محمد ساجد

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم وبعد !

یوں تو اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کی بارش ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم کے سمندر سے دیا سیراب نہ ہوتی ہو، مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض ماہ کچھ ایسی خصوصیات اور امتیازی حیثیت رکھتے ہیں جو دوسر وں میں متوفر نہیںہوتیں۔

امتیازی خصوصیات میں ماہ ذو الحجه کے ابتدائی عشرہ کوجو امتیاز حاصل ہے بقیہ ایام کو اتنا امتیاز حاصل نہیں ہوا ،اس میں رب ذوالجلال والاکرام کے بحرِ رحمت کی امواج میں بے انتہا تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت کی فراوانی خشک وادیوں کو سیراب اور مردہ بیابانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ قارئین کے فائدہ کے لئے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی تشنۂ ثواب اس سے فائدہ اُٹھائے اور میرے لئے باعثِ اجر و ثواب بن جائے۔

یہ وہ ایام ہیں جس کی بزرگی ،خصوصیت اور فضلیت قرآن اور حدیث سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

وَالفَجرِوَلَيالٍ عَشرٍ(الفجر1۔2)

’’قسم ہے صبح (یوم النحر) کی اور (ذی الحجہ) دس راتوں کی۔‘‘

امام ابو الفداء عماد الدین اسماعیل ابن کثیر اپنی مایہ ناز تفسیر بنام تفسیر ابن کثیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول و دیگر اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

وَالصَّحِيحُ الْقَوْلُ الْأَوَّلُ

صحیح قول وہ پہلا قول ہے جوکہ عبداللہ بن عباس کا قول ہے۔وہ یہ ہے:

وَاللَّيَالِي الْعَشْرُ الْمُرَادُ بِهَا عَشَرُ ذِي الْحِجَّةِ

 لیالی عشر سے مراد عشر ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔ (تفسير ابن کثير 8/ 381)

بہر حال اللہ تعالیٰ جس کسی بھی چیز کی قسم کھاتا ہے تو وہ مکرم و معظم ہوتی ہے۔ چنانچہ ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوئے۔

مذکورہ ایام کی قرآن و حدیث میں بہت بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔

اور احادیث مبارکہ میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ . يَعْنِى أَيَّامَ الْعَشْرِ. قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ : وَلاَ الْجِهَادُ فِى سَبِيلِ اللَّهِ إِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَىْءٍ )سنن أبي داود کتاب الصوم ، باب في صوم العشر ، الحديث : 2438)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

 ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کئے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کئے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺاللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ نے فرمایا ! ہاں تب بھی۔ انہی ایام کا عمل زیادہ محبوب ہے البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان ومال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ تو واپس نہ ہوا (یعنی شہید ہوگیا) تو یہ افضل ہے۔

قارئین کرام ! ذرا غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ایام کے اعمال کو باقی ایام کے اعمال سے برتر و بالا رکھا ہے۔

اب ہمیں ان ایام میں بڑھ چڑھ کر تکبیرات(اللہ اکبر) ، تحمیدات(الحمدللہ)، تہلیلات (لا الہ الا اللہ) کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان ایام میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے، تکبیرات پڑھا کرتے تھے، حتیٰ کہ بازار میں بھی تکبیرات کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اثر منقول ہے۔

وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُکَبِّرَانِ وَيُکَبِّرُ النَّاسُ بِتَکْبِيرِهِمَا (صحيح البخاري ، کتاب الجمعة باب فضل العمل في أيام التشريق)

سیدناعبد اللہ بن عمر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہما بازار میں نکلتے اور بآوازتکبیرات کہتے تھے تو لوگ ان کی تکبیرات کو سن کر تکبیر کہتے تھے ۔

اور اس حساب سے یہ ایک صدقہ جاریہ بھی ہے جیسا کہ سیدنا ابو سعید الانصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ (مسلم، کتاب الامارة باب فضل إعانة الغازي في سبيل الله بمرکوب وغيره ، الحديث : 1893)

ــ’’جو شخص نیکی کے بارے میں کسی کی رہنمائی کرتاہے تو اس کو نیکی کرنے والے جتنا ثواب ملتا ہے۔‘‘

ایک حدیث میں

وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ (صحيح مسلم ، کتاب الکسوف ، باب بيان أن اسم الصدقة يقع على کل نوع من المعروف ، الحديث : 1006)

’’نیکی سے متعلق حکم دینا بھی صدقہ ہے ۔‘‘

نوٹ:

9نویں ذوالحجہ کی صبح سے لیکر 13 تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک تکبیرات پڑھنا چاہئے اور تکبیر کے الفاظ یہ ہیں

اَللّٰہُ أکْبَرْ  اَللّٰہُ أکْبَرْ لَااِلٰہَ  اِلَّا اللّٰہُ  وَاللّٰہُ أکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلہِ الْحَمْدِ

اور صحیح بخاری میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک اور اثر منقول ہے ۔

وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ يُکَبِّرُ بِمِنًى تِلْکَ الأَيَّامَ وَخَلْفَ الصَّلَوَاتِ ، وَعَلَى فِرَاشِهِ وَفِي فُسْطَاطِهِ وَمَجْلِسِهِ وَمَمْشَاهُ تِلْکَ الأَيَّامَ جَمِيعًا (صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ ، باب التکبیر أیام منی وإذا غدا إلى عرفة)

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان ایام میں یعنی عشرہ ذوالحجہ منی میں نمازوں کے بعد چلتے پھرتے بیٹھتے خیمے میں بستر پر تکبیرات بلندکیا کرتے تھے۔‘‘

قارئین کرام! ذرا غور کیجیے ، صحابی رسول کا اہتمام دیکھیے تکبیرات کے ساتھ اور عبادت کا شوق کہ کس طرح اپنی زندگی کے لمحے لمحے میں تکبیرات کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو قیمتی سمجھتے ہیں ، لیکن ہمارا حال آج یہ ہے کہ عبادت تو دور کی بات بلکہ مجلسوں میں اٹھتے بیٹھتے حتی کہ مسجدوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں کسی کو اپنی زبان کے ذریعے ایذاء پہنچائیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ رب العزت اور رسول اللہ نے سخت وعیدیں فرمائیں ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے :

 وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ يَأْکُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَکَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ (الحجرات:12)

’’ ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیا تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے سگے مردار بھائی کا گوشت کھائے ، پس تم اس سے کراہت کرتے ہو او ر اللہ سے ڈرجاؤ یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نےاپنے صحابہ سے فرمایا : 

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ . قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ. فَقَالَ : إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِى يَأْتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَةٍ وَصِيَامٍ وَزَکَاةٍ وَيَأْتِى قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَکَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَکَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِى النَّارِ (صحيح مسلم کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم ، الحديث : 2581)

کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے کہ جس کے پاس مال اسباب نہ ہو آپ ﷺنے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ جو نماز روزے زکوة و غیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی پر تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سب لوگوں کو اس آدمی کی نیکیاں دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہو گئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دئے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

تو اس لیے میرے بھائیو! اپنی زبان کی حفاظت کرو اس کی حفاظت اس میں ہے کہ تم اسے اچھے کاموں میں استعمال کرو ان ایام میں کثرت سے ذکر واذکار کیا کرو ۔ رسول اللہ کا فرمان ہے : 

مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّکْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ (مسند احمد : 6154)

عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر کوئی دن اللہ کی نگاہوں میں معظم نہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی اور دن میں اعمال اتنے زیادہ پسند ہیں اس لئے ان دنوں میں تہلیل و تکبیر اور تحمید کی کثرت کیا کرو۔

اور ابن عباس رضی اللہ عنہما : وَاذْکُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

المراد بھا أیام عشر ذی الحجۃ (صحيح البخاری ، کتاب الجمعة ، باب فضل العمل في أيام التشريق)

ایام معلومات سے مراد عشرہ ذی الحجہ کے ایام ہیں کیونکہ عشرہ ذی الحجہ میں زیادہ ذکر واذکار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

تو اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ان ایام میں کثرت کے ساتھ ذکر واذکار کریں تکبیرات کہیں اپنے مسلمان بھائیوں کو ترغیب دلائیں اور ان ایام میں سے ایک دن کا روزہ بھی ہے ۔

 چنانچہ سیدنا ابوقتادہ رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم سے عرفہ کے روزہ سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :

يُکفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ (صحيح مسلم، کتاب الصيام باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس ، الحديث :1162)

’’یہ گزرے ہوئےاورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے۔‘‘

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وقت کو غنیمت سمجھیں اور ان ایام میں کثرت کے ساتھ ذکر کریں تکبیرات ، تحمیدات ، تہلیلات پڑھیں ، بیہودہ فضول باتوں سے بچیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔

وَفِي ذَلِکَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ
وما توفیقی إلا باللہ علیہ توکلت وإلیہ أنیب

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے