قارئین کرام ! رمضان المبارک میں اللہ تعالی نے اپنے مؤمن بندوں کو جو رحمتیں اور برکتیں عطا فرمائیں ہیں ان پر ان کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ خوشی منائیں ۔

اور ان خوشیوں کے اہتمام لیے اسلام نے انہیں ایک دن عطا فرمایا ہے جسے دنیا عید کے نام سے یاد کرتی ہے ۔

اور عید کے دن کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اسے اسلامی حدود میں رہ کر منایا جائے ۔

لیکن افسوس کہ اللہ رب العالمین کی عطا کردہ رحمت برکت کی خوشیوں میں اللہ و رسول  صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانیاں کی جاتی ہے ۔

شوال کے چاند نظر آتے ہی اللہ تعالی کی نافرمانیوں کی ابتدا ہوتی ہے بعض نوجوان سیٹیوں اور تالیوں کا شور شروع کر دیتے ، یہ غیر اسلامی افعال ہیں کم سے کم انہیں مکروہ ہی کہا جا سکتا ہے ،حالانکہ دلائل کے اعتبار سے یہ حرام ہیں اس لیئے کہ مسلمانوں کو کفار کی مشابھت کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالی نے کفار مکہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ : بیت اللہ کے پاس انکی نماز سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سواء کچھ نہیں تھی

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ (انفال : 35)

عربی زبان کے حساب سے دیکھا جائے تو لفظ “مکاءؐ” سے مراد سیٹی بجانا اور “تصدیة” سے مراد تالی بجانا ہے اور ایک مومن کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ جب وہ کوئی پسندیدہ چیز دیکھے یا اچھی بات سنے تو سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہے جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  کی بے شمار احادیث سے ثابت ہے اور اگر عورتیں مردوں کے ساتھ نماز پڑھ رہی ہوں اور امام کچھ بھول جائے تو امام کو آگاہ کرنے کے لیے انکا تالی بجانا جائز ہے لیکن مرد یہ ہی کام”سبحان اللہ” کہہ کر انجام دیں گے ـ جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور حکم سے ثابت ہے ـ۔

معلوم ہوا کہ مردوں کا تالی بجانا کفار اور عورتوں سے مشابہت رکھتا ہے ان دونوں کی مشابہت کرنا شرعا منع ہے۔ ـ واللہ ولی بالتوفیق

اور یوں بھی پایا جاتا ہے کہ مختلف مقامات پر موسیقی اور فلمیں وغیرہ شروع کرکے بیسیوں لوگوں کو اکٹھا کرکے دکھایا و سنایا جاتا ہے اللہ تعالی نے سورہ لقمان میں اہل سعادت جو کلام الہی کی سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں کا ذکر کرکے اہل شقاوت کا ذکر کیا ہے جو کلام الہی کے سننے سے تو اعتراض کرتے ہیں لیکن نغمہ و سرور ، ساز و موسیقی گانے وغیرہ خوب ذوق وشوق سے سنتے ہیں ، کےلیے دردناک وعید کی خبر سنائی ہے ـ (ملاحظہ ہو ، سورہ لقمان:٧،٦)

بعض لوگ تو شوال کے چاند نظر آتے ہی آتش بازی رقص آلات و موسیقی جیسے شیطانی اعمال شروع کر دیتے ہیں جو رات گئے تک جاری رہتے ہیں ـ۔

اگرچہ صحیحین میں عید کے دن خوشی و تفریح کی رخصتیں آئی ہیں لیکن ان سے مراد غیر شرعی تفریح ہرگز نہیں ـ

یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ عید کے دنوں مذکورہ غیر شرعی اعمال کے ساتھ ساتھ موسیقی اور گانے وغیرہ سنے جائیں اور ٹی وی کی سکرین پر یا سینما گھروں میں جاکر فلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھیے جائیں ـ

آلاتِ موسیقی سب حرام ہیں اور فارغ اوقات کو ان چیزوں میں گذارنا بہت بڑا گناہ ہے ، بہتر تو یہ ہی ہوگا کہ شوال کا چاند نظر آتے ہی تکبیرات تہلیلات تحمیدات کاورد شروع کیاجائے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ـ۔

بہت سارے لوگ ایام عید میں جو لباس پہنتے ہیں وہ ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا ہوتا ہے جس سے تکبر کی بو آتی ہے ایسے بدنصیب لوگوں کے متعلق پیارے محبوب علیہ السلام نے فرمایا کہ :تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالی قیامت کے روز نہ بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کےلیے دردناک عذاب ہے ـ آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ تین بار فرمائے ـ تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہ یقینا ذلیل و خوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے ـ یارسول اللہ ! وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا کہ : اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ـ ۔(مسلم : 106)

اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (بخاری:5787)

ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا تھا ، اسی دوران اچانک اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا ـ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتا رہے گا ـ ۔(بخاری و مسلم:2088)

لہذا ایام عید کی خوشی میں بڑائی اور فخر و غرور کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہئے بلکہ لوگوں سے خندہ پیشانی اور عاجزی و انکساری کے ساتھ میل ملاقات رکھنی چاہئے اور اپنے گھر والوں ، رشتہ داروں اور دوست و احباب کے ساتھ اظہار محبت کرنی چاہیے۔

بہت سارے لوگ عام طور پر بھی داڑھی منڈواتے یا اسے چھوٹا کراتے ہیں اور عید کے موقعہ پر تو اس کا اور زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے ـ حالانکہ ایسا کرنا خلاف سنت ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ : تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھیوں کو بڑھاو اور موچھیں کٹواؤـ۔ (بخاری و مسلم:259)

جبکہ آج کل بہت سارے مسلمان رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے بالکل برعکس موچھیں بڑی بڑی رکھ لیتے ہیں اور داڑھی یا منڈوا لیتے ہیں یا اسے چھوٹا کرادیتے ہیں اور وہ مشرکین اور مجوس کی موافقت کرتے ہیں جن کی مخالفت کرنے کا رسول  صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا ہے ـ۔

بہت سارے لوگ خصوصا ایام عید میں جب ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں تو غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرتے اور مبارکباد کا تبادلہ کرتے ہیں ـ جبکہ ہمارا دین اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ـ

سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

لأَنْ يُطْعَنَ فِي رَأْسِ رَجُلٍ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لا تَحِلُّ لَهُ.

كسی آدمی كے سر میں لوہے كی كیل ٹھونك دی جائے یہ اس كے لئے اس بات سے بہتر ہے كہ وہ ایسی عورت كو چھوئے جو اس كے لئے حلال نہیں۔ (السلسلة الصحیحة للالبانی : 1657)

اور بہت سارے لوگ خصوصا ایام عید میں کیئی غیر محرم عورتوں سے خلوت میں ملاقاتیں کرتے ہیں جبکہ ہماری شریعت نے ہمیں غیر محرم عورت سے خلوت میں ملنے سے منع فرمایا ہے رسول  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم (غیر محرم) عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کیا کرو ـ۔(صحیح البخاری : 2862)

خصوصا ایام عید میں بہت ساری خواتین گھروں سے بے پردہ ہوکر نکلتی ہیں خوب سج دھج کے ساتھ بازاروں ، مارکیٹوں اور سیاحت گاہوں میں آتی جاتی ہیں اور بہت سارے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتی ہیں بے پردہ ہوکر نیم برہنہ لباس پہنے ہوئے گھروں سے نکلنے والی خواتین کو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت وعید سنائیں ہیں ـ۔

آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جو عورت خوشبو لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تاکہ اس کی خوشبو کو وہ محسوس کریں تو وہ بدکار ہے ۔ـ(سنن ابی داود : 4167)

بہت سارے لوگ ایام عید کے دوران خوب کھاتے پیتے، زرق برق لباس پہنتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اپنے رشتہ داروں کو فقراء و مساکین کو بھول جاتے ہیں جبکہ اسلام ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم ان خوشیوں میں اقرباء اور فقراء و مساکین کو بھی شامل کریں ـ۔

ہمارا یہ مضمون “عید کیسے گزاری جائے”انتہائی تفصیل کا متقاضی ہے لیکن بالاختصار اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایام عید کے دوران اسلامی احکام قوانین کی پابندی کی جائے جن چیزوں کی اجازت ہے انہیں اپناتے ہوئے خوب تفریح کی جائے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے پرہیز کیا جائے ـ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے