ہرقسم کی حمدثناءاللہ رب العزت کےلیے ہےکہ جس نے اکیلےہی پوری کا ئنات کو تخلیق کیا اور انسان کواپنی تمام مخلوقات پرفضیلت دیتےہوئےاسےدنیاوآخرت میں کامیابی حاصل کرنے کےاصول بھی بتا دئیے۔

درودوسلام نبی مکرم پر جنہوں نے اللہ کے پیغامات انسانیت تک پہنچائے کہ جس طرح سورج کی روشنی میںہر چیزواضح نظر آتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنی زندگی اس طرح گزارے جیسے گزارنے کا اللہ عزوجل نے حکم دیاہےقرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے : 

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملک:2)

’’وہ جس نےموت اور حیات کوپیداکیا تاکہ وہ تم لوگوںکو آزماکردیکھےکہ تم میںسے کون بہترعمل کرتاہے ۔

سوال یہ پیداہوتاہےکہ بہترین اعمال کونسے ہیں؟ انہیں کیسےکرناہے؟ اور آزمانےکاپیمانہ کیا ہو گا؟ ان تمام باتوں کا جواب قرآن و حدیث کے مطالعہ سے بآسانی مل سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کوایک اہم مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ انسان سے کیاچاہتا ہےکہ وہ زندگی بھراسکا مطیع وفرمانبرداربن کررہے یہ بھی جان لے کہ انسان اللہ کی ہدایت و رہنماـــ ئی کا محتاج ہے اس مضمون کا مقصد ہردرجہ کے ایمان رکھنےوالوںکو اس بات پریکجا کرنا ہےکہ اللہ تعالیٰ کےاحکامات کوماننے میںہی ہماری بقاءواخروی نجات ہےا س مضمون میںآپکوہنسنے و قہقہہ کے متعلق احکامات شریعت بتائیںگے۔

ہنسنے کے موقع پر ضرور ہنسیے! ہنسی انسان کا ایک طبعی تقاضا اور فطری عمل ہے۔ دین اسلام فطری ضرورتوں کی اہمیت کو محسوس کرتاہے اور کچھ مفید حدود وشرائط کے ساتھ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتاہے۔دین اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا کہ آپ غیر مطلوبہ سنجیدگی ، ہر وقت کی فرسودگی سے اچھے کردار کی کشش کو ختم کر دیں۔ جائز مواقع پر خوشی کا ہنس کر اظہار کرنا اور ہنسنے کو دینی وقار کے خلاف سمجھنا دین کے فہم سے محرومی ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ نجم آیت 43 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى

’’اور یہ کہ وہی ہنساتا ہے اور رُلاتاہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس نے انسان میں ہنسنے اور رونے کی قوت ودیعت کی ہے۔

یہاںیہ سوال پیداہوتاہےکہ ہنساکیسے جائے؟سب سےپہلےتوآپ یہ سمجھیےکہ معاشرےمیںہنسنےکیے لیے رائج طور طریقےکون سے ہے

1تبسم:عربی زبان کالفظ ہے جسکااردومیںمعنی مسکراہٹ ایسی مسکراہٹ جس میںلب نہ کھلیں۔

2قهقهہ : عربي ميں اس طرح اور اردو میں ’’قہقہہ‘‘ ٹھٹھا زور سے بلند آواز سے ہنسنا۔

3ضحک:عربی کا لفظ ہےجس کےمعنی ہیںہنسنا۔ کھلکھلا کر جس میںہونٹ ومنہ کھلےپرآوازنہ آئے۔

دین اسلام ہنسنےاورمسکرانےکی مذمت یانفی نہیںکرتابلکہ آداب سکھاتا ہےاورقہقہہ کی مذمت کرتاہے۔ ہنسنے کی صفت تو باری تعالیٰ کی ہے۔ حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا بھی ذکر ہے جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ ایسے دو آدمیوں پر ہنستا ہے جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتاہے اور اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت میں داخل کرتاہے ان میں سے ایک کافر ہوتا جودوسرے مومن کو شہید کرتاہے پھر وہ مسلمان ہوکر اللہ کے راستے میں جہاد کرتاہے اور شہید کردیاجاتاہے۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ :404)

قرآن مجید میں بھی ہنسنے اور مسکرانے کا ذکر آیا ہے۔

فَلْيَضْحَکُوْا قَلِيْلًا وَّلْيَبْکُوْا کَثِيْرًا ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَ (التوبۃ:82)

’’پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو وہ کرتے تھے۔ ‘‘

اوردوسرے مقام پر ہے :

فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِيْٓ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِکَ فِيْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِيْنَ  (النمل:19)

’’اس کی اس بات سے سیدنا سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔ ‘‘

حدیث میں نبی کریم  کے ہنسنے کا کسی نہ کسی طرح سے ذکر ہے مگر نبی کریم  کا ہنسنا صرف تبسم کے طور پر ہوتا تھا ۔ سیدہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک روز نبی کریم  جب غزوئہ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو دروازے کے قریب ایک پردہ پڑا تھا۔ ہوا کی وجہ سے اس کا ایک کنارہ اٹھ گیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں(جو اس پردے کے نیچے تھیں) نظر آنے لگیں۔ نبی کریم  نے فرمایا ’’ اے عائشہ رضی اللہ عنہا! یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا ’’یہ میری گڑیاں ہیں۔‘‘

نبی کریم  نے دیکھا ان کھلونوں میں ایک گھوڑا بھی ہے جس کے دو پر ہیں ۔ تو نبی کریم نے پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یہ گھوڑا ہے ، تو آپ  نے فرمایا ’’اس کے اوپر کیا ہے؟ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’ یہ اس کے پر ہیں۔ تو آپ  نے فرمایا ’’گھوڑے کے پر …. ؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’آپ نے نہیں سنا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے ، تو یہ سن کر رسول اللہ  اس قدر ہنسے کہ آپ کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (سنن ابی داود : 4932)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کہ نبی کریم  کو اس طرح کھل کر کبھی ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ  کے حلق کا کوّا نظر آنے لگتا ہو ، آپ  صرف مسکراتے تھے۔ (صحیح بخاری : 6092)

نبی کریم  کا ہنسنا اور مسکرانا بھی کمال اور فطرت کا ایک بہترین نمونہ تھا ، نبی کریم کبھی کبھار کھل کر ہنستے تو تب اس انداز سے ہنستے تھے کہ آواز پیدا نہ ہوتی ، فطری حسن کا یہ مہذب انداز ہمارے لیے نمونہ ہے۔ قہقہہ لگا کر بلند آواز نکال کر ہنسنا غیر مہذب اور غیر اخلاقی عمل ہے۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ جلد اول ، صفحہ نمبر 189 پر لکھتے ہیں کہ نبی کریم  کا ہنسنا اکثر تبسم کی حد تک رہتا۔ آپ  کے ہنسنے کی آخری حد یہ تھی کہ فقط داڑھیں نظر آئیں۔کسی ہنسنے کی بات پر آپ  مسکرا دیتے ، ہنستے وقت چیخنے چلانے کی آواز قہقہہ ہوتاہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہنستے تھے۔ سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیاگیا کہ کیا رسول اللہ کے صحابہ ہنستے تھے ؟ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ، ہاں ۔ اور حالانکہ ان کے دلوں میں بھی پہاڑ سے بہت بڑا ایمان تھا اور بلال بن سعد تابعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے صحابہ کو پایا کہ وہ تیروں کے نشانوں کے درمیان دوڑتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کرہنستے ، پھر جب رات ہوتی تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہت ڈرنے والے ہوتے۔ (البغوی، شرح السنۃ :3351 ۔ مشکوٰۃ :4749)

آپ نے پڑھا کہ نبی کریم  کا مسکرانا بھی فطرت کے تقاضوں کے مطابق اور اخلاقی نمونہ تھا۔ آپ  نہ روتے ہوئے آواز کے ساتھ روتے تھے اور نہ ہی آواز نکال کر قہقہہ لگا کر ہنستے تھے۔ قہقہہ لگاکر معیوب انداز میں ہنسنا نبی کریم  کی تعلیمات واخلاقیات کے منافی ہے۔

ہمارے معاشرے میں تو ( اللہ تعالیٰ معاف فرمائے) قہقہہ لگا کر تالیاں بجا کر خوب زور سے ہنسنا محفل کی شان سمجھا جاتاہے۔ نبی کریم نہ کسی کا خود مذاق اڑاتے تھے اور نہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے تھے بلکہ اس کی مذمت اور اس سے منع فرماتے تھے۔ قرآن نے بھی اس عمل کو استہزاء اور تمسخر کے لفظ سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی خوب مذمت کی ہے۔

سورۃ الحجرات آیت 11 کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ گناہ صغیرہ یہ ہے کہ کسی مومن کا مذاق اڑایا جائے اور کبیرہ یہ ہے کہ اس پر قہقہہ لگایا جائے۔

بےشک ہنسنا ایک فطری عمل ہے جس کی تائید دین اسلام میں موجود ہے اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کے ہنسنے کا ذکر بھی ہے اور نبی کریم  کے عمل سے بھی واضح ہےلیکن اس کے برعکس زیادہ ہنسنے کی اسلامی شریعت میں ممانعت ہے جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  نے فرمایا: 

لَا تُكْثِرُوا الضَّحِكَ، فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ

 ’’ زیادہ نہ ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتاہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ : 4193)

دل مردہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مردہ انسان کو کسی چیز کا احساس نہیں ہوتا اسی طرح غافل آدمی کو بھی اپنی آخرت کے نفع ونقصان کا احساس نہیں ہوتا ۔ جب دل مردہ ہوجائے تو اس میں نرمی کی جگہ سختی، رحم کی جگہ سنگدلی اور انصاف کی جگہ ظلم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ نیکی سے محبت اور گناہ سے نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ دل اللہ کے ذکر اور نمازکی طرف مائل نہیں ہوتا۔

سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا آپ   فرماتے تھے:

وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَکْذِبُ لِيُضْحِکَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ

 ہلاکت ہے اس کے لیے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ لوگ ہنسیں، ہلاکت ہے اس کیلئے ، ہلاکت ہے اس کیلئے۔‘‘ (ابو داود : 4990)

اپنی طرف سے لطیفے بناکر ہنسنانے کی خاطر جھوٹ بولنے والے شخص کے لیے ہلاکت ہے۔ کس قدر نادان ہے وہ شخص جو دوسروں کو ہنسانے کی غرض سے اپنی عاقبت برباد کر تاہے۔آج کے جدید دور میں لوگوں کو موبائل پر لطیفے بھیجنا اور طنز ومزاح کی ویڈیوز بھیجنا اس میں شامل ہیں؟

آج ٹیلی ویژن ودیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جھوٹ اور مزاح کی بنیاد پر مخلوط محافل سجائی جاتی ہیں اور ایسے پروگرام بطور خاص لوگوں کو خوش اور لطف اندوز کرنے کے لیے نشر کیے جاتے ہیں ۔ ان شوز میں جھوٹی باتیں گھڑنے والا شخص محفلوں کو قہقہوں سے سجا کر اپنی اور دوسروں کی عاقبت برباد کر رہا ہوتاہے۔

ایک مسلمان کیلئے ہر وقت کتاب وسنت پر کاربند رہنا انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر جب فتنے بہت زیادہ ہوں اور گناہوں کی بھرمار ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ گمراہی اور فسق وفجور والے لوگوں سے دور رہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو حق کی پہچان اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور باطل سے حتی الامکان اجتناب کرنے والا بنادے۔ آمین

۔۔۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے