سیدالانبیاء رحمت دو عالم محمد عربیﷺ کو اللہ تعالیٰ نے معلم انسانیت بنا کر مبعوث فرمایا نبی رحمت انسانی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے تربیت فرماتے، کوئی عام سی بات ہو یا واقعہ آپ علیہ السلام اس سے تربیتی پہلو نکال کر اپنے صحابہ کی توجہ آخرت پہ مبذول فرماتے ایک کان کٹا ،مرا ہوا بکری کا بچہ دیکھا تو دنیا کو اس سے تشبیہ دے کر اس کی بے ثباتی ، کم مائیگی اور حقارت کو واضح فرمایا ۔ بدر کے قیدیوں میں سے ایک قیدی عورت جو اپنے شیر خوار بچے کے گم ہوجانے کی وجہ سے اس قدر پریشان تھی کہ اسے اپنے لباس اور ستر کا بھی ہوش نہ تھا، ماں کی مامتا اور محبت اس عورت کو نیم پاگل بنائے دےرہی تھی آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اگر اسے اپنا بچہ مل جائے تو کیا اپنے ہاتھوں سے اسے آگ میں پھینک دے گی ؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟ پھر آپ ﷺ نے رب رحمٰن کی اپنے بندے سے محبت اور شفقت ومہربانی کو واضح فرمایا جو کئی ماؤں کی محبت سے زیادہ ہے وہ کیسے چاہے گا کہ اس کا بندہ جہنم کا ایندھن بن جائے۔ اس طرح ایک عورت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں وہ اپنی ضرورت کا اظہار کر رہی تھی یہاں ام المؤمنین کے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا انہوں نے وہی کھجور اس سوال کرنے والی عورت کو دے دی اس نے یہ کھجور لی اور اپنی بچیوں میں تقسیم کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو ان بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا پھر اس نے ان کی اچھی تربیت کی یہی بیٹیاں اسے جہنم سے بچانے کا ذریعہ بن جائیں گی۔
رسول مکرم ﷺ نے صدقہ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا :

اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ (صحيح البخاري ، كتاب الزكاة ، باب: اتقوا النار ولو بشق تمرة والقليل من الصدقة، الحديث: 1417 )

’’آگ سے بچو چاہے کھجور کی ایک پھانک ہی دے کر‘‘۔ اس آگ سے بچنے کے لیے آپ نے روزہ کو ڈھال قرار دیا اور فرمایا ’’اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ‘‘ محبوب کائنات ﷺ کے فرامین اور قرآن پاک میں رب رحمٰن کے ارشادات سب کے سب انسان کو آگ سے بچانا چاہتے ہیں ۔رب رحمٰن نے مختلف اسباب پیدا کر دیئے ہیں جن کے ذریعے انسان آگ سے بچ سکتا ہے۔ سارا سال رحمت ومغفرت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ اس نے پورا سال معاف کرنے کا سلسلہ جاری رکھا رحمت کا درکھلا رکھا ، آٹھوںپہر چونسٹھ گھڑی جب کوئی معافی مانگے وہ قبول کرنے کو تیار مگر پھر اس نے ایک پورا مہینہ اپنی بے پایاں رحمتوں کے ساتھ خاص فرما کر لسان نبوت سے اعلان کروا دیا کہ تمہارے پاس برکت والا مہینہ رمضان آپہنچا ، اس میں اللہ اپنی رحمت سے تمہیں ڈھانپ لیتا ہے وہ اپنی رحمتوں کا نزول فرماتا ہے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے ، دعائیں قبول فرماتا ہے وہ تمہارے آپس میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کےجذبے کو دیکھتا ہے وہ اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرماتا ہے تو تم اپنے رب کے سامنے اپنی بہتری کا اظہار کرو کیونکہ بدنصیب وہ ہے جو اس ماہ میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ گیا۔ ( مجمع الزوائد) اس ماہِ مقدس کے داخل ہوتے ہی جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کر کےسرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتاہے۔ (بخاری ومسلم) رمضان کی پہلی رات ہی سے شیطانوں اور سرکش جنوں کو باندھ دیا جاتا ہے ، جہنم کے دروازے ایسے بند کیےجاتے ہیں کہ پھر ان میں سے پورا مہینہ کوئی دروازہ نہیں کھلتا اور جنت کے دروازے ایسے کھولے جاتے ہیں کہ پھر ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور منادی کرنے والا یہ آواز بلند کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے متلاشی اب رک جا ، پس بدنصیب وہ ہے جواس ماہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہ گیا ۔ (ترمذی، ابن ماجہ) رحمتوں ،برکتوں،شفقتوں،رأفتوں کا مہینہ نیکیوں کا موسم بہار ، غم خواری وموانست کا ماہ مبارک جب اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں : ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے اور نیکی کا بدلہ دس گنا سے سات سو گنا ’’مگر روزہ اس میزان سے سوا ہے‘‘ پس وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا اس انسان نے میرے لیے کھانا پینا چھوڑا ،شہوات چھوڑ دیں اس روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی خوشی اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت کی خوشی روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ومعطر ہے۔ یہ ماہ مبارک قرآن کا مہینہ ہے :

 شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ۔‘‘
وہ آخری آسمانی کتاب جس کے ذریعہ اللہ نے جہالت وشرک کے اندھیروں میں گھری ہوئی انسانیت کو علم وتوحید کے نور سے روشن راہ دکھائی ۔

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ (ابراھيم 1)’’

یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ۔‘‘وہ عظیم معجزہ جس کی مثال لانے سے بڑے بڑے عرب کے بلغاء وفصحاء عاجز رہے اور قیامت تک جن وانس مل کر بھی اس جیسا کلام پیش کرنے سے قاصر رہیں گے جو لوگوں کے دلوں کو نرمانے کا ذریعہ

اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِكْرِ اللہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۙ وَلَا يَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ وَكَثِيْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ۝۱۶ (الحديد)’’

کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں ۔ ‘‘جس کے پڑھنے اور سننے سے رونگٹے کھڑے ہو ں اوردل کانپ جائیں ۔

اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِيَ۝۰ۤۖ تَــقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ۝۰ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُدَى اللہِ يَہْدِيْ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝۲۳ (الزمر)’

’اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں یہ ہے اللہ تعالیٰ کہ ہدایت جس کے ذریعے جسے چاہے راہ راست پر لگا دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں۔‘‘وہ کلام جسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پڑھیں تو شدت بکاء سے ان کی قرأت ٹوٹ جائے ، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آنسو بہتے جائیں اور خود صاحب قرآن رسول کریم محمد رسول اللہ ﷺ سنیں تو سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ بیان کریں :

 فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ (صحيح البخاري کتاب فضائل القرآن باب قول المقرئ للقارئ حسبك الحديث 5050 )

’’میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔‘‘
اس قدر عظیم کتاب جس کا رمضان المبارک سے ایک خاص تعلق ہے کہ جس رات میں اسے اتارا گیا وہ لیلۃ القدر کہلائی جو ہزار مہینوں سے افضل رات ہے اس ماہ مبارک میں سید الانبیاء رحمۃ للعالمین اور سید الملائکہ روح الامین کتاب الہدی قرآن عظیم کا دور فرماتے ، سلف صالحین اس ماہ میں درس حدیث تک چھوڑ دیتے اور صرف تلاوت کلام پاک میں مشغول ہوجاتے ایک طرف رمضان ہم سے یہ اہتمام مانگتا ہےتو دوسری جانب ہمارا میڈیا بھی رمضان آنے سے پہلے کمربستہ ہوجاتاہے ، خصوصی رمضان نشریات جاری کی جاتی ہیں جو مہینہ قرآن کے ساتھ خاص تھا اس میں لوگوں کو فضولیات میں الجھا دیا جاتاہے ، بڑے بڑے ذومعنی ناموں کے پروگرام چلائے جاتے ہیں بہر حال ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ نبی مکرم ﷺ بتا چکے کہ جب تم روزہ رکھو تو تمہارے کان اور آنکھیں بھی روزہ رکھیں یعنی منہیات اور حرام چیزوں سے اجتناب رہے، رمضان عالمی بھائی چارے اور اخوت کا پیغام بھی دیتا ہے شام وعراق میں ظلم وبربریت کا شکار بھوک وافلاس سے بلکتے ہوئے بچے ، بوڑھے، عورتیں مرد اپنے مسلمان بھائیوں کی راہ تک رہے ہیں ۔ فلسطین وکشمیر ،برماوبنگلا دیش کے مظلوم ومقہور زبان حال سے

’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ

‘‘ کی دہائی دے رہے ہیں ۔ عالمی سیاست کے افق پہ اگرچہ منافقت کے بادل چھائے ہوئے ہیں مگر منظر نامہ آہستہ آہستہ پاکستان کے حوالے سے واضح ہو رہا ہے ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کا نعرہ لگانے والے اب سرعام ڈالر وصول کر رہے ہیں ، پاکستان کا ازلی دشمن اپنے گورو کی بڑھ کو سچا ثابت کرنے پہ تلا ہوا ہے ، گاندھی جی نے 5 جون 1947ء کو نیو یورک ھیرالڈ ٹربیون میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ، بالآخر ہندوستان پھر متحد ہوجائے گا اور مسلم لیگ ہندوستان میں واپسی کے لیے کہے گی۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان سے متعلق اس کے دنیا کے نقشے پہ ابھرنے سے پہلے بابائے بھارت نے کیا اور اب بھارت جنگ کرکے دیکھ چکا کہ یہ ان شاء اللہ ممکن نہیں لہٰذا وہ اب پاکستان کے آبی سوتوں پر ڈیم بنا کر نقب لگا رہا ہے ، مقبوضۂ وادی میں پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں پہ متنازعہ ڈیم تعمیر کر رہا ہے ، وہ خاکم بدہن 2020ء تک پاکستان کو بنجر کر دینا چاہتا ہے ، بال کی کھال اتارنے والا میڈیا پانامہ پہ ہنگامہ مچانے والی حزب اختلاف ترقی کا راگ الاپنے والی حکومت سب اس آبی جارحیت پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئےہیں ادھر بھارت ایران سے مل کر پاک چین راہداری منصوبہ کو سپوتاژ کر نا چاہتاہےایک طرف انڈین جاسوس ایرانی مدد سے پاکستان کی سرزمین آلودہ کررہے ہیں تو دوسری جانب افغانی جاسوس بھی پاکستانی حدود پامال کر رہے ہیں امریکہ بہادر طالبان امیر کی نگرانی ایران سے کرتا ہے اور پاکستان میں نشانہ بناتا ہےانڈیا ایران ، افغانستان اور امریکہ کے حکمران ہاتھ ملائے کھڑے ہیں اس عالمی گٹھ جوڑ سےمنافقت کے پردے چاک ہو ر ہےہیں دوست نما دشمن بالکل واضح ہو رہے ہیں پاکستان میں بسنے والی ایک اقلیت کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اب مخصوص نظریات کی بنیاد پر وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں یا حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی دنیا کے سرخیل اپنے ملک پاکستان کا ساتھ دیتے ہیں ۔ حب الوطنی کا تقاضا تو یہی ہے کہ میڈیا ان سازشوں کو بے نقاب کرے مگر خاموشی کیوں ہے ؟ رمضان اجتماعی احساس ہمدردی اجاگر کرنے آرہا ہے سو موقع غنیمت جانیں بخشش کے لیے ہاتھ پھیلائیں ، نیکیوں کی اس لوٹ سیل سے فائدہ اٹھائیں دامن بھریں اس معاملے میں کم پر قناعت نہ کریں بلکہ نیکیوں کے پھول چنتے چلے جائیں ایسا نہ ہو کہ شاعر کی بات آپ کے حق میں صادق آئے ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا​        ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ء داماں بھی تھا​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے