خواتین و حضرات! ایمان اور ارکان اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے۔ کلمے کے دونوں جز ایمان اور اسلام کے رکنِ اعظم ہیں، ان میں دوسرے جز یعنی نبوت کا مقصد پہلے حصے کا ابلاغ اور اس کا انفرادی و اجتماعی زندگی پر نفاذ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے:

مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَهُ اللّٰهُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِيّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ(آل عمران:79)

’’ کسی بشر کے لیے جائز نہیں کہ جسے اللہ کتاب، حکومت اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کے سوا میرے بندے بن جائو بلکہ اسے یہ کہنا ہو گا کہ تم سب رب کے بندے بنو اس لیے کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو۔‘‘

اس فرمان کی روشنی میں کلمہ مبارکہ کا پہلا جز ہی پورے دین اور ہمارے اسلام اور ایمان کا جزو اعظم ہے۔ کلمے کا پہلا حصہ نفی اور اثبات پر مبنی ہے اور یہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک عہد اور حلف ہے، جس کا مقصد شرک سے نفرت اور توحید سے محبت کرنا ہے۔ جس کی جتنی شرک سے نفرت اور اللہ کی توحید سے محبت ہو گی اتنا ہی وہ ایمان اور اسلام میں آگے ہوگا۔ یہی ہمارے ایمان اور باہمی تعلقات کا معیار ٹھہرا ہے۔

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ کَحُبِّ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ وَ لَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًاوَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ (البقرہ:165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ وہ کچھ اب دیکھ لیں جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ تمام قوت اللہ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

عَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّابt قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِe ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُالسَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہٗ مِنَّا أَحَدٌ حَتّٰی جَلَسَ إِلَی النَّبِیّe فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ اَلْاِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللہِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ و تُؤْتِیَ الزَّکوٰۃَ  وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَہٗ یَسأَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الْاِیْمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ (رواہ مسلم: باب معرفة الإيمان، والإسلام، والقدر وعلامة الساعة)

’’سیدناعمر بن خطاب tبیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترمe کی خدمت میں حاضر تھے، ایک ایسا شخص ہمارے سامنے آیا جس کا لباس بالکل سفید اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے پہچان نہ سکا۔وہ آتے ہی نبی کریم eکے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو آپ کی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ eسے استفسار کرنے لگا: اے محمدe ! مجھے اسلام کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد e اللہ کے رسول ہیں‘ نمازقائم کرنا ‘زکوٰۃ ادا کرنا‘ رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہو تو اس کا حج ادا کرنا۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا:ہم نے اس بات پر تعجب کیا کہ یہ سوال بھی کرتاہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے۔پھر اس نے کہا مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔آپ نے فرمایا کہ تو اللہ ‘ اس کے فرشتوں‘ اس کی کتابوں ‘اس کے رسولوں‘ قیامت کے دن ‘اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے ۔‘‘

عَنِ ابْنِ عُمَرَ w قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ t  بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکٰوۃِ وَالْحَجِّ وَ صَوْمِ رَمَضَانَ(رواہ البخاری: باب قول النبي eبني الإسلام على خمس)

سیدنا عبداللہ بن عمر w بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اکرم e نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔۱) اس بات کی گواہی دینا کہ  اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بلاشبہ محمد e اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ ۲)نماز قائم کرنا۔۳)زکوٰۃ دینا۔۴) حج ادا کرنا۔۵) اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ w أَنَّ النَّبِيَّ e بَعَثَ مُعَاذًا t إِلَى اليَمَنِ فَقَالَ ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي کُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِکَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ(رواہ البخاری: باب وجوب الزکٰوۃ)

’’سیدناعبداللہ بن عباسw بیان کرتے ہیں نبی کریم e نے سیدنا معاذ t کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا: یمن والوں کو سمجھاؤ کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔‘‘

نماز:

عقیدہ توحید کی سب سے بڑی ترجمان اور اسلام کی پہلی اور افضل ترین عبادت پانچ وقت کی نماز ہے۔ اسی لیے موسیٰ u کو نبوت عطا کرنے کے بعد پہلا حکم یہ دیا گیا تھا۔ واقعہ یوں ہے کہ موسیٰ u سیدنا شعیب u  کے ہاں طے شدہ مدت پوری کرنے کے بعد شدید سردی میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مدین سے مصر کی طرف سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے سردی محسوس کی اور راستے کی ایک جانب روشنی دیکھی۔ سیدناموسیٰ u نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: آپ تھوڑی دیر یہاں ٹھہریں وہ آگ جل رہی ہے وہاں سے میں کچھ انگارے لانے کے ساتھ اگلے سفر کا اتا پتہ پوچھتا ہوں۔ جوں ہی وہ آگے بڑھے تو آواز آئی: اے موسیٰ!آپ مقدس وادی میں پہنچ چکے ہیں اس لیے اپنے جوتے اتار دیں۔ میں آپ کا ’’اللہ‘‘ بول رہا ہوں، میں نے آپ کو اپنے کام اور پیغام کے لیے منتخب کر لیا۔لہٰذا میرے سوا تیرا کوئی خیرخواہ، مشکل کشاء اور معبود نہیں ہے۔

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (طٰہٰ:14)

’’میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔پس میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔‘‘

توحید پر ایمان لانےکے بعد تیرا پہلا کام یہ ہے کہ میری یاد کیلئے نماز پڑھا کرو۔ عقیدہ توحید کے بعد نماز کا حکم اس لیے دیا گیا کہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب کا محبوب ترین ذریعہ اور عقیدہ توحید کی ترجمان ہے۔

یہی اعلان نبی کریمe کی زبان اطہر سے کروایا گیا کہ اے محبوبِ برحق! آپ اعلان فرمائیں کہ میرا اِدھر اُدھر کے راستوں اور واسطوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ میں اپنے رب کی توفیق سے اس کی بتلائی ہوئی راہ پر گامزن ہوں ۔ یہی دین ہمیشہ سے قائم دائم ہے اور اسی پر حضرت ابراہیم u کا مل یکسوئی کے ساتھ قائم رہے ۔ ان کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔میری موت و حیات کا مقصد ہی توحید کا پرچار اور اپنے رب کی فرمانبرداری ہے، یہی میری زندگی کا مشن ہے :

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُکِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْکَ لَهٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ کُلِّ شَيْءٍ  وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَيْهَاوَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ثُمَّ اِلٰى رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَيُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ (الانعام:162۔164)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اورمیری زندگی اورمیری موت اللہ کے لیے ہے جوجہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ میںسب سے پہلا حکم ماننے والوں میں ہو جاؤں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں اللہ کے سواکوئی اوررب تلاش کروں ،حالانکہ وہ ہرچیز کا رب ہے اور کوئی نفس جو بھی کمائی کرتا ہے اسی پر اسکا بوجھ ہوگااور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہارے رب ہی کی طرف تمہارا لوٹ کر جانا ہے وہ تمہیں بتائے گا جس میں تم اختلاف کیاکرتے تھے۔‘‘

پہلے عرض ہو چکا کہ نماز عقیدہ توحید کی سب سے بڑی ترجمان ہے کیونکہ اس میں بڑی تکرار کے ساتھ بندہ زبانی اور عملی طور پر اپنے عقیدے کا اظہار اور اقرار کرتا ہے، تکبیرات، ثناء، فاتحہ، رکوع، سجود، کی تسبیحات اور تشہد میں کیا جانے والا اقرار سب توحید کا تکرار اور اظہار ہے۔

وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ (الروم:31)

’’نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ ۔‘‘

اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔

1 مشرکین میں نہ ہو جاؤ کا تعلق نماز سے نہیں یہ دونوں حکم الگ، الگ ہیں۔

2نماز قائم کرو یعنی اخلاص کے ساتھ نماز پڑھو اور ریاکاری سے بچو، ریا کاری کرنا شرک ہے۔

لَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ غَیْرَ اللہِ فِی الصَّلَاۃِ وَالْعِبَاْدَۃِ أَیْ لَا تُصَلُّوْا لِغَیْرِ اللہِ وَلَا تَعْبُدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ (تفسیر ماتریدی)

’’نماز اور دیگر تمام عبادات صرف اللہ کی ذات کے لیے خاص ہیں ان میں غیر اللہ کو شامل کرکے مشرکین میں سے نہ ہوجائو۔‘‘

3جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ان مشرکین میں نہ ہو جاؤ۔

زکوٰۃ:

عبادت کی دوسری قسم صدقات اور زکوٰۃ ہے جس کا تشہد میں نمازی یوں اقرار کرتا ہے:

التحیات للہ و الصلوات والطیبات….

’’تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں۔‘‘

کیونکہ  اللہ تعالیٰ ہی ہر طرح کے وسائل اور اموال عطا کرنے والا ہے اس لیے یہ اسی کے حکم کے مطابق خرچ ہونے چاہییں۔ لیکن مشرکین نے اس میں بھی دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیا تھا۔

وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَکَآىِٕنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَآىِٕهِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰهِ وَ مَا کَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ يَصِلُ اِلٰى شُرَکَآىِٕهِمْ سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَ (الانعام:136)

’’انہوں نے اللہ کے لیے ان چیزوں میں سے ایک حصہ مقرر کر لیا ہے جو اس نے کھیتی اورچوپائوں کی صورت میں پیداکی ہیں، وہ اپنے خیال کے مطابق کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے جو ان کے شرکاء کا حصہ ہے وہ اللہ کو نہیں پہنچتا اورجو اللہ کا حصہ ہے وہ ان کے شریکوں کو پہنچ جاتا ہے وہ بہت غلط فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘

 مفسر قرآن سیدناعبداللہ بن عباسw ذکر کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ خود ساختہ تقسیم کے مطابق اپنے جانوروں میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اور دوسرا حصہ معبودانِ باطل کے لیے وقف کرتے تھے۔ جن کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ سب کچھ ان کی حرمت و طفیل اور صدقہ سے ملتا ہے۔ جو حصہ ان کے معبودوں کے نام کا ہوتا اُسے بتوں کے لیے دیتےجسے بت خانہ کے متولی اپنی مرضی سے خرچ کرتے۔ جو حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے یعنی فی سبیل اللہ مقرر کرتے اسے غرباء اور مساکین پر خرچ کرتے تھے۔ اگر معبودوں کے مقرر کیا ہوا حصہ میں نقصان ہو جاتا تو یہ نقصان فی سبیل اللہ کے کھاتے سے پورا کر دیتے، اگر فی سبیل اللہ کے کھاتے میں کمی واقع ہو جاتی تو اس کو کم ہی رہنے دیتے تھے اورکہتے کہ اللہ تعالیٰ مستغنی، بے نیاز اور بڑے حوصلے والا ہے اس کا حصہ کم ہوجائے تو اُسے کوئی پروا نہیں۔ لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں اس لیے ان کا حصہ پورا نہ کیا گیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے جس کی وجہ سے ہمارا نقصان ہو سکتا ہے ۔ تقسیم کا یہ اصول کسی شریعت سے ماخوذ نہیں تھا بلکہ انھوں نے خود بنایا ہوا تھا جس بنا پر فرمایا ہے کہ بدترین ہے فیصلہ اور ان کی تقسیم جو وہ کرتے ہیں ۔

غور فرمائیں کہ چودہ سو تیس سال پہلے کی رسومات اور شرک قریب قریب اب بھی اسی شکل میں جاری ہے ۔ آج بھی مزارات پر دیے جانے والے نذرانوں کے بارے میں لوگوں کاعقیدہ ہے کہ اگر ہم نے پیر عبدالقادر جیلانی aکے نام گیارہویں پیش نہ کی، فلاں مزار پر اتنا حصہ نہ دیاتو ناراض ہو کر وہ ہمارا نقصان کر دیں گے اور مال سے برکت اُٹھ جائے گی۔ مکہ کے مشرکوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں ۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مشکلات کے حل کا ذریعہ اور مشکل کشا سمجھتے تھے یہی عقیدہ آج بے شمار کلمہ گو حضرات کا ہے ۔ اسی لیے مزارات پر حاضری اور مدفون بزرگوں کو مشکلات کے حل کے لیے اللہ کے حضور واسطہ اور ذریعہ سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن مجید اورنبی e  نے اس انداز سے صدقہ و خیرات کرنے سے منع کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مالی شرک قرار دیا ہے۔

مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنۢ بَحِيْرَةٍ وَّ لَا سَآىِٕبَةٍ وَّ لَا وَصِيْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ وَّلٰکِنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْکَذِبَ وَ اَکْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ (المائدہ:103)

’’اللہ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کی ہے اورنہ کوئی سائبہ اورنہ وصیلہ اور نہ حام اورلیکن جوکافر ہیںوہ اللہ کے بارے میں جھوٹ کہتے ہیں اور ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔‘‘

ارشاد ہوا کہ مشرکوں نے از خود بعض جانوروں کو حرام کر لیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام نہیں کیابلکہ وہ حلال ہیں لہٰذاجس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام نہ کیا ہو اس کو حرام قرار دے کراپنی طرف سے شریعت سازی نہیں کرنی چاہیے ۔

عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللہِ e أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ eفَقَالَ إِنِّی نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَالَ النَّبِیُّ e ہَلْ کَانَ فِیہَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ہَلْ کَانَ فِیہَا عِیدٌ مِنْ أَعْیَادِہِمْ قَالُوا لَا قَالَ رَسُولُ اللہِ e أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہُ لَا وَفَاءَ  لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللہِ وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ (رواہ ابوداؤد:باب مایومر بہ من الوفاء بالنذر)

’’سیدناضحاک بن ثابت tبیان کرتے ہیں رسول  کریم eکے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ’’بوانہ‘‘ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا۔آپ e نے اس سے پوچھا: ’’وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھاجس کی پوجا ہوتی تھی؟‘‘اس نے نفی میں جواب دیا۔نبی e نے استفسار فرمایا وہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتاتھا؟ اس نے عرض کی نہیں ۔ نبیeنے فرمایا پھر تجھے نذر پوری کرنا چاہیے۔ ہاں اس نذر کوپورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور جو نذرپوری کرنے کی طاقت نہ ہو۔‘‘

اِنَّ الَّذِيْنَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُوْنَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِکُوْنَ وَالَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَا اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَ (المومنون:57تا 61)

’’حقیقت میں جو لوگ اپنے رب کے خوف سے ڈرنے والے ہیں، وہ اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، ان کا حال یہ ہے کہ جو کچھ وہ خرچ کرتے ہیں‘ اس حال میں خرچ کرتے ہیں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ‘‘

وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، جب وہ صدقہ وخیرات کرتے ہیں تو ان کے دل فخرو غرور اور نمودونمائش سے بچتے اورڈرتے ہیں ،کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ مال اور نعمتیں صرف اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں، اس کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ ہم نے ہر صورت اپنے رب کے حضور پیش ہو کر ان کا جواب دینا ہے۔

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰى کَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُهٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَکَهٗ صَلْدًا لَا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَيْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْکٰفِرِيْنَ

’’اے ایمان والو !اپنی خیرات کو احسان جتلا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے وہ اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس کی مثال اس پتھر کی طرح ہے جس پر معمولی سی مٹی ہوپھر اس پر زور دار بارش برسے اور وہ اسے بالکل صاف کر دے ایسے ریا کاروں کو اپنی کمائی سے کچھ حاصل نہیں ہوگااور اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ‘‘  (البقرۃ:264)

روزہ:

عقیدہ توحید جن ایمانی اجزا پر مشتمل ہے، ان میں یہ جز بڑے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے اور وہ ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرنا چاہیے اس کا نام تقویٰ ہے۔ اسی عقیدے کی بنیاد پر روزے دار اپنے روزے کا خیال رکھتا اور اسے پورا کرتا ہے۔ ان اجزا میں کوئی ایک جزو مفقود ہو جائے تو روزہ پورا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی لیے روزے کا مقصد تقویٰ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کے نگران ہونے کا عقیدہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ مَا يَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَا اَدْنٰى مِنْ ذٰلِکَ وَ لَا اَکْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّ اللّٰهَ بِکُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (المجادلۃ: 7)

’’کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز ’’اللہ‘‘ کے علم میں ہے؟ ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمی سرگوشی کریں اور ان کے درمیان چوتھا ’’اللہ‘‘ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان میں چھٹا ’’اللہ‘‘ نہ ہو، خفیہ بات کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ۔ اور وہ جہاں کہیں بھی ہوں ’’اللہ‘‘ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر ’’اللہ‘‘ قیامت کے دن انہیں  بتاے گا کہ انہوں نے کیا عمل کیے ، ’’اللہ‘‘ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْاَرْضِ وَ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا يَعْرُجُ فِيْهَا وَهُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ (الحدید:4)

’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ افروز ہوا، جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتا ہے اس کے علم میں ہوتا ہے۔ تم جہاں بھی ہوتے ہووہ تمہارے ساتھ ہے ، جو کچھ تم کرتے ہو وہ اُسے دیکھ رہا ہوتا ہے۔‘‘

وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ

’’چپکے سے، وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔ کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا ؟ حالانکہ وہ نہایت باریک بین اور پوری طرح خبردار ہے۔‘‘ (الملك:13۔14)

ان فرامین میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ حقیقت بتلائی ہے کہ اے انسان! میں اپنے علم،اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت تیرے ساتھ ہوتا ہوں۔ جس شخص کا یہ عقیدہ پختہ ہو جائے اس کے لیے بُرائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ انسان سمجھتا ہے کہ نہ صرف میں اپنے رب کی نگرانی میں ہوں بلکہ قیامت کے دن مجھے اپنے اعمال کا جواب بھی دینا پڑے گا۔

مذکورہ آیات میں عقیدہ توحید کا یہ حصہ بار بار دہرایا اور سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز اور ہر انسان پر نگران ہے اور وہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس بنیاد پر روزے دار شدید پیاس اور بھوک کے باوجود کھانے پینے کی طرف ہاتھ نہیں اُٹھاتا۔ ہاتھ اُٹھانا تو بڑی بات ، روزے دار اس خیال کو اپنے دل میں زیادہ دیر تک اس لیے نہیں پنپنے دیتا کہ اس میں رب کریم کی نافرمانی پائی جاتی ہے۔ جس سے مجھے ہر حال میں بچنا ہے۔ اسی کا نام خشیّت اور تقویٰ ہے، جو روزے اور تمام عبادات کا مطلوب ہے۔ اسی بناء پر روزے کے بارے میں ارشاد نبوی ہے:

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَt یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ e قَالَ اللّٰہُ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَہُ إِلَّا الصِّیَامَ فَإِنَّہُ لِیْ وَأَنَا أَجْزِیْ بِہِ (رواہ البخاری: کتاب الصوم،باب ھل یقول إنی صائم )

’’سیدناابو ہریرہt  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e کا ارشاد گرامی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ابنِ آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہے مگر روزہ میرے لیے ہے۔ اس لیے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ ۔‘‘

حج:

حج عباداتِ اسلام کا مرقع ، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی ہے جو مقررہ ایام میں متعین اوقات اور مقامات پر ادا ہو تی ہے، یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اورملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے ، اپنے اعمال اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سالانہ اجتماع منعقد کیا ہے تاکہ مسلمان حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار کریں اور ذاتی اصلاح اور اجتماعی معاملات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ یہ ایسا عمل ہے کہ ایک آدمی خلوص نیت کے ساتھ اسے ادا کر لے تو اس کی زندگی میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے حج زندگی میں ایک ہی دفعہ فرض کیا گیا :

عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَt قالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللہِ e فَقَالَ أَیُّھَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوْا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَارَسُوْلَ اللہِ  فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَھَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ e لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَائِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْئٍ فَدَعُوْہُ(رواہ مسلم: کتاب الحج)

’’سیدنا ابو ہریرہtبیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریمe نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایالوگو! یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا حج کرو۔ ایک آدمی نے سوال کیا اللہ کے رسول! کیا ہر سال حج کرنا ہوگا؟ نبی کریم e خاموش رہے حتی کہ اس نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا ۔ آپ eنے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتااور تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں کچھ نہ کہوں ۔ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں سے اختلاف اور کثرتِ سوال کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حسب ِہمت وہ کام کرو اور جس چیز سے تمہیں روکو ں اس سے رک جاؤ۔‘‘

وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَکَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِيْ شَيْـًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَالْقَآىِٕمِيْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ (الحج: 26)

’’اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے بیت اللہ کی جگہ کی نشاندہی کی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اورمیرے گھر کو طواف، قیام، رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔ ‘‘

ایک مسلمان کو حج کا حکم صادر فرماتے ہوئے ہی بتلا دیا گیا ہے کہ دوسرے اعمال کی طرح حج کا پورا عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے یہاں تک کہ بیت اللہ کی تعمیر کی غرض و غایت یہی ٹھہری کہ یہ گھر اسی لیے بنایا گیا ہے کہ یہاں صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور ہر حال میں شرک سے بچا جائے۔

وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ (ابراھیم:35)

’’اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب !اس شہر کو امن والا بنا دے ، مجھے اور میری اولادکو بتوں کی عبادت سے بچا۔‘‘

اے دنیا جہان کے انسانو! بالخصوص مکہ میں بسنے والے لوگو! جس عالی مرتبت شخصیت کے ساتھ ناطہ جوڑتے اور اس کے بسائے ہوئے شہر میں رہتے ہو اس کا عقیدہ سنو  جب اس نے اس جگہ اپنی بیوی اور اکلوتے لخت جگر کو ٹھہرا کر اس شہر مکہ کی بنیاد رکھی تھی تو اس نے اپنے رب کے حضور سب سے پہلے یہ التجا کی تھی’’ میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے حکم پر، تیرے محترم گھر کے پڑوس میں چھوڑے جا رہا ہوں۔ میری فریاد ہے کہ الٰہی! اس شہر اور گھر کو امن وسکون کا گہوارا بنانا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا ،میرے رب! بتوں کی وجہ سے بے شمار لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔

لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَالصَّيْفِ فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ (القریش:۱ تا ۳)

’’قریش کے مانوس ہونے کی بنا پر۔ جاڑے اور گرمی کے سفروں میں۔ انہیںاس گھر کے رب کی عبادت کرنی چاہیے۔‘‘

یاد رہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی قافلے شام اور فلسطین کی طرف جاتے جو ٹھنڈے علاقے تھے اور سردی کے موسم میں وہ عرب کے جنوب کی طرف سفر کرتے تھے جو گرم علاقے تھے۔

ان احسانات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ عرب صرف ایک رب کی عبادت کرتے اورنبی آخرالزمانeکی دعوت کا ساتھ دیتے لیکن انہوںنے کعبے کے رب کی عبادت اور نبی uکی دعوت قبول کرنے کی بجائے بیت اللہ کے اندر تین سوساٹھ بت رکھ لیے اور رب کعبہ کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بتوں کو اس کی عبادت میں شریک کرلیا تھا، وہ کسی بت کے ذریعے رزق طلب کرتے، کسی کے واسطے سے اولاد مانگتے، کسی سے عزت کی درخواست کرتے ، کسی کی طفیل بارش کے طلبگار ہو تے،کسی کی حرمت سے دشمن پر غلبہ چاہتے اورکسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کا ذریعہ سمجھتے تھے ،حالانکہ حکم یہ تھا کہ صرف اس گھر کے رب سے مانگا جائے اور خالص اس کی عبادت کی جائے ۔اسی لیے حج و عمرہ کا احرام باندھتے ہوئے تلبیہ پڑھنے کا حکم دیا گیا جس میں عقیدہ توحید کا بار بار اقرار اور اظہار کیا جاتا ہے:

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

’’میں حاضر ہوں‘ اے اللہ !میں حاضر ہوں ‘ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں‘ بلاشبہ سب تعریفیں اور شکرانے تیرے لیے ہیں ۔ حکومت تیری ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘

گویا کہ بیت اللہ کی بنا، حج کی ابتدا اور انتہاء عقیدہ توحید کی ترجمان ہیں اسی لیے  اللہ کے رسول e نے فرمایا تھا:

عَنْ عَائِشَةَr قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ eإِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَرَمْيُ الْجِمَارِ لِإِقَامَةِ ذِکْرِ اللهِ (رواہ ابوداود: باب فی الرمل)

سیدہ عائشہ r بیان کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا : ’’بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور شیاطین کو پتھر مارنے کا عمل اللہ کے ذکر کو بلند کرنے کے لیے ہیں۔‘‘

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے