فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ( البقرۃ: 193)

’’اے ایمان والو !تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو  ۔‘‘
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، کتاب الإیمان ، الحدیث:8)

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘
سیدنااُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا

يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَمْ أَرَکَ تَصُوْمُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُوْرِ مَا تَصُوْمُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ : ذَالِکَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيْهِ الأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِيْنَ فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.( نسائي، السنن، کتاب الصيام، باب صوم النبي صلی

الله عليه وآله وسلم بأبي هو وأمّي وذکر اختلاف الناقلين للخبر في ذلک، الحدیث: 2357 ) ’’یا رسول اﷲ! جس قدر آپ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اس قدر میں نے آپ کو کسی اور مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا،آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان میں (آتا) ہے اور لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں حالانکہ اس مہینے میں (پورے سال کے) عمل اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل روزہ دار ہونے کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔‘‘
ماہ شعبان ماہ رمضان کے لئے مقدمہ کی مانند ہے لہٰذا اس میں وہی اعمال بجا لانے چاہئیں جن کی کثرت رمضان المبارک میں کی جاتی ہے یعنی روزے اور تلاوتِ قرآن ۔ علامہ ابن رجب حنبلی لطائف المعارف (ص : 258) میں لکھتے ہیں :’’ماہ شعبان میں روزوں اور تلاوتِ قرآن کی کثرت اِس لیے کی جاتی ہے تاکہ ماہ رمضان کی برکات حاصل کرنے کے لئے مکمل تیاری ہو جائے اور نفس، رحمن کی اِطاعت پر خوش دلی اور خوب اطمینان سے راضی ہو جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایک مرتبہ پھر رحمتوں، بخششوں ، عظمتوں اور مغفرتوں والا ماہ مقدس سایہ فگن ہونے جا رہاہے ۔مساجد کی رونق بڑھ جائے گی فرزندانِ توحید تقوی کے حصول کیلئے دنیاوی ناز ونعم کو ترک کرکے اپنے رب رحیم وکریم کا حکم بجا لانے میں مستعد ہوجائیںگے سارا سال کاہلی اور سستی کرنے والا مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہ کر کوشش کرے گا کہ برے کاموں سے بچا رہے ۔ درحقیقت روزہ اسی کا ہے جو کھانے ، پینے ، شہوت ، غیبت ، بدزبانی ، بداندیشی اور بدعملی سے مکمل اجتناب کرے روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ تمام منکرات سے بچنے کا نام ہے جو روزے دار روزہ رکھ کر بھی غیبت ، گالی گلوچ، مکروفریب ، رشوت ،قماربازی ،سود خوری ، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور بدنظری سے نہیں رکتے وہ روزے کی روح سے نابلد ہیں ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

’’مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ أَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ (صحیح البخای ، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :1903)

’’ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ اور بدعملی سے نہیں رکتا(اس سے کہہ دو) کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی بھوک اور پیاس کی ضرورت نہیں۔‘‘

دوسری جگہ ارشادفرمایا:اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ فَلاَ یَرْفُثْ وَلاَ یَجْہَلْ وَاِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَہُ أَوْ شَاتَمَہُ فَلْیَقُلْ إِنِّیْ صَائِمٌ مَرَّتَیْنِ (صحیح البخاری ،کتاب الصوم، حدیث نمبر :1891)

’’روزہ شیطان کے حملوں سے بچنے کیلئے ایک ڈھال ہے روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بدزبانی اور جہالت سے اجتناب کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالیاں دے تو اسے دو مرتبہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔
اسلام کا مقصد بھی ایسے ہی رجال کارکی تیاری ہے جو خواہشات ، جذبات اور اعمال میں متوازن ہو، جو خواب وخور،گفت وشنید، خندہ وگِریہ، جسم وروح اور دنیا وآخرت میں توازن قائم رکھتے ہوں۔تمام بد اعمال لوگ مثلاً : راشی اہل کار، انصاف فروش حکّام وقضاۃ، عیاش سرمایہ دار، لامذہب اساتذہ وطلباء اور گراں فروش تجار اس ماہ مقدس میں بھی اس توازن کو اپنے جذبات ،اعمال اور حرکات سے درہم وبرہم کررہے ہوتے ہیں جبکہ روزہ تو اس توازن کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعہ ہے جس طرح فوج کو جفاکش بنانے کیلئے ہر سال ایک دوماہ کیلئے جنگلوں اور پہاڑوں میں رکھا جاتاہے جہاں سپاہی ہر روز میلوں پیدل چلتے اور پہروں بھوکے پیاسے رہتے ہیں اور اِسے کیمپ لائف کہا جاتاہے اسی طرح ماہ رمضان المبارک امت مسلمہ کیلئے کیمپ لائف ہے خود ہی غور فرمائیے کہ جولوگ اپنی محبوب ترین چیزوں کو اس کی فطری محبت کے باوجود چھوڑ کررب کریم کا قرب اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہر روز کم از کم چودہگھنٹے بھوکے اور پیاسے رہتے ہیں پانچ نمازوں کے علاوہ تراویح اور تہجد کی بھی پابندی کرتے ہیں ، سحری کے بعد دیر تک تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول رہتے ہیں۔ تمام گناہوں سے بچتے ہیں ، پورا مہینہ اللہ تعالیٰ کے تصور میں ڈوبے رہتے ہیں غرباء ، مساکین ، ایتام اور ضرورت مندوں سے ہمدردی کرتے ہیں اپنی کمائی کا خاصہ حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو تقدس اور توازن کی مطلوبہ منزل کو پہنچ سکتے ہیں۔
روزے کا بنیادی مقصد تعمیر سیرت ہے اس روزے سے نہ صرف تزکیہ نفس ہوتاہے بلکہ اس کی بدولت انسان مادی خواہشات ، لالچ اور طمع جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرتاہے اور روزے سے روحانی تربیت ہوتی ہے اس سے ذہنی اور جسمانی نظم وضبط پیداہوتاہے انسانیت سے محبت کا شعور اجاگر ہوتاہے رمضان میں عبادت کے ذریعے انسان انفرادی تربیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی تربیت بھی حاصل کرتاہے جس کے نتیجے میں مساوات پر مبنی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پاتاہے۔
رمضان المبارک حقوق اللہ کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص محروم طبقات کی جانب متوجہ ہونے کا اہم ذریعہ بنتاہے کیونکہ انسان خود بھوکا پیاسا رہ کر دوسروں کی فاقہ کشی کابخوبی احساس کرسکتاہے۔
اس ماہ مبارک میں قرآن پاک نازل ہوا اس لیے رمضان و قرآن کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے اس ماہ مقدس میں کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کر کے اپنے دل کی اجڑی بستی کو آباد کیا جاسکتاہےتاکہ وہ دل کے زنگ کو دھونے کا ذریعہ بن سکے اور اللہ تعالی کا بھی ارشاد گرامی ہے:

إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً یَرْجُونَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُورَ لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ  (فاطر: 29۔30)

’’ وہ جو لوگ اللہ تعالی کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جس میں کوئی خسارہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالی ان کو پورا پورا اجر عطا فرمائے گا اپنے فضل سے ان کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا اور قدرت والا ہے۔ ـ‘‘
اور قرآن پاک کی تلاوت سے انسان کے خیالات ، احساسات اور فکر پاک ہوتی ہے جب اس کے اندر پاکیزگی آجاتی ہے تو ظاہر بھی صاف ہوتا چلا جاتاہے اس کیلئے ضروری ہے کہ قرآن مجیدکو کثرت کے ساتھ اور سمجھ کر پڑھا جائے جس سے اخلاق حسنہ پیدا ہوتے ہیں اور تعلق باللہ بڑھتاہے ۔
قرآن پاک ایک بات بہت زور دے کر کہتاہے اس پر بھی غور کیا جائے وہ یہ ہے کہ ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے کیونکہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے قرآن کریم کا یہی پیغام ہے کہ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔
بقول شاعر :             جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے            یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
روزہ مسلمانوں کو نظم و ضبط ، صبر و استقامت ، ایثارو قربانی، اتحادویگانگت، باہمی اخوت، محبت والفت، مساوات ، ضرورتمندوں سے حسن سلوک ، انفاق ، مؤثر پلاننگ اور اپنے دشمن کو پہنچانے کا اور اس سے فی سبیل اللہ نبرد آزما ہونے کا بھی درس دیتا ہے۔
رمضان المبارک تقوی و صبر کا مہینہ ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے طاقت اور جذبۂ ایمانی کے عملی مظاہرے کا مہینہ ہے اسی ماہ میں غزوہ بدر کا عظیم معرکہ پیش آیا تھا جس میں مسلمانوں نے کئی گنا طاقت ور دشمن کو شکست دی یہ ماہ رحمت مسلمانوں کو دنیا کے فرعون کے خلاف مقابلہ اور طاغوت کے خلاف کھڑا ہو جانے کا پیغام دیتا ہے۔
ماہ ِ رمضان مسلمانوں کو درس دیتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! بلا شبہ روزہ تمہیں صبرو عظمت سکھاتا ہے لیکن صبر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی مدر پدر آزاد، پلید، رحمت دو جہاں، محبوب کائنات ﷺکی شان اقدس میں کسی طرح بھی گستاخی کرے اور تم خاموش تماشائی بنے رہو نہیں بلکہ غازی عبد القیوم شھید ، غازی علم الدین شھید ، عامر عبدالرحمن چیمہ شھیداور شھیدۃ الحجاب کی طرح اپنی جان سے آگے گزر جاؤ۔
الغرض روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ پوری زندگی کو کتاب و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کی عملی تربیت کا نام ہے تاکہ دنیا و آخرت میں کا میابی و کامرانی حا صل ہو سکے اور یہی استقبال رمضان اور پیغام رمضان المبارک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے