۔۔۔۔!!

عبدالسلام جمالی ۔ نوابشاہ

محترم قارئین ! حج اللہ تعالی کی پسندیدہ و محبوب ترین عبادات میں سے ایک عبادت ہے ۔ جیسا کہ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:‏‏‏‏ حَجٌّ مَبْرُورٌ . ( صحیح بخاری : 26 )

 رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کونسا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ۔ کہا گیا : اس کے بعد کونسا ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔ کہا گیا : پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :حج مبرور ۔

اللہ تعالی کی طرف سے ہر ذی ثروت شخص پر زندگی میں ایک بار حج فرض کیا گیا ہے اللہ رب العالمین کا فرمان ہے

وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا(آل عمران : 97)

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس طرف کی راہ پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کیا ہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ :

خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْکُمُ الْحَجَّ ، فَحُجُّوا ۔ فَقَالَ رَجُلٌ : أَکُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَسَکَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ قُلْتُ : نَعَمْ لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ، ثُمَّ قَالَ : ذَرُونِي مَا تَرَکْتُکُمْ ، فَإِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُکُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوه ( صحیح مسلم : 3257 )

رسول اللہ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہٰذا حج کرو ۔ایک آدمی نے کہا : کیا ہر سال ؟ اے اللہ کے رسول ! آپ خاموش رہے حتیٰ کہ اس نے یہ کلمہ تین بار دہرایا ۔ رسول اللہ نے فرمایا : اگر میں کہہ دیتا : ہاں تو واجب ہو جاتا اور تم (اس کی ) استطاعت نہ رکھتے ۔پھر آپ نے فر ما یا : تم مجھے اسی ( بات ) پر رہنے دیا کرو جس پر میں تمھیں چھوڑ دوں تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور اپنے انبیاءعلیہم السلام سے زیادہ اختلا ف کی بنا پر ہلا ک ہوئے ۔جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے ادا کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو ۔

حج کرنے والے شخص کے لیے قرآن حکیم و احادیث صحیحہ میں بے شمار خوشخبریاں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بالاختصار چند یہاں ذکر کیے دیتے ہیں ۔

حاجی کے لئے کتنی بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالی اس کی دعا رد نہیں کرتے بلکہ جو وہ طلب کرتا ہے اسے عطا کیا جاتا ہے ۔

جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا :

الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ (سنن ابن ماجہ:2893 )

 اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا ۔

اور اللہ عزوجل حاجی کے حج  کی برکت سے اس کی تنگ دستی ختم کر دیتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے ۔

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ (سنن ترمذی : 810 )

حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔

اور حاجی اللہ تعالی کی ضمانت میں ہوتا ہے اسے دنیا کی کوئی چیز کچھ بہی تکلیف نہیں پہنچا سکتی ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

ثَلاَثَةٌ فِى ضَمَانِ اللهِ – عَزَّ وَجَلَّ- رَجُـلٌ خَـرَجَ إِلَى مَسْـجِـدٍ مِـنْ مَسَاجِدِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ-، وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِى سَبِيلِ اللهِ، وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا( الصحیحة للالبانی  : 609 )

تین شخص اللہ کی ضمانت میں ہیں، وہ شخص جو اللہ کی مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف نکلا ، اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلا اور وہ شخص جو حج کرنے کے لئے نکلا۔

حاجی جب سفر حج پر نکلتا ہے اور اگر اسی سفر میں وہ فوت ہوا تو قیامت تک اس کے حق میں حج کا اجر لکھا جائے گا ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

مَنْ خَرَجَ حَاجًّا فَمَاتَ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْحَاجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَمَاتَ، کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْمُعْتَمِرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللهِ فَمَاتَ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ( المعجم الکبیر للطبرانی: 80 )

جو شخص حج کرنے کے ارادے سے نکلا اورفوت ہوگیا، قیامت تک اس کے لئے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا، اور جو شخص عمرہ کر نے کے لئے نکلا اور وفات پا گیا، قیامت تک اس کے لئے عمرہ کرنے کا ثواب لکھاجائےگا۔ اور جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لئے نکلا اوروفات پاگیا تو قیامت تک اس کے لئے مجاہد کا اجر لکھاجائے گا۔

حاجی سے اللہ تعالی بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کے تمام تر گناہ بخش دیتے ہیں ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَرْفُثْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَفْسُقْ، ‏‏‏‏‏‏رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ  (صحیح بخاری : 1820 )

جس نے اس گھر کا حج کیا اور نہ شہوت کی فحش باتیں کیں، نہ گناہ کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہوگا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَهُ(صحیح مسلم :321)

’’ بلاشبہ حج کی ادائیگی سے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘

حاجی کتنا بڑا خوش نصيب انسان ہے کہ اگر دوران حج یا سفر حج میں وفات پاگیا تو روز محشر باری تعالی کے ہاں تلبیہ کہتے ہوئے حاضر ہوگا ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے

بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فَأَوْقَصَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا (صحیح بخاری: 1265)

ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ نبی نے فرمایا : پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔

حاجی کو جہنم سے آزادی حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالی اپنے اس بندے پر بہت خوش ہوکر فرشتوں کے سامنے اس کے اس عمل خیر پر فخر کرناہے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے رسول اللہ نے فرمایا :

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  مَا مِنْ يَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَبْدًا أَوْ أَمَةً مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ إِنَّهُ لَيَدْنُو، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِکَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ(سنن نسائی:2859)

اللہ عزوجل عرفہ کے دن جتنے غلام اور لونڈیاں جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں کرتا، اس دن وہ اپنے بندوں سے قریب ہوتا ہے، اور ان کے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ ۔

حاجی کے لئے اس کے حق میں تمام مومنین لوگ روز محشر بحیثیت شفیع پیش ہوں گے اور اس کے حق میں باری تعالی سے جھگڑتے ہوئے شفاعت کریں گے ۔

سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب مومن لوگ آگ سے خلاصی پالیں گے، اور بے خوف ہو جائیں گے، تو ( اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ) تم میں سے کوئی شخص دنیا میں اپنے ساتھی سے اتنا سخت جھگڑا نہیں کرتا جتنا شدید جھگڑا مومنین اپنے رب سے اپنے ان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جو آگ میں ڈال دیئے گئے ہونگے ۔ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، روزہ رکھا کرتے تھے، حج کیا کرتے تھے ( اور ہمارے ساتھ جہاد کیا کرتے تھے ) پھر بھی آپ نے انہیں آگ میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ، ان میں سے جن کو پہچانتے ہو آگ سے نکال لو۔ جنتی ان کے پاس آئیں گے ، وہ انہیں ان کے چہروں سے پہچانیں گے۔ آگ ان کے چہروں کو نہیں جلائے گی۔ ان میں ایسے بھی ہونگے جنہیں آگ نصف پنڈلیوں تک جلائے گی، ان میں ایسے بھی ہونگے جنہیں ٹخنوں تک جلائے گی ( جنتی)  ان میں سے ( بے شمار ) لوگوں کو نکال لیں گے وہ کہیں گے: اے ہمارے رب جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا ہم نے انہیں نکال لیا …. الخ ۔( مسند احمد : 11463 )

اور اللہ عزوجل حاجی سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ اسے حج کے بدلے جنت جیسا محل عطا فرماتا ہے ۔

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم کی معیت میں تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺسے قریب ہوا ،ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِکْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّکَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ (سنن الترمذي : 2616)

’’اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دوررکھے؟ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بے شک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نمازقائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزےرکھو، اوربیت اللہ کا حج کرو۔ ‘‘

اللہ تعالی ہم سب کو حج نصیب فرمائے اور جو صاحب ثروت ہیں انہیں چاہیے کہ حج کریں کیوں کہ جو حج کی بھلائیوں سے محروم ہوگیا وہ مذکورہ خوشخبریوں اور دیگر خیر سے محروم ہوگیا جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ :

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

إِنَّ عَبْدًا أَصَححتُ لَه جِسْمَه وَوَسَّعْتُ عَلَيْهِ في الْمَعِيشَة تَمْضِي عَلَيْهِ خَمْسَةُ أَعْوَامٍ لَا يَفِدُ إِلَيَّ لَمَحْرُومٌ (صحیح ابن حبان : 3703 )

میرا وہ بندہ جس کا جسم میں نے تندرست بنایا، اس کی معیشت کشادہ کی، اس کے پانچ سال گزر جائیں اور وہ حج کا سفر نہ کرے تو وہ ( بھلائی سے ) محروم ہے ۔

ایک حاجی کو چاہیے کہ حج کرنے کے بعد نیکیوں کے معاملے میں کمزور نہ بنے بلکہ اور بھی زیادہ نیکیاں کرے ان خوشخبریوں کا مقصد یہ نہیں کہ حج کرکے تمام تر نیکیوں کو ترک کیا جائے جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے رمضان کے روزے رکھے ،نماز ادا کی اور بیت اللہ کا حج ادا کیا، مجھے معلوم نہیں آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں تو اللہ تعالیٰ پر لازم ہے کہ اسے بخش دے۔ اللہ کے راستے میں ہجرت کی یا اپنی اسی زمین میں بیٹھا رہا جس میں پیدا ہوا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں لوگوں کو خبر نہ دوں؟ رسول اللہ نے فرمایا: لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو وہ عمل کرتے رہیں کیوں کہ جنت میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان کے درمیان ہے، اور فردوس جنت کا وسطی اور بلند ترین حصہ ہے ۔ اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے ، اسی سے جنت کی نہریں جاری ہیں۔ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ (سنن ترمذی : 2453 )

مذکورہ اور دیگر خوشخبریوں کا ذکرنا صرف کار خیر کی طرف جذبہ بڑھانہ ہی مقصود ہے ۔  واللہ ولی بالتوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے