علم ایک نور اور اللہ رب العزت کی صفت ہے،جس سے ایک طرف جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں ،تودوسری طرف انسان کی چشم بصیرت روشن ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے ایک عالم اور جاہل کے درمیان فرق کی حقیقت کو اپنے ان الفاظ میں بیان فرمایا،ارشادِباری تعالیٰ ہے:

هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

‘”(اے پیغمبر!کہہ دیجیے) کیا اہل علم اوربے علم برابر ہوسکتے ہیں۔“ (الزمر:9)

اہل علم کے ہاں اس اندا ز کو استفہام انکاری کا نام دیا جاتاہے۔مطلب یہ ہےکہ اہل علم اور بےعلم ہرگز برابرنہیں ہوسکتے ۔

اللہ رب العزت نےاہل علم کے درجات کو بلند فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

 يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ  (المجادلۃ:11)

”(دنیاآخرت میں اللہ تعالیٰ درجات بلند کرے گا تم سے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہیں (دینی وشرعی )علم دیا گیاہے۔“

دنیاآخرت میں اہل علم کے درجات کی بلندی کا اندازہ قرآن مجید کے ایک او رمقام سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے۔

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ(آل عمران :18)

اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،اور فرشتوں نے اور اہل علم نے بھی اس حال میں کہ وہ انصاف پرقائم ہیں۔

غور کیجئے توحید کی سب سےاہم قسم” توحید الوہیت “یعنی توحید فی العبادت پر اللہ تعالیٰ خود گواہ ہیں اس کے فرشتےبھی گواہ ہیںیااہل علم گواہ ہیں اللہ تعالیٰ کا اپنی الوہیت پر علمائے حق کوگواہ ٹھہرانا اور ان کی گواہی کو اپنی اور ملائکہ کی گواہی کے ساتھ ذکر کرناعلمائے حق کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔

ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ کہیں﴿ رَبِّ  زِدْنِیْ عِلْمًا ﴾ ’’میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘

معلوم ہوا کہ سوائے علم کے کوئی اور چیز شریف اور نفیس ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو اس شے کی طلب کی ہدایت فرماتا۔ پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ کے شایان شان بجز علم کے کوئی دوسری چیز نہ تھی اور اس سے زیادہ رفعتِ علم اور کیا ہوسکتی ہے کہ نبی کریم خود ارشاد فرمائیں

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ(سنن ابن ماجہ: 224

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد وعورت)پر فرض ہے۔‘‘

شرعی علم کا حصول کیوں ضروری ہے؟

اقامت دین کے دو راستے ہیں : 

1 امر بالمعروف والنہی عن المنکر (یہ دینی وشرعی علم کے حصو ل پرموقوف ہے)

2 جہادوقتال فی سبیل اللہ ۔

نفاذ ِاسلام کے یہ دو ذرائع ان میں سے پہلا ذریعہ دوسرے سے مقدم ہے ۔ جہادوقتال توانتہائی ضروری صورت ہے۔گویادینی وشرعی علم کا حصول غلبہ اسلام کا اول ترین راستہ ہے۔

علم سے تعلق جوڑنے کی تین نوعتیں ہیں

1عالم دین بننا ہے اس کے لیے جو سبیل ہمارےعلاقوں میں ہے وہ دینی مدارس ہیں ان میں ایک نصاب تعلیم ہے جن میںتفاسیر،احادیث ،عقائد،اصول،گرائمر، دیگر کتب پڑھی،پڑھائی جاتی ہیں۔اور یوں ایک عالم دین تیار ہوتاہے۔اس لیے حصول علم کے لیے ان مدارس کا رخ کیجئے۔اگر یہ موقعہ آپ کے ہاتھ سے چھن چھکا ہے تو اپنی اولاد واحفاد کو اس رخ پر ڈال دیجئے تاکہ آپ کے گھروں میں ہی ایک علم کی شمع روشن ہوجائے۔

2اگر یہ موقعہ بھی میسر نہیں ہے۔تو دوسرا موقع متعلم ہونے کا ہے ۔ آپ طلبۃ العلم میں شامل ہو جائیں ۔اور اہل علم کے علم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ وقت صرف کریں ۔

3تیسرا درجہ مستمع کاہے مستمع کا معنٰی ہے ”علم کو سننے والا“کہیں کوئی درس قرآن ہو ،درس حدیث ہو ،کسی عالم کی مجلس ہو ،وہاں خلوص اور شوق سے پہنچیں ۔

”مستمع“ اگر مستمع ہونے کا حق اداکرے تو اس کے لیے بھی بہت بڑااجر ہے ۔رسول اللہ نے دعا دی ہے کہ

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ 

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا ۔“(سنن ابی داؤد:3660)

علم صرف وحی الٰہی کا نام ہے

یہ دین ایک حقیقت ہے جس کی اساس وحی الٰہی ہے اور وحی الٰہی دوچیزوں کا نام ہے۔

1 قرآن   2 حدیث

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَأَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (النساء:113)

’’اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل  فرمائی ۔“

آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نےآپ پر دوچیزیں اتاری ۔

1کتاب یعنی قرآن مجید 2حکمت یعنی سنت وحدیث

دین میں محمدرسول اللہ نے اپنی رائے اور قیاس سے کچھ نہیں کہا۔اگر کسی شخصیت کی رائے اور ذاتی عقل وفکر اس دین میں معتبر ہو تی تو وہ محمد رسول اللہ تھے۔لیکن قرآن مجید کا صاف اعلان ہے ۔

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم:43)

 ”اور وہ اپنی خواہش سےنہیں بولتے ہیںوہ تو صرف وحی ہے جوان پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘

محمد کریم بھی اپنی عقل سے بات نہیں کرتے ۔ دین کے معاملے میں جب بھی بات کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی وحی سے کریں گے ۔

اگر کسی مقام پر رسول اللہ نے اپنی مرضی اور خواہش سے کوئی بات کی بھی تو اللہ رب العزت نے فورا تنبیہ فرمادی۔جیسا کہ آپ نے شہد کے بارہ میں فرمایا تھا۔ 

‏‏‏‏‏‏فَلَنْ أَعُودَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ حَلَفْتُ (صحیح بخاری:4912)

اب میں قسم کھاتاہوں کہ ہرگز (شہد)نہیں پیوںگا۔“

اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشاد ہوتاہے ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ (التحریم:1)

”اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے۔“

دیکھئے! رسول اللہ ﷺنے عبداللہ بن ابی کواپنی قمیص مبارک پہنائی اور اس (منافق) کانمازجنازہ پڑھایا اسےقبر میں خوداتارا،اس کے منہ میں اپنالعاب مبارک بھی ڈالا،آپ کی خواہش تھی کہ اس منافق کی بخشش ہوجائےمگرآپ کی خواہش کی تکمیل نہ ہوسکی ۔اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمادی۔

وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ (التوبۃ:84)

”اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔“

معلوم ہواکہ رسول اللہ اگرکسی مسئلہ میں اپنی ذاتی خواہش سے کوئی بات کی تووہ حجت ودلیل نہ ٹھہر سکی ،اگر ذاتی عقل وفکر اس دین میں کسی کی معتبرہوتی تووہ صرف محمدرسول اللہ تھے۔وہ دین جس میں محمد کی ذاتی عقل وفکر حجت ودلیل نہ ٹھہرسکی اس دین میں آپ کے سوا کسی اور کی رائےوقیاس کوکیونکر حجت ودلیل ٹھہرایاجاسکتاہے ۔اس لیے آپ نےہمیشہ وحی سے ہی بتایا۔

صحیح البخاری میں سیدنا جابر بن عبداللہ؄ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا میں ایک مرتبہ بیمارہواتو نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق ؄ پیدل میری عیادت کے لیے تشریف لائے ان بزرگوں نے دیکھا کہ مجھ پر بے ہوشی غالب ہے۔ چنانچہ نبی کریم  نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے ہوش آ گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں اپنے مال کا کیا کروں کس طرح اس کا فیصلہ کروں؟ نبی کریم  نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاںتک کہ میراث کی آیت (وحی)نازل ہوئی۔(صحیح بخاری:5651)

سید الفقہا والمحدثین امام بخاری نے صحیح بخاری میں اس حدیث پر عنوان قائم کیاہے:

 ” بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي:  أَوْ لَمْ يُجِبْ حَتَّى يُنْزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، وَلَمْ يَقُلْ بِرَأْيٍ وَلاَ بِقِيَاسٍ “

”نبی کریم سے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس کےبارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ ﷺ فرماتے میں نہیں جانتا یا وحی اترنے تک خاموش رہتے کچھ جواب نہ دیتے اپنی رائے اور قیاس سےکچھ نہیں کہتے۔“

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین میں حجت ودلیل فقط وحی الٰہی ہے ۔وحی الٰہی صرف دوچیزوں کانام ہے ۔

1 قرآن  2 حدیث

اور صرف اس کی اتباع ہی کا ہمیں حکم دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ  (الاعراف:3)

”اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوااولیاء دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔“

حافظ ابن کثیر ،تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

{اتَّبِعُوا مَا أُنزلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ} أَيِ: اقْتَفُوا آثَارَ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي جَاءَكُمْ بِكِتَابٍ أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ وَمَلِيكِهِ، {وَلا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ} أَيْ: لَا تَخْرُجُوا عَمَّا جَاءَكُمْ بِهِ الرَّسُولُ إِلَى غَيْرِهِ، فَتَكُونُوا قَدْ عَدَلْتُمْ عَنْ حُكْمِ اللَّهِ إِلَى حُكْمِ غَيْرِهِ”  (المصباح المنیر)

”جو(شریعت) تمہاری طرف تمہارے پروردگار کی جانب سے نازل کی گئی ہے ،اس کی پیروی کرو،یعنی تم اس نبی امی محمد کے نقش قدم پر چلوجوتمہارے پاس اس کتاب کولے کر آئے جو تمہاری طرف ہر چیزکے رب اور مالک کی طرف سےنازل کی گئی ہے،اور اس کے سوا اولیاء کی پیروی نہ کرو،یعنی رسول للہ تمہارے پاس جو لے کرآئے ہیںقران وحدیث اسے چھوڑ کر اور کسی چیزکی طرف رجوع نہ کرو،(اگرتم اوروں کے پیچھے گئے )توتم اللہ کے حکم سے روگردانی کرکے کسی اور کے حکم کو اختیار کرلیا۔“

معلوم ہواکہ ہمیں منزل من اللہ شریعت یعنی کتاب وسنت (وحی) کی اتباع ہی کاحکم دیاگیا ہے یہی اصل علم ہے۔

دینی علم کے فوائد

1دینی علم بندے کو خشیت الٰہی سے معمور کرتا ہے

ارشادِباری تعالیٰ ہے:

 إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ  (فاطر:28)

”اللہ سے تواس کے بندوں میں صرف علماء ہی ڈرتے ہیں۔“

حافظ ابن کثیر  فرماتے ہیں :

وَالْخَشْيَةُ خُلَاصَةُ الْإِيمَانِ وَالْعِلْمِ (تفسير ابن كثير 1/ 76)

”خشیت الہی ایمان اور علم کا خلاصہ ہے۔“

2 دنیاوی علوم وقتی اور عارضی ہیں

دنیاکی زندگی وقتی اور عارضی ہےجبکہ اخروی زندگی دائمی وابدی ہے۔ بالکل اسی طرح دنیاوی علوم اور ان کے فوائد وقتی اور عارضی ہیں ،دینی وشرعی علم اور اس کے فوائددائمی وابدی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:  

﴿ وَمَا هَذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾

” اور دنیا کی یہ زندگی نہیں مگر ایک دل لگی اور کھیل اور بے شک آخری گھریقینا وہی اصل زندگی ہےاگروہ جانتے ہوتے۔“

دنیا کی حقارت

د نیا کی حقارت وذلت کااندازہ ایک حدیث مبارکہ سے لگایاجاسکتاہے ۔

ایک مرتبہ رسول کائنات بازار سے گزرتے ہوئے ایک حقیر سے کانوں والے مردہ میمنے کے کان سے پکڑ کر فرمایا :تم میں سے کون اسے ایک درھم کے عوض لینا پسند کرے گا توصحابہ؇ نے کہا اے اللہ کے رسول ہمیں یہ کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں ہم اسے لے کرکیا کریں گے ۔بلکہ اگریہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کیونکہ یہ حقیرسے کانوں والا ہے ،پھر جب وہ مردار ہے تو کس کام کا؟آپ نے فرمایا

فَوَاللهِ لَلدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ، مِنْ هَذَا (صحیح مسلم:2957)

”اللہ کی قسم ! جتنا تمہارے نزدیک یہ حقیر ہے اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیرہے۔“

قابل غور بات یہ ہے کہ اس قدر حقیروذلیل دنیا جس کے حصول کے لیے لاکھوں کروڑں کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں ،عمریں صرف کی جارہی ہیںاس کے برعکس دینی وشرعی علوم جس کے فوائدبھی دائمی اور ابدی ہیں جوہمارا اصل مطلوب ومقصود ہے سے اس قدر اغماض؟؟

3دینی علم کا حصول دنیا کے قیمتی ترین سازوسامان سے بہتر

دینی علوم کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے رسول کائنات نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے کوئی پسند کرتاہے کہ بطحان یاعقیق (وادی)(یعنی اونٹوں کی منڈیوں) میں جائے اور وہاں سے موٹی تازی خوبصورت اونچی کوہان والی دوانٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ یاقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو(یعنی بغیر محنت وجدوجہد اور بغیردھوکہ دہی وفراڈ، چوری کے)۔(صحابہ کرام نے) کہا:اے اللہ کے رسول !ہم سب یہ چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:

فَلَأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ كُلَّ يَوْمٍ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَيَتَعَلَّمَ آيَتَيْنِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ نَاقَتَيْنِ، وَإِنْ ثَلَاثٌ فَثَلَاثٌ مِثْلُ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الْإِبِلِ

تمہاراہرروز مسجد میں جاکر کتاب اللہ سے دوآیتیں سیکھ لینا دواونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے،اگر تین آیتیں سیکھ لے تو تین اونٹنیوں کےحصول سے بہتر ہے،اسی طرح مزید آیتوں کی تعداد کے مطابق اونٹنیوں سے بہتر ہوگا۔“ (سنن ابی داؤد:1456/صحیح مسلم:803)

4مرنے کے بعد نفع بخش صرف دینی علم

  سیدنا ابوہریرہ؄ سے مروی ہے رسول اللہ نے فرمایا:جب انسان فوت ہوجائے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتاہے سوائے تین اعمال کے وہ منقطع نہیں ہوتے

إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ  (صحیح مسلم:1631)

”صدقہ جاریہ،یاایساعلم جس سے فائدہ اٹھایاجائے(یعنی دینی علم) یانیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔“

5دینی علم حاصل کرنے والےاور اسکو آگے پہنچانےوالے کے لیے دعائے نبوی

رسول اللہ نےدینی وشرعی علم حاصل کرنے والے اور آگے منتقل کرنے والے کے لیے دعافرمائی:

نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ، فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ (جامع ترمذی:2657)

”اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش وخرم اور شاداب رکھے جس نے مجھ سے کوئی بھی چیز سنی اور پھر اس نے اسے ہوبہوجس طرح سنا آگے منتقل کردیا۔“ 

ایک اہم نکتہ

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ علم شریعت کا مداربراہِ راست اساتذہ سے پڑھنے اور سننے میں ہے جو شخص محض کتب وانٹرنیٹ پر اکتفاکرتاہےوہ اتنا معتمد نہیں جتنا اساتذہ سے پڑھنے اور سننے والا ہوسکتاہے ۔محض کتب بینی سے علم حاصل کرنے والے شخص کو محدثین کی اصطلاح میں صحفی کہاجاتاہے۔

6شرعی علم کا حاصل کرنے والا درحقیقت جنت کے راستے پر گامزن ہوتاہے:

رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ (صحیح مسلم:2699)

”جو شخص شرعی علم کے حصول کے راستے پرگامزن ہوا،تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سےاس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرمادیتاہے۔“

7دینی علوم سے بہرہ ور شخص دنیا کا بہترین شخص

رسول اللہ ﷺنے فرمایا

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (صحیح بخاری:5027)

”تم میں سے سب سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھتااور سیکھاتاہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے :

إِنَّ أَفْضَلَكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ (صحیح بخاری:5028)

”بلاشبہ تم میں سے سب سے افضل وہ ہے جو قرآن مجید خود سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے۔“

مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ یہ مال ودولت کی فراوانی ،یہ معاشرتی و معاشی حیثیت ،یہ اسباب کی فراوانی،یہ اونچی اونچی ملازمتیں ،یہ مستحکم و مضبوط کاروبار ، یہ چمکیلی اور لمبی لمبی کاریں،یہ وسیع وعریض محلاّت ،یہ دولت کی ریل پیل ،یہ برادری اور معاشرے میں سٹیٹس یہ سب چیزیں افضلیت و بہتری کامعیار نہیں ،افضلیت اور بہتری کا معیار دینی علوم کا سیکھنا اور سیکھانا ہے۔

صحابہ کرام میں دینی تعلیم کے حصول کاذوق وشوق

1 سیدنا ابوہریرہ ؄بھوکے پیاسے رہ کر تحصیل علم میں مصروف رہتے ۔ “بِشِبَعِ بَطْنِهِ”یعنی شکم سیری سے بے فکر ہوکر جہاں کوئی نہ ہوتا وہاں ابوہریرہ ہوتے ۔ جوبات کوئی محفوظ نہ کرتا ابوہریرہ وہ محفوظ کرلیتے۔ (صحیح بخاری:118)

ان کی اس علمی حرص کو دیکھ کررحمت کائنات فرمانے لگے ۔اے ابو ہریرہ رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ ”حدیث کے دریافت کرنے پر میں نے تمہاری حرص دیکھ لی ہے۔“ (صحیح بخاری :99)

صرف حصول علم کاشوق ہی نہیں بلکہ علمی باتیں حدیثیں سننے کے بعد حفظ کرنے کا شوق بھی اس قدر غالب تھا: فرمانے لگے اللہ کے رسول! آپ سے بہت سی حدیثیں سنتاہوں اور بھول جاتاہوں ۔آپ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ،ابوہریرہ نے چادر پھیلادی۔ رحمت کائنات ﷺنے اپنے دونوں ہاتھ سے چلو بناکر چادر پر انڈیل دیا ۔پھر فرمایا:اپنے ساتھ لپیٹ لو، سیدنا ابوہریرہ؄ نے اسے لپیٹ لیا۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (صحیح بخاری:119)

”پھر اس کے بعد مجھے کچھ بھی نہیں بھولا۔سبحان اللہ    

2 سیدنا ابن عباس ؄کی حرص دیکھ کر رحمت کائنات نے انہیں سینے سے چمٹا کر دعادی:

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الكِتَابَ (صحیح بخاری:75)

اےاللہ اسے اپنی کتاب کا علم عطاکردے۔“

سیدنا ابن عباس جلد ہی علم کے ایسے کمال کو پہنچے کہ سیدنا عمر پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیےمعمرصحابہ کےساتھ ابن عباس کو بھی شامل کیا کرتے تھے۔(صحیح بخاری:4970)

3سیدنا جابر بن عبداللہ؄ نے ایک حدیث کی سماعت کے لیے “مَسِيرَةَ شَهْرٍ” ”ایک مہینے کاسفر کیا۔اور عبداللہ بن انیس کے پاس شام پہنچے۔“(صحیح بخاری: باب الخروج في طلب العلم)

4 محمود بن ربیع ایک حدیث کی دوبارہ سماعت کے لیے قسطنطنیہ سے مدینہ منورہ پہنچے اور عتبان بن مالک انصاری سے دوبارہ حدیث سماعت فرمائی ۔“(صحیح بخاری:1186)

5 عقبہ بن حارث ایک مسئلہ دریافت کرنے کے لیے اتنے بے چین ہوئے کہ رسول اللہ کے پاس مکہ سے مدینہ پہنچے ۔(صحیح بخاری:88)

6 سیدنا عمر فاروق؄ نے حصول علم کے لیے مدینہ میں اپنے انصاری پڑوسی کے ساتھ باری مقررکر رکھی تھی۔(صحیح بخاری:89)

7سیدناعبداللہ بن عمرو؄میں علم حدیث حاصل کرنے کی حرص اس قدر تھی کہ ہر وقت حدیث لکھتے رہتے۔ قریش کے بعض لوگوں نے انہیں اس عمل سے روکا ، رحمت کائنات کوپتاچلا،توآپ نے فرمایا:

 ” اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ”     

”تم لکھو،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری (محمد کی) جان ہے میرے منہ سے حق بات کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتاہے۔“(سنن ابی داؤد:3646)

8 سیدنا عبداللہ بن مسعود؄ کے علمی ذوق کا اندازہ لگائیے ،فرماتے ہیں :

وَاللَّهِ الَّذِي لاَ إِلَهَ غَيْرُهُ، مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلاَ أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ، تُبَلِّغُهُ الإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ(صحیح بخاری:5002)

”اس اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبودبرحق نہیں اللہ کی کتاب کی کوئی سورت  نازل نہیں ہوئی ،مگر میں اس کے متعلق جانتا ہوں کہ کہاں نازل ہوئی اور کتاب اللہ میں کوئی آیت نہیں،مگر میں جانتا ہوں وہ کس کے متعلق نازل ہوئی ، اور اگر مجھے علم ہو جائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا ہےیعنی بڑاعالم ہے اور اونٹ ہی اس کے پاس مجھے پہنچا سکتے ہیں (یعنی ان کا گھر بہت دور ہو) تب بھی میںضرور سفر کر کے، (حصول علم کیلئے اس کے ہاں) پہنچ جاؤں۔“

9سیدناعمران بن حصین ؄رسول اللہ کی مجلس میں علمی باتیں سننے میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک آدمی نے آکرکہاکہ اے عمران اپنی اونٹنی کی خبر لو،وہ بھاگ گئی ہے عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ میں اونٹنی کی تلا ش میں نکل کھڑا ہو امیں نے دیکھا میرے اور اس کے درمیان سراب حائل ہے ۔اللہ کی قسم! اب میں چاہتاہوں کہ :

أَنَّهَا قَدْ ذَهَبَتْ وَلَمْ أَقُمْ  (صحیح بخاری:7418)

”اونٹنی جاتی تھی تو چلے جاتی مگر میں آپ کی (علمی) مجلس سے نہ اٹھتا۔“

0 رسول اللہ ﷺکے ایک صحابی ابوذر غفاری فرماتےہیں اگر تم اس پر(گردن کی طرف اشارہ کیا) تلوار رکھ دو اور مجھے گمان ہوکہ

 أَنِّي أُنْفِذُ كَلِمَةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

”میںنے نبی سے جوایک کلمہ بھی سنا ہے گردن کٹنےسے پہلے پہلے بیان کردوں گاتویقینامیں اسے بیان کردوں گا۔“(صحیح بخاری:کتاب العلم،قبل القول والعمل)

قارئین کرام! ایمان و علم میں ایک زبردست رابطہ ہے۔ ایمان کے بعد دوسری اہم چیز علم ہے جس کا خزانہ قرآن و حدیث ہے ۔

قرآن و حدیث کے علم کو محنت، کوشش، شوق اور لگن سے حاصل کرتے جایئے اور پھیلاتے جایئے، اسے ضائع نہ کیجیے، علم کو کمرشل نیٹ سے نہ سیکھیے بلکہ اس کی تڑپ اور طلب حصول میں مخلص ہوجایئے۔ جو علم سیکھنے میں مخلص ہوجاتاہے، اللہ تعالیٰ اس کی جسمانی توانائی بڑھا دیتا ہے جس سے تحصیل علم میں تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل موسیٰ اور خضر علیہما السلام کا واقعہ ہے۔ سیدناموسیٰ علیہ السلام نے خضر علیہ السلام سے علم حاصل کرنے کے لیے طویل سفر اور تکلیف کی پروا نہ کی اور فرمایا: صدیاں بھی گزر جائیں تو علم حاصل کیے بغیر نہ ہٹوں گا۔ کچھ مدت بعدفرمایا: اس سفر میں ہم نے بڑی تکلیف اٹھائی ہے۔ مگر موسیٰ اور ان کے شاگرد یوشع بن نون علیہ السلام کو اللہ نے کتنی ہمت عطا کی کہ انھیں تھکاوٹ کی پروا نہ ہوئی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو دین علم سیکھنے اور اس علم پر عمل کرنے اور دوسرے لوگوں تک پہچانے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے