ایک ملک میں اگر ایک ہی قوم آباد ہو تو اس کا قومی ترانہ بھی ایک ہی ہوا کرتا ہے ، اب اگر اسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ برصغیر میں ایک کی بجائے دو قومیں آباد تھیں کیونکہ قومی ترانے کے متعلق ان کے خیالات میں زمین و آسمان کا فرق تھا ۔
1905ء میں جب ہندووں نے تقسیم بنگال کے خلاف اپنی تحریک شروع کی تو اس دوران انہوں نے ’’بندے ماترم ‘‘گا کر اس تحریک کو موثر بنانے کی کوشش کی۔ ایک بنگالی برہمن بنکم چندرچیٹر جی نے 1885میں ایک ناول آنند ماٹھ لکھا جس سے یہ ترانہ اخذ کیا گیا تھا ، بنکم چندر چیٹر جی بنگالی زبان کا ایک نامور مصنف تھا جو کالی دیوی اور درگادیوی کا زبردست پرستار تھااور جس نے اپنے نام نہاد تاریخی ناولوں میں مسلم اور انگریز ہیرو کے مقابلے میں راجپوت اور بنگالی ہیرو جنم دئے تاکہ وہ مسلم اور انگریز ہیرو کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں اس کا سب سے بڑا مشن ہندووں کو مسلمانوںکے خلاف اکسانا تھا ، بنکم نے یوں تو جو کچھ بھی لکھا مسلمانوں کی تاریخ کو داغدار کرنے کی خاطر لکھا ۔
اس کا بڑا نشانہ مغل شہزادیاں تھیں جنہیںاس نے اپنے ناول ’’راج سنہا‘‘ میں بے عزت کرنے کی ناپاک کوشش کی، بنکم نے حد درجہ بے باکی کے ساتھ شاہ جہاں کی دو صاحبزادیوں جہاں آراء اور روشن آراء اور اورنگزیب عالمگیر کی پاک دامن بیٹی زیب النساء کے دامنِ عصمت کو داغدار کرنے کی کوشش کی ۔
یہاں سے آپ اس ناول نگار بنکم کی سوچ کا اندازہ لگا سکتے ہیں، اب اس کے کسی ناول سے جو ترانہ لے کر اسے قومی ترانہ بنانے کی سعی کی گئی تو وہ ترانہ بھی کس قدر بے ہودہ گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔
بنکم چندر کا دوسرا ناول آنند ماٹھ ہے جس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ یہ بات سمجھ میں آسکے کہ اس کا نام سنتے ہی مسلمانوں کے سینے میں آگ کیوں بھڑک اٹھتی ہے ۔ ناول کا ہیرو بھاونند نواب سراج الدولہ کے بعد مرشد آباد کے نواب کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لئے فوج جمع کرتا ہے اسی دوران اس کی ملاقات مہندر سے ہوجاتی ہے جسے وہ مسلمانوں کی حکومت کے خاتمے کے لئے ایک مسلح بغاوت کا منصوبہ پیش کرتا ہے جسے مہندر ناقابلِ عمل بتاتاہے، اس پر بھاونند سخت مایوسی اور غصے میں کہتا ہے کہ ہمارا مذہب تباہ ہو رہا ہے اس لئے جب تک ان نرشوں (مسلمانوں ) کو یہاں سے نکال نہیں دیتے اس وقت تک دھرم محفوظ نہیں ۔مہندر پوچھتا ہے کہ کیا تم اکیلے مسلمانوں کو نکال سکتے ہو، اس پر بھاونند ترانہ گاتا ہے کہ جب سات کروڑ زبانیں نعرہ بلند کریں گی اور چودہ کروڑ ہاتھ تلواریں چلائیںگے تو تم اس وقت بھی وطن کو کمزور خیال کرو گے، مہندر ابھی اس کی باتوں پہ یقین نہیںکرتا ،اس پر بھاو نند اسے یقین دلانے کی کوشش کرتاہے کہ انگریز میدانِ جنگ سے فرار نہیں ہوتا ،چاہے اس کی جان خطرے میں ہی کیوں نہ پڑ جائے ،لیکن اگر مسلمان کو پسینہ بھی آجائے تو وہ میدانِ جنگ سے فرار ہوجایا کرتا ہے ۔
یہاں آپ دیکھئے کہ کس طرح مسلمانوں کو بزدل ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے،
یوں بھاونند مہندرکو یقین دلانے میںکامیاب ہوجاتا ہے پھر وہ ایک تہہ خانے میںجاتے ہیں جہاں کالی دیوی کا بت رکھا ہے وہاں مسلمانوںسے لڑنے کا عزم کرتے ہیں اور پھر ہر سپاہی بڑی عقیدت کے ساتھ ’’بندے ماترم ‘‘ کا گیت گاتا ہے ۔
بنکم کوئی محقق یا تاریخ کا طالب علم نہیں بلکہ ایک متعصب ناول نگار تھا اور مذکورہ دونوں ناولوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ و ہ مسلمانوں کے بارے میںکن خیالات کا مالک تھا۔
تقسیم بنگال کے خلاف چلائی جانے والی ہندو تحریک میں جب ’’بندے ماترم‘‘ کا گیت گایا جانے لگا تو اسی وقت بنگالی مسلمانوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا کیونکہ ناول بنگالی زبان میں لکھا گیا تھا جسے بنگالی مسلمان اچھی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ6اگست1907کو نٹروکانا محمڈن انجمن نے اپنے ایک اجلاس میںایک قرارداد کے ذریعے حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ
’’ بندے ماترم ‘‘کا گیت قومی گیت کے طور پر نہیں بلکہ انگریزوں اور مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے گایا جا رہا ہے ۔
1937میں جب کانگریسی وزارتوں نے ’’بندے ماترم‘‘ کو قومی ترانہ قرار دیتے ہوئے اسے سکولوںکالجوں اور مجالس قانون ساز کے آغاز پر پڑھنے کا حکم جاری کیا تو دونوںقوموںکے درمیان شدید کشمکش کا آغاز ہوا۔ ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ دعوی کیا یہ ترانہ گذشتہ 30سال ہماری قومی جدوجہد سے وابستہ چلا آرہا ہے اور اس کے ساتھ بہت سی یادیں اور قربانیاں وابستہ ہو گئی ہیں اور اس ترانے میں ہندوستان کی مدح کی گئی ہے*
پنڈت جی کا اشارہ تقسیم بنگال کی طرف ہے کیونکہ 1937میں سے 30 سال حذف کر دئيے جائیں تو یہ سن تقسیم بنگال کی طرف چلا جاتا ہے اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے نہ صرف بنگال بلکہ بر عظیم کے جملہ مسلمان ہندووں کے برعکس تقسیم بنگال کی حمایت کررہے تھے اس موقع پر دونوں قومیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں لہذا اسے قومی جدوجہد سے تعبیر کرنا تاریخ کا خون کرنے کے مترداف ہوگا۔
ابھی کانگریسی وزارتوں کے قیام میں پورے چار سال باقی تھے کہ کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار سٹار آف انڈیا نے اپنی 2نومبر 1933کی اشاعت میں بندے ماترم کے حوالے سے ایک ادارئیے میںلکھا کہ بنگال کے مسلمانوں نے ہمیشہ اس گیت پر اعتراض کیا ہے جسے ہندو قوم پرستوں نے سنا ان سنا کر دیا، اخبار نے واضح کیا کہ یہ گیت مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے چہ جائیکہ اسے ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا جائے ۔
1937میںجب کانگریس کو 8صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا تو اس نے دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہندوستان میں ایک قوم آبادہے جس کا ایک قومی ترانہ بھی ہے ،’’بندے ماترم ‘‘کو قومی ترانہ کا درجہ دینا شروع کر دیا ،حکومت سنبھالتے ہی اس نے سکولوں ، کالجوں ، سرکاری دفاتر، اور اسمبلیوں کے آغاز پہ یہ قومی ترانہ گانے کا حکم جاری کردیا اب دو قومی نظریہ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتا ہے ، برعظیم کے جملہ مسلمانوں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ کانگریس کے اس قومی ترانے کو مسترد کر دیا ، بنگال ، پنجاب، بہار، یوپی،سی پی، اور مدراس کے مسلمانون نے اس قومی ترانے کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے گانے سے انکار کر دیا۔ستمبر 1937میں جب مدراس اسمبلی میں حسب معمول یہ گیت گایا جا رہا تھا تو اسمبلی کے ایک مسلمان رکن نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا تھا۔
سہ روزہ نوائے وقت نے جولائی 1943میںدو مرتبہ بندے ماترم کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ اصلاً یہ ترانہ بنگال کے ہندو باغیوں کا ترانہ ہے جو انہوں نے اسلام اور حکومتِ اسلامی کو مٹاکر ہندو راج قائم کرنے کے لئے جاری کیا تھا ۔
اس نام نہاد قومی ترانے کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے کہ یہ گیت قومی ترانے کے طور پر نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اس کے متعصب مصنف کو یہ وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ ہندوستان کا قومی ترانہ قرار پائے گا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دو قومی نظریے نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا جب ہندووں کی جانب سے بندے ماترم کو بطور قومی ترانہ اختیار کرنے پہ اصرار کیا گیا تومسلمانوں نے علامہ اقبال کی نظم
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاںہمارا
کو ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا۔
مجلہ ادبی دنیا کے مدیر نے اس سلسلے میں انکشاف کیا کانگریس کے 1921کے اجلاس اور اس کے دو تین سال بعد تک کانگریس کی کاروائی کا آغاز علامہ اقبال کے اسی ترانے سے ہوا کرتا تھا ۔
آل انڈیا ریڈیو آج بھی اپنی نشریات کا آغاز ’’بندے ماترم‘‘کے ترانے سے کرتا ہے اور ریڈیو پاکستان اپنی نشریات تلاوت قرآن حکیم سے شروع کرتا ہے ۔
تو ہمیں ہر حال میں یاد رکھنا ہوگا کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے ، پاکستان بن گیا ہے اب اس کو آفات سے بچانے کے لئے قیام پاکستان کے جذبات کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
*(Bhuiyan Iqbal, Selections From the Mussalman 1906-08, Calcutta, 1994,pp.11-12)
**(عاشق حسین بٹالوی، ہماری قومی جدوجہد 1938ء لاہور، 1966 صفحہ250-51)
۔۔۔
ِِ۳ جنوری ۲۰۱۸ء شام کو جیسے کالج کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر واپس گھر پہنچا تو موبائیل پر کالز اور ایس ایم ایس آنا شروع ہوگئے، جن میں یہ روح فرسا اور المناک خبر ملی کہ اسلامی علوم و فنون کے ماہر، تدریس کے شہنشاہ،عالم ربانی، جماعت اہلحدیث سندھ کے روح روان، اور ماہنامہ مؤقر دعوت اہلحدیث حیدرآباد کے مدیر شہیر ، مولانا ذوالفقار علی طاہر کراچی کے ایک جان لیواٹریفک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملے بار بار زبان پرانا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا ۔
شدیم خاک ولیکن ببوئے تربت ما
تواں شناخت کزین خاک مرد مے خیزد
آہ!جس مرد حق نے اسلام کی آفاقیت وحقانیت کے لئے پوری زندگی وقف کردی جس نے باب الاسلام سندھ دورافتادہ،گائوں،میں شرک و بدعت کے بتکدوں میں آذان حق دی و ہ اچانک ہم سے بچھڑ کر پیوند ہ خاک بن گیا،ابوزبیرذوالفقار علی طاھر بن حمزہ علی( متوفی ۲۰۰۵ء) بن مرحوم غلام حیدر خان (متوفی۱۹۸۳ء) بھی اپنے دور کے انتہائی نیک سیرت، پرہیزگار، اور صالحین میں شمار ہوا کرتے تھے، مولانا ذوالفقار علی طاھر تحصیل کھپرو ضلع سانگھڑ کے شہر سامارو موری میں ۴ مارچ ۱۹۷۲ء میں پیدا ہوئے،آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری اور قرآن مجیدناظرہ اپنے گائوں میں حاصل کی ، جس کے بعد آپ نے مڈل اور میٹرک بھی کھپرو سے کیا، جس کے بعد انکے اقرباء کی خواہش پر انہوں نے علوم اسلامیہ اور درس نظامی کے لئے باقاعدہ مدرسہ قاسم العلوم ٹنڈوآدم روڈ میرپورخاص میں داخلہ لیا، جہاں ابتدائی فارسی اور عربی کے قواعد سے تعلیم شروع کی، انکے اساتذہ کرام عمومًا دیوبند مکتب فکر کے حامل تھے،جن میں سے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔
۱۔مولانا غلام قادر مرّی پھلڈیوں سانگھڑ والے جن سے مولانا طاھر نے ابتدائی کتب فارسی کے قوائد، پہلی فارسی، کریما،نامہ حق،پندنامہ وغیرہ پڑھیں۔
۲۔مشہور مصنف،اسلامی اسکالر، پروفیسر مولانا حکیم امیرالدین مہر حفظ اللہ تعالی سابق ڈائریکٹر الدعوۃ اکیڈمی اسلام آبادسے بھی باقائدہ ترجمۃ القرآن ،اور عربی گرائمر صرف و نحو اور ادب کی کتب پڑھیں۔
۳۔مولاناعطاء اللہ خاصخیلی ٹنڈو آدم والے سے آپ نے صرف ، نحو،باالحضوص علم الصّیغہ مین مثالی مہارت تامہ حاصل کی۔
۴۔مولانا سعیداحمدخان مکرانی وغیرہ سے بھی عربی اور فارسی کتب پڑھیں جن میں اخلاق محسنی، گلستاں و بوستاںسعدی اور ’مالابدمنہ‘شامل ہیں۔
۵۔مولانا سید احمدسعید وغیرہ سے بھی عربی فارسی کا مروّجہ کورس پڑھا، واضح رہے کہ اس دور میں مدارس اسلامیہ کے کورس میں فارسی بے حد ضروری تھی چونکہ ایک عالم دین کا فارسی سے جھل بھت سارے علوم فنون اور معلومات کے خزینہ سے محروم کر دیتا ہے، اس زمانہ میں تو عربی گرائمر بھی فارسی کتب میں پڑھائی جاتی تھی مثلا مشہور کتاب ارشاد الصرف اور اس کی شرح وغیرہ بے انتہا علمی افادیت کی حامل تھی ، (جیسا کہ خود راقم الحروف نے دو سال تک مدارس اسلامیہ میں فارسی مکمل کی کہ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کیا) بھرحال مروجہ نصاب کو
مکمل کرنے کے بعد مولانا ذوالفقار علی طاہرنے تقریبا
ایک برس تک مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث لیاقت کالونی (گھمن آباد) حیدرآباد میں محنت وعرق ریزی سے عربی کی ابتدائی جماعت پڑھی جہاں انہیں فضیلۃ الشیخ حافظ محمد ایوب صابر ،مولاناعبدالغفور رئوف ،شیخ شبیر احمد ،شیخ محمد ذکریاوغیر ہم جیسے با وقار اساتذہ کرام سے کتب کماحقہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔جس کے بعد ۱۹۸۸ء میں آپ نے عربی کی جماعت دوئم کے لیے کراچی کی قدیم علمی ادبی اور باوقار دینی درسگاہ جامعہ دارالحدیث رحمانیہ سفید مسجد سولجر بازار میں داخلہ لیا جہاں سے بفضل اللہ تعالیٰ بقیہ علوم وفنون کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ۱۹۹۴ء میں فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالخالق رحمانی رحمہ اللہ تعالی جیسے اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی جیسے محدث العصر علمی شخصیات سے دستار فضیلت و سند فراغت حاصل کی انکو اپنی پوری جماعت میں اوّل پوزیشن ملی جس کے باعث انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرے، جہاں پر آپ نے اپنے وقت کے کئی جلیل القدر عُلمائے عظام سے اکتساب علم کیا تھا، مثلًا استاد العُلماء علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی سے الفیہ ابن مالک،شرح نخبۃ الفکر ، جامع ترمذی، سنن نسائی اور صحیح البخاری جلد دوئم وغیرہم جیسی کلیدی کتب پڑھیں، ان کے علاوہ دیوبندی عالم دین مولانا غلام رسول سے دستورالمبتدی،اصول شاشی، قدوری، ھدایہ، شرح جامی کے علاوہ تفسیر جلالین و تفسیر بیضاوی جیسی اہم کتب بھی پڑھیں، اسی ادارے میں میرے دیرینہ دوست، مرحوم مفتی محمد صدیق رحمہ اللہ تعالی جیسی فاضل شخصیت سے آپ نے شرح تہذیب، مولانا امان اللہ ناصر سے حجۃ اللہ البالغہ ، سید محمد شاہ سے سنن ابو دائود، الشیخ عبدالمجید سادھوی سے بلوغ المرام، شیخ افضل سردار سے مشکٰوۃ المصابیح (مکمل) فضیلۃ الشیخ محمد دائود شاکرحفظہ اللہ تعالیٰ سے معلم الانشاء، مقامات حریری، استاد العُلماء مولانا عبدالرحمن چیمہ، جیسی قد آور شخصیت سے کافیہ پڑھی، مزید فضیلۃ الشیخ محمد افضل اثری حفظہ اللہ تعالیٰ سے مرقاۃ، علم الصّیغہ، شرح مئۃ عاملہ، ھدایت النحو، سنن ابن ماجہ، صحیح مسلم جلد اوّل و دوئم، صحیح البخاری جلد اوّل جیسی گرانقدر علمی کتب پڑھنے کی سعادت حاصل کی، اس طرح مولانا ذولفقار علی طاھر نے فراغت کے بعد ایک سال تک مشہور علمی ادارے جامعۃ الاحسان کراچی اور چار سال تک جامعہ دارالحدیث رحمانیہ میں فن تدریس کے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دیئے، اسی دوراں آپ نے وفاق المدارس السّلفیہ سے شھادۃ العالمیہ اور کراچی یونیورسٹی سے ’مولوی فاضل عربی‘بھی پاس کر لیا، سچ ہے
کلیوں میں سینے کا لہُو دے کرچلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
حسن اتّفاق سے مولانا ذوالفقار علی طاھر نے اپنی پیدائش کے پورے بیس ۲۰ سال کے بعد ۴ مارچ ۱۹۹۲ء کو اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کی جس سے اﷲ تعالیٰ نے انکو دو فرزند عطافرمائے ۔
۱۔زبیر ۲۔زھیر جو بھی طالب علمانہ کاوشوں میں مصروف عمل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے والد کا جا نشیں بنائے مولانا طاھر اپنے خانداں میں پہلے فرد تھے جس نے مدارس اسلامیہ سے علوم و فنون میں تکمیل کرکے اپنے علاقہ میں کتاب و سنت کی دعوت دی،
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
۱۹۹۹ء میں سندھ کے بطل جلیل فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی کے حسن انتخاب پر الجامعہ المعھد السلفیہ للتعلیم و التربیہ کراچی میں ایک باوقار استاد اور محسن منتظم کے عہدے پر مولانا طاہر فائز ہوئے، پھر یہ اشاعت کتاب وسنت کا سلسلہ پورے انیس سال تک باقاعدہ جاری رہا ، تا آنکہ مولانا طاھرنے جاں جانِ آفریں کے حوالے کی ، آپ ہمیشہ تواضع للّہ کا عکس نظر آیا کرتے تھے،مزید یہ کہ مؤقر ماہنامہ دعوت اہلحدیث کے اردو شمارے کی ادارت بھی یکم ستمبر ۲۰۱۰ء سے تادم واپسی باقاعدہ مولانا طاہر کی زیرنگرانی رہی ،مولانا طاہر کے سانحہ ارتحال سے ویسے تو پوری جماعت تنہاہوگئی لیکن مؤقر دعوت اہلحدیث جامعہ المعھدالسلفیہ اور علامہ عبداللہ ناصر رحمانی اپنے عزیز القدر رفیق سے محروم ہوگئے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم
(شاد عظیم آبادی)
مولانا ذوالفقار علی طاہر بیک وقت ایک بہترین داعی، مؤثر خطیب، مثالی مدرس و منتظم ،جمعیت اہلحدیث کی مجلس مشاورت کے ممبر ،سندھ کے ناظم امتحانات اور مؤقر دعوت اہلحدیث کے مدیر شہیر تھے، انہوں نے خصوصًا فن تدریس میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں، ’دعوت اہلحدیث‘ کے پر مغز اداریے، جاندار محققانہ مضامین، مقالات علمیہ، حالات حاضرہ سے باخبر رہ کر بھرپور بے لاگ تجزیئے، شذّرات علمیہ کے علاوہ جب بھی کسی معاصر نے بلاوجہ طائفہ منصورہ، مسلک اہلحدیث اور کتاب و سنت کے خلاف لکھا تو مولانا طاھر مرحوم نے بروقت بھرپور علمی تعاقب کرتے ہوئے کلمۃ الحق کا فریضہ سرانجام دیا، مختصرًا آپ لایخافون لومۃ لائم کے پیکر تھے۔
کہتا ہوں وہ ہی بات سمجھتا ہوں حق جسے
میں زہر ھلاھل کوکبھی کہہ نہ سکا قند
مولانا طاھر صاحب طلباء کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیا کرتے تھے، اسباق کی باقائدگی کے متعلق ہمیشہ متفکر رہا کرتے تھے، وہ پہلے خود وقت کی پابندی کرتے پھر اوروں کو کہتے، اس بات کی گواہی آج بھی علماء و طلباء دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، مولانا طاھر کا طریقہ تدریس انتہائی جاندار ، پروقار،مدلّل،علمی انداز میں سہل، عام فہم، مختصر مگر سحّرانگیزہوا کرتا تھا، مشکل موضوعات کو بھی احسن انداز سے طلباء کو ذہن نشین کرادیا کرتے تھے،جامعہ کے پورے عملے سے انکا انتہائی مشفقانہ رویہ رہا، آپ طلباء کے سامنے اٹھتے بیٹھتے صورت و سیرت میں اپنے اکابر اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتے تھے، مولانا ذوالفقار علی ویسے تو معقولات و منقولات میں مہارت تامہ رکھتے تھے، تاہم الجامعہ المعھد السلفیہ للتعلیم و التربیہ میں انکے حوالے جو اسباق ہوا کرتے تھے ان میں تفسیر جلالین، صحیحین، مؤطا امام مالک سنن اربعہ، مشکٰوۃ المصابیح،شرح نخبۃ الفکر، حجۃ اﷲ البالغہ، فصول اکبری، ھدایت العبرات وغیرہ شامل تھیں، جن سے طلباء خوب استفادہ کیا کرتے تھے۔
آہ!آج جامعہ المعھد السلفیہ کے ہونہار تلامذہ اپنی کتابیں کھولے دارالتدریس میں اپنے محسن مرّبی استاد المکرم کے علمی فیوض و برکات سے استفادہ کے لیے نمناک آنکھوں سے چشم براہ ہونگے، لیکن یہاں سے جانے والے بھی کبھی واپس لوٹے ہیں؟ عرصہ تک طلباء ان کو بھول نہ پائیں گے،
دستک ہوئی دوڑ کے دہلیز تک گیا
باہر ہوا کا شور تھا، چہرہ اتر گیا
مولانا طاھر اتباع سنت کا حد سے زیادہ اہتمام کیا کرتے توحید و سنت کو اپنے لیے متاع گرانمایہ سمجھتے تھے، سچائی، سادگی، کفایت شعاری، عاجزی، فروتنی، انکساری اور رواداری انکا شعار تھا، کُن فی دنیا کأنک غریبٌ او عابر سبیلٌ کا آپ مظہر تھے۔
جس سے زینت تھی چمن کی پھول وہ مرجھا گیا
گلشن علم و عمل پر چھا گئی اک دم خزاں
ویسے تو انکے تلامذہ انکے دروس علمیّہ سے استفادہ کرنے والے لاتعداد تھے تاہم چند علماء کرام کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں۔ حافظ عبدالمالک مجاھد، مولانا حزب اﷲ بلوچ، حافظ محمد شعیب سلفی، حافظ عبداﷲ شمیم، حافظ محمد عثمان صفدر، حافظ فاروق کمبوہ ، حافظ اصغر محمدی، حافظ عبدالرحمٰن محمدی،حافظ حبیب احمد ثاقب،شیخ عبدالصمد مدنی حفظہم اللہ جیسے لاتعداد علمائےکرام شامل ہیں ۔
میری ویسے تو مولانا طاہر سے دیرنیہ دوستی تھی لیکن چند سال قبل جامع بدیع العلوم مٹھی کے امتحانات سے فارغ ہوکر انہوں نے ایک دن اور رات ’خاکسار‘ کے غریب خانے کو رونق بخشی پھر پورا وقت کتابوں اور راشدی برادران کے متعلق یادوں کے ساگر موضوع بحث آتے گئے پھر اتنا خوش ہوئے کہ ناچیز اور میری لائبریری پر ایک بھرپور اداریہ لکھ ڈالا، آپ نے دو مرتبہ ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۵ءمیں عمرے کی سعادتیں حاصل فرمائیں، انکی غربت، سادگی، بے سروسامانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انکا ایکسیڈنٹ میں اچانک انتقال ہوا تو ایک گاڑی میں ہی اہل خانہ،گھر کا مختصر سامان، چند کھانے کے برتن،ایک دو ٹین کی پیٹیاں اور اوڑھنے بچھانے کے لیے رلیاں تھیں۔
ایک ایک کر کہ ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
مولانا طاھر دل آویزاں اور سحّر انگیز شخصیت کے مالک تھے، وہ بیک وقت مخلص دوست، مثالی داعی، ممتاز قلمکار، انشاپرداز، بہترین مترجم، باکردار معلم، نفیس مرّبی تھے، میں نے ہمیشہ انکو نہایت اختصار، جامعیت، پر مغز، معقولیت کے ساتھ حقیقت پسندانہ، جامع، مدلل اور محتاط گفتگو کا عادی پایا۔
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے
جن کو تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
میں نے انکو افکار علوم اسلامیہ کے ساتھ، حالات حاضرہ کی حسّاسیت اور نزاکتوں سے بھی خوب واقف پایا، دینی تڑپ رکھنے والے جماعتی احباب کے وہ نہ صرف قدردان تھے بلکہ دوسروں کے جذبات و نظریات احساسات کی قدر کرنے کے فن سے بھی شناسا تھے، وہ روبرو ہوں، فون پر ہوں، خط و کتابت سے مخاطب ہوں مگر ہمیشہ محبت، مئودت، شفقت، عزت اور اپنائیت کے فن سے متصّف نظر آتے تھے، میں نے مدت مدید سے انکو باہمی اعتماد، بردباری، تحمّل مزاجی، فہم و فراست میں مثالی انسان پایا۔
مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر
آج تک تیرے خطوط سے تیری خوشبو نہ گئی
(اختر شیرانی)
وہ مادری زبان سندھی ہونے کے باوجود اردو مبیّن کی نزاکتوں سے بھی شناسا تھے وہ پوری حیاتی اپنے اصولوں پر کار آمد رہے لیکن کبھی بشری تقاضا کے تحت اگر کوئی کمی بیشی رہ جاتی تو مطلع ہونے پر ایک لمحہ بھی اعتراف میں تاخیر نہیں کرتے تھے، وہ شدید مخالفت میںبھی مغلوب الغضب ہونے کےمرض سے مبرّا تھے، مولانا طاھر کو نابغہ روزگار علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبداﷲ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی خصوصی تربیت، توجہ، محبت واعتماد نے ایک معتدل مزاج بلند پایہ عالم بنا دیا تھا ان مایہ ناز شخصیات کی تربیت و شفقت سے آپ ایک تراشا ہوا ہیرہ محسوس ہوتے تھے، انکے اچانک سانحہ ارتحال سے پوری جماعت کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
مختصرا آپ صالحہ صفت ، راست باز، وضع دار، مہذب، شائستہ اور دھیمہ لہجہ کے مالک تھے، انکے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ عامیانہ گفتگو سے ہمیشہ احتراز کیا کرتے، صاف گو سیدھے سادے متقی پاکیزہ اوصاف ،عبادت گزار انسان تھے، کبھی انکو کسی سے حسّد کرتے نہیں دیکھا، وہ دوسروں میں ہمیشہ حسنِ ظن رکھا کرتے تھے، وہ کسی زندہ یا انتقال شدہ مسلمان بھائی کی غیبت، عیب جوئی، تعصّب اور کردار کشی سے کوسوں دور رہتے، ورنہ موجودہ دور میں ایسی زندگی گذارنا بیحد مشکل ہے، بلکہ یہ اوصاف اب ’عنقا‘ ہوتے نظر آتے ہیں،
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
( ثاقب لکھنوی)
مولانا ذوالفقار علی طاھر خالصتًا علمی ذوق کے حامل بزرگ تھے، ان کا علوم قرآنی و احادیث رسول ﷺ سے بے انتہا شغف تھا بلاشبہ آپ ان عُلمائے عظام میں سے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا اتّباع سنت تھا، ایسے اصحابِ علم و فضل اقوام میں مدتوں کے بعد جنم لیتے ہیں، آپ نے پوری حیاتی سوز دل سے فکر و نظر کے چراغ روشن کیئے انکی یادیں اور باتیں زبانوں کو حلاوت اور نگاہوں کو بصیرت عطا کرنے والی تھیں،
سالہا زمزمہ پرواز جہاں خواھد بود
زاین نواھاکہ دراین گنبد گردن زدہ است
مولانا ذوالفقار علی طاھر کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے دل دکھتا ہے، انکی شیرین یادوں اور باتوں سے دل لبریز ہے، جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو انکی آنکھوں میں تبسّم چہرہ پھول کی طرح کھِل اٹھتا اور پھر ہمیشہ کی طرح رنگ آشنائی سے نوازتے لیکن خالقِ کائنات کے فیصلے کے سامنے کسی کو چوں و چراں کی مجال ہے؟ کلُّ مَن عَلیھا فَانٌ‘ مولانا طاھر اپنے لاکھوں چاہنے والے محبت کرنے والے طلباء، اساتذہ، عُلماء، عامۃ الناس، اعزہ اقرباء اور قریبی رشتہ داروں کو دکھی دل چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے،
اے رونق ہائے محفل ما۔ رفتیدولے نہ ازدل ما
غم فرقت بھی کیا عجیب ہے جس سے جتنا تعلق خاطر ہوتا ہے اُتنا غم بھی زیادہ، ایسے لوگوں کی باتیں اور یادیں مدت تک تڑپاتی رہتی ہیںاور ایسے لوگ اب ملتے بھی کہاں ہیں؟
یا الٰہی! تیرہ عاجز مخلص بندہ تیرے حضور قیام و قُعود رُکوع سُجود سے سر جھکائے حاضر ہوا ہے اپنے جود و کرم سے انکی مغفرت فرما، انکی اگلی منزلوں اور مسافتوں کو آسان فرما، انکی لحد کو باغیچہ فردوس بنا، اور انکے پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرما، ہم سب کو جادہ مستقیم پر چلنے کے ساتھ تو اپنے پسندیدہ بندے بنا۔ آمین یا ربَّ العالمین
الا یا ساکن القصر المعلٰی
ستُدفن عن قریب فی التراب
لنا ملک ینادی کل یوم
لدوا للموت وابنوا للخراب
۔۔۔
قارئین کرام! میری مراد میرے محسن ومربی استاذ محترم حافظ اللہ نواز ہرل صاحب حفظہ اللہ (فاضل جامعہ اسلامیہ ، رئیس جامعہ تعلیم القرآن والسنہ نوابشاہ) ہیں ۔ استاد محترم حفظہ اللہ جیسی معزز و مکرم شخصیت پر قلم اٹھانا مجھ جیسے کم علم و عمر کے لیے یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔کافی عرصے سے خواہش تھی کہ شیخ محترم کی شخصیت پر کچھ تحریر کروں لیکن قلم اٹھانے کی ہمت نہ ہوسکی ، بالآخر اس بار دل کے ہاتھوں مجبور ہواہی ہوں۔ نہ معلوم اس کے بعد انکے متعلق لکھنے کا موقع ملے نہ ملے ۔سمجھ میں نہیں آ رہا کہ محبت و مودت میں سمندر سی گہرائی رکھنے والے اس شخص پر کیا لکھوں کہاں سے شروع کروں کن باتوں کا تذکرہ کروں!
میرے قلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں سما سے کھیلا ہوں
الغرض ! مختصر طور پر انکی زندگی کے بعض جہات و اوصاف کا ذکر خیر کروں گا اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سبحانہ وتعالی اس تحریر کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائےشیخ محترم کی شان شوکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انکے استاذ (جو بحر العلم سینئر اساتذہ میں شمار کیئے جاتے ہیں )کا کہنا ہے کہ’’ میں حافظ اللہ نواز صاحب کا استاذ ہوں لیکن میں حافظ صاحب کو اپنا استاذ سمجھتا ہوں۔" استاذ ہی کو شاگرد کی ذہانت، فہم وفراست تعلیمی ذوق اور علم کےلیے جھود و مساعی کا علم ہوتا ہے شاگرد کی فطری صلاحیتیں اور مطالعہ کتب کی لگن بھی استاذ کی نظر میں ہوتی ہےجس شخص کا استاذ اسکو اپنا استاذ تسلیم کرے بتائیں ان کی شخصیت کیا ہوگی!! یقینا ہمارے شیخ اس دور کے گل سرسبد اور علمی کہکشاں کے نجم ثاقب ہیںشیخ محترم کی زندگی کے وہ لمحات جو راقم نے انکے تحت اشراف بسر کیے ہیں انتہائی عاجز مندانہ لمحات تھےع
نگہ بلند سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کےلیے
شیخ محترم اپنے اسلاف کے تمام اوصاف حمیدہ سے متصف ہیںنہایت ہمدرد اور رحم دل، زہد و تقوی کے پیکر ، اسلام کی دعوت و تبلیغ میں بڑےجرأت مند اور قرآن سے انتہائی لگن ۔ شیخ محترم کی خطابات میں بھی اکثر قرآن ہی سننے کو ملتا ہےبلکہ طلباء کو بھی اکثر یہ ہی نصیحت فرمایا کرتے ہیں کہ لمبی لمبی تقریریں لازم نہیں ہیں لوگوں کو فقط سورہ فاتحہ اچھی طرح سمجھا دیں تو کافی ہے -"شیخ محترم اپنے مسلک کے لوگوں سے بھی انس و روابط رکھتے ہیں تو دیگر حضرات سے بھی انکے بے تحاشا مراسم ہیںشیخ محترم کی رقت قلب غیروں کو بھی قریب ہو نے کے لیے مجبور کر دیتی ہے اور وہ بھی کچھ دیر آپ کی خدمت میں بیٹھنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
شیخ محترم کی عاجزی کے بیسوں مثالیں موجود ہیں حقیقت کی وضاحت کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے کہ’’ ایک بار یوں ہوا کہ راقم جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا کہ شیخ محترم کسی وجہ سے جمعہ پڑھانے نہیں گئے اور دوران خطبہ آکر مسجد کے ستون کے پیچھے بیٹھ گئے راقم کی جیسے نظر پڑی تو وہ تعجب کرنے لگا کہ شیخ صاحب کیسے آگئے ؟ہائے! شیخ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے ٹوٹے ،بے ربط
الفاظ ... خطبہ جمعہ جیسےہی ختم ہوا تو میں فورا پیچھے صف میں
کھڑا ہوگیا کہ شیخ صاحب ہی نماز پڑھائیں گے ۔انکی موجودگی میں میں مصلے پر کھڑا ہونا کیسے گوارہ کر سکتا تھا ؟تھوڑی دیر تک رکے رہے شیخ مصلے پر نہیں آئے میں نے کہا :شیخ! نماز پڑھائیں فرمایا: بیٹا ! آپ ہی پڑھالیں ۔بہت اسرار کے بعد مصلے پر آئے اور نماز پڑھائی مقتدی آپ کی عاجزی و انکساری دیکھ کر آنگشت بدند ره گئے‘‘۔
محترم شیخ طلبہ و علماء کی بہت زیادہ توقیر کرتے ہیں انکی آمد پر خوش بھی ہوتے ہیں جب کبھی انکی خدمت میں طلبہ و علماء کی آمد ہوتی ہے تو وہ خود انکی میزبانی کرنے کی کوشش کرتے ہیںطلبہ کو اپنی اولاد جیسا پیار دیتے ہیں اگر کسی طالب پر وقتی طورغصہ آ بھی گیا تو اسے خوش کرنے کی حتی الممکن کوشش کرتے ہیںطلبہ سے ہر حوالے سے تعاون کرنا گویا اس مرد مجاہد نے اپنے ذمے اٹھایا ہوا ہے،غرباء و فقراء طلبہ پر آپ کی نظر رہتی ہے اور ان سے حتی الاستطاع تعاون کرتے ہیں،بہت مرتبہ یوں بھی ہوا کہ طلبہ نے اپنے گھریلو مجبوریاں پیش کیں تو شیخ نے ان سے بھی ہر ممکن تعاون فرمایاشیخ حفظہ اللہ جمعہ کے لیے گاؤں گوٹھوں میں جانے والے طلبہ و خطیب حضرات کو اپنی جیب سے خرچہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جماعتیوں پر حق بنتا ہے کہ وہ طلبہ سے تعاون کریں طلبہ سے تعاون نہ کرنے پر آپ بہت ناراضگی دکھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر دین کا کام نہ ہوتا تو انکے پاس جانا بھی مناسب نہیں طلبہ سے کیا تو انکی الفت ہے! (اگرچہ ظاہری طور پر وہ سخت بھی کیوں نہ ہوں) عمرہ پر جا رہے
تھے تو نکلنے سے قبل طلبہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ "میں آپکو کمی کوتاہیوں پر جو ڈانٹا کرتا تھا اس کی معافی چاہتا ہوں ۔" طلبہ کی پڑھائی کا بے حد زیادہ خیال رکھتے ہیں طلبہ کو دوران سبق ادہر ادہر دیکھتے ہیں تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ یہ آپ کے پڑھائی کے ایام ہیں ان میں اپنی پڑھائی میں خوب محنت کریں یہ وہ ایام ہیں جن میں آپکے والدین نے آپکو تمام تر کاموں سےفارغ کر رکھاہے تاکہ آپ اپنے علم پر توجہ دیں اگر آج آپ محنت نہیں کریں گے تو وہ بھی وقت آئے گا کہ آپ پڑھنا چاہو گے لیکن آپ کو اس کا وقت نہیں ملے گا ۔راقم کو شیخ محترم سے استفادہ کا الحمد اللہ بہت موقع حاصل ہوا ہے شیخ کے ہاں چھ سالہ علوم اسلامیہ حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہےہر کسی سے عاجزی سے پیش آنے والے ان عظیم شخص سے اس عربی شعر کے ساتھ مخاطب ہوتا ہوں کہ
المسلمون بخیر ما بقیت لھم
ولیس بعد خیر حین تفتقد
جب تک آپ زندہ و سلامت ہیں، مسلمانوں کو خیر و برکت حاصل رہے گی جب آپ نہ رہیں گے تو ان سے نعمتیں چھن جائیں گی ۔‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ محترم شیخ کی زندگی میں برکتیں نازل فرمائے کہ انکا سایہ فگن ہمیشہ ہم پر رہےاگرچہ شیخ صاحب کی زندگی پر لکھنا چاہوں تو آپ جن اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں اور جن محامد و مکارم سے انکی ذات متصف ہے انکی رو سے انکے متعلق اس مختصر مضمون پر اکتفاء کرنا یقینا نا انصافی ہوگی بالکل اس شعر کی طرح کہ
سوچا تھا کہ تیری سیرت پے لکھوں گا رات کو بیٹھ کر
افسوس کہ تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے اور رات بیت گئی
۔۔۔
علامہ سید سلیمان ندوی(1884ء۔1953ء) علوم اسلامیہ کے بحر زخّار تھے ان کی شخصیت ہمہ گیر اور کثیر الجہت تھی وہ ایک عظیم المرتبت عالم، مورخ،محقق، عربی، فارسی اور اُردو کے نامور ادیب، صحافی، مصنف اور سیاست دان تھے۔ علم وفضل کے اعتبار سے جامع الکمالات والصفات تھے۔ علامہ اقبال (م 1938ء) جیسے عظیم مفکر اور شاعر نے ان کے علم وفضل ، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اعتراف کیا ہے چنانچہ علامہ اقبال اپنے ایک مکتوب 28 اپریل 1918ء سید صاحب کو لکھتے ہیں کہ ’’ آج مولانا ابو الکلام کا خط آیا ، انہوں نے بھی میری اس ناچیز کوشش کو بہت پسند فرمایا ہے مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاد الکل ہیں۔ اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہوگا۔ (اقبال نامہ 1/80)
جب سید صاحب کی کتاب’’سیرت عائشہ ‘‘ 1924ء میں شائع ہوئی اور علامہ اقبال کے مطالعہ میں آئی تو سید صاحب کو خط ارسال کیا
” سیرت عائشہ کے لئے سراپا سپاس ہوں ۔ یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے ۔ اس کتاب کے پڑھنے سے میرے علم میں مفید اضافہ ہو گا خدائے تعالیٰ جزائے خیر دے ۔ “ ( اقبال نامہ ۱/۱۱۳ )
سید صاحب کی کتاب’’خیام‘‘ کی اشاعت پر علامہ اقبال نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا :
” عمر خیام پر آپ نے کچھ لکھ دیا ہے ۔ اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا ۔ الحمد للہ کہ اب اس بحث کا خاتمہ آپ کی تصنیف سے ہوا ۔ “(اقبال نامہ ۱/۱۷۸)
علامہ سید سلیمان ندوی کی ذات تعارف کی محتاج نہیں وہ اپنے علمی تبحر اور فضل وکمال کے اعتبار سے مفسر بھی تھے ، مورخ بھی ،محدث بھی تھے ، محقق بھی ، معلم بھی تھے، متکلم بھی ،مجتہد بھی تھے اور فقیہ بھی ،مدبر بھی تھے اور مفکر بھی ، ادیب بھی تھے اور دانشور بھی ،فلسفی بھی تھے اور شاعر بھی ، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی انہوں نے مختلف موضوعات پر متعدد اور ضخیم کتابیں لکھیں اور برصغیر کے نامور اہل علم اور اہل قلم سے خراج تحسین حاصل کیا۔ ان میں سیرۃ النبی (ﷺ) ، سیرت عائشہ، حیات امام مالک، تاریخ ارض القرآن،خیام،خطبات مدراس،نقوش سلیمانی،حیات شبلی،رحمت عالم،عربوں کی جہاز رانی، عرب وہند کے تعلقات اور یادرفتگان بہت مشہور ہیں۔
سید صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا، انہوں نے بے شمار علمی، دینی، مذہبی، تاریخی، تحقیقی ،ادبی، تنقیدی اور سیاسی مقالات ومضامین بھی لکھے جو ماہنامہ الندوہ لکھنؤ، ہفت روزہ الہلال کلکتہ اور ماہنامہ معارف اعظم گڑھ میں شائع ہوئے۔ ان میں بعض مقالات ومضامین اتنے طویل تھے کہ وہ سید صاحب کی زندگی ہی میں کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ مثلاً
1 رسالہ اہل سنت والجماعۃ ( جو عقائد میں ہے)
2 خواتین اسلام کے شجاعانہ کارنامے
3 برید فرنگ
4 دنیائے اسلام اور مسئلہ خلافت
5 خلافت اور ہندوستان
6 لاہور کا ایک مہندس خاندان( جس نے تاج اور لال
قلعہ بنایا)یہ تحقیقی مقالہ سید صاحب نے اپریل 1933ء
میں ادارہ معارف اسلامیہ لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھا اس اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی اس مقالہ میں سید صاحب نے مستند شہادتوں سے مدلل کرتے ہوئے بتایاتھا کہ ’’تاج محل کا معماردر حقیقت نادر العصر استاد احمد معمار ہے جو ہندسہ، ہیئت اور ریاضیات کا بڑا عالم تھا۔ (مقالات سلیمان ۱/۲۹۳)
خطبات :
سید صاحب کی درج ذیل کتابیں ان کے دینی،علمی، تحقیقی اور ادبی وتنقیدی خطبات کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے مختلف شہروں میں ادبی ،تاریخی اور تعلیمی کانفرنسوں میں ارشاد فرمائے۔ ان میں بعض کانفرنسوں کی آپ نے صدارت بھی کی۔
1 خطبات مدراس
2 عرب وہند کے تعلقات
3عربوں کی جہاز رانی
4خیام
5نقوش سلیمان
خطبات مدراس :
سید صاحب نے اکتوبر 1925ء میں مدراس مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کی دعوت پر مدراس کا سفر کیا اور وہاں سیرت نبوی ﷺ پر آٹھ خطبات ارشاد فرمائے یہ خطبات سیرت نبوی کا جوہر اور عطر ہیں۔ (حیات سلیمان ، ص:۳۸۹)
خطبات کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1 انسانیت کی تکمیل صرف انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتوں سے ہوسکتی ہے۔
2 عالمگیر اور دائمی نمونہ عمل صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے ۔
3 سیرت محمد ی کا تاریخی پہلو ( تاریخیت)
4سیرت محمدی کا تکمیلی پہلو ( کاملیت)
5 سیرت محمد ی کی جامعیت
6 سیرت محمدی کا عملی پہلو ( عملیت)
7 پیغمبر اسلام کا پیغام
8 پیغمبر محمدی ﷺ (خطبات مدراس ، ص:5)
ان خطبات کا انگریزی ترجمہ بنام Living Proghet اور عربی ترجمہ بنام ’’ الرسالۃ المحمدیۃ‘‘ شائع ہوچکا ہے۔
انگریزی مترجم : محترم سعید الحق وینوی
عربی مترجم : مولانا محمد ناظم ندوی (علامہ سید سلیمان ندوی (شخصیت وادبی خدمات ) ، ص:۹۰)
عرب وہند کے تعلقات :
سید صاحب نے مارچ 1929ء میں ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد کی دعوت پر’’عرب وہند کے تعلقات‘‘ کے موضوع پر خطبات ارشاد فرمائے، یہ خطبات سید صاحب کی تحقیقات عالیہ اور وسعت معلومات کا تماشا گاہ ہیں ۔
ان خطبات میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ان کا وہ عہد زریں یاد دلایا ہے جب دونوں گونا اور مختلف النوع تعلقات کے رشتوں میں منسلک تھے ۔(أیضاً ، ص:۹۰)
سید صاحب نے ان خطبات میں ثابت کیا ہے کہ اس ملک سے عربوں کا تعلق اسلام کے ظہور سے صدیوں پہلے تھا عرب تاجر یہاں دوسرے ملکوں کا مال لاتے تھے اور یہاں کا مال دوسرے ملکوں میں لے جاکر بیچتے تھے۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:۱۱۳)
عربوں کی جہاز رانی :
یہ خطبات سید صاحب نے مارچ 1931ء میں حکومت بمبئی کے شعبہ تعلیم کی دعوت پر چار خطبات پر ارشاد ہے ، ان خطبات کا موضوع تاریخ ہے ، ان خطبات میں زمانہ جاہلیت اور اسلام میں عربوں کی جہاز رانی، عربوں کی دنیا کے سمندروں سے واقفیت، ان کے بعض بحری انکشافات، عربوں کے سامان آلات اور ان کی بحر محیط کو عبور کرنے کی کوششوں وغیرہ سے مبسوط بحث کی گئی ہے۔ (معارف اعظم گڑھ ، سلیمان نمبر ، ص:۲۰۵)
یہ خطبات بھی سید صاحب کی ذہانت،قوت حافظہ،ذوق تحقیق اور وسعت معلومات کا تماشا گاہ ہیں، سید صاحب نے نفس قرآن مجید اور دوسرے جغرافیائی وتاریخی ماخذ کی مدد سے دو ہفتہ میں تیار کر لیئے۔(سید سلیمان ندوی ، ص:۱۱۵)
خیام :
سید صاحب نے دسمبر 1920ء میںآل انڈیا اور نیٹل کانفرنس کے اجلاس پٹنہ میں ایک مقالہ پڑھا۔ یہ مقالہ علمی وادبی حلقوں میں بہت پسند کیاگیا توسید صاحب نےاس میں بعض مباحث بڑھا کر ایک مستقل کتاب کی شکل دے دی۔
مغربی مصنفین خیام کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے ۔ ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ خیام جیسے نامور حکیم اور جلیل القدر فاضل کو اہل یورپ نے ایک عیاش اور بدمست رندلا ابالی کی شکل میں پیش کیا تھا جو پیشہ شاہد وشراب میں غرق رہتا اور جس کا مقصد حیات صرف رندی اور عیش پرستی تھی ۔ پیش نظر کتاب میں سید صاحب نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ خیام کی اصل تصویر اس سے قطعی مختلف ہے وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک عظیم فلسفی،ہئیت، نجوم اور ریاضیات کا بہت بڑا عالم اور دوسرے علوم عقلیہ کی مہارت میں مفقود النظیر تھا اس کی زندگی زاہدانہ تھی ، مذہبی حیثیت سے وہ ایک دیندار مسلمان تھا۔ (علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیت وادبی خدمات) ، ص:۱۷۲)
نقوش سلیمانی :
یہ کتاب سید صاحب کےادبي مضامين كا مجموعه هے اور تین ابواب پر مشتمل ہے ۔
1خطبات
2مقالات
3مقدمات
1اس کتاب میں 6خطبات ہیں جو ہندوستان کی موقر ادبی کانفرنسوں میں بحیثیت صدر ارشاد فرمائے۔
2 14 مقالات ہیں
3 9مقدمات ہیںجو سید صاحب دوسرے مصنفین کی کتابوں پر رقم فرمائے ۔(علامہ سید سلیمان ندوی(شخصیت وادبی خدمات) ، ص:۱۳۱۔۱۳۲)
مولانا عبد المادر دریا آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
نقوش سلیمانی ۔ کتاب کیا ہے ۔ سید صاحب کے کمالات، ادبی وتنقیدی کی ایک مہر زدہ دستاویز۔(معارف اعظم گڑھ (سلیمان نمبر) ، ص:۲۳۲)
سید صاحب کا سفر افغانستان :
اکتوبر 1933ء میں شاہ نادر خاں نے علامہ اقبال (م۱۹۳۸ء) ڈاکٹر سرراس مسعود(سابق وزیر تعلیم ریاست بھوپال(م۱۹۳۸ء) اور علامہ سید سلیمان ندوی کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔ شاہ نادر خان کی یہ دعوت اپنے ملک میں مذہبی وعربی تعلیم کے نصاب کے سلسلہ میں مشورہ طلب کرنا تھا۔سید صاحب نے اپنے اس سفر کی روئداد ’’سیر افغانستان ‘‘ کے نام ’’معارف ‘‘ میں شائع کی ،بعد میں اس کوکتابی صورت میں شائع کیاگیا۔
بھوپال کے قاضی القضاۃ اور امیر جامعہ مشرقیہ :
1946ء میں اعلیٰ حضرت نواب حمیداللہ خان رحمہ اللہ والئے ریاست بھوپال نےسید صاحب کوپیش کش کی کہ وہ ریاست کےدارالقضاءاور عربی مدارس کواپنی نگرانی میں لے کرخالص مذہبی اوراسلامی رنگ میں ڈھال دیں ۔ سید صاحب نےعربی مدارس کی اصلاح وترقی کےکام کواپنے خالص ذوق کےمطابق پاکہ اس پیش کش کوقبول کرلیا ۔اور جون 1949ء میں بھوپال کےقاضی القضاء اورجامعہ مشرقیہ کےامیر کےمنصب پرمامو ر ہوئے۔ لیکن دارالمصنفین اورندوۃ العلماء سےتعلقات بدستور قائم رہےجس مقصد کےلیے انہوں نے بھوپال کا قیام منظور کیا تھا۔اس کی تکمیل میں اکتوبر 1949ء تک تگ ودو کرتے رہے ۔(نزھۃ الخواطر ۸/۱۶۵)
مگر اگست 1947ء کے بعد انقلابات کی ریاست کے لیل ونہار ہی بدل دیئے۔
پاکستان آمد :
اکتوبر 1949ء میں اپنی اہلیہ اور صاحبزادے سلمان ندوی کے ساتھ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور شاہ سعود رحمہ اللہ کے مہمان خصوصی ہوئے۔(تذکرۂ سلیمان ، ص:۲۰۴)
اور جون 1950ء میں پاکستان منتقل ہوگئے پاکستان میں سید صاحب کے مذہبی، قومی، تعلیمی اور علمی وادبی مشاغل جاری رہے۔
حکومت پاکستان نےدستور سازی کےسلسلہ میں ادارہ تعلیماتِ اسلام کےنام سےعلماءکا ایک بورڈ بنایا تھا۔سید صاحب کواس بورڈ کی صدارت کی پیش کش ہوئی۔آپ نے کچھ شرائط کےساتھ صدارت قبول کرلی ۔(حیات سلیمان ، ص:۲۰۴)
وفات :
1953ء میں سید صاحب نے ڈھاکہ کا سفر کیا وہاں سے لکھنو تشریف لے گئے کچھ دن بعد کراچی تشریف لے آئے اور علیل ہوگئے آخر اس علم وفضل کے آفتاب نے 22 نومبر 1953ء مطابق 14ربیع الاول 1373ھ کو71سال کی عمر میں رحلت فرمائی اور ان كي تدفين مولانا شبير احمد عثماني رحمه الله كے پہلو میں ہوئی۔(معارف اعظم گڑھ ، سلیمان نمبر ، ص:۳۰۲)
اعتراف عظمت :
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) کے سید صاحب سے دیرینہ مراسم تھے اور دیر تک رہے اور مکاتبت بھی رہی۔
حدیث نبوی ﷺ کے بارے میں علمائے ندوہ کا نظریہ علمائے سلف کے نظریہ سے الگ ہے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث(ایک تنقیدی جائزہ) میں منکرین احادیث ‘‘ کا ایک جدول ترتیب دیا ہے جس کے نمبر 10 میں تحریر فرماتے ہیں :
مولانا شبلی مرحوم ، مولانا حمید الدین فراہی ،مولانا ابو الاعلی مودودی ، مولانا امین احسن اصلاحی اور نام فرزندان ندوہ باستثنائے حضرت سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ
یہ حضرات حدیث کے منکر نہیں لیکن ان کا انداز فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحکار معلوم ہوتاہے اور طریقۂ گفتگو سے انکار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ (جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ، ص: ۴۷ ، طبع اول ، دین محمد پریس لاہور ۱۳۷۶ھ )
سید صاحب رحمہ اللہ اپنے فقہی مسلک کے بارے میں تراجم علمائے حدیث ہند مصنفہ مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م 1966ء) کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’میں سنت کا پیرو اور توحید خالص کا معتقد ہوں ، سنت کو دلیل راہ مانتا ہوں اور علماء کے لیے اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا جانتا ہوں اور حق کو ائمہ سلف میں کسی ایک میں منحصر نہیں سمجھتا اب اس پر آپ مجھے جو چاہیں سمجھ لیں
آزادہ رو ہوں اور میرا مسلک صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے
( تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:۳۴ طبع دہلی ۱۹۳۸ء)
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (م ۱۹۶۸ء) اپنے ایک مکتوب بنام ایڈیٹر الاعتصام لکھتے ہیں کہ
مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم سے میرے تعلقات نیاز مندانہ تھے۔‘‘ (مقالات وفتاوی شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ، ص:۶۶۹ ، طبع ۲۰۱۶ء)
سید صاحب معتمد تعلیم ندوۃ العلما|ء تھے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی سفارش پر مولانا محمد حنیف ندوی (م ۱۹۸۷ء) اور مولانا عبد القادر ندوی (م ۲۰۱۱ء) ماموں کانجن کو دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخلہ دیا۔
مولانا محمد حنیف ندوی :
محمد حنیف ندوی ( ۱۹۰۸۔۱۹۸۷ء) علمائے اہلحدیث میں کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ بلند پایہ مفسر قرآن، محدث دوراں، فقیہ، مجتہد، مؤرخ، محقق، نقاد، مبصر، مدبر، مفکر، دانشور، ادیب ، متکلم، معلم، صحافی،فلسفی، مدرس، مصنف، مقرر، شیریں بیان ، سحر بیان خطیب اور عمرانیاں میں یکتا اور زبان ثلاثہ ( عربی،فارسی،اردو) میں یگانہ روزگار تھے۔
۱۹۲۵ء میں شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی کی تحریک پر دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں داخل ہوئے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی نے علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے نام ایک سفارشی خط دیا۔
(سید صاحب اس وقت ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم تھے) مولانا محمد حنیف کو ندوہ میں داخلہ مل گیا ۔ ۱۹۳۰ء میں مولانا محمد حنیف ندوۃ سے فارغ ہوئے اور محمد حنیف سے محمد حنیف ندوی کہلانے لگے ۔ فراغت کے بعد کچھ عرصہ دار المصنفین اعظم گڑھ میں سید صاحب کے زیر سایہ رہے۔ اس کے بعد لاہور تشریف لے آئے اور سال کے آخر میں شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تحریک پر جامع مسجد مبارک اہلحدیث اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے خطیب مقرر ہوئے اور 18 سال تک (۱۹۴۸ء) مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ اور بعد نماز مغرب درس قرآن ارشاد فرماتے رہے اس عرصہ میں تین بار درس قرآن مجید ختم کیا مولانا محمد حنیف ندوی نے ۱۳ جولائی ۱۹۸۷ء میں لاہور میں وفات پائی اور وحدت کالونی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون
مؤرخ اہلحدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) کا مولانا محمد حنیف ندوی سے 40 سال تعلق رہا۔ مولانا بھٹی لکھتے ہیں کہ
محمد حنیف ندوی کی شخصیت میں بڑی جاذبیت تھی اور اسلوب کلام نہایت مؤثر تھا۔ 1948ء سے لیکر ان کی وفات جولائی 1987ء تک تقریباً 40 برس میرا ان سے تعلق رہا۔ تعلق کیا بے پناہ مراسم رہے نہ کوئی میری بات ان سے مخفی تھی اور نہ میں ان کے کسی معاملے سے بےخبر تھا۔ (قافلہ حدیث ، ص:۴۸۰۔۴۸۱)
راقم نے اپنی آنکھوں سے بے شمار دفعہ لاہور میں اکٹھے دیکھا ہے ۔ بھٹی صاحب مولانا محمد حنیف ندوی کی سید سلیمان ندوی سے ایک ملاقات کا ذکر بالفاظ ذیل کرتے ہیں اس مقالات میں بھٹی صاحب مولانا محمد حنیف کے ہمراہ تھے۔
(یہ بات ذہن میں رکھیے کہ مولانا محمد حنیف اور سید صاحب میں بے تکلفی تھی کیونکہ مولانا حنیف صاحب تقریباً6 ماہ دار المصنفین اعظم گڑھ میں سید صاحب کے زیر تربیت رہے تھے۔
مولانا محمد اسحاق بھٹی کی تحریر :
لکھتے ہیں کہ 1951ء میں علامہ سید سلیمان ندوی جامعہ اشرفیہ کے جلسے میں لاہور تشریف لائے۔ اس وقت جامعہ اشرفیہ نیلہ گنبد میں مول چند بلڈنگ میں تھا۔ ’’الاعتصام‘‘ ان دنوں گوجرانوالہ سے شائع ہوتا تھا اور میں معاون مدیر کی حیثیت سے اس اخبار سے منسلک تھا میں اور مولانا ندوی سید صاحب سے ملاقات کے لیے جامعہ اشرفیہ گئے وہ ایک کمرے میں قیام فرما تھے اور ایک صاحب ان کے پاس بیٹھے تھے ہم گئے تو وہ صاحب اُٹھ کر چلے گئے۔ شاید وہ اس انتظار میں تھے کہ کوئی آئے تو میں جاؤں۔ سید صاحب کو میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا اور پھر یہی رویت آخری رؤیت ثابت ہوئی اس سے کئی سال پہلے سید صاحب مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ بیعت وارادت میں شامل ہوچکے تھے۔
مولانا حنیف ندوی کو دیکھ کر سید صاحب بہت خوش ہوئے بغل گیر ہوکر ملے۔ خیر وعافیت کے مبادلے اور اِدھر اُدھر کی چند باتیں ہوئیں ۔
مولانا نے سید صاحب سے فرمایا :
آپ نے ’’سیرۃ النبی‘‘ کو ’’بہشتی زیور‘‘ کے قدموں میں ڈال دیا ہے سید صاحب نیچے دری پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے انہوں نے جسم کو تھوڑی سی حرکت دی اور مسکراتے ہوئے فرمایا
آپ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو آپ بھی یہی کریں گے ۔
مولانا نے جواب دیا
میرا ابھی یہی خیال ہے کہ آپ پر عمر کا اثر ہے۔
یہ الفاظ سن کر سید صاحب کے چہرے پر اور مسکراہٹ پھیل گئی اور خاموشی اختیار فرمائی۔
اس کمرے کی دیوار پر جس میں سید صاحب کا قیام تھا۔ جامعہ اشرفیہ کے اس جلسے کا اشتہار لٹک رہا تھا۔ مولانا کی اس پر نگاہ پڑی تو دیکھا کہ ہر عالم کے نام کے ساتھ ’’حضرت‘‘ کا لفظ مرقوم تھا لیکن سید صاحب کو ’’مورخ اسلام سید سلیمان ندوی‘‘ لکھا گیا ہے ۔
مولانا نے کہا ’’ یہ اشتہار دیکھیے اس حلقے میں آپ ہمیشہ ’’مورخ‘‘ ہی رہیں گے آپ کی ’’حضرت‘‘ بننے کی خواہش یہاں کبھی پوری نہیں ہوگی۔ ’’حضرت‘‘ وہی لوگ ہوں گے جو پہلے سے اس حلقے سے وابستہ ہیں۔ یہ اعزاز آپ کو نہیں ملے گا۔
سید صاحب نے ہلکا سا تبسم فرمایا لیکن مولانا کے اس طنز کا کوئی جواب نہیں دیا۔ (قافلہ حدیث ، ص: ۳۳۹ تا ۳۴۱)
سید صاحب کے اہلحدیث احباب
سید صاحب کے حلقہ احباب میں اہلحدیث علماء کی بڑی تعداد شامل تھی۔ جن میں اکثر احباب کا ذکر انہوں نے اپنی کئی کتابوں میں کیا ہے۔ (حیات شبلی ، یادرفتگان)
ان علمائے اہلحدیث کا مختصرذکرذیل میں سید صاحب کے الفاظ میں کیا جاتاہے۔
مولوی فیض اللہ مئوي
یہ مئوناتھ بھنجن (ضلع اعظم گڑھ) کے باشندہ تھے۔ آخر میں مطب کرنے لگے تھے اسی تعلق سے دانا پور میں رہتے تھے وہیں ۱۲ ربیع الاول ۱۳۱۶ھ / ۱۸۹۸ء وفات پائی ۔ (حیات شبلی ، ص:۷۱)
مولوی ابو المکارم محمد علی مئوي
مولوی ابو المکارم محمد علی مئوی مولوی فیض اللہ مئوی کے صاحبزادہ تھے جو مولوی سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے اور جنہوں نے مختلف مسائل پر چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے۔ ۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۲ ء میں وفات پائی۔
(حیات شبلی ، ص:۷۱)
مولانا ابو علی اثری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
مولانا شبلی کے ابتدائی عربی کےاستاد مولانا فیض اللہ مئوی کے لائق صاحبزادے مولانا ابو المکارم محمد علی صاحب موجد روغن احمر سے بڑے تعلقات تھے انہوں نے سیرت کے بعض مباحث پر دو ایک تنقیدی رسالے بھی لکھے تھے وہ اکثر اپنی علمی ضرورتوں اور سید صاحب سے تبادلہ خیالات کے لیے دار المصنفین آتے تھے۔ سید صاحب ان کا بڑا احترام کرتے تھے جب تک ان کا قیام رہتا اپنا سارا کام چھوڑ کے انہی سے مشغول رہتے ، علمی مذاکرہ اور تبادلہ خیال کرتے۔ (سید سلیمان ندوی ، ص:۲۰۰)
مولانا سید نذیر حسین دہلوی :
سید صاحب تراجم علمائے حدیث ہند کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ علماء اہلحدیث کی تدریسی وتصنیفی خدمات قدر کے قابل ہے پچھلے عہد میں نواب صدیق حسن خاں مرحوم کے قلم اور مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا۔بھوپال ایک زمانہ تک علمائے حدیث کا مرکز رہا۔ قنوج، سہوان اور اعظم گڑھ کے بہت سے نامور اہل علم اس ادارہ میں کام کر رہے تھے۔ شیخ حسین عرب یمنی ان سب کے سرخیل تھے اور دہلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین کی مسند درس بچھی تھی اور جوق درجوق طالبین حدیث مشرق ومغرب سے ان کی درسگاہ کا رخ کر رہے تھے۔ (تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:۳۶)
سید صاحب اپنی آخری تصنیف ’’حیات شبلی‘‘ میں لکھتے ہیں
’’ مولانا شاہ اسحاق صاحب کے شاگرد مولانا سید نذیر حسین صاحب بہاری دہلوی میں (مولانا سید نذیر حسین صاحب) کے ذریعہ سے اہلحدیث کے سلسلہ کو بڑی ترقی ہوئی۔ موصوف کے شاگردوں کا بڑا حلقہ تھا انہوں نے ملک کے گوشہ گوشہ میں پھیل کر اپنے طریقہ کی اشاعت کی ان کے مشہور شاگردوں کے نام یہ ہیں ۔
پنجاب میں مولانا عبد اللہ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا عبد المنان وزیر آبادی وغیرہ یورپ کے خطہ میں مولانا امیر حسن سہوانی، مولانا بشیر صاحب سہوانی،مولانا عبد اللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی ، مولانا محمد ابراہیم صاحب آروی ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی(در بھنگہ) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری اعظم گڑھی رحمہم اللہ اجمعین ۔ (حیات شبلی ، ص:۴۶۔۴۷)
(جاري ہے)
قارئین کرام ! وہ کونسے کام ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز سرانجام دینے سے منع فرمایا ہے۔
آئیں مختصراً ملاحظہ فرمائیں اور اپنی نمازوں کو ضائع ہونے بچائیں ۔
1 دوران نماز صفوں میں خلا چھوڑنا
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثَلَاثًا وَاللہِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللهُ بَيْنَ قُلُوبِكُم (سنن ابی داؤد : 662)
تم لوگ اپنی صفیں برابر کرو - یہ ( جملہ آپ نے تاکید کے طور پر ) تین بار کہا - اللہ کی قسم ! تم لوگ اپنی صفیں برابر کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا ۔
2 دوران نماز کندھے ننگے رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
لَا يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقَيْهِ شَيْءٌ (صحیح البخاری : 359)
تم میں سے کوئی شخص اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو۔
3 دوران نماز کپڑوں اور بالوں کو سمیٹنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :
أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ، وَلَا أَكُفَّ ثَوْبًا وَلَا شَعْرًا(صحیح مسلم : 1096)
مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہ میں ( نماز میں ) کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹوں ۔
4 دوران نماز اپنا ہاتھ اپنی قمر پر رکھنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الِاخْتِصَارِ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد : 947)
رسول اللہﷺ نے نماز میں ’’ الاختصار‘‘سے منع فرمایا ہے۔ ابوداؤد رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ : الاختصار کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دوران نماز اپنا ہاتھ اپنی کمر پر رکھے ۔
5 قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا
سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا(صحیح مسلم : 2250)
قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کرکےنماز پڑھو۔
6 حمام میں نماز پڑھنا
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :
الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ، إِلَّا الْحَمَّامَ وَالْمَقْبَرَةَ
ساری زمین نماز پڑھنے کی جگہ ہے ، سوائے حمام ( غسل خانہ ) اور قبرستان کے ۔ (سنن ابي داؤد : 492)
7 نماز کے طرف دوڑنا
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا (صحیح البخاری : 636)
جب تم اقامت سن لو تو نماز کے لیے اس طرح چل کر آؤ کے تم پر سکون واطمینان ہو اور جلدی مت کرو جتنی نماز مل جائے وہ پڑھ لو جو رہ جائے اسے بعد میں پورا کر لو ۔
8 کچی لہسن کھا کر نماز پڑھنا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلَا يَقْرَبْنَ أَوْ لَا يُصَلِّيَنَّ مَعَنَا (صحیح البخاری : 856)
جو شخص اس درخت کو کھائے (یعنی کچی لہسن کھائے ) وہ ہمارے قریب نہ آئے اور نہ ہی ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔
9 سجدوں میں کتے کی طرح ہاتھ بچھانا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ وَلَا يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الْكَلْبِ(صحیح مسلم : 1102)
سجدے میں اعتدال اختیار کرو اور کوئی شخص اس طرح اپنے بازو ( زمین پر ) نہ بچھائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔
0 نماز میں سدل کرنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ (سنن ابی داؤد : 643)
رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل سے منع فرمایا ہے۔
سدل یہ ہے کہ آدمی اپنے کپڑے کے دونوں کناروں کوملائے بغیر لٹکا لے ۔
!اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہعنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ (سنن الترمذی : 348)
اونٹوں کے باڑے میں نماز نہ پڑھو ۔
@ امام سے سبقت کرنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا :
أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ أَوْ لَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الْإِمَامِ أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ (صحیح البخاری : 691)
کیا تم میں وہ شخص جو ( رکوع یا سجدہ میں ) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ تعالی اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔
# کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا
سیدنا عبدالرحمان بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَقْرَةِ الْغُرَابِ (سنن ابی داؤد : 862)
رسول اللہ ﷺنے کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے منع فرمایا ہے۔
یہاں کوے سے تشبیح ان لوگوں کو دی گئی ہے جوسجدے سے جلدی سر اٹھا کر دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور نماز میں اطمینان اختیار نہیں کرتے ۔
$ دوران نماز میں منہ کو ڈھانپنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ ، وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ (سنن ابی داؤد : 643)
رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سدل کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔
% دوران نماز آسمان کی طرف نظر اٹھانا
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا تَرْفَعُوا أَبْصَارَكُمْ إِلَى السَّمَاءِ أَنْ تَلْتَمِعَ يَعْنِي : فِي الصَّلَاةِ (سنن ابن ماجة : 1043)
( نماز کی حالت میں ) اپنی نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بینائی چھین لی جائے ۔
^ رکوع میں قرآن پڑھنا
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَهَى ... وَعَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي الرُّكُوعِ (سنن الترمذی : 264)
نبی کریم ﷺنے رکوع میں قرآن پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔
& فرض نماز کی اقامت ہو جانے کے بعد نوافل ادا کرنا
سیدنا ابو ہریرہ رضیاللہعنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
قَالَ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ
جب نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ۔(صحیح مسلم : 1644)
* دوران خطبہ کسی کو خاموش کرانا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ (سنن ابن ماجة : 1110)
جب تم نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے دوران خطبہ کہا کہ چپ رہو ، تو تم نے لغو کام کیا ۔
( جمعہ کے دن دوران خطبہ گوٹھ مار کر بیٹھنا
سیدنا معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَهَى عَنِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ (سنن ابي داؤد : 1110)
نبی کریم ﷺنے جمعہ کے دن دوران خطبہ گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔
وضاحت: (احتباہ یا حبوۃ)اس انداز کے بیٹھنے کو کہتے ہیں کہ انسان اپنے گھٹنے اکھٹے کرکے سینے سے لگا لے اور پھر ہاتھوں سے ان پر حلقہ بنا لے یا کمر اور گھٹنوں کے گرد کپڑا لپیٹ لے۔اسی کو احتباہ یا حبوۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ نشست بے پروائی اورعدم توجہ کی علامت سمجھی جاتی ہے نیز اونگھ بھی آنے لگتی ہے،تہبند پہنے ہو تو ستر کھلنے کا بھی اندیشہ رہتا ہےاور بعض اوقات انسان بے وضو بھی ہوجاتا ہے۔ اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔الغرض جمعہ میں بالخصوص اس طرح بیٹھنا ممنوع ہے۔(سنن ابو داؤد، ۱|/۷۸۵ ، طبع دار السلام)
) عورتوں کا خوشبو لگا کر نماز میں شامل ہونا
سیدہ زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْعِشَاءَ فَلَا تَطَيَّبْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ
جب تم عورتوں میں سے کوئی عشا کی نماز میں شامل ہو تو وہ اس رات خوشبو نہ لگائے۔ (صحيح مسلم : 443)
a مسجد ميں اپنے لیے کوئی جگہ متعین کر لینا
سیدنا عبدالرحمان بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَكَانَ فِي الْمَسْجِدِ كَمَا يُوَطِّنُ الْبَعِيرُ
رسول اللہ ﷺنے اونٹ کے مانند آدمی کے مسجد میں اپنے لیے ایک جگہ متعین کر لینے سے منع فرمایا ہے ( یہ قتیبہ کے الفاظ ہیں ) ۔(سنن ابي داؤد : 862)
b نماز میں ادھر ادھر دیکھنا
سیده عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺنے فرمایا :
هُوَ اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلَاةِ الْعَبْدِ
یہ تو ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز پر ڈالتا ہے۔ (صحیح بخاری : 751)
c مسجد میں کسی مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھنا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ أَخَاهُ مِنْ مَقْعَدِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ ، قُلْتُ لِنَافِعٍ : الْجُمُعَةَ ، قَالَ : الْجُمُعَةَ وَغَيْرَهَا (صحیح البخاری : 911)
نبی کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ میں نے نافع سے پوچھا : کیا یہ حکم صرف جمعہ کے لیے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جمعہ اور غیر جمعہ سب کے لیے یہی حکم ہے۔
d جمعہ کے دن نماز سے پہلے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنا
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
أَنّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَهَى أَنْ يُحَلَّقَ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ .(ابن ماجة : 1133)
رسول اللہ ﷺنے جمعہ کے دن نماز سے پہلے مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔
e نماز میں تھوکنا
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى بُصَاقًا فِي جِدَارِ الْقِبْلَةِ فَحَكَّهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ ، فَقَالَ: إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي فَلَا يَبْصُقُ قِبَلَ وَجْهِهِ ، فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى (صحیح البخاری : 406)
رسول اللہﷺ نے قبلے کی جانب دیوار پر تھوک دیکھا، آپ ﷺنے اسے کھرچ ڈالا پھر ( آپ ﷺ نے ) لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز میں ہو تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے کیونکہ نماز میں منہ کے سامنے اللہ عزوجل ہوتا ہے۔
دیگر روایت کی مطابق ( اگر تھوک نکالے بغیر چارہ نہ ہو تو) اپنے دائیں یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک دے اور بعد میں اسے صاف کرلے ۔
f نماز میں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنا
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ۔أَنْ يَجْلِسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ وَهُوَ مُعْتَمِدٌ عَلَى يَدِه (سنن ابي داؤد : 992)
رسول اللہ ﷺنے آدمی کو نماز میں اپنے ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے ۔
g بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ عَاقِصٌ شَعَرَهُ (سنن ابن ماجة :1042 )
رسول اللہ ﷺنے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنے بالوں کو جوڑا باندھے ہوئے نماز پڑھے ۔
h سوئے ہوئے شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرنا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ الْمُتَحَدِّثِ وَالنَّائِمِ . ( سنن ابن ماجة : 959 )
رسول اللہﷺنے بات چیت کرنے والے ، اور سوئے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔شروع میں لوگ دوران نماز ایک دوسرے سے باتیں کیا کرتے تھے جس سے بعد میں منع کیا گیا اور سوئے ہوئے شخص سے مراد ایسا شخص ہے جس پر نیند کا غلبہ ہو خود اسے ہی معلوم نہ ہو کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے ۔
i نماز میں چھینک کا جواب دینا
سیدنا معاویہ بن ابی حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھ رہاتھا کہ لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا : یرحمک اللہ’’ اللہ تجھ پر رحم کرے ۔‘‘ لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا ۔ میں نے ( دل میں ) کہا: میری ماں مجھے گم پائے ۔ تم سب کو کیا ہو گیا ہے؟ کہ مجھے گھور رہے ہو پھر وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے ۔جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں ( تو مجھے عجیب لگا ) لیکن میں خاموش رہا جب رسو ل اللہ نماز سے فارغ ہوئے ، میرے ماں باپ آپ پرقربان ! میں نے آپ سے پہلے اور آپکے بعد آپ سے بہتر کوئی معلم ( سکھانےوالا ) نہیں دیکھا ! اللہ کی قسم ! نہ تو آپ نے مجھے ڈانٹا ، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا ۔ آپ نے فرمایا :
إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآن
یہ نماز ہے اس میں کسی قسم کی گفتگو روانہیں ہے یہ تو بس تسبیح و تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے ۔(صحیح مسلم : 1199)
j نمازی کے سامنے سے گزرنا
سیدنا ابوجہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ
اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جان لے کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے کے بجائے چالیس (سال) تک وہیں کھڑا رہے ۔(صحیح بخاری : 510)
۔۔۔
پیارے بچو ! سیدنا ابراہیم علیہ السلام ازل سے ہی بے اولاد تھے اور انکی دعوت یہ تھی کہ جو تم سے تکلیف کو دور کرنے اور نفع پہنچانے کی ذرا برابر بھی طاقت نہیں رکھتے آخر تم کیوں انہیں پوجے چلے جا رہے ہو ؟ تمام باتوں کو سننے والا ، تمام چیزوں سے باخبر ، اللہ سے ہٹ کر بےسمع و بصر ، بےضرر و نفع و بےقدر اور قدرت ۔چیزوں کے پیچھے پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے؟
یہ تمام جھوٹے معبود کسی چیز پر کوئی قدرت نہیں رکھتے ہر چیز پر قدرت رکھنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے ۔
عزت ، ذلت ، حکومت ، دولت ہر چیز باری تعالی کے ہاتھ میں ہی ہے اس ہی کی طرف لوٹ آؤ اور اس ہی کی عبادت کرو ۔
لیکن تعجب کی بات یہ کہ خود سیدنا ابراہیم علیہ السلام بیٹے جیسی عظیم نعمت سے محروم تھے ۔
قوم والوں نے طعنے دینا شروع کیے کہ عجیب داعی ہے خود اولاد سے محروم ہے ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہر چیز پر اللہ ہی قدرت رکھتا ہے۔
ایک بار دعا فرمائی کہ" اے میرے رب ! مجھے نیک صالح اولاد عطا فرما ۔ "
اللہ تعالی نے اپنے دوست نبی کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا کہ ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔
یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو(وحیٔ الہی کے ذریعے) ایک ننھے منے پیارے بیٹے کی بشارت دی گئی۔
وہ دن جس کا برسوں سے انتظار تھا سیدناخلیل علیہ السلام آنکھوں دیکھ رہے ہیں اور اپنے ننھےمنے پیارے بیٹے کو انگلی سے پکڑ کر گھوماتے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔
اب خلیل کی محبت والفت کی آزمائش شروع ہوئی باری تعالی کی طرف سے تین دن مسلسل خواب میں دکھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں خود ذبح کر رہے ہیں۔
کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتاہے وہ جان چکے کہ یہ اللہ عزوجل کا حکم ہی ہے ۔
سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام اپنے ننھے منے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے ہاں آئے اور پورا واقعہ کھل کر سنایا پھر فرمایا کہ: میرے پیارے بیٹے ! تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا کہ : اباجان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیں ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔
ہوا بھی یوں ہی کہ سیدنا خلیل علیہ السلام انہیں پیشانی کے بل لیٹا کر چھری چلانے لگے لیکن بیٹے نے اف تک نہیں کہا
حتی کہ وحی الہی ان لفظوں میں نازل ہوئی کہ
قَد صَدَّقتَ الرُّؤْیَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجزِی المُحسِنِینَ
یقیناً تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔
پیارے بچو! ان دونوں باپ بیٹوں کے عظیم قصے سے ہمیں بہت سی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں جیسا کہ
1اللہ تعالی سے نیک اولاد ہی طلب کی جائے ۔
2اللہ عزوجل دعائیں قبول فرماتے ہیں اگرچہ ادائیگی میں (بحکمت) تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔
3والدین کی فرمان برداری کرنی چاہیے ان کی باتیں سن کر نالاں نہ ہونا چاہیے ۔
4وحی الٰہی (یعنی قرآن وسنت) کے ہر حکم پر سرخم کرنا چاہیے ۔
5ہر نیکی کا اچھا بدلا رکھا گیا ہے ۔
6والدین کو اچھے ناموں سے پکارا جائے ۔
7اللہ تعالیٰ ہی نفع ونقصان کے مالک ہیں۔
8 اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو باری تعالیٰ کے محبوب(دوست) بناسکتے ہیں۔
9 اچھے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبکہ برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔
0 نیک آدمی کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ تلك عشرة كاملة
۔۔۔
معاشرے جب بے لگام ہوجائیں اسلامی اقدار کو روندا
جارہا ہو جانوروں اور انسانوں کا فرق مٹ جائے، جب مخلوق اپنے خالق کے دئیے ہوئے رہن سہن کے اصولوں کو پامال کر دے قتل وغارت گری ختم ہونے کا نام نہ لے بلکہ ایک قاتل کو پکڑنے کے لیے بے گناہ خون کردیے جائیں جب معصوم بچوں کا خون پیسنے والے درندے کسی شکنجے میں نہ آئیںتو نہ مظلوم و معصوم معاشرے کو مزید کسی اندھیرےکنویں میں پھینکنے کی ضرورت ہے نہ سیکس جیسے بے مقصد مضمون پڑھانے کی ضرو رت نہ اس جملہ کے مصداق کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ہر جرم کی روک تھام کے لیے کمیٹی اور چند تجاویز اور پھر قصہ پا رینہ ،بلکہ حکمرانوں کو اسلامی حدود یعنی حدود اللہ کا فوری نفاذکرنے کی ضرورت ہے یہی نہیں بلکہ از حد ضروری ہے حدود اللہ مسلم معاشرے کی چار دیواری ہیں حدود اللہ نسل انسانی کی بقا کی ضامن ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة:179)
قتل کابدلہ قتل میں معاشرے کی زندگی کا ضامن ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا (البقرۃ:229)
یہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدو د ہیں انہیں مت پھلانگو دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ (الطلاق:1)
جس نے اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کیا اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ۔
جبکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان گرامی ہے:
إِقَامَةُ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ، خَيْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فِي بِلَادِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں میں سے صرف ایک حد قائم کرنا اللہ کی زمین پرچالیس روز ،مسلسل بارش برسنے سے بہتر ہے ۔(سنن ابن ماجہ2537)
یعنی جیسے چالیس دن کی بارش سے زمین کا ماحول سر سبزو شاداب ہو جاتاہے اس طرح حدود اللہ کے نفاذ سے پورا معاشرہ پر امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے اور رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ کی حدیں دور اور قریب پرقائم کردو اور انہیں اللہ کی بارے میں کسی ملامت کی پرواہ نہ ہو (ابن ماجہ )
اس حدیث مبارک سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ حدیں قائم کرنے میں کسی کا لحاظ (اقربا پروری سیاسی وابستگی وغیرہ کے اعتبار سے ) نہیں رکھنا بلکہ انصاف کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کےمبارک دور میں ایک معزز خاندان کی خاتون فاطمہ نے چوری کا ارتکاب کیا تو اس کے ہاتھ کاٹنے کی حد کی راہ میں لوگ رکاوٹ ڈالنے اور سفارش تلاش کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ کردیا کہ لوگو!تم فاطمہ مخذومیہ کے بارے میں سفارش کرتے ہو کہ اسے حدنہ لگائی جائے سنو!اگر اسی جگہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ) ہوتی تو میں
اس پر بھی حد جاری کردیتا اور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔
عہد رسالت کا واقعہ :
رسول اللہ ﷺ نے بیت المال کے جانوروں پر چند ایک رکھوالے مقرر فرمائے عکل قبیلہ کے کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور بیمار ہوگئے توآپ ﷺ نے ان جانوروں کے پاس علاج کی غرض سے انہیں ٹھرایا جب وہ ٹھیک ہوگئے توانہو ں نے چرواہوں کو قتل کردیا اور مال لوٹ کر بھاگگئے انہیں فوراً گرفتار کرلیا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے اللہ کی حدیں ان پر قائم کیں اور وہ قتل کردیئےگئے تواس معاشرے سے چوری اور قتل کا خاتمہ ہوگیا امن وایمان کی کیفیت اس قدر عظیم الشان ہوگئی تھی کہ اگر کسی سے غلطی ہو جاتی تھی وہ اپنے اوپر حد لگانے کو جہنم میں جانے سے بہتر سمجھتا ہے اور خود آکر مردو خواتین عدالت نبوی ﷺ میں خود کو پیش کرتے تھے یہ شرعی حدود کی برکت تھی ۔
گزارش
اہل قانون وذمہ داران حضرات اللہ کا خوف کریں اور فوراً اسلامی حدود چور کا ہاتھ کاٹنا، قتل کا قصاص قتل ، شرابی کو کوڑے ، زانی شادی شدہ کو سنگسار ان تمام حدود اللہ کو نافذ العمل بنائیں۔ ان شاء اللہ معاشرے دوبارہ خلفائے راشدین والا ماحول دیکھیں گے۔
اور دوبارہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور کی یادتازہ ہوجائے گی کہ ایک گھاٹ سے شیر اور بکری پانی پیئے گے اور شیر کو بکری پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوگی اگر اس
ماحول کا عملی جائزہ لینا مقصود ہو تو اسلامی برادر ملک سعودی عرب کے قوانین کا مشاہدہ کرلینا چاہیے جہاں حدود اللہ کا نفاذ کس قدر موجود ہے تو مجرم دنلاتے نہیں ہوتے کیونکہ انہیں ہر وقت سرقلم کی سزا بہت سارے جرائم سے باز رکھتی ہے اور اگر مجرم پکڑا جاتا ہے تو بلا تمییز چند دن میں اپنے انجام کو پہنچ جاتاہے۔
معاشرے کے سدھار کے لیے کرنے کے چند ایک کام
کاش کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات
1مسلمان معاشرے میںہندوانہ رواج ورسم اسکولوں میںسالگرہ کے کیک کاٹنےپرمخلوط تالیاںبجاکر داد دینا ، آئے دن کسی قومی دن پر ٹیبلو کے نام سے ناچ گانے کا ماحول فوری ختم کیا جائے ۔
2معصوم بچوںمیں غیرت ایمانی کو بڑھانے والے مضامین اور فحاشی وغیرہ یا انٹر نیٹ کے غلط استعمال کی تباہ کاریوں سے آگاہی کے پرو گرام جاری کئے جائیں ۔
3بچوں کو مار نہیں پیار کا یہ قطعی مقصد نہیں کہ عصا ادب بھی بچوں کے سروں سے اٹھالیا جائے تاکہ وہ استاد و والدین اور اللہ اور اسکے رسول اللہ ﷺ کے فرامین کو سننے اور سمجھنے کےبجائے گستاخ بن جائے ۔
4والدین سے پر زور اپیل ہے کہ اپنے معصوم پھولوں اور کلیوں کی تعلیم کے لیے انتخاب کرتے وقت خدارا چیک کریں کہ آپ انہیں کیسا ماحول دے رہےہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اچھی اور بری صحبت او ر ماحول کے اثرا نداز ہونے کو آگ جلانے والے اورخوشبو بیچنے والے سے تعبیر کیا ہے (بخاری )
5ا ن واقعات کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ بھی ہوسکتاہے تاکہ ملک کو افراتفری اور انارکی کی طرف دھکیلا جائے قانون کوبزور قوت توڑا جائے توآیئے اس نعمت خداوندی پاکستان کی حفاظت کے لیے اس رب العالمین کے دیے ہوئے نظام زندگی کو رائج کرکے اللہ کے حضور دست بدعا ہوں الہی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
اور ہمارے پیارے وطن کو امن کا گہوارہ بنائے آمین ۔
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :
أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ
اللہ تعالی کوسب سے پسندیدہ عمل کسی مسلمان کو خوشی فراہم کرنا ہے ۔ (المعجم الأوسط:6026)
خوشی فطرت انسانی ہے اور اسکے بے شمار روحانی جسمانی فوائد ہیں وہ لوگ بہت ہی خوش بخت ہیں جو لوگوں کے کام آتے ہیں ۔ آسانیاں پید اکرتے ہیں ،خوشیا ں بانٹتے ہیں خدا ترسی اہل اسلام کا شیوہ ہے اور پہچان ہے ، رحمتوں،برکتوں کے دروازے انہی پہ کھلتے ہیں اور باران رحمت کا وہی مستحق ٹھہرتا ہے جوایمان لانے کے بعد خدا ترسی کا مظاہرہ کرتا ہے اسلامی بھائی چارے کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بھلائی کریں اس سے اچھے طریقے سے پیش آئیں اس کی خوشی پہ اسے مبارک باد دیں اور اسکے دکھ درد میں شریک ہوں یہ چیز بندہ کے ایمان کی علامت اور عقیدہ کی پختگی کو ظاہر کرتی ہے ۔
نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :
مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى(متفق علیہ)
’’مسلمان آپس میں محبت ،رحمدلی او رشفقت میں ایک جسد واحد کی طرح ہیں جسد کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔‘‘
اگر آپ دوسرے کے ساتھ مسکراہٹ سے پیش آتے ہیں اچھی بات کرتے ہیں ،ضرورت پڑنے پہ اسکی مدد کرتے ہیں اس کے ساتھ عاجزی و انکساری سے پیش آتے ہیں اپنے دل میں اسکے لیے خیر کا پہلو رکھتے ہیں ،اپنے تجربہ و معلوما ت سے اسکی مدد کرتے ہیں تو اسکا اجر اللہ تعالی کبھی بھی ضائع نہیں فرماتے بلکہ اسکی اللہ کے ہاں بہت ہی قدرو منزلت اور فضیلت ہے ،۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں :
وَخَيْرُ النَّاسِ أَنْفَعُهُمْ لِلنَّاسِ(المعجم الاوسط5787)
بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
اسی طرح ایک اور ارشاد نبوی ﷺہے :
وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ
جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ تعالی اسکی مدد کرتے رہتے ہیں ۔ (صحیح مسلم:2699)
آپکی خیر خواہی کے حقدار سب سے پہلے آپ کے والدین، بہن بھائی ،عزیز و اقارب ہمسائے اور دوست ہیں ۔
اگر ہم نبی معلم ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے آپ بچوں کو خوش کرنے کے لئے انکے ساتھ کھیلتے بھی تھے ،مرد ،عورت ،بوڑھے کے ساتھ چل کر اسکی ضرورت پوری کرتے جب آپ ﷺ پہ سب سے پہلی وحی نازل ہوتی ہے توسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا
اس طرح آپ کی ہمت بندھاتی ہیں ۔
وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ(صحیح البخاری:3)
اللہ کی قسم اللہ آپکو رسوا نہیں کرے گا آپ تو رشتہ جوڑتے ہیں ،عاجز لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں فقیروں اور ناداروں کی مدد کرتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفات میں متاثرین کی مدد کرتے ہیں ایسا کیوں نہ ہو جب آپ ﷺ خودفرماتے ہیں
مِنْ أَفْضَلِ الْعَمَلِ إِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِنِ
اپنے مسلمان بھائی کو خوشی پہنچانا بہترین اعمال میں سے ہیں ۔(شعب الايمان:7274)
صحیح مسلم میں ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک عورت جسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی وہ آپ ﷺ کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے اللہ کے رسول ﷺ مجھے آپ سے کام ہے آپ ﷺ فرماتے اے ام فلان !تم جہاں چاہو میں وہاں جاکر میں آپکی ضرورت پوری کرنے کے لیے تیا ر ہوں اور پھر آپ ﷺ اس کے ساتھ چل کر جاتے ہیں اور اسکی ضرو رت کو پورا کرتے ہیں ۔
صحابہ کرام کس طرح ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوتے تھے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں بغیر کسی عذر کے جنگ میں شریک نہیں ہوپائے نبی کریم ﷺ خود بھی اور صحابہ کو سوشل بائیکاٹ کاکہتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالی انکی توبہ قبول کرلیں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب میری توبہ قبول ہو تی تو آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے کہ ایک صحابی مجھے خوشخبری سنانےکے لیے اپنے گھوڑے پہ سوار ہوکر آتا ہے تاکہ جلدی سے جلدی مجھے خوشخبری دی جائے دوسرا صحابی دور سے پہاڑ پہ چڑھ کر آواز لگاتا ہے کہ کعب اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میںمسجد نبوی ﷺ میں نبی کریم ﷺ سے ملاقات کرنےآتا ہوں لوگ مجھے مبارک باد دینے میں سبقت کرتے ہیں۔ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ مہاجر صحابی بھاگ کر میری طرف آتے ہیں اور مجھے تو بہ قبول ہونے کی خوشخبری سناتے ہیں۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پہ جب منافقین نےجھوٹی تہمت لگائی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر رورہی تھی تو ایک انصاری عورت اسی مصیبت کی گھڑی میں میرے پاس آتی ہے اور میرے ساتھ مل کر رونا شروع کر دیتی ہے ۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ کئی لوگ دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر یا تکلیف دے کر خوش ہوتے ہیں اور کوئی بھی تکلیف دینے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے دوسروں پہ ظلم کرتا ہے ۔غیروں کا حق مارتا ہے یہ شققی القلب انسان دوسروں کو بے چین کرکے راحت محسوس کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھول جاتا ہے جسے طبرانی نےروایت کیا ہے ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور کہتا ہے اللہ کو سب سے زیادہ پسند کون سے لوگ ہیں اوراسی طرح کونسے کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جو لوگ دوسروں کے لیے سود مند ہیں وہ اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہیں اور اللہ کو سب زیادہ عمل یہ پسند ہے کہ تم کسی مسلمان کو خوشی دو اس سے تکلیف کو دور کرو یااس کا قرض ادا کرو یا اسکی بھوک مٹاؤ
وَلِأَنْ أَمْشِيَ مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ(المعجم الأوسط6026)
اور میں کسی بھائی کی مدد کے لیے اس کے ساتھ چل کر جاؤں میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں اس مسجد (یعنی مسجد النبوی ﷺ)میں ایک مہینہ اعتکاف کروں
غم بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو
اس دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو
ہمیں چاہے ظلمت شب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنے حصہ کا دیا جلاتے رہیںاور دامے ،درمے،قدمے ،سخنے جس طرح اور جس قسم کی بھی مدد اللہ کے حاجت مند بندوںکو کرسکیں کرتے رہیں ۔
خوشیاں بانٹنے کے لیے بہت زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑتی بلکہ آپ کسی کی بات کو توجہ سے سنیں ، اس سے پیار اور دھیمے لہجے میں بات کریں، کسی کو اچھا مشورہ دے دیں ، کسی کی دکھ تکلیف میں ساتھ دے کر اس کے دکھ کو ہلکہ کرسکتے ہیں اگر مالی استطاعت ہے تو کسی کاقرض اتاردیں، عزیز واقارب، دوست واحباب کو گفٹ (ہدیہ) دے دیں۔
کسی کے سلام کا جواب مسکراہٹ سے دے دیں ، صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن جریر البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ کے چہرۂ انور پہ مسکراہٹ ہی دیکھی ۔
طبرانی کی روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’بہترین عمل یہ ہے کہ آپ کسی مومن کو خوشی پہنچائیں ، اس کی سترپوشی کریں یا اس کی بھوک کو مٹائیں یا اس کی کسی ضرورت کو پورا کر دیں۔
دعا ہے اللہ مجھے اور آپکو خوشیاں بانٹنے والا اور لوگوں کے رستے سے کانٹے چننے والا بنا ئے ۔آمین
۔۔۔
اعتراض :
اللہ محی وشافی ہے اور عیسی علیہ السلام بھی اللہ کے حکم سے محی وشافی ہیں چنانچہ اللہ حقیقی مشکل کشا اور نبی ، ولی اللہ کے اذن سے مشکل کشا ہیں جب وہ اللہ کے اذن سے ہوئے تو ان سے حاجب طلب کرنا شرک کیوں ؟
جواب :
قرون اولیٰ کا مسلمان بیک وقت مجاہد،عالم اور مزکی بھی ہوتاتھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تینوں خصوصیات کا ایک مسلمان میں بیک وقت ہونا مشکل امر ہوگیا۔ مغلیہ خاندان کے سپاہیوں نے ہندو راجاؤں سے لڑ کر علاقہ فتح کیا تو علماء نے مساجد آباد کیں اور اولیائے کرام نے مسلمانوں کا تزکیہ کیا ، ان اولیاء اللہ سے اللہ کے اذن کے تحت کرامات کا ظہور ہوتا ہے کہ عام طبقہ انہیں مشکل کشا سمجھ لیتا ہے صاحب بصیرت کے بقول ان کی مثال ٹیوب لائٹ کی سی ہے جب برقی تار میں کرنٹ ہوگا تو ٹیوب روشنی دے گی ورنہ نہیں ۔ اسی طرح اللہ کے اذن سے کرنٹ جاری ہو تو انبیاء کرام علیہم السلام سے معجزات اور اولیاء کرام سے کرامات کا ظہور ہوتاہے جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے تو وہ نیک بندہ اللہ کے دربار میں شکر ادا کرتا ہے جب کنکشن ختم ہوتاہے تو وہ سجدہ میں گر کر اللہ سے رحمت ونصرت طلب کرتا ہے جب روشنی نہ ہوتو آپ لائٹ کے لیے ٹیوب لائٹ سے بھیک مانگیں گے یا کنکشن کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں گے چنانچہ مشکل کشائی کے لیے ان کو مت پکارو جو کنکشن کے محتاج ہوں بلکہ آپ اس وحدہ لا شریک ذا ت کوپکاریں جو ساری کائنات کا خالق ومالک اور علی کل شیء قدیر ہے۔
اعتراض :
عقیدہ توحید کو سمجھانے والے اشتہار’’ ایک سوال کی دس شکلیں‘‘ شائع ہوا تو اس کے جواب میں ایک صاحب نے لکھا کہ اللہ نے قرآن میں مومنوں کو مددگار کہا ہے
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوا
’’اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اور اولیاء تمہارے مددگار وکارساز ہیں۔‘‘ (المائدۃ:55)
معلوم ہوا کہ اللہ کی کارسازی بالاصالت ہے رسول مکرم ﷺ اور اولیاء کا مددگار ہونا بالنیابت ہے۔ آیت مبارکہ میں ترتیب اس پر شاہد ہے کہ اولیاء ، رسول ﷺ کے نائب اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے نائب ہیں۔
جواب :
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر ولی کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ وہ خود نہیں کھاتا اور دوسروں کو کھلاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے ۔
قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ (الانعام : 14)
’’آپ (ﷺ) فرمادیجیے کہ کیا بغیر اللہ تعالیٰ کے کسی کو (اپنا) معبود بناؤں( وہ اللہ جو) پیدا فرمانے والا ہے ، آسمانوں اور زمین کو اور وہ (سب کو) کھلاتا اور خود نہیں کھلایا جاتا۔‘‘
معترض نے سورت مائدۃ55 میں ولی کے معنی مددگار کے کیے ہیں۔ سورت انعام کی مذکورہ آیت کی روشنی میں وضاحت مقصود ہے کہ رسول اور مومنین کو کھانے پینے کی حاجت تھی یا وہ ان عیبوں سے پاک تھے؟ دراصل گزارش ہے کہ عربی وسیع زبان ہے جس میں ایک حرف کے کئی حقیقی ومجازی معنی ہیں جو آیت کے شانِ نزول اور سیاق وسباق کے حوالے سے استعمال ہوتے ہیں۔
لفظ ’’توفی‘‘ کے کئی حقیقی ومجازی معنی ہیں آل عمران کی آیت 55 میں ’’إِنِّي مُتَوَفِّيكَ‘‘ کے حقیقی معنی ( میں تجھے پورا لینے والا ہوں) پر امت کا مسلمہ اتفاق ہے، جناب اس طرح المائدۃ کی آیت نمبر 55 میں ولی کے معنی مددگار نہیں بلکہ دوست کے ہیں ، مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس آیت کا ترجمہ اور شانِ نزول اس طرح بیان کیا کہ ’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے۔‘‘
شان نزول سیدنا جابررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت سیدناعبد اللہ بن سلام کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے سید عالم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ہماری قوم قُرَیظہ اورنضیر نے ہمیں چھوڑ دیا اور قسمیں کھا لیں کہ وہ ہمارے ساتھ مجالست (ہم نشینی) نہ کریں گے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تو عبد اللہ بن سلام نے کہا ہم راضی ہیں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر ، اس کے رسول کے نبی ہونے پر ، مؤمنین کے دوست ہونے پر اور حکم آیت کا تمام مؤمنین کے لئے عام ہے سب ایک دوسرے کے دوست اور مُحِب ہیں ۔(خزائن العرفان علی کنز الایمان ، ص:174)
آیت کی تفسیر میں مسلک بریلوی کےباني كا مؤقف تسلیم کرلیں یا اس کے پیروکار علماءکا؟ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد کائنات میں مروجہ الٰہوں کی نفی کرکے ایک اللہ کے الٰہ ہونے کا اعلان کرنا تھا یا اللہ سے مددگاری کے اختیارات تمام مومنین کو منتقل کرنا تھا؟ کیا آپ اس کا مقعول جواب دے سکتے ہیں؟
شبہ :
ایک ڈاکٹر مولانا نے آل عمران کی آیت 124 تا 125 کا حوالہ دے کر تجزیہ کیا کہ ’’اگر کسی کی مدد کرنے والا خدا ہوتاہے تو پھر فرشتوں کو خدا مانا جائے ، جو کسی کی مدد کرے وہ خدا ہوتاہے ، مدد کرنا منصب الوہیت ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن نے فرشتوں کو خدا بنا دیا۔‘‘
ازالہ :
سرورکائنات محمد عربی ﷺ نے بدر کے میدان میں رب سے مدد مانگی،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محدود تعداد اور کم وسائل پر صبر وتقویٰ کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیج کر مدد کی ۔
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ بَلٰٓى اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ (آل عمران : 124۔125)
جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا ۔‘‘
مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے فرشتے بھیج کر مدد کی ،فرشتےسیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دیں یا قوم لوط پر عذاب مسلط کریںوہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے محتاج ہیں چنانچہ بدر کے میدان میں فرشتے خود نہیں آئے بلکہ مدد طلب کرنے پر فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آئے۔ صاحبِ ذی شعور دوا میں شفاء نہیں سمجھتا اگر دوا میں شفاء ہوتی تو لقمان حکیم کے بیٹے کو شفاء ضرور ملتی چنانچہ شفا ء اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے وہ چاہے تو دوا میں شفاء کا اثر مہیا کرے نہ چاہے تو وہی دوا کھانے سے مرض میں شدت پیدا کردے، فرشتوں کی مدد کا سبب بننا سرور کائنات ﷺ کی دعا کا ثمر ہے چنانچہ سبب مددگار نہیں ہوتا ہاں! سبب مہیا کرنے والا مددگار ہوتاہے۔
اعتراض :
بزرگوں کا ادب واحترام کرنے پر شرک کا فتویٰ صادرکر دیا جاتاہے جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ مجھے تمہارے مشرک ہونے کا کوئی خطرہ نہیں
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى المِنْبَرِ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الآنَ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الأَرْضِ - أَوْ مَفَاتِيحَ الأَرْضِ - وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا(صحیح البخاری:1344 وصحیح مسلم :2296 دار الفکر)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے آپ نے شہداء اُحد کی قبور پر صلوٰۃ پڑھی جیسے میت پر صلوٰۃ پڑھی جاتی ہے پھر منبر کی طرف تشریف لے آئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں تمہارا پیش رو ہوں میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اب اپنے حوض کی طرف مسلسل دیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دے دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے مشرک ہونے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن مجھے تمہاری خزائن ارض میں رغبت کا خطرہ ہے۔ ‘‘
ازالہ :
مرشد کامل محمد عربی ﷺ کی تعلیم وتربیت کا فیض تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تکلیفوں اور اذیتوں کے پہاڑ سہہ کر جان کا نذرانہ دے دیا لیکن اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا اگر کسی نومسلم نے گفتگو کے دوران ادب کی وجہ سے کہا کہ ’’اگر اللہ اور اس کے رسول نے چاہا، تو آپ ﷺ نے فوراً اصلاح کر دی کہ اگر صرف اللہ نے چاہا، قربان جائیں صحابہ کے ایمان پر کہ انہوں نے آپ ﷺ کے ہر فرمان کو سینے میں بٹھا لیا اور پھر زندگی بھر عقیدۂ توحید کی پاسبانی کا فریضہ سرانجام دیا۔
مخبر صادق ﷺ نے تصدیق فرمادی کہ میرے بعد تمہارے مشرک ہونے کاکوئی خطرہ نہیں، نبی کریم ﷺ کو شہداء اُحد سے اس قدر پیار تھا کہ آپ کبھی کبھی وہاں تشریف لے جاتے ، زندگی کے آخری ایام میں بھی آپ ﷺ نے وہاں جاکر شہدائے اُحد کی نماز جنازہ پڑھائی پھر منبر پر بیٹھ کر جہاد کی استقامت پر خطبہ دیا کہ مجھے تمہارے مشرک ہونے کا تو خطرہ نہیں البتہ اندیشہ لاحق ہے کہ دنیا میں رغبت دیکھ کر جہاد میں سست ہوجاؤ گے، مزید فرمایا ’’جہاد کو روکنا نہیں بلکہ اسلام کو غالب کرنا ہے اس خطبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وصیت تھی جنہوں نے صدقِ دل سے اس کو سینہ میں بٹھالیا اور مرتے دم تک جہاد جاری رکھا اور نصف کرئہ ارضی پر توحید وسنت کا پرچم لہرایا ۔
سید الکونین ﷺ کے کسی فرمان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ انہوں نے شرک سے پاک رہنے کی خبر دی البتہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث مروی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ بھی ہیں :
وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ
’’قیامت قائم نہیں ہوگی حتی کہ میری امت کے بہت سے قبائل مشرکین سے جاملیں گے اور حتی کہ میری امت کے بہت سے قبائل بت پرستی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ( سنن ابی داود : 4252)
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امت محمدیہ ﷺ تدریجی لحاظ سے شرک میں مبتلا ہوگی اس کو سمجھنے کے لیے مثال پیش خدمت ہے دورِ نبوی کے علاوہ خلافت راشدہ کا دور مسلمانوں کے لیے مشغل راہ ہے اس کے بعد بھی نظام خلافت قائم رہا لیکن وہ مسلمانوں کے لیے حجت نہیں کیونکہ نظام خلافت تدریجی لحاظ سے زوال پذیر ہوا اور خلافت کی برکات رفتہ رفتہ سمٹتی گئیں حتی کہ یورپی اقوام نے 1924ء میں مسلم دنیا پر تسلط جما کر خود ساختہ نظام رائج کیا۔
مسلم دنیا کو آزادی حاصل کیے ہوئے پون صدی گزر گئی ہے تاحال قرآن وسنت کو آئینی لحاظ سے سپریم لاء کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی جنہوں نے تگ ودو کی وہ اس نظام کا حصہ بن گئے انہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو پس پشت ڈال دیا اسی طرح عالم اسلام میں تدریجی لحاظ سے شرک سرایت کرتا رہا اور کرتا رہے گا حتی کہ قیامت کے قریب چند قبائل مشرکین سے ملیں گے اور بت پرستی شروع کردیں گے۔
عصرِ حاصر کے بعض مسلم گھرانوں میں مذہبی وسیاسی راہنماؤں کی تصویریں ڈرائنگ روم میں سجی ہوتی ہیں خوبصورتی کے لیے جانوروں کے ماڈل رکھے جاتے ہیں اہم شاہراہوں کے چوکوں پر شاہین،شیر اور گھوڑوں کے مجسمے نصب ہیں زمانہ بعید میں مسلمانوں کے پاس قبروں سے تقرب حاصل کرنے کا وقت نہ ہوگا وہ برکت کیلئے نیک لوگوں کے مجسمے بناکر گھروں میں رکھ لیں گے کاروبار پر جانے سے پہلے ان کی زیارت کو برکت کا باعث سمجھیں گے ، قومی راہنماؤں کےمجسمے چوکوں پر نصب ہوں گے ، قومی تہواروں کے موقع پر ان کو سلامی دی جائے گی گویا اس طرح مخبر صادق ﷺ کی زبان اطہر سے نکلی پیشین گوئی سچ ثابت ہوکر رہے گی اللہ ہم سب کو شرک کی بیماری سے محفوظ رکھے ۔ آمین
شبہ :
محمد عربیﷺ ہر سال شہدائے اُحد کی قبر پرتشریف لے جاتے تھے اس لیے ہم بزرگوں کی قبروں پر سالانہ عرس مناتے ہیں۔
ازالہ :
امام الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ شہدائے احد کی قبور پر غزوہ اُحد کے مقررہ دن تشریف نہ لے جاتے بلکہ کبھی کبھار جاتے تھے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئے آپ ﷺ نے شہدائے احد کی قبور پر صلوٰۃ پڑھی جیسے میت کی صلوٰۃ پڑھی جاتی ہے۔ (بخاری:133 ومسلم : 2296)
مذکورہ روایت سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ مخصوص تہوار کے طور پر نہیں گئے بلکہ جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا تو آپ اسلام کے نام پر جان قربان کرنے والے شہدائے احد کے درجات کی بلندی کے لیے تشریف لے گئے وہاں اس طرح نماز پڑھی جس طرح میت کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ جنازہ میں میت کے لیے دعا کی جاتی ہے لیکن میت کے وسیلہ سے اپنے لیے دعا نہیں مانگی جاتی۔
کسی امتی کے گھر یکے بعد دیگرے نبی کی دو بیٹیاں نکاح میں نہیں آئیں روئے کائنات میں یہ اعزاز صرف سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے جنہیں بے دردی سے شہید کیاگیا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح ہوگئی تو خاندانِ بنی امیہ کی حکومت کئی سالوں تک قائم رہی اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حیات تھے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑائیوں میں شہید ہوئے اور طبعی موت سے بھی رخصت ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسے سنت کے پاسبان اور عامل قیامت تک پیدا نہیں ہوں گے اگر نبی کریم ﷺ ہر سال اُحد کے شہداء کا عرس مناتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ودیگر شہداء اور طبعی وفات پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عرس کیوں نہیں منایا؟ اگر منایا تو مدلل ثبوت پیش کریں۔
شبہ :
غیر اللہ سے منسوب جانور شرعاً حلال ہیں کیونکہ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ :173)سے مراد وہ جانور ہیں جن کو ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
ازالہ :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ (البقرۃ :173)
’’ تم پر مردہ اور(بہا ہوا) خون اورسور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے۔‘‘
مسلمان فطری طور پر مردہ ،خون اور سور کے گوشت سے نفرت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا نام پہلے لے کر مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ جس طرح مردار،خون اور سور حرام ہے اسی طرح ہر وہ چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو حرام ہے کیونکہ ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس کے سوا کسی اور کانام لینا اللہ کی بجائے کسی اور کی ملکیت تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ سے مراد ہر وہ جانور یا کوئی اور چیز ہے جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے،قرآن حکیم جامع اور آفاقی نوعیت کا کلام ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کو خاتم النبیین کے لقب سے سرفراد کیا، خاتم کی رو سے ہر وہ مدعی کذاب ہوگا جو ظلی وبروزی یاکسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا۔
مخبر صادق محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’بیشک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ مثلاً ایک آدمی ہجرت کرتا ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے دوسرا کرتا ہے کاروبار وملازمت کے لیے اور تیسرا وطن چھوڑتا ہے عورت سے نکاح کرنے کے لیے ، یقیناً دل کے رازوں کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا چنانچہ ہجرت کرنے کے بعد پاک وہی ہوتاہے جو خالص اللہ کی رضا کی خاطر تر ک وطن کرتاہے دوسرے ہرگز مصداق نہیں ہوں گے اسی طرح مالی قربانی کا انحصار بھی نیت پر ہے جب انسان کسی مشکل میں پھنس جاتاہے یا اولاد کی طلب میں منت مانتا ہے کہ میں بکرا دوں گا یا دیگ پکاؤں گا ، جائزہ لینا ہے کہ وہ کس کی عقیدت ومحبت کے حصول کیلئے اور کس کی خوشنودی وتقرب یا ڈر اور اُمید رکھتے ہوئے ذبح کرتاہے یا خوردونوش کی اشیاء تقسیم کرتا ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتا ہے تو مالی عبادت میں شمار ہوگا خدانخواستہ وہ اللہ کے علاوہ غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے فعل سرانجام دیتاہے تو گویا وہ اللہ کے علاوہ کسی غیر اللہ کو الٰہ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا خواہ وہ ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام ہی کیوں نہ لے رہا ہوں ؟
اسلام میں ریاکاری کی ممانعت ہے ، ایک آدمی نماز پڑھتا ہے نمودونمائش کیلئے، حج ادا کرتا ہے دوکان چمکانے کے لیے، زکوٰۃ ادا کرتا ہے معاشرے میں مقام حاصل کرنے کیلئے تویہ ریاکاری ہے حالانکہ دکھاوے کا عمل کرنے والا زبان سے وہی مسنون اذکار ادا کررہا ہے جو دوسرے نمازی اور حاجی صاحبان ادا کررہے ہیں چونکہ اس نے اپنے عمل میں غیر اللہ کی خوشنودی کو شریک کیا ہے اس لیے یہ شرک اصغر ہے۔ اسی طرح قصاب جانور کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لے رہا ہواگر مالک جانور کے دل میں غیر کی عقیدت ومحبت،رضا مندی،خوف وامید وابستہ ہو تو وہ ’’وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ‘‘ میں شامل ہے۔ جائزہ لے کر تحقیق کرنا اس وقت ضروری ہے جب کوئی عام حالات میں گھر یا محلہ میں ذبح کرے یا کھانا تقسیم کرے لیکن جب وہ غیر اللہ کے آستانوں اور درباروں پر جاکر ذبح کرے یا خوردونوش تقسیم کرے تو پھر وہ یقیناً اس مدفون کا تقرب حاصل کر رہا ہے جس سے وہ آستانہ ، دربار یا مزار منسوب ہے۔
مخبر صادق امام کائنات محمد ﷺ نے غیر اللہ کے آستانہ پر منت پوری کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ کے مقام پر اونٹ نحر کرے گا ، سرورکائنات ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا تو سرور کائنات ﷺ نے استفسار فرمایا کہ بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں کوئی میلہ لگتا تھا ؟عرض کی گئی نہیں، حبیب کبریاء ﷺ نے فرمایا ’’ پھر تجھے نذر پوری کرنی چاہیے اور اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ اسے جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہوں۔(ابو داود)
ہم نماز میں اقرار کرتے ہیں : التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ‘‘ ’’سب درود وظیفے اللہ کے لیے ہیں اور سب عجز ونیاز اور سب صدقے خیرات بھی‘‘۔ لیکن خدانخواستہ عملی میدان میں غیر اللہ کے نام پر مالی عبادت کا اظہار کریں تو یقیناً قول وفعل میں تضاد ہے۔ اللہ ہم کو قولی وبدنی اور مالی عبادات میں شرک کی آمیزش سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے ۔ آمین
سورۃ فاتحہ نماز کا اہم رکن ہے جسے ہر رکعت میں پڑھنے کا حکم ہے ، ہم اللہ کی بارگاہ میں اقرار کرتے ہیں کہ ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے جو کائنات کا رب ہے، رحمان اور رحیم ہے اور روزِ جزا کامالک ہے اس کے بعد ہم پڑھتے ہیں
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ
’’ ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ گویا مسلمان رب کے دربار میں عجز وانکساری سے اظہار کرتاہے کہ اے اللہ! ہم خوف وعقیدت اور طمع کی وجہ سے تیری ہی پوجا وپرستش ، اطاعت وفرمانبرداری اور بندگی وغلامی کرتے ہیں۔ اے اللہ! ہم ہر مشکل،مصیبت، تنگی اور سختی کے وقت تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
دعاعبادت کا مغز ہے دعا کیا ہے ؟ پکارنا یعنی مدد طلب کرنا۔ قرآن مجید شاہد ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کی ہی عبادت کی اور مشکل وقت بھی اللہ کی بارگاہ میں ہی دعا کی۔ سیدنا ایوب علیہ السلام کو بیماری نے ستایا تو التجا کی ۔
اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ (الانبیاء:83)
’’مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
سیدنا زکریا علیہ السلام کے دل میں بیٹے کی حسرت پیدا ہوئی تو رب سے درخواست کی
رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ (الانبیاء : 89)
’’اے میرے رب! مجھے تنہا نہ چھوڑ تو سب سے بہتر وارث ہے۔‘‘
سیدنا نوح علیہ السلام کو مشکل پیش آئی تو رب کو پکارا
فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (القمر:10)
’’پس اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں بے بس ہوں تو میری مدد کر۔‘‘
دعا عبادت کا مغز کس طرح ہے ؟ امام کائنات محمد عربیﷺ نے رب کے دربار میں عاجزی کے اظہار کے لیے نماز سکھائی قیام ،رکوع،سجود اور تشہد میں درودشریف کے بعد سلام پھیرنے سے قبل مسنون دعائیں پڑھنے کا حکم دیا جن میں غم اورقرضہ سے نجات، عذاب قبر اورجنہم کی آگ سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ نماز میں کوئی ایسی مسنون دعا نہیں جس میں غیر اللہ سے مدد مانگنے کی طرف اشارہ کیاگیا ہو چونکہ انسان کو ہمہ وقت مشکل وتنگی کے وقت مدد کی ضرورت رہتی ہے اس لیے آیت کے دوسرے حصہ ’’ایاک نستعین‘‘ میں اس امر کا اظہار کیاگیاہے کہ ہم رنج وراحت اور دکھ سکھ میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
شبہ :
انسان پیدائش سے لے کر دفن قبر تک بلکہ قیامت تک بندوں کی مدد کا محتاج ہے ۔
ازالہ :
ظاہری اسباب سے ایک دوسرے سے مدد مانگنا شرک نہیں اور مد د کرنا الوہیت نہیں بلکہ نظام قدرت کے تحت خدمت انسانیت ہے البتہ مافوق الاسباب طریقہ سے مدد طلب کرنا یا مدد کرنے کا دعویٰ کرناشرک ہے۔
(جاری ہے )
حکمت و دانائی
وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (حٰم السجدۃ: 34)
’’اے نبی! نیکی اور بُرائی برابر نہیںہو سکتے آپ بُرائی کا دفاع اچھائی کے ساتھ کریں ۔ دیکھیں جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا دلی دوست بن جائے گا۔‘‘
ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظررکھنا چاہیے کہ اچھائی اوربرائی ،نیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اوراس کا پرچارکرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد بازاور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اورغیر اللہ کی محبت میں غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔
جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدت کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتاہے اورتوحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بے ادب کہتا ہے۔ موحّد کے لیے بے دین یا اس کے ہم معنٰی لفظ استعمال کرتاہے ۔اس لیے مکے کے کافر صحابہ کو صابی کہتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں داعی کی دانش اورحکمت یہ ہونی چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اوربڑے حوصلے کی ضرورت ہے، یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میںہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اوربرائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں:
1 الدّاعی کااخلاق اورکردار اچھا ہونا چاہیے۔
2 الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔
3 الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اختیار کرنا چاہیے۔
اس کے باوجود کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ کیونکہ بُرائی کا جواب بُرائی کے ساتھ دینے سے ماحول میںتلخی بڑھتی ہے۔ جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ جس سے داعی کی بجائے دوسرے کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ بُرا آدمی اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص کسی تعصّب اور مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسنِ سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو مخاطب کررہاہے اگر وہ نرم نہیںہوں گے تو ان میںسے کچھ لوگ اس کی دعوت پر ضرور متوجہ ہوںگے جو بالآخر اس کے ہمسفر بن جائیں گے۔
ہر دور میں اس کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں، دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ ستر سال پہلے اکثر مساجد میں جب توحیدوسنت کی بات کی جاتی توبات کرنے
والے کو مسجد سے اٹھا کرباہر پھینک دیا جاتا تھا، لوگوں
میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔برائی کا جواب اچھائی سے دینا ، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں یہ کام وہی مبلّغ اورکارکن کرسکتا ہے جسے مِشن عزیزاوراپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ عام مبلّغ مخالف کی بات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اوراپنے دھڑے کے لیے اُسے ذلّت سمجھتاہےحالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر ِاسلامe اورکسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیںدیا یہاں تک کہ نبی کریمeنے ذاتی معاملہ میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیںفرمایا،
اگرچہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے ۔
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهٖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (النحل: 34)
’’اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ایسے لوگوں سے بہت اچھے طریقے کے ساتھ بحث کر و۔ یقیناً آپ کا رب زیادہ جاننے والا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی جانتا ہے ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی ﷺ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا لیکن اس کے باوجود حکم ہوا کہ آپ لوگوں کو حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ دین حنیف کی طرف دعوت دیں۔ اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں ۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے ۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقعہ محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے ۔ اس کے ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں ۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی ،خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ کَرَاھَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا (رواہ البخاری: باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ )
’’سیدناعبداللہ بن مسعود tبیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ ہم اُکتا نہ جائیں ۔ ‘‘
عَنْ عُبَیْدِ اللہِ بْنِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللہِ بْنَ مَسْعُودٍ قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً (رواہ مسلم: باب النَّھْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ)
’’عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعودt فرماتے ہیں کہ تم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو اور وہ لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے ۔ ‘‘
قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللہُ وَرَسُولُہٗ (رواہ البخاری: کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ )
’’سیدنا علی t فرماتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جسے وہ سمجھتے ہوں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے‘‘
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
’’فر ما دیں یہی میرا راستہ ہے کہ میںپوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتاہوں، میں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے ، اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ۔‘‘ (یوسف:108)
اے نبیﷺ! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتائیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرّا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس فرمان میں نبی اکرمe کی زبانِ اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میںلوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ ’’اللہ‘‘ کی طرف بلائوں۔
یاد رہے کہ قرآن مجید میں عقیدہ توحید اور اہم باتوں کے اظہار کے لیے پہلے ’’قُلْ‘‘ کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم eنے ہی بیان کی ہے ۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتّباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اورمرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے، ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبّت سے بھی منع کیا ہے۔ (البقرۃ:۲۲۱)
داعی کی چیدہ چیدہ صفات:
۱۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے ۔ (یونس: ۱۵)
۲۔داعی کو سب سے پہلے خود مسلمان یعنی ’’اللہ‘‘ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام: ۱۶۳)
۳۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے ۔ (المدثر:۴)
۴۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے ۔ (المدثر : ۶)
۵۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے ۔ (المدثر :۲)
۶۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل: ۱۲۵ )
۷۔داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے ۔ (حم السجدۃ: ۳۴ )
۸۔ داعی کو حوصلہ مند ہونا چاہیے ۔ ( المدثر: ۷)
۹۔ داعی کو عملی نمونہ بننا چاہیے ۔ (یونس: ۱۶)
حصولِ علم کے لئے دعا
ایک مبلغ کو ہمیشہ اپنے علم میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ مطالعہ سے علم میں رسوخ، ذہن میں کشادگی اور فہم و استدلال میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایسی ضرورت ہے کہ اس سے انبیاء کرام بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ اس لیے قرآن مجید نے سیدناموسیٰ ؈ اور نبی کریمﷺ کے بارے میں فرمایا:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَ يَسِّرْ لِيْ اَمْرِيْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ يَفْقَهُوْا قَوْلِيْ(طٰہٰ:25تا 28)
’’موسیٰ نے دعا کی کہ اے میرےرب! میرا سینہ کھول دے، میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے اورمیری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ ‘‘
فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَ لَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰی اِلَيْكَ وَحْيُهٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا
’’ اللہ ہی حقیقی بادشاہ اور بلند وبالا ہے، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کریں جب تک کہ اس کی وحی مکمل نہ ہوجائے اور دعا کریں کہ اے میرے رب! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔‘‘ (طٰہٰ: 114)
یہاں نبی ﷺ کو ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ساتھ قرآن مجید کو وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں دِقت پیش نہ آئے۔ لہٰذا آپ عجلت سے کام لینے کی بجائے اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرتے رہیں کہ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ یہاں علم سے مراد وحی کا علم ہے، مفسرین نے آپ کا جلدی کرنے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نزولِ قرآن کے ابتدائی دور میں آپ eاس غرض کے ساتھ جلد ی جلدی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو’’رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا‘‘کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ ضبطِ قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں، بس آپ غور سے سنتے جائیں، قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ (القیامۃ:۱۷)سورہ اعلیٰ میں فرمایا ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے ۔ (اعلیٰ:۶)
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ
’’اے نبی! کیا ہم نے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے بھاری بوجھ اُتار دیا۔ (الانشراح:1۔2)
’’سیدنا سہل بن سعد ساعدیt بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم e نے فرمایا: بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ (رواہ الترمذی: باب ماجاء فی التانی)
سیدناعبداللہ بن عباس w بیان کرتے ہیںکہ نبی مکرم e نے قبیلہ عبدالقیس کے رئیس ’’اشج‘‘ سے کہا‘ تجھ میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتاہے۔ ایک بردباری اور دوسرا معاملات کے بارے میں غور و فکر ہے۔
(مسلم: باب الامر بالایمان باللہ و رسولہ)
’’سیدنامعاویہt رسولِ اکرمeسے بیان کرتے ہیںکہ رسول مکرمe نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ ‘‘(رواہ البخاری: کتاب العلم)
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰهُ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰى نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِكْرِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (الزمر:22)
’کیا وہ شخص جس کا سینہ ’’اللہ‘‘ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور وہ اپنے رب کی روشنی میں چل رہا ہے، اس کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جن کے دل اللہ کی نصیحت کے بارے میں سخت ہو گئے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اسلام کی پہلی دعوت ’’اللہ‘‘کی ذات اور اس کی صفات پر اس طرح ایمان لانا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ جو شخص توحید اور دین کو سمجھنےکی کوشش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے جس بنا پر اس کے سینے میں ہدایت کا نور پیدا ہوتاہے۔ ایسا شخص بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے رب پر راضی رہتاہے ، اسے غیر معمولی کامیابی اور خوشی نصیب ہوتی تو آپے سے باہر نہیںہوتا۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا دل کفر وشرک اور گناہوں کی وجہ سے سخت ہو، اسے نصیحت کی جائے تو اس سے چڑتاہے اوراللہ کی توحید کےتذکرےسے بدکتا ہے۔اس قسم کے لوگ راہِ راست سے اس قدر بھٹک جاتے ہیں کہ ان کی گمراہی میںرتی بھربھی شک نہیں رہتاکیونکہ ان کے دل اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔
مستقل مزاجی
يٰاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ
’’اے رسول !جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیاگیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیںپہنچایا، اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘(المائدۃ: 67)
الرّسول سے مراد سرور دوعالم eکی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں ،لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں، دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، آپ کو ہرحال میں من وعن لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچانا ہے اگرآپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادانہیں کیا۔
یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ مدینہ کے حالات کے پیش نظر آپ اپنے ساتھ مسلح پہرے دار رکھتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا کھلے الفاظ میں اعلان فرما دیا ہے۔
وَ لَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ
’’اور جنہوں نے ظلم کیاان کی طر ف نہ جھکنا ورنہ تمہیں آگ آلے گی اور اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں ہو گا۔ پھر تمہاری مد د نہ کی جائے گی ۔ ‘‘ (ھود:113)
کفار، مشرکین اور یہود و نصاریٰ اس حد تک آپ کی مخالفت پر اتر آئے تھے کہ آپ کو صادق و امین ماننے کے باوجود آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتےتھے۔ جس کا بحیثیت انسان آپ کو بہت رنج ہوتا تھا۔ اس موقعہ پر آپ کی ڈھارس بندھانے ،آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مستقل مزاجی کا سبق دینے کے لیے درج ذیل ہدایات دی گئی ہیں۔
۱۔جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ا س پر قائم رہیں ۔
۲۔کسی حال میں بھی اللہ کی نازل کردہ وحی سے سرتابی نہ کریں۔
۳۔ ہر دم یہ خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
۴۔ظالموں کی طرف کسی صورت نہیںجھکنا۔
۵۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں۔
استقامت کا معنی ہے اِدھراُدھر جھکنے کی بجائے سیدھا کھڑے رہنا۔ جس کا تقاضا ہے کہ ایک داعی نہ کسی قسم کے دبائو کی پرواہ کرے اور نہ ہی کسی مفاد اورلالچ میں آئے۔ ایسا شخص ہی صحیح معنوںمیں حق کا ترجمان اور اس کا پاسبان ہوسکتاہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ’’وَلَا تَرْکَنُوْا‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی ہے کہ دنیا کا کوئی خوف آپ اور آپ کے متبعین کو باطل کے سامنے جھکنے پر مجبور نہ کرے۔ اگر تم لوگ جھک گئے تو پھر تمہیں جہنم کی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی تمہارا خیر خواہ اور مدد گار نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔