اسلام آباد میں عالمی یوم خواتین کے حوالے سے نکالی جانیوالی ایک ریلی میں لہرائے گئے مختلف پلے کارڈز نے سوشل میڈیا پر خوب دھوم مچائی ہے ۔ ” کھانا خود گرم کر لو”اور ایسے ہی دیگر جملوں پر ہر طبقے کے افراد طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں ۔ کچھ حلقوں کو یہ جملہ معاشرتی نظام سے بغاوت لگا تو کسی نے اسے حقوق نسواں کی آواز قرار دیا ۔  مجھے یہ بحث کچھ انجان سی لگی ۔ایسے جملے لہرانے والی خواتین کو شائد ہمارے معاشرے کے بارے کچھ بھول ہوئی ہے ۔ انہیں شائد اندازہ ہی نہیں کہ دین اور روایات کے بندھن سے جڑے رشتے کس قدر اہمیت رکھتے ہیں ۔ عورت سے تقابل ، مرد کی برتری کی باتیں یہ سب انجان سی لگتی ہیں ۔ بھلا جو زندگی کا حصہ ہو اس سے مقابلہ کیسا؟؟ جی ہاں اسلامی طرز معاشرت میں تو عورت کو کو کہیں مقابل سمجھا ہی نہیں جاتا تو برتری ، کمتری کا سوال کیسا؟؟ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کو سرتاج کہا جائے وہاں کی عورت بھی تو گھر کی ملکہ ہی کہلاتی ہے۔دراصل دونوں کے درمیان مقابلےکی غلط فہمی پھیلانے والے خود کسی فریب کا شکار ہیں ۔ کتنا خوبصورت رشتہ ہے جو نکاح سے جڑ تا ہے۔ جو مرد اپنے نصف ایمان کے لئے عورت کا محتاج ہو وہ برتری کا دعوی کیسے کر سکتا ہے۔ ایک خاوند کے طور پر کیا کوئی اللہ تعالی کی طرف سے عنائیت کردہ اپنی بیوی کے قدموں تلے اولاد کی جنت کا اعزاز چھین سکتا ہے ۔ کیسا مقابلہ؟؟ نبی اکرم ﷺنے تین بار ماں کا حق کہا اور چوتھی بار باپ کا ۔ کیا کوئی خاوند اس ترتیب کو بدل سکتا ہے؟ ؟ اس سے بڑھ کر اور کیا اعزاز ہوگا۔ کیا ایک خاوند کو شکر گزار نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی بیوی اسے خاندان جیسی نعمت سے نوازتی ہے ۔ جی ہاں اولاد کی وہ نعمت کہ جو زندگی کا سہارا بنتی ہے ۔ جو خونی رشتوں کو بھلا کر کسی انجان کے گھر میں زندگی بنانے آجاتی ہے ۔ اس گھر کو پھر اپنے ہاتھوں سےجنت بناتی ہے ۔ جس میں آپ کے لئے خوشیاں ہوتی ہیں ۔جو بڑھاپے میں ڈھلتے آپ کے ماں باپ کی خدمت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتی۔یہ سب اس پر فرض تو نہیں لیکن وہ رشتوں کی مٹھاس کی خاطر کرتی ہے۔ کیا خاوند کو شکریہ ادا نہیں کرنا چاہیے کہ وہ جیسے اور جس حال میں رکھا جائے خوشی سے رہتی ہے ، کم سہولیات اور محدودآمدن میں بھی چہرے پر مسکراہٹ سجائے گزارہ کرتی ہے ۔ آپ کی گھر سے دوری ، اولاد اور گھریلو کام کاج کو وقت نہ دینے کے باوجود اپنی سلطنت کو خوشحال رکھتی ہے ۔ یہ اچھی اور سمجھدار بیوی ہی ہوتی ہے کہ جو خاوند کے بھائی بہن اور قریبی رشتہ داروں سے تعلقات کو قائم اور مضبوط بناتی ہے ۔ ہر تہوار ، خوشی غمی کو نبھانے کا ہنر جانتی ہے ، مردوں پر ہوتو وہ اپنے کام کاج میں قریبی رشتہ داروں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں، ایک بیوی کے لئے کتنا اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے خاوند کی ہر جگہ عزت کی جائے ۔وہ ماں کے گھر جانے سے پہلے کتنی ہی ہدایات دیتی ہے کہ “وہ” بھی آ رہے ہیں ۔ جو اتنی عزت دے کیا اس سے مقابلہ کیا جاتا ہے ؟؟ کتنا عجیب لگتا ہے جب کچھ لوگ دین پر عمل پیرا ہونےسےخواتین کے حقوق صلب کرنے کا پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ کیا آپ کو پتہ ہے سیرت النبی کی روشنی میں خاوند کیسا ہوتا ہے۔ جی اسے بیوی کے کھیل کا خیال رکھنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ بیوی کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر اس کے ساتھ دوڑ نہیں لگاسکا تو اسے معذرت کرنی چاہیے اور پہلی فرصت میں اس سنت نبوی پر عمل کرے ۔ جی کبھی کبھی اپنے ہاتھوں سے نوالے منہ میں بھی ڈالا کرے کیونکہ نبی اکرمﷺ تو بخوشی ایسا کرتے اور صحابہ کرام کو تلقین بھی کرتے۔ اگر آپ بیوی کے لئے مناسب سہولیات فراہم نہیں کر پائے یا کمائی کا بڑا حصہ گھر پر خرچ نہیں کرتے تو اپنی اصلاح کر لیں کیونکہ بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو باعث ثواب قرار دیا گیا ہے۔ نبی اکرم کی حیات طیبہ کی روشنی میں بہترین مومن وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے لئے بہترین ہے ۔خاوند کو بیوی کے لئے سجاوٹ کا حکم ہے ۔کئی احادیث میں عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں غفلت پرسخت وعید سنائی گئی ۔ یہ تعلیمات نبوی گواہ ہیں کہ محسن انسانیت کسی خاوند کی جانب سے اپنی بیوی کے لئے ذرا سی بھی سختی گوارا نہیں کر سکتے ۔حقوق نسواں کے نعرے لگاتی چند خواتین پتہ نہیں کن غلط فہمیوں کا شکار ہیں ۔ ہمارے پاس تو عائلی زندگی کی شاندار روایات ہیں اور رشتوں کی مضبوطی اور توازن قائم رکھنے کے لئے سنہری تعلیمات۔ یہ بیوی کا اپنائیت کا احساس ہی ہوتا ہے کہ جو دن بھر کے تھکے ہارے خاوند کے چہرے پر خوشی و مسرت کا احساس بکھیر دیتا ہے۔ جو پریشانیوں میں غمخوار بنتی ہے ، حوصلہ ٹوٹے تو صبر و ہمت کی چٹان بن جاتی ہے ، مشکل وقت آئے تو قدم ساتھ ملا کر چلتی ہے ، کچھ چھن جائے ، محرومی کا سامنا ہو تو دکھ بانٹ لیتی ہے ۔ جی ہاں یہ سب ایک عورت ہی کرتی ہے کیونکہ وہ گھر میں کمتر یا برتر نہیں بلکہ زندگی کا حصہ ہے ۔ یہ رشتہ دونوں کو شامل کرکے ہی تکمیل پاتہ ہے ۔ جب کسی کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں تو اس سے مقابلہ کیسا ؟؟ کونسی برتری اور کمتری کا سوال ؟؟ہم کیوں اپنے ہاں “کھانا خود گرم کر لو والی” اور” میرا جسم میری مرضی “والی غلط فہمیوں کا شکار خواتین کی باتوں کو ڈسکس کرکے وقت ضائع کریں۔ جہاں خاوند اپنی خواہشات ، آرام ، سکون حتی کہ صحت تک کی قربانی دیکر بیوی کی خوشیوں کا سامان کرتا ہو ، اس کے چہرے کی مسکراہٹ کی خاطر ہر مشکل و مصیبت کو جھیل جائے تو اس گھرانے کی ملکہ اپنے سرتاج کے لئے کھانا شوق سے پکاتی بھی ہے اور گرم بھی کر دیتی ہے ۔ اور اگر کبھی تھکن ، بیماری یا کسی بھی اور وجہ سے نہ بھی کر سکے توخاوند کے خود کھانا گرم کرنے میں حرج ہی کیا ہے جب بیوی بھی ہر قربانی کے لئے تیار رہتی ہو تو اتنا سا کام تو کر ہی لینا چاہیے ۔ دراصل یہ بحث تو ہماری ہے ہی نہیں کسی نے ایویں ہی کسی بھولی خاتون کو مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ جو زندگی کا حصہ ہو ، خوشی کا باعث ہو ، دکھ سکھ کی ساتھی ہو اسکے ساتھ ایسے مقابلے نہیں کئے جاتے ۔ وہ کھانا گرم کر کے دے یا کبھی خود کرنا پڑ جائے ۔ یہ بھی زندگی کاایک دلکش پہلو ہی ہوتا ہے جو انمول یادیں جنم دیتا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے