۲۰۰۹، ص نمبر ۱۴۰۴

  ۱۸  ۔ا یضا

  ۱۹ ۔ایضا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے