ڈاکٹر مقبول احمد مکی

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ   فَاِلٰـهُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَهٗٓ اَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ

’’اور ہم نے ہر قوم کی عبادت(قربانی) کے طریقے مقرر کئے ہیں تاکہ وہ اﷲ کے دئیے ہوئے چوپائے جانوروں پر اﷲ کا نام لیں۔‘‘(الحج 22: آیت 34)

فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (الکوثر : 2)

’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الانعام :162)

’’(اے محمد e)کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت (قربانی) میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب کچھ اﷲ کے لئے ہے۔‘‘

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَکُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ لَکُمْ فِيْهَا خَيْرٌ   فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَاۗفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰهَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ، لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْکُمْ کَذٰلِکَ سَخَّرَهَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ (الحج : 36تا37)

’’قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے مقرر کئے ہیں ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں پس کھڑا کر کے ان پر اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر نحر (ذبح) کرو پھر جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور مسکین سوال کرنے اور سوال نہ کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اﷲ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون بلکہ اُسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے ۔‘‘

لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاۗىِٕسَ الْفَقِيْرَ (الحج : 28)

’’اورمقررہ ایام میں (ذبح کے وقت) چوپاؤں پر اﷲ کا نام لو جو اﷲ( تعالیٰ) نے تمہیں دئیے ہیں پھر ان میں سے خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔‘‘

 قربانی کرنا سنت ہے:

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا نُصَلِّي، ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ، فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَآ (صحیح مسلم، کتاب الاضاحی،باب وقتہا، حدیث:1961)

سیدنا براء ابن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم نے فرمایا: ’’بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ، کہ نماز [عید] ادا کرتےہیں، پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا‘‘ ۔

عَن أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ، وَأَنَا أُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ(صحیح بخاری  کتاب الاضاحی،باب اضحیۃ النبیﷺ حدیث: 5553 )

سیدنا انس فرماتے ہیں کہ نبی کریم دو مینڈھے ذبح کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں‘‘ ۔

کن جانورں کی قربانی درست نہیں:

أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيِّ – فَقَالَ -: الْعَوْرَاءُ بَيِّنٌ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ بَيِّنٌ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ بَيِّنٌ ظَلْعُهَا، وَالْکَسِيرُ الَّتِي لَا تَنْقَى  (سنن ابي داؤد ، کتاب الضحايا ، باب ما يکره من الضحايا ، رقم الحديث : 2799)

’’چار قسم کے جانورقربانی میں جائز نہیں، کانا،جس کا کاناہونا واضح معلوم ہو ، بیمار جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہو اور ایسا بوڑھا کہ اس کی ہڈیوں میں گودھا نہ ہوا ۔‘‘

امام احمد ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ن ابن حبان اور حاکم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ

عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَيْنِ، وَلَا نُضَحِّي بِعَوْرَاءَ، وَلَا مُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا خَرْقَاءَ، وَلَا شَرْقَاءَ (سنن ابي داود، کتاب الضحايا، باب ما يکره من الضحايا، الحديث:2804)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ نے حکم دیا ، کہ ہم (قربانی والے جانور کی) آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح پڑتال کر لیا کریں اور وہ جانور ذبح نہ کریں ، جو یک چشم ہو ، یا جس کے کان آگے سے یا پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں یا جس کے کان لمبائی میں کٹے ہوں یا عرض میں (یا جس کےکانوں میں سوراخ ہو)۔

طاقت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے لیے وعید

نبی کریم نے فرمایا:

مَنْ کَانَ لَهُ سَعَةٌ ، وَلَمْ يُضَحِّ ، فَلاَ يَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا

’’جو شخص قربانی کرنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے باوجود وہ قربانی نہیں کرتا تو وہ ہر گز ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ ، ابواب الأضاحی ، الأضاحی أواجبۃ ھی أم لا ؟ الحدیث : 3160)

قرباني کرنے والا ذوالحجہ کے چاند کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ چھیڑے

نبی کریم کا فرمان ہے : 

إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِکْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ (صحیح مسلم ، کتاب الاضاحی ، باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجۃ وھویرید التضحیۃ أن یأخذ من شعرہ وأظفارہ شیئاً ، الحدیث : 1977)

’’ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربان کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کو کاٹنے اور تراشنے) سے بچو۔‘‘

پورے گھرانے کی طرف سے قربانی کا حکم

نبي کريم کا ارشاد گرامی ہے : 

بِاسْمِ اللهِ، اللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ، وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ (صحیح مسلم ، کتاب الاضاحی ، باب استحباب الضحیۃ ، رقم الحدیث : 1976)

’’ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ، اے اللہ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرمائیے۔‘‘

سیدنا عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِالشَّاةِ الْوَاحِدَةِ عَنْ جَمِيعِ أَهْلِهِ (المستدرک علی الصحیحین ، کتاب الاضاحی ، رقم الحدیث : 19052)

’’رسول اللہ اپنے سارے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتے تھے ۔‘‘

سیدناعطابن یسارh نے سیدناابو ایوب انصاریt  سے سوال کیا کہ رسول کریم e کے زمانے میں قربانی کی کیا کیفیت تھی۔؟ تو انہوں نے فرمایا :

کَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْکُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ کَمَا تَرَى (جامع الترمذی ، ابواب الاضاحی ،باب ما جاء أن الشاۃ الواحدۃ تجزئ عن أھل البیت ، الحدیث : 1541)

’’ آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا اور اس سے وہ کھاتے بھی تھے اور کھلاتے بھی تھے پھر لوگ فخر کرنے لگے اور نوبت جہاں تک پہنچ گئی ہے وہ تم دیکھ رہے ہو۔‘‘

قربانی کے جانور کی عمر کیا ہو؟

نبیٔ کریم نے فرمایا:

لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً، إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْکُمْ، فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ (صحیح مسلم ، کتاب الاضاحی ، باب سن الأضحیۃ ، الحدیث : 1963)

’’ دو دانت والے کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو ہاں اگر دشواری پیش آجائے تو دو دانت سے کم عمر کا دنبہ بھی ذبح کرلو۔‘‘

صحابہ فرماتے ہیں:

ضَحَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَذَعٍ مِنَ الضَّأْنِ (سنن نسائی ، کتاب الضحایا ، المسنۃ والجذعۃ ، الحدیث : 4382)

’’ ہم نے رسول اللہ کے ساتھ دو دانتوں سے کم عمر والے دنبہ کی قربانی دی۔‘‘

مشین لگے جانور کی قربانی

رسول اللہ کا فرمان ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَتَى بِکَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ عَظِيمَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَأَضْجَعَ أَحَدَهُمَا [وَقَالَ: ” بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَکْبَرُ، اللَّهُمَّ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ” ثَمَّ أَضْجَعَ الْآخَرَ فَقَالَ: “بِسْمِ اللَّهِ وَاللَّهُ أَکْبَرُ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ مَنْ شَهِدَ لَکَ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لِي بِالْبَلَاغِ (مجمع الزوائد ، کتاب الاضاحی ، باب أضحیۃ رسول اللہ ﷺ  ، الحدیث : 5969)

’’یقیناً رسول اللہ کے پاس دو سینگوں والے ، چت کبرے ، بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے ، آپ نے ان دونوں میں سے ایک کو پچھاڑا اور کہا ’’ اللہ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑے ہیں ، محمد ﷺ اور ان کی امت کی طرف سے ، جنہوں نے آپ کی توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام الٰہی کو پہنچانے کی شہادت دی۔‘‘

قربانی کے دن

رسول اللہ کا ارشاد ہے :

کُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ (مسند احمد :16752)

’’تشریق کے سب دنوں میں (قربانی کا جانور) ذبح (کرنا درست) ہے۔‘‘

قربانی کب کي جائے ؟

نبی کریم کا فرمان ہے : 

مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، فَلاَ يَذْبَحْ حَتَّى يَنْصَرِفَ (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد ، الحدیث : 5563)

’’ جس نے ہماری نماز پڑھی اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیاوہ (نماز عید سے) واپس آنے سے پہلے قربانی نہ کرے۔‘‘

نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے :

إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا نُصَلِّي، ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ، فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، وَمَنْ ذَبَحَ، فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسُکِ فِي شَيْءٍ (صحیح البخاري ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد ، الحدیث : 1961)

’’ بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ نماز (عید) ادا کرتے ہیں پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں جس شخص نے ایسے ہی کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا اور جس نے اس سے پہلے ذبح کیا تو وہ گوشت ہے ، جو اس نے اپنے گھر والوں کو دیا اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ۔

قربانی کاجانورکون ذبح کرے ؟

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ انہوں نے فرمایا :

ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا، يُسَمِّي وَيُکَبِّرُ ويَذبَحُهُمَا بِيَدِهِ (صحیح البخاری،کتاب الاضاحی، باب من ذبح الاضاحی بیدہ ، الحدیث : 5558)

’’ نبی کریم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی دی، میں نے آپ کو اپنا قدم ان کے پہلوؤں پر رکھے (بِسْمِ اللّهِ وَاللّهُ أَکْبَرُ)پڑھتے دیکھا اور آپ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا ۔‘‘

امام احمد نے ایک انصاری شخص سے روایت کی ہے :

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَضْجَعَ أُضْحِيَّتَهُ لِيَذْبَحَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلِرَّجُلِ: أَعِنِّي عَلَى ضَحِيَّتِي (مسند احمد : 23168)

رسول اللہ نے اپنے قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے پچھاڑا اور آپ ﷺ نے آدمی سے فرمایا کہ قربانی(کے ذبح کرنے) میں میری اعانت کرو۔‘‘

قربانی کا جانور دوسروں سے ذبح کروانا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا :

وَضَحَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب بیان وجوہ الاحرام، الحدیث : 1211)

’’ اور رسول اللہ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔‘‘

خاتون کا اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے

امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے :

وَأَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح ضحية غيره )

ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں ۔

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ

أنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجْرٍ فَسُئِلَ النبيُّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، عَنْ ذَلِکَ فَأمَرَ بِأکْلِها (صحیح البخاری ، کتاب الذبائح والصید ، باب ذبیحۃ المرأۃ والأمۃ ، الحدیث : 5504)

بے شک ایک عورت نے پتھر سے ایک بکری کو ذبح کیا نبی کریم سے اس بارے میں دریافت کیاگیا تو آپ ﷺ نے اس کے کھانے کاحکم دیا۔

اگر کوئی نمازِ عید سے پہلے قربانی کرےتو کیساہے؟

عن جُنْدَب بْنَ سُفْيَانَ البَجَلِيَّ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَالَ: مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُعِدْ مَکَانَهَا أُخْرَى، وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی ، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد ، الحدیث : 5562 )

سیدنا جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ  قربانی کے دن میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلی ہووہ اس کی جگہ دوبارہ کرے اور جس نے قربانی ابھی نہ کی ہو وہ کرے۔

ذبح کرنے کا طریقہ:

أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَقْرَنَيْنِ، وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صَفْحَتِهِمَا وَيَذْبَحُهُمَا بِيَدِهِ (صحيح البخاري کتاب الأضاحي باب وضع القدم على صفح الذبيحة ، الحديث : 5564 وسنن ابي داود کتاب الضحايا باب ما يستحب من الضحايا ، الحديث : 2794)

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم سینگ والے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور رسول اکرم اپنا پائوں ان کی گردنوں کے اوپررکھتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے تھے۔

قربانی کا کتنا گوشت کھایا جائےاورکتناجمع کرکے رکھا جائے

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الأَکْوَعِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ ضَحَّى مِنْکُمْ فَلاَ يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ فَلَمَّا کَانَ العَامُ المُقْبِلُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفْعَلُ کَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِي؟ قَالَ: کُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا، فَإِنَّ ذَلِکَ العَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا (صحیح البخاری ، کتاب الاضاحی،باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی،الحدیث:5569)

سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم نے فرمایا جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میںسے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) رسول اکرم نے فرمایا کہ اب کھائو ، کھلائو اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے