فحمدًا ثم حمدًا ثم حمدًا !
 لربِّ العالمين بلا توانِي !
وشُكرًا ثم شُكرًا ثم شُكرًا
له في كل أوقاتٍ وآنٍ

’’ہر قسم کی حمد ، ہر قسم کی تعریف پھر حمد پہ حمد ، تعریف پہ تعریف بلا انقطاع وتوقف رب العالمین کے لیے ہے پھر شکر پہ شکر ہزار ہا شکر ہر وقت ہر لحظہ رب العالمین کے لیے ہے۔‘‘

پاکستان رب رحمن کا عظیم احسان ہے یہ وہ نعمت ہے جس کا جس قدر شکر ادا کیا جائے کم ہے اور اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیے جو ہندو مسلم معاشرے میں رہ چکے ہیں جنہوں نے ہندؤں کا تعصب بھی دیکھا اور مسلمانوں کی غفلت کا بھی مشاہدہ کیا ۔ یوم آزادی پہ ایک ایسے ہی محترم بزرگ استاد کے ہاںاس غرض سے بیٹھا ہوا تھا کہ وہ کیا کہتے ہیں بتارہے تھے کہ راجھستان کی تحصیل الورکے گاؤں پہل میں آباد تھے ہندؤں کے ساتھ رہن سہن کی وجہ سے اپنی تہذیب اپنائے ہوئے لوگ معلوم نہیں وہ کیسے مسلمان ہوگئے تھے۔ قریب قریب کوئی مسجد نہ تھی لوگوں کو کلمہ تک نہیں آتا تھا بتارہے تھے کہ غالباً پانچ چھ سال کی عمر میں ہوں گے کہ دادا کا انتقال ہوگیا ہندؤں نے کہا ہم ارتھی نکالیں گے گاؤں کا ٹھاکر دادا کا دوست تھا وہ آڑے آیا اور تب کہیں دادا کی تدفین عمل میں آئی ورنہ ہندو تو میت کو جلانے پہ تلے بیٹھے تھے۔قریبی عزیزوں میں کسی کا نام چندر تھا اور کسی کا سنپت گویا ہندو تہذیب کا راج تھا آج جب شب وروز ان کا مسجد آنا جانا ہوتاہے، علماء کی صحبت اور دین کی برکت سے فیض یاب ہوتے ہیں تو پرانا وقت یادکرتے ہیں پھر ہجرت کی جو کلفتیں اٹھائیں اور اب پاکستان کی برکت سے جو راحتیں میسر آئیں ان کا تقابل کرتے ہوئے ان کی باتوں میں شکر وسپاس کے جذبات نمایاں تھے یہ تو ایک مختصر سی کہانی ہے ورنہ ایسی ہی اور اس سے المناک کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی اور اس سبز ہلالی پرچم رکھنے والے پاکستان کا خمیر لا الہ إلا اللہ سے اٹھایا گیا۔ مدینہ منورہ کے بعد سب سے پہلی نظریاتی ریاست معرض وجود میں آئی جس کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں جان ومال ہی نہیں عزت وآبرو جیسی متاع عزیز بھی ارض پاک کے نام پہ لٹ گئی زخموں سے چور مہاجر قافلوں کی جبینیں جب ارض پاک پہ سجدہ ریز ہوئیں تو جیسے انہیں اپنے خواب کی تعبیر مل گئی۔ ان کی چشم تصور نے جو مستقبل کی عملی تصویر دیکھی وہ یہ تھی ۔

 اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ (الحج :41)

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔‘‘  مگر صد حیف کہ یہ خواب وخیال کی باتیں رہیں اور اکہترویں یوم آزادی اسلامی ریاست کا وعدہ اسلامیان پاکستان سے وفا کا سوال کر رہا ہے حسن اتفاق ہے کہ ماہ آزادی اور ماہ قربانی ساتھ ساتھ ہیں پھر سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرنے کا مہینہ ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً پونے آٹھ کروڑ مسلمانان عالم (سُنَّۃُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ) کے ارشاد نبوی پر عمل کرتے ہوئے تقریباً تین کروڑ جانوروں کا نذرانہ بارگاہ خداوندی میں پیش کرکے اپنے والد ابراہیم اور پیارے نبی محمد مصطفیٰ کی قربانی کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اس عہد کو تازہ کرتے ہیں کہ : 

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ (الانعام:163164)

’آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ابتلاء وقربانی سے عبارت ہے آپ کی سیرت کا یہی وہ پہلو ہے کہ رب کریم نےخلیل کو امامت عالم کے رتبہ پر فائز فرماتے ہوئے مخاطب فرمایا: اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرۃ:124) ’’ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا۔‘

حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ وقت سے لے کر پوری آزری قوم مخالف مگر قربانی وہ وصف ہے کہ جس کی وجہ سے رب کریم نے نہ صرف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام کو قیامت تک زندہ رکھنے کا انتظام فرمایا بلکہ آپ کی ذات کو تمام انسانیت کے لیے اسوہ قرار دے دیا۔ ماہ آزادی ختم ہورہاہے رب تعالیٰ آزادی قائم رکھے اور ماہ قربانی جاری ہےالحمد للہ افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں نے قربانیاں پیش کرکےارض پاک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے کافی حد تک محفوظ کر دیا ہے۔پڑوسی ممالک کی ٹرائیکا جن میں ایک واضح دشمن اور جو اپنی ضرورت کے وقت دوست اور ہمیں وقت پڑے تو دشمن وہ سرجیکل اسٹرئیک کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ بیرونی خطرات سے زیادہ اندرونی خوف نقصان دہ بھی ہے اور اعصاب شکن بھی، الحمد للہ دفاعی اداروں نے اندرونی دہشت گردوں کی بہت حد تک سرکوبی کردی اور سرجیکل اسٹرئیک کا دعوی کرنے والوں کو بھی خاموش کردیا۔ اللہ پاک جذبۂ قربانی بھی جواں رکھے کیونکہ جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا۔ذی الحج یہ ماہ حرمت بھی ہے۔ اسلامی سال کا آخری مہینہ بھی حرمت والا اور پھر پہلا مہینہ محرم الحرام بھی حرمت والا یہ اسلام کا عالمی پیغام امن و آشتی ہے کہ سال کی ابتداء بھی امن کے پیغام کے ساتھ اور انتہا بھی ۔حج کا موسم اسلامی طرز حیات کا مظہر ہے جہاں نہ فساد ہے نہ جدال نہ جھوٹ ہے نہ فحش گوئی ۔ سال کے چار مہینے رب کریم نےحرمت والے قرار دے کر ان میں ویسے ہی قتال کو حرام قرار دے دیا۔

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ  ۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ ( التوبۃ:36)

’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔‘‘

یہ امن وسلامتی صرف اہل اسلام تک ہی محدود نہیں بلکہ امن عالم کے ضامن پیغمبر اسلام فرماتے ہیں :

 مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الجَنَّةِ (صحیح البخاری ، کتاب الجزیۃ ، باب اثم من قتل معاھدا بغیر جرم، الحدیث:3166)

’ جس نے معاہد ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا ۔‘‘ اللہ غارت کرے ہالینڈ کے ملعون گیرٹ وائلڈرز کو جو محسن انسانیت اور پیکر حسن وجمال کے استہزائیہ خاکوں کا مقابلہ کروانا چاہتا ہے۔ عبرت کا نشان تو وہ ابھی بھی بنا ہوا ہے کہ ہر وقت خوف کا شکار لوہے میں ملبوس جس سے جلد کی بیماریوں میں مبتلا بیوی ہفتہ میں ایک بار ملنے آتی ہے تو تلاشی کی ذلت سے گزر کراور آخرت کا عذاب سوا ہے ہمیں تعجب ہے اپنے میڈیا پر جو قطرے کو چاہیں تو دریا کر دکھائیں اور سمندر کو کوزے میں بند کردیں مگر اس سب سے بڑے مسئلہ پر انہیں سانپ سونگھا ہوا ہے۔سید المرسلین کی شفاعت کیسے نصیب ہوگی؟ جب دفاع حرمت رسول میں ہماری زبانیں گنگ رہیں گی، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے ورنہ چودھویں کے چاند کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اسلام آبادسینیٹ اجلاس میں ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرارداد مذمت منظور کرتے ہوئےکہاکہ’’ اس کیخلاف امت مسلمہ کو متحد کریں گے،اقوام متحدہ اور او آئی سی میں اس معاملے کو اٹھائیں گے۔‘‘حکومتی سطح پہ یہ ایک مستحسن اقدام ہے ، تو تمام مسلمانوں کو اس امر پر متحد ہوکر ہالینڈ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ بھی کرنا چاہیےتاکہ آئندہ کیلئے کوئی بھی اس طرح کی قبیح حرکت نہ سکے۔الحمد للہ پاکستان اور عالم اسلام کے شدید احتجاج پر ہالینڈ حکومت نے اس مذموم مقابلے کو منسوخ کر دیا ہے لیکن اہل اسلام اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک انبیاء کی عصمت سے متعلق کوئی عالمی قانون نہیں بن جاتا اس اعتبار سے وزیر اعظم پاکستان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جانے کا اعلان ایک اچھا فیصلہ ہے۔ ختم ہوتا ہوا اسلامی سال یہ پیغام چھوڑ کر جارہا ہے کہ مہلت عمل ختم ہورہی ، زندگی کا ایک سال اور کم ہوگیا ہے۔ سیاسی منظرنامہ بتارہا ہے کہ بقاء ودوام کسی کے لیے نہیں کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے کل تک اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان ہونے والے آج پابند سلاسل ہیں گویا زبان حال سے لیلائے اقتدار سے ہم آغوش ہونے والوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو ۔کاش ارباب اختیار اقتدار کو رب کی امانت سمجھیں ، وقت کو غنیمت جانیں اور اقتدار کی حقیقت کو جانیں۔

تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ(آل عمران:26)

’’تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے ۔‘‘نئے وزیر اعظم ایاک نعبد وایاک نستعین کے عقیدہ توحید پہ عملیت کا ثبوت دیں ، حلف اٹھاتے وقت خاتم النبیین کے الفاظ کی ادائیگی پہ زبان کا لڑکھڑانا اتفاقیہ امر ہی ہو، ختم نبوت کے عقیدہ کے معاملہ میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آنے پائے ورنہ اقتدار کی بساط سمٹتے لمحے لگتے ہیں۔ مدینہ منورہ کی فلاحی ریاست کا جو وعدہ انہوں نے کیا ہے اسے پورا کرنے کیلئے کوشاں ہوںتو یقیناً رب تعالیٰ سب سے زیادہ مددگار ہوگا۔ عوام ضرور ساتھ دینگے تقریر میں جو کچھ خان صاحب نے کہا ہے اس پہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ان باتوں کی سچائی سامنے آجائے گی، بہر کیف جو کچھ خان صاحب نے کہا ہے وہ اشرافیہ کے لیے ناقابل عمل ہی نہیں ناقابل تسلیم بھی ہوگا جس کا آہستہ آہستہ مکمل رد عمل سامنے آئے گا وجہ یہ ہے کہ خاص ہونے کا نشہ ایسا نہیں جسے ترشی اتاردے۔ خان صاحب اگر احتساب اور انصاف کا عمل مخصوص لوگوں تک رکھیں گے تو یہ کام تو پہلے بھی ہوتا آیا ہے اور اگر اسے بلاامتیاز نافذ کریں گے تو یہ بہت مشکل امر ہے مگر ناممکن نہیں اور اسی میں مکمل کامیابی ہے۔اللہ کے فضل وکرم سے 1439 کا موسم حج خیر وعافیت اور کامیابی سے تمام ہوا سعودی عرب مبارک باد کا مستحق ہے کہ جنہوں نے بے شمار وسائل بروئے کار لاکر ضیوف الرحمن کی خدمت کی۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے