وقت بڑی تیزی سے گزررہا ہے میلادی سن 2018ء چند دنوں میں اختتام پذیر ہونے والا ہے اور پھر نیاسال 2019ء شروع ہوجائے گا۔ ماہ وسال کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے کتنے ہی لوگ آئے اورگزرگئے ۔ انسانوں کی آمدورفت اسی ماہ وسال کے سلسلہ میں گم ہوتی رہی اورمالک ارض وسماء کا یہ فرمان : يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ   (الانشقاق:6) ’’اے انسان! تو نے اپنے رب سے ملنے تک یہ کوشش اور تمام کام اور محنتیں کر کے اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔‘‘

انسان کو متنبہ کر رہا ہے کہ ایک دن اسے اپنی ساری کوششیں لے کر اپنے خالق ومالک کے سامنے حاضر ہونا ہے سو اِس زندگی اور وقت کو غنیمت جان لو ویسے اَب قیامت کی نشانیاں پے درپہ ظاہر ہورہی ہیں ۔ اَب دین کا درس وہ دے رہے ہیں جو خود دین سے کوسوں دور ہیں اور ہماری سادگی یہ ہے کہ

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید                        جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں ایک خاتون عاصمہ حدید نے بڑے درد مندانہ انداز میں تقریر کی اور اہل نظر کو دعوت فکردی ، کچھ قرآن کا حوالہ دیا، کچھ تاریخ دھرائی ، کچھ سیرت پہ طبع آزمائی کی خلاصہ تقریر کچھ یوں بنا ،قرار داد کچھ یوں آئی کہ آپ  کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ،یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے تھا اور بعد میں جب تحویل قبلہ ہوا تو گویا خود اللہ نے فیصلہ کر دیا کہ بیت المقدس یہودیوں کو دے دیا اور بیت اللہ مسلمانوں کو لہذا اب جھگڑے کی کوئی بات ہی نہیں رہی کس قدر جہالت کی بات ہے۔ نبی کریم بیت اللہ کو اپنے باپ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ ہونے کی وجہ سے قبلہ دیکھنا چاہتے تھے پھر یہود سے مخالفت بھی مطلوب تھی ورنہ بیت المقدس پہ بھی یہودیوں کا نہیں مسلمانوں کا حق تھا جسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہودیوں سے چھین کر ثابت کیا جس کےلیے سیدنا ابو عبیدہ ابن الجراح اورخالدبن ولید رضی اللہ عنہما نے خونریز معرکے سرکیے اور یہودی مجبور ہوئے کے بیت المقدس کی چابیاں امیر المؤمنین کے حوالے کریں تو گویا یہ سب فیصلہ خداوندی کے خلاف اقدام تھے۔(نعوذ باللہ)لگتا یہ ہے کہ بادی النظر میں یہ باور کروانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب بیت المقدس ان کو دے دیا تو پھر یہود کا قبضہ وہاں جائز ٹھہرا جس کے تناظر میں اسرائیلی ریاست بھی صحیح ہوئی ۔ ان کا غاصبانہ قبضہ درست ہوا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے اب تک وہاں آباد مسلمان گنہگار ٹھہرے لہٰذا یہودیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام ، بچوں ،بوڑھوں اور نوجوانوں کے گرتے ہوئے لاشے ظلم وبربریت یہ سب ٹھیک ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ ان سے دوستی کا راستہ ہے۔غزہ پٹی کےدڑبے میں بند مظلوم فلسطینیوں کو اپنے حق حریت کے لیے مزاحمت چھوڑ کر بانی پاکستان محمد علی جناح نے جسے یورپ کا ناجائز بچہ کہا تھا اسے ہولی مان لینا چاہیے اور تحت اللفظ ہمیں بھی اسے یعنی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔پھر رسول اللہ پر اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پہ افتراءپردازی کرتے ہوئے گویا ہوئیں کہ آپ کا فرمان ہے : دشمن کو دوست بنالو یہ سب جھوٹ ہے اور آپ علیہ السلام پہ جھوٹ باندھنے کی سزا سے آپ علیہ السلام خود ڈراتے ہوئے فرمایا

: مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ (صحیح البخاری ، حدیث: 1291 )

’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔‘‘ قرآن پاک میں واضح طور پر رب تعالیٰ کا فرمان ہے : 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ (المائدة: 51)

اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے۔‘‘ اور فرمایا :

  لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا (المائدۃ:82)

’’یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے۔‘‘ پیغمبر علیہ السلام کے ارشادات گرامی ہیں کہ :  خَالِفُوا الْيَهُودَ (سنن ابی داود،حدیث:652 ) ’’یہود کی مخالفت کرو۔‘‘

آپ نے عبادات میں بھی ان کی مخالفت فرمائی ۔ آپ نے دیکھا یہودی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل کے فرعون سے نجات پانے کے دن خوشی مناتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں تو آپ  نے فرمایا : خوشی ہمیں بھی ہے لیکن ہم دوروزے رکھیں گے ، یہ روزہ رکھتے ہوئے سحری تنازل نہیں کرتے تم سحری تنازل کرو ، یہ سفید بال  رنگتے نہیں ہیں تم ان کی مخالفت کرکے بالوں کو رنگ دو نیز بال بالکل کالے کرنے سے منع فرمایا ، پھر مزید فرماتےہوئےمحترمہ نے بتایا کہ آپ علیہ السلام نے یہودیوں کے ساتھ مل کر کام کیا ، نہیں‘‘ ۔ بلکہ آپ نے مدینہ پہنچ کر یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا انہیں مکمل آزادی اور حقوق دیئے جس کے بدلے میں یہودیوں نے ایفائے عہد کی بجائے غدر وایذاء کی روش اپنائی جس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام بنوقینقاع اور بنو نضیر کو مدینہ سے نکال دیا اور بنو قریظہ کے چھ سے سات سو یہودیوں کو غزوہ خندق کے بعد قتل کروا کر غدر وخیانت کے ان سانپوں کوعبرت کا نشان بنایا ، پھر درود پڑھنے سے یہ دلیل بنالی کہ ہم یہودیوں کے لیے دعا کرتے ہیں جبکہ یہ بات بھی درست نہیں یہودی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں دعویٰ کرتے تھے کہ وہ یہودی تھے جس کی اللہ تعالیٰ نے سختی سے تردید فرمائی ۔

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا (آل عمران: 67)

ابراہیم تو نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو ایک طرفہ (خالص) مسلمان تھے ۔‘‘ خود قرآن پاک میں یہود پہ لعنت فرمائی گئی :

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (المائدة: 78)

بنی اسرائیل کے کافروں پر سیدنا داؤد و عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کی زبانی لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے ۔ نیز رسول مقبول نے فرمایا

لَعَنَ اللَّهُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا (صحیح البخاری ، حدیث:1330)

’’اللہ تعالیٰ یہودو نصاری پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔‘‘ مزاروں پہ جاکر سجدے کرنے والوں کو بھی جو محبت رسول کا دم بھرتے ہیں سوچنا چاہیے۔ نماز میں درود شریف ایک دفعہ پڑھا جاتاہے جبکہ سورئہ فاتحہ ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے جس میں مغضوب علیہم (یعنی جن پہ رب کا غضب ہوا اور وہ یہودی ہیں ان کی راہ سے پناہ مانگی جاتی ہے) پھر سیرت پہ محترمہ نے لب کشائی فرمائی اور امام الانبیاء کا سلسلہ نسب بنواسرائیل سے جوڑ دیا حالانکہ یہ بات یہودی بھی نہیں کہتے اسی نسلی تعصب کی وجہ سے تو وہ آپ پر ایمان نہیں لائے کہ آپ بنواسماعیل سے آئے ، بنواسرائیل سے نہیں یہ سب کس لیے کیاجارہاہے ایک طرف عرب میں ہلچل مچی ہوئی ہے ، عمان میں اسرائیل آکر بیٹھ گیا ہے ، گوادر بندرگاہ کی نگرانی کے لیے یہاں مہم چلائی جارہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے۔ افغانستان ،ایران ، انڈیا اور لندن میں بیٹھے ہوئے را کے ایجنٹ اور کالعدم تحریکوں کے نمائندے پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں حالیہ چینی قونصلیٹ کراچی پہ حملہ اس کا واضح ثبوت ہے ، کلب،ھوشن کی دی ہوئی معلومات کے تناظر میں انڈیا ان سازشوں کا مرکز ہے ان حالات میں جبکہ افواج پاکستان اور تمام دفاعی ادارے ملک کی حفاظت میں چومکھی لڑائی لڑرہے ہیں حکومت کو دانشمندی کامظاہرہ کرنا چاہیے ایسے افعال واقوال سے باز رہنا چاہیے جو قوم میں انتشار کا سبب بنیں آسیہ کا معاملہ معلق ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اسے جلد از جلد باہر بھیج کر اغیار کی نظروں میں سرخرو ہونا چاہتی ہے ۔ ختم المرتبت سید المرسلین نبی رحمت فداہ أبی وأمی کی توقیر ومحبت ہی ہماری بقا کی ضامن ہے اغیار کو خوش کرنے کے لیے اگر اس معاملہ میں مداہنت اختیار کی گئی تو یہ چیز ہمارے لیے عذاب وانتشار کے ساتھ نحوست وبےبرکتی لے کر آئے گی اور یہ حکومت بھی پھر جائے گی محبت کا تقاضا نبی علیہ السلام کی مکمل اتباع ہے۔ علماء کرام علماء حق ہی اس دین کے وارث ہیں یہ میرے نبی کا فرمان ہے آپ انہیں ٹھیکیدار کہیں یا جونام بھی دے دیں بہرحال خود ٹھیکیدار بننے کی بجائے اہل علم سے رجوع آپ کے لیے بہتر ہوگا ۔

بنتے ہو وفادار تو وفا کرکے دکھاؤ                   کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور

علماء کے نام پر هاں ایسے لوگ دھبہ ہیں جن کا جبہ ودستار لوگوں کو غلام بنانے کا کام کرتاہے دین کی غلط تعبیر یں کرتے ہیں فساد فی الارض کہ ذمہ دار بن کر اقتصادی طور پر مشکلات سے دوچار اپنے ملک کو مزید مسائل سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اور وہ جو ٹی وی چینلز پہ بیٹھ کر بے پرکی اڑاتے ہیں علم کے نام پر جہالت کا پرچار کرتے ہیں ۔ رب العالمین سے متعلق مثالیں لاتے ہیں فرمان باری تعالیٰ ہے : فَلَا تَضْرِبُوا لِلهِ الْأَمْثَالَ (النحل: 74) ’’پس اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں مت بناؤ ‘‘۔وہ ارشاد فرماتاہے :  

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى  (طه: 5)

’ وہ نہایت مہربان عرش پر مستوی ہے۔‘‘ یہ آیت کا انکار کرتے ہوئے (نقل کفر کفر نہ باشد) موبائل کے ڈبے پہ موبائل رکھ کر پوچھتے ہیں بتاؤ عرش بڑا ہے یا اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) یہ تو واقعی ٹھیکیدار ہیں اور ان کو بند ہونا چاہیے پھر وہ قوم جو دیوالی کی نقل میں دیئے جلا کر جشن میلاد منائے ہولی کی نقل میں کلرڈے منائے جشن میلاد کی دلیل میں عیسائیوں کے ہاں میلاد مسیح منانے کا حوالہ لائے اسے آپ بھی یہ درس دیں کہ یہودیوں سے قریب ہو جاؤ جنہیں اقبال بہت پہلے کہہ گئے ہیں

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تَمَدُّن میں ہُنُود     یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

تذکرۂ اقبال سے یاد آیا توقع تھی کہ اس سال 9 نومبر پہ شاید یوم اقبال کی چھٹی بحال کرکے حکومت کوئی مفت کی نیک نامی حاصل کرے گی مگر لگتاہے ایسی تمام چیزوں میں وہ سابقہ حکومت کی پیرو ہے بلکہ اس سے بھی کچھ آگے بڑھنا چاہتی ہے لوگ آئندہ سال کے لیے بہت بری بری پیش گوئیاں کررہے ہیں مگر ہم رب تعالیٰ سے اس ملک وقوم کے لیے خیرہی کی امید رکھتے ہیں

وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف: 87)    ’’

اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے