ماہِ رمضان جو ہم سےالوداع ہو چکا

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے

وَ اِنِّىْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰى   (طٰہٰ:82)

’’ہاں بیشک میں انہیں بخش دینے والا ہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں اور راہ راست پر بھی رہیں ۔‘‘

یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ کفر و شرک اور گناہوں سے سچی توبہ، ایمانِ کامل، عمل صالح اور راہِ راست پر چلتے رہنا، یعنی استقامت اور دوام اختیار کرنا حتیٰ کہ اسی حالت پر موت آئے ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ، استغفار و ایمان کے بعد اگر پھر انسان نے کفر و شرک، معاصی اور بد اعمالیوں کا راستہ اختیار کرلیا اور اسی حالت میں موت نے آگھیرا تو ہوسکتا ہے کہ مغفرتِ الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ٹھہرے۔اعمال پر مداومت اختیار کرنا بھی استقامت کے زمرے میں آتا ہے جیسے کہ رسول اللہ نےفرمایا:وَإِنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ مَا دَامَ وَإِنْ قَلَّ ’’اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر مداومت کی جائے۔ اگرچہ کم ہو۔‘‘(صحیح البخاری:5861)

ایک صحابی نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ مجھے اسلام میں ایسی بات بتلادیں کہ آپ کے بعد کسی سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے، تو آپ نےفرمایا

: قُلْ: اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ، ثُمَّ اسْتَقِمْ

’ کہو کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اور پھر اس پر استقامت اختیار کرو۔(مسلم)

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاحقاف : 13۔14)

’’بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے۔یہ تو اہل جنت ہیں جو سدا اسی میں رہیں گے، ان اعمال کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

ماہِ رمضان سید الشہور، شہر التوبۃ ، شہر المبارک ، شہر المواسات ، شہر الصبر، شہر القرابت ، شہر الصیام اور نیکیوں کاموسم بہار جو ہم سے الوداع ہوچکا ہے، جس میں روزے رکھنے کا بنیادی مقصد سیرت و کردار کی تعمیر تھا، تزکیہ نفس کرتے ہوئے روحانی تربیت اور ذہنی و جسمانی نظم و ضبط پیدا کرتے ہوئے انسانیت سے محبت و ہمدردی کا شعور اجاگر کرنا تھا، صبر و قناعت، ایثار و قربانی، تحمل و برداشت جیسے اعلیٰ انسانی جذبے پروان چڑھانے تھے۔ اور مادی خواہشات، لالچ، طمع، حسد، بغض، کینہ، بد اخلاقی، بد دیانتی، ملاوٹ، جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ جیسی برائیوں سے نجات حاصل کرنا تھا تاکہ اس ماہِ مقدس میں برسنے والی رحمتوں اور برکتوں سے پورا اسلامی معاشرہ مستفید ہوسکے۔

روزے سے تو نفس کی نظافت و طہارت میں نکھار آنا چاہیے تھا، اطاعت و فرمانبرداری جیسے جذبات پروان چڑھنے چاہئے تھے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر مطیع ہونا چاہئے تھا تاکہ روحانی قوت اور فکری بالیدگی میں اضافہ ہو اور اسی قوت کے ذریعے سارا سال فواحش و منکرات اور شیطان کے حملوں سے محفوظ رہا جاسکے۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں صرف رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ یاد آتا ہے اور پھر رمضان المبارک کے بعد  !!  مؤ من روزے دار کا یہ وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ عید کے دن خوش ہوتا ہے اور رمضان کے روزوں کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ کی تعریف و تحمید کرتا ہے  وہ روتا بھی ہے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے روزے نمازیں درجہ قبولیت سے رہ نہ جائیں جیسا کہ بعض سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رمضان کے بعد مہینوں روتے رہتے تھے اور اللہ  تعالیٰ سے روزوں کی قبولیت کی دعائیں مانگتے رہتے تھے ۔جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ عید کے دن جس سے ایک دن قبل رمضان کا اختتام ہوا،  لہو و لعب کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عید کے روز سے ہی ہم فرض نمازیں ضائع کرنا شروع کردیتے ہیں رمضان المبارک میں نمازِ تروایح جو کہ نوافل ہیں اس کے لئے تو مسجدیں بھرجاتی ہیں لیکن افسوس وہ فرض نماز جس کو قصداً اور شرعی عذر کے بغیر چھوڑنے والاکافربن جاتاہے اس کیلئے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ نیز عید کے دن ہی سے فلمیں ، گانے ، فحاشی کی محفلیں اور تفریح گاہوں میں مرد وزن کے اختلاط کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ اس انداز سے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں !!  اور یہ ہوتا ہے ہمارے رمضان کا اختتام ۔۔۔ !!  یہ شکر کا طریقہ نہیں اور روزوں کی قبولیت کی علامت بھی نہیں بلکہ یہ رمضان جیسی نعمت کی ناشکری ہے  یہ واقعی روزوں اور تراویح کی عدمِ قبولیت کی نشانی ہے ۔ اب اگر رمضان کے فرض روزے ختم ہوگئے تو روزوں سے چھٹی نہیں ہوگئی بلکہ نفلی روزوں کو اپنا شعار بنا ئیے۔ جیسا کہ شوال کے چھ روزے، یوم عرفہ اور عاشورہ وغیرہ کے روزے ۔ اسی طرح اگررمضان میں راتوں کا قیام ختم ہوگیا تو قیام اللیل تو اب بھی ہے اس پر پابندی کریں اور تہجد گذار بن جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مومنوں کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :

  كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ  (الذاریات:17)

اور وہ راتوں کو بہت کم سوتے ہیں۔

 اسی طرح رمضان المبارک میں آپ نے زکوٰۃ  اور صدقۃ الفطر ادا کر لیا تو مال خرچ کرنے کے لئے اور بھی بہت سے مصارف ہیں۔ یتیموں ، مسکینوں پر خرچ کیجئے۔ اسی طرح تعمیر مساجد اور مدارس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیے۔اسی طرح کیا رمضان میں ہی تلاوت قرآن مجید فرض ہے باقی دنوں میں قرآن سے اس قدر دوری۔۔۔ !!  بلکہ ہمیں تو اس کو اپنا مشعلِ راہ بنانا چاہیے ۔ الغرض رمضان کے بعد کسی بھی نیکی کا دروازہ بند نہیں ہوتا بس آپ کو رغبت اورشوق ہونا چاہئے۔ اگر آپ نوافل پر زور نہیں دے سکتے تو رمضان کے بعد فرض نمازوں سے چھٹی تو مت کریں کم از کم فرض نماز تو جماعت کے ساتھ ادا کرتے رہیں اور گناہوں میں لت پت ہونے سے اپنے آپ کو بچا کے رکھیں۔ اور جس طرح رمضان المبارک میں ہم نے TV ، ڈش، کیبل وغیرہ سے اجتناب کیا اسی طرح بقیہ مہینے بھی گناہوں سے اجتناب کریں ایسا نہ ہو ہمیں موت آئے اور ہم گناہوںمیں مصروف ہوں ،روزوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ روزے دار اپنی سابقہ کیفیت سے بہتر حالت میں آجائے یعنی گناہوں سے اجتناب جاری رکھے اور نیکیوں میں آگےہی آگے بڑھتا جائے۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو پرہیزگاروں کے اوصاف سے متصف کرلیا تو آپ نے حقیقی روزے رکھے ، حقیقی  قیام اللیل کیا اوراپنے نفس سے حقیقی مجاہدہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجئے اور اُسی سے ہمیشہ ثابت قدمی کی دعا مانگتے رہیے ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مسلسل اپنے رب کا فرمانبردار رہے ، شریعت پر ثابت قدم رہے ، ایسا نہ ہو کہ ایک مہینے میں اللہ کی عبادت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیا  اور دوسرے مہینوں میں عبادت کا راستہ ہی بھول گیا۔ کبھی بڑا نیک اور عبادت گذار بنا پھر رہا ہے اور کبھی عبادت کی جگہ غیر شرعی مصروفیت نے لے لی۔ زیادہ ثواب کی جستجو میں رمضان المبارک میں عبادات کی کثرت اور بعد از رمضان لازمی عبادات سے پہلو تہی بہت بڑا جرم ہے ۔ ایسا نہ کریں!  بلکہ یہ ذہن میں رکھیں کہ جو رمضان المبارک میں ہمارا رب تھا دوسرے مہینوں میں بھی وہی رب ہے، اگر یہ تصور اپنے ذہن میں پختہ کرلیں گے تو ہمیشہ ہی شریعت الہٰی پر کاربند رہیں گے یہاں تک کہ آپ اپنے رب سے جاملیں گے اور وہ آپ سے بہت خوش ہوگا ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے :  وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر99)

’’رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت )آجائے۔‘‘

اس کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ التفسیر علامہ عبد السلام بھٹوی اپنی کتاب ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ میں اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :’’موت کو ’’ یقین ‘‘ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔ قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ’’یقین ‘‘ کا لفظ موت کے معنی میں آیا ہے، جیسے فرمایا : حَتّىٰٓ اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ ( المدثر : 47) ’’ یہاں تک کہ ہمیں یقین آ پہنچا (یعنی موت آگئی)۔ ‘‘

اس لیے سب مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت مراد لیا ہے۔ تو جب تک ہوش رہے نماز اور دوسری عبادات زندگی کے آخری دم تک حسب طاقت کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرنا فرض ہے۔ بعض جاہل اور بےعمل پیر اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہو جائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو نماز، روزہ اور عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ کھیل ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاصل نہ ہو سکا کہ وہ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دوسری عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے مراد یقین قلبی لینا اور نماز روزہ چھوڑ دینا صریح بےدینی ہے۔(تفسیر القرآن الکریم)

 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزے قبول فرمائے ہماری نمازوں، قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر تمام اعمال صالحہ کو شرفِ قبولیت بخشے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر رمضان سے بھرپور نیکیاں سمیٹنے کی توفیق بخشے اور رمضان کے بعد ہماری حالت پہلے سے بہتر ہو۔  آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے