مسلسل محنت

 وَ جَاهِدُوْا فِي اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ (الحج:78)

’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔‘‘
جہاد کا لفظ ’’جُہَدْ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہے ’’کوشش کرنا ‘‘ مسلم اور غیر مسلم کی کوشش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیرمسلم کی کوشش صرف دنیا کے لیے ہوتی ہے ایسا شخص بظاہر نیکی کاکام بھی کرے تو اُس کے پیچھے بھی دنیا کا مقصد کار فرما ہوتاہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے رب کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر کرتا ہے کیونکہ اس کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے کوشش کرو جس طرح کوشش کرنے کا حق ہے۔

وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاوَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ (العنکبوت:69)

’’جو لوگ ہمارے لیے محنت کریں گے ہم انہیں اپنے راستے ضرور دکھائیں گے اور یقیناً اللہ نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘
حالات جیسے بھی ہوں اگر کوئی حق کی جستجو اور آزمائشوں کا مقابلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کیلئے راستے ہموار کر دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتاہے۔ ’’سبیل‘‘ کی جمع ’’سُبُلٌ‘‘ اور اس کے ساتھ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جمع کی ضمیر میں رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے ۔’’سُبُلٌ‘‘کے ساتھ جمع کی ضمیر لا کر یقین دلایا ہے کہ انسان کا کام خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حق تک پہنچنا آسان کر دے گا اور اپنے راستوں میں کوئی نہ کوئی آسانی کاراستہ ضرورنکال دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى (النجم:39۔40)

’’اور انسان کے لیے وہی کچھ ہوگا جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اور یقیناً اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔‘‘
قرآنِ مجید کی یہ تعلیم ہے کہ ہر انسان نے اپنا اپنا بوجھ اٹھانا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ اس لیے ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے دنیا میں کمایا اورعنقریب ہر کوئی اپنا کیا ہوا دیکھ لے گا اور ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْيَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىِٕكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَّشْكُوْرًا (الاسراء:19)

’’جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی اور وہ مومن ہوا ان لوگوں کی کوشش کی قدر افزائی کی جائے گی ۔‘‘
اقوام کی تباہی میں بنیادی عنصر ان کی جلد بازی ہوا کرتا ہے ۔ جس کی بناء پر وہ اصول کے مقابلے میں وقتی مفاد ، صالح کردار کے مقابلہ میں دنیا کی لذّات، سہولیات اور آخرت کے بدلے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جس وجہ سے ذلت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں نے آخرت کو پسند کیا اور اس کے لیے کوشش کی اس حال میں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولe پر ایمان رکھنے والے ہیں ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی ۔ یہاں آخرت کے لیے ’’سعی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ مومن کو دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینی اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ آخر ت کا صلہ کوشش کے بغیر نہیں ملے گا۔

يَاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ يُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَانَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَتْحٌ قَرِيْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ  (الصف:10تا 11)

’’اے ایمان والو!کیا میں تم کو وہ تجارت نہ بتاؤں؟ جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دے۔ وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں  جہاد کرو، اگر تم اس کی حقیقت سمجھ جاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کرے گااور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور تمہیں ہمیشہ کی جنتوں میں بہترین گھر عطا فرمائے گا،یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور وہ چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی دے گا اللہ کی مدد اور فتح عنقریب آنے والی ہے، اے نبی!اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کونفع اورنقصان کاشعور بخشا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ریڑھی بان کومعلوم ہوجائے کہ میرا سودا فلاں چوک اور فلاں بازار میں زیادہ بِک سکتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں وہاں ریڑھی لگائوں۔ مزدور کومعلوم ہو کہ مجھے فلاں شہر میں زیادہ مزدوری ملے گی، تو وہ زیادہ مزدور ی پانے کے لیے اپنے بال بچے چھوڑ کر اس شہر کارخ کرتا ہے۔ منافع اور فائدے کے لالچ میں ہی لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوردراز کے ملکوں میں جاکر نوکری اورتجارت کرتے ہیں۔ گویاکہ بنیادی طور پر ہر انسان کواپنے نفع اورنقصان کا شعور دیا گیا ہے، اس شعور کو دین اورآخرت کی خاطر استعمال کرنے کا حکم ہے۔ اے ایمان والو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاتا ہوں کہ جس میں کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا بنیادی اور دائمی فائدہ یہ ہے کہ تمہارے گناہ معاف ہوں گے اورتمہیں عذابِ الیم سے نجات حاصل ہو گی اور تمہیں اس جنّت میں داخل کیاجائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہاں صاف ستھرے ،اعلیٰ اورپاکیزہ مکانات ہیں،اس جنّت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، جسے اس میں داخلہ نصیب ہوا اس کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے،ہاں تم پسند کرتے ہو کہ تمہیں دشمن پر فتح حاصل ہو وہ بھی تمہیں حاصل ہو گی۔
جس تجارت کے بدلے تمہیں ہمیشہ کی جنّت اور دشمن پرکامیابی حاصل ہوگی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اوراس کے رسول پر سچا ایمان لائو اور اللہ کے راستے میںاپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو،یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت سمجھ جائو۔ یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ میدانِ کارزار میں اترنے سے پہلے مال و جان کے ساتھ کوشش کرنا پڑتی ہے، جہاد کامعنٰی اللہ کے راستے میںکوشش کرنا اورقتال فی سبیل اللہ اس مقصد کے لیے انتہائی اقدام ہے۔ اس لیے یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں ہر وہ کوشش شامل ہوگی جودین کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی سربلندی کے لیے کی جائے گی۔
مبلغ کو ’’اللہ‘‘ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوناچاہیے

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الزمر:53)

’’اے نبی کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوںیقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور ورحیم ہے۔‘‘
ربِ کریم نے اپنے بندوں کو بڑے پیار اور دلرُباانداز میں بلایا اوریقین دلایا ہے کہ اے میرے بھٹکے ہوئے بندو ! تمہیں مایوس ہونے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آئو میری بارگاہ میں آجائو تم جیسے بھی ہو میرے ہی بندے ہو میری رحمت بے کنارہے لہٰذا میری رحمت سے مایوس نہیںہونا یقین کرو کہ میں تمہارے سارے گناہ معاف کردوں گا کیونکہ میں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں۔ اس آیتِ کریمہ کی بار بار تلاوت کریں اور اس کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ اپنا عظیم نام ’’اللہ‘‘ لے کر بندوں کو تسلّی دی ہے جس کا یہ معنٰی بھی بنتا ہے کہ اے نبی! میرے بندوں کو میرا نام لے کر کہیں کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف گناہوں کی بخشش کے بارے میں مایوس نہیں ہونا بلکہ کسی معاملہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے بالخصوص ایک مبلغ کو بالکل مایوس نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے کام میں مگن رہنا چاہیے۔ اس لیے سیدنایعقوب u  نے اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی:

وَ لَا تَيْــــــَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِنَّهٗ لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ (یوسف:87)

’’ اللہ کی رحمت سے مایو س نہ ہونا ، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں ۔ ‘‘
سیدنایوسف u کی جدائی میں سیدنایعقوب u ہر وقت خاموش اور غمگین رہتے تھے۔ اس غم نے سیدنایعقوب uکو ان کی عمر سے پہلے ہی بوڑھا کر دیا تھا۔ طویل مدت گزرنے کے باوجود ان کا غم پہلے دن کی طرح تازہ تھا اس کے ساتھ ہی سیدنایعقوب uکو صدمے پر صدمہ پہنچتا ہے۔ پہلے یوسفu  آنکھوں سے اوجھل ہوئے پھر بنیامین اور یہودہ بھی مصر میں رہ گئے۔ اس کے باوجود سیدنایعقوب u اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب بیٹوں نے انہیں یہ بات کہی کہ آپ یوسف کو یاد کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ آپ ہلاک ہو جائیں۔ اس پر سیدنایعقوب u نے فرمایا: میرے بیٹو! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تم جائو یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔

قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِيْنَ قَالَ وَمَنْ يَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ (الحجر:55تا56)

’’انہوں نے کہا ہم نے تجھے سچی خوشخبری دی ہے ،آپ ناامید ہونے والوں سے نہ ہوں۔ اس نے کہا اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہو تا ۔‘‘
یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے پیغمبرe !آپ اپنے مخا لفین کو ابراہیمu کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب انہوں نے سیدنا ابراہیمu کی خدمت میں پیش ہو کر سلام عرض کیا۔ سیدناابراہیمu نے انہیں فرمایا ہم تو آپ سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ ملائکہ نے عرض کیا ہم سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم آپ کو ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ سیدناابراہیم u نے انہیں فرمایا یہ کیسی خوش خبری ہے؟ میں تو بڑھاپے کی آخری دہلیز پر کھڑا ہوں۔ ملائکہ نے عرض کیا آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سیدناابراہیمu فی الفور فرمانے لگے میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ اس کی رحمت سے مایوس گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔
حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضرور بہ ضرور سرفراز فرمائے گا ۔اللہ تعالیٰ اسباب کا پابند نہیںاسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ لہٰذا کسی بھی صورت میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
’’سیدہ عائشہr کے بھانجے عروہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ r نے نبی کریمeسے عرض کیا،کیا آپ پر اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ۔ جب میں نے ابن عبد یا لیل بن عبدکُلال کو دعوت دی۔ اس نے میری اُمید کے خلاف ردّ عمل دیا۔ میں انتہائی افسردہ ہو کر واپس پلٹا ۔ میرا غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا اور میں قرن ثعالب کے قریب تھا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل مجھ پر سایہ کیے ہوئے تھا۔ دیکھاتو اس میں جبرائیلu تھے۔ اس نے مجھے آواز دی اور کہا آپ کی قوم کا جواب اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے۔ آپ اسے جو حکم دینا چاہتے ہیں دیں۔ مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی۔ اس نے مجھے سلام کہتے ہوئے کہا اے محمدe! آپ ان کے متعلق جوحکم دینا چاہیں دیں میں حاضر ہوں۔ آپ چاہتے ہیں تو میں انہیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیتاہوں ۔

فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللہَ  وَحْدَہُ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا (رواہ البخاری:باب اذا قال أحدکم آمین والملائکۃ فی السماء)

نبی کریمeنے فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور شرک سے بچنے والے ہوں گے۔ ‘‘
توکل کرنا

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِيْنِ (النمل:79)

’’ ا ے نبی اللہ پر بھروسہ رکھیں یقیناً آپ واضح طور پر حق پر ہیں۔‘‘

وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ(الشعراء:117)

’’اللہ غالب اور مہربان پرتوکل کرو۔‘‘
ا لدّاعی کا کام لوگوں کو بار بار دعوت دینا ہے اگر لوگ نہیں مانتے تو اُسے اپنے رب پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے ۔
نبی اکرمeرات کی تاریکیوں میں رو،رو کر دعائیں کرتے کہ اے رب العالمین! ان لوگوں کو ہدایت سے سرفراز فرما لیکن لوگ ہدایت حاصل کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھے جا رہے تھے، جس پر آپ کو انتہائی غم ہوتا، اس صورت حال کے پیش نظر آ پ کو دوطرح سے تسلی دی گئی ان لوگوں سے کھلے الفاظ میں کہہ دیں کہ میں تمہارے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ میں تم سے ڈرتا ہوں کیونکہ میرا بھروسہ ’’اللہ ‘‘ پر ہے وہی مجھے کافی ہے۔جب چاہے گا حق کو غلبہ عطا فرما ئے گا وہ نہایت مہربان ہے اور مجھے ہرحال میں دیکھ رہا ہے۔
الدّاعی کا کام لوگوں کو سمجھانا ہے اگر اُس کے مخاطب سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُسے دل گرفتہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ اُلجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے عمل کا جواب دینا ہے یہی بات سرورِ دو عالم eکو سمجھائی گئی کہ ایمان نہ لانے والوں کو یہ بتلائیں کہ میں تمھارے اعمال سے بری ٔ الذمہ ہوں ۔مجھے حکم ہے میں اپنے رب پر بھروسہ کرو ں جو ہر بات پر غالب اور نہایت مہربان ہے ۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِيْ لَا يَمُوْتُ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِهٖ وَكَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا(الفرقان:58)

’’ اے نبی اس ذات پربھروسہ رکھو جو زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو پوری طرح جانتا ہے۔‘‘
نبی کریم eکو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کو دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ان سے کسی قسم کے اجر کے طالب نہیں جسے بوجھ سمجھ کر یہ آپ کی مخالفت پر اُتر آئے ہیں آپ ان کی اصلاح اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے مصائب اور مشکلات برداشت کر رہے ہیں تو اس رب پر بھروسہ کیجیے جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔

فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ(التوبۃ:129)

’’ اگر وہ منہ موڑلیں تو فرما دیں مجھے اللہ ہی کافی ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے ۔ ‘‘
نبی پاک کو تسلّی دینے کے ساتھ یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرف سے اعراض ہویا ان کی طرف سے آپ کے بارے میں عدم توجہ کی جائے تو آپ کو کسی صورت میں بھی دل چھوٹا اور حوصلہ نہیں ہارنا کیونکہ آپ عرش عظیم کے مالک کے نمائندہ ہیں اس لیے آپ کو لوگوں کی مخالفت اوران کی عدم توجہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔بلکہ آپ کی دعا ، عقیدہ اور عمل یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں اور اسی پر میرا بھروسہ ہے جو عرشِ عظیم کا رب ہے ۔یہ وہ عقیدہ ہے جس بنا پر دنیا کا کوئی خوف اور لالچ مومن کے قدموں میں تزلزل پیدا نہیں کرسکتا۔ یہی عقیدہ اور وظیفہ ہے کہ جب سیدناابراہیمuکو آگ میںجھونکا جارہا تھاتو ملائکہ نے انہیں پیشکش کی کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو اس آگ کو نمرود اور اس کے ساتھیوں پر الٹا دیا جائے۔ سیدناابراہیمu نے ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ کیا ایسا کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے ملائکہ نے کہا اب تک اس بات کا حکم نازل نہیں ہوا۔ سیدناابراہیمuنے فرمایا :
’’حسبی اللّٰہ‘‘ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔
ادھرسیدناابراہیمuنے اپنے رب پر بھروسہ اور اعتماد کی انتہا کردی ادھر آسمان سے آگ کو حکم نازل ہوا:

قُلْنَا يٰنَارُ كُوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰى اِبْرٰهِيْمَ (الانبیاء: 69)

’’ہم نے کہا اے آگ !ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا ۔ ‘‘
یہی وہ وظیفہ اور عقیدہ ہے کہ جب نبی اکرم ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے استراحت فرما تھے ۔اچانک ایک بدو نے آپ کی تلوار پکڑ کر آپ کے سر پر لہرائی اور کہاکہ اے محمد! تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے اللہ بچانے والا ہے بدو کا وجود کانپنے لگا اتنے میں آپ نے اس سے تلوار اُچک لی اور فرمایا تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے معذرت کی اور حلقۂ اسلام میں داخل ہوا۔ یہی وہ عمل اور ذکر ہے کہ جب احد کے میدان میں صحابہ کرامy کو شکست ہوئی اور وہ زخمی حالت میں مدینہ پہنچے تو کفار کے سردار ابو سفیان کا پیغام آیا کہ ہم مدینہ پہنچ کر تمہیں تہس نہس کرنے والے ہیں ۔اس کے ردِ عمل میں صحابہ کرام’’حسبنا اللہ‘‘ پڑھتے ہوئے کفّار کے لشکر کے تعاقب میں نکلے جس کے ردّعمل میں ابوسفیان نے مکہ کی راہ لینے میں عافیت سمجھی اور صحابہ کرام اپنے مقصد میںکامیاب مدینہ پلٹے ۔

وَ مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا(الطلاق:3)

’’جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اُس کے لیے کافی ہے اللہ اپنے کام کو پورا کرتا ہے اور ’’اللہ‘‘ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرمایا ہے ۔‘‘
وَ لِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (ھود:123)
’’اور آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی کے پاس ہے اور سب کے سب کا م اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں ۔سو اس کی عبادت کرو اور اس پر بھروسہ کرو اورجو تم کرتے ہو تیرا رب اس سے ہر گز غافل نہیں ۔‘‘
اس فرمان میں ایک طرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کیا ہونا چاہیے اور دوسری طرف داعی حق کے لیے تسلّی ہے کہ جووہ خدمت سرانجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ انجام کار اوراس کاصلہ اس کے ہاں موجود ہے۔ لہٰذا نبی اکرمe کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دل چھوٹا کرنے اور مخالفین کی مخالفت کی طرف دھیان دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت یعنی اس کی یاد میں مگن رہیں اور اس کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں۔ آپ کا رب نہ آپ کی بے مثال محنت واخلاص سے غافل ہے اور نہ ہی آپ کی مخالفت کرنے والوں کی سازشوں اور شرارتوں سے بے خبر ہے۔ توکل کا معنیٰ ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کرے۔ جو اپنے رب پر بھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوتاہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔لہٰذا تنگی اور آسانی‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ یہی غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا کامل تصور یہ بنتا ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے۔ توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں اس کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔

فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا

’’ آپ ان سے اعراض فرمائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں  اللہ تعالیٰ کافی ہے کارساز۔ ‘‘(النساء:81)
منافقین آپe کے سامنے آتے تو ایسے الفاظ اور انداز اختیار کرتے کہ جن سے آپ کو یقین ہو جائے کہ یہ واقعتاً اچھے لوگ ہیں۔ لیکن جونہی آپ کی محفل سے باہرجاتے بالخصوص رات کے وقت خفیہ مجالسمیں مشورے کرتے کہ اسلام سے کس طرح چھٹکارا پائیں اور آپ کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے؟ ان کی خفیہ مجالس کو طشت ازبام کرتے بتلایا گیا کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے کراماً کاتبین ان کی تمام حرکات کو ضبطِ تحریرمیں لا رہے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے سامنے مکمل ریکارڈ رکھ دیا جائے گا۔ یہاں نہایت بلیغ انداز میں منافقوں کو ایسی حرکات سے بازرہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول کریم e کو سمجھایا گیا کہ آپ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے درگزر فرمایا کریں۔ کیونکہ صاحب عزیمت لوگ سِفلہ مزاج لوگوں کی عادات سے صرفِ نظر ہی کیا کرتے ہیں آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی پوری حفاظت کرنے والا، کار ساز اور ان کی سازشیں ناکام کرنے والا ہے۔
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے