معاشرہ میں عورت کا مرد سے نکاح خاندانی نظام کے استحکام کی بنیاد ہے جبکہ مغرب میں آزادی نسواں کے علمبردار عورتیں برملا اظہار کرتی ہیں کہ نکاح کا بندھن قانونی فحاشی کے مترادف ہے اور اس نے عورت کو جنسی غلام بنا دیا ہے جو آزادانہ اختلاج اور صنفی آزادی میں رکاوٹ ہے نکاح کے بغیر جنسی تعلقات کو بدکاری نہیں سمجھا جاتا البتہ عورت کی مرضی کے بغیر کوئی مرد خواہ اس کا خاوند اس سے جنسی تعلقات قائم کرے تو اسے زنا بالجبر تصور کیا جاتاہے۔
اقوام متحدہ نے آزادی نسواں کے مطالبات کو اپنے منشور میں داخل کر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی بنک اور آئی ایم او نے مسلم دنیا کو قرضہ دیتے وقت کڑی شرائط عائد کرتے ہیں کہ
\\عورتوں کو مردوں کے مساوی سیاسی،معاشی،سماجی اور صنفی آزادی کے حقوق دیئے جائیں ۔
\\عورتوں کو پردہ کی بے جا پابندی سے آزاد کیا جائے۔
\\نکاح کی حوصلہ شکنی اور جنسی آزادی کو فروغ دینے والے اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔
ترقی پذیرممالک سیاسی واقتصادی دباؤ میں آکر عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق دے رہے ہیں۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں عورتوں کے لیے مخصوص نشستیں مقرر ہیں مزید برآں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بھی الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں۔سرکار ی ونجی اداروں میں ملازمت کے مواقع میسر ہیں۔ خواتین کو فنی تربیت دینے کا سلسلہ جاری ہے، ورکر خواتین کے لیے خواتین ہاسٹلز قائم کئے جارہے ہیں جس کا پس منظر یہی ہے کہ عورت معاشی طور پر والدین یا خاوند کی دست نگر نہ رہے وہ جو چاہے کرے کوئی بازپرس کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
اگر میاں بیوی دونوں ورک ڈیوٹی پر جائیں تو دودھ پیتے بچوں کی نگہداشت کون کرے ہمراہ لے جائیں تو ڈیوٹی دیں یا بچوں کا دل بہلائیں رفتہ رفتہ ملازمت پیشہ عورتوں میں نکاح کا رجحان دھیما پڑجائے گا بصورت دیگر خاندانی منصوبہ بندی پر عمل اُن کی مجبوری بن جائے گا۔
اسلام نے عورت کے نان ونفقہ کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے باپ اور خاوند کی وراثتی جائیداد میں عورت کا حصہ مخصوص کیا ہے مرد صاحبان اس حق کی ادائیگی میں عموماً کوتاہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
بہبود خواتین این جی اوز کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ آزادی نسواں کی بجائے حقوق نسواں کے حصول کے لیے مناسب لائحہ عمل وضع کریں محروم عورتوں کی طرف سے شکایت کی صورت میں مرد کو نان ونفقہ اور وراثت دینے کا پابند کیاجائے۔
الزام تراشی کیوں ؟
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اخبارات میں کالم شروع ہوا کہ پاکستان کی عورتیں کبھی جہیز کم ہونے کے جرم میں جلا دی جاتی ہیں کبھی بیٹے کی ماں نہ بننے کے جرم میں تیزاب میں داغ دی جاتی ہیں کبھی غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہے اور کبھی جائیداد کے مٹ جانے کے خوف سے قرآن سے شادی کروا کر بابل کی دہلیز پر بٹھا دی جاتی ہیں۔
پاکستان میں اس قسم کے اکا دکاواقعات رونما ہوتے ہیں جن سے قطعاً انکار نہیں مغرب میں مذکورہ قسم کے بے شمار سانحات ہوتے ہیں لیکن میڈیا پر ان کی تشہیر نہیں ہوتی۔
اوریا مقبول خان نے فیس بک پر اظہار خیال کیا ہے:
امریکہ میں اس سال 523 عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکا گیا جس کا ہمیں شاید علم ہی نہیںاس کی بنیادی وجہ یہ
ہے کہ وہاں کوئی شرمین عبید چنائے نہیں ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب وتمدن سے دل بردرشتہ عورتوں کی اکثریت اسلام کے عفت وحیاء کے زیور آراستہ کر رہی ہیں پاکستان میں جرائم کے انسداد کے لیے سزاؤں کا تصور عدل وانصاف کے تقاضے پورا نہیں کرتا۔ مجرم جس قسم کی اذیت سے عورت کو دوچار کرتاہے اُس کو بھی اسی نوعیت سے فوری سزا دی جائے پھر اس کی میڈیا پر تشہیر کروائی جائے تو دیکھنا کسی کی جرأت نہ ہوگی کہ وہ کسی کے چہرہ پر تیزاب پھینکے یا وہ کسی کو جلائے۔ بالغ ہونے پر اولاد کی شادی کی حوصلہ افزائی کی جائے توغیرت کے نام قتل کی نوبت نہ آئے۔ رخصتی پر وراثت کا جائز حق دیا جائے تو جہیز کی رسم تدریجی انداز میں دم توڑ جائے۔ بیٹا یا بیٹی کا ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی سے ہے اس میں عورت کا کوئی قصور نہیں عقیدئہ توحید کا شعور پیداکرنے کی ضرورت ہے۔
مذاہب عالم میں سے اسلام کو ہی امتیازی مقام حاصل ہے جس نے عورت کو عزت ومرتبہ کے مقام سے نوازا۔ محسن انسانیت محمد ﷺ نے جنت کو ماں کے قدموں تلے فرمایا تین دفعہ ماں سے اور چوتھی دفعہ باپ سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیا اپنی بیٹیوں کی عمدہ تربیت کرنے پر جنت میں قربت کا وعدہ کیا آپ ﷺ نے مردوں کو فرمایا تم میں سے اچھا وہ ہے جو بیوی سے اچھا برتاؤ کرے۔
دین اسلام نے مرد اور خواتین کے حقوق وفرائض متعین کردیئے ہیں جن پر عمل کرنے سے خاندانی ماحول خوشگوار بن سکتاہے۔ مرشد کامل محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کا بحیثیت خاوند اور بحیثیت والد سنہری کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے معاشرہ کی اصلاح کے لیے میڈیا پر تشہیر کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے