اخلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو ہر آدمی اپنانےکی کوشش کرتا ہے کیونکہ اخلاق انسا ن کا ایک ایسا جزء ہے جس کے اندر یہ صفت وخصلت پائی جائے تو سمجھ لیناچاہیے کہ و ہ آدمی  فطرت سلیم کا مالک ہے اخلاق ایک دواہے جو کہ دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے علم و عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے قیامت کے دن مومن کے میزان میں عمل کے لحاظ سے جو چیز وزنی اور بھاری ہوگی وہ حسن اخلاق ہے ۔سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

مَا مِنْ شَيْءٍ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ (سنن ابی داؤد:4799)

کوئی بھی چیز میزان میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی نہیں ۔
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ (صحیح مسلم2553)

’’اچھااخلاق ہی نیکی ہے اور برائی یہ ہے جو جو کر نے کے بعد (برائی) تیرے دل میں کھٹکے اور تو نہ پسند کرے کہ لوگوں کو تیری کی ہوئی برائی کا علم ہوجائے ۔‘‘
اور رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا

إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلاَقًا(صحیح البخاری 3559)

’’تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے (اخلاق کے اعتبار سے ) جس کا اخلاق اچھا ہو ۔‘‘
اخلاق کی تعریف:
خلق کے لغوی معنی عادت وخصلت کے ہیں اور حسن اخلاق سےمراد خوش اخلاقی ،مروت ،اچھا برتاؤ،بہتر رویہ سب سے اچھے اخلاق ہیں ۔

اخلاق کی اہمیت و ضرورت :

رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالی نے جہاںبہت سارے کمالات وامتیازات و خصوصیات سے نوازا تھا ان میں سے ایک بہت بڑی خاصیت اخلاق حسنہ کا حاصل ہونا ہے چنانچہ باری تعالی خود ہی منظر کشی فرمائی

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:4)

’’اوربیشک آپ(اے نبیﷺ) بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ ‘‘
جیسا کہ یہ بات سب پر عیاں و ظاہر ہے کہ جو شخص بھی آپ ﷺ کے قریب ہو ا اور آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ کو دیکھا تو آپ ﷺ کا گرویدہ ہوجاتا۔

 اخلاق اعلی :

عام اخلاق کے مقابلے میں اعلی اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویے کی پراواہ کیے بغیر اپنا رویہ و وضع قطع متعین کرلے اس کا اخلاق اصولی ہو نہ ہی جوابی ۔

اعلی اخلاقیات:

اس شخص کاایک عام اصول ہو جس کو وہ ہر جگہ برتے ،خواہ معاملہ کی موافقت ہو یا نا ہو وہ ہمیشہ لوگوں کو جوڑنے والا ہو نہ کہ توڑنے والا حتی کہ اس کےساتھ اگر برا سلوک ہوجائے تو وہ اس کو نظر انداز کرنےکی کوشش میں ہوتا ہے چونکہ ہمارا موضوع (اخلاق محمدی ﷺ کے چند اہم عملی مظاہرے جنہیں اپنانےکی ضرورت ہے)تو میں رجوع کرتا ہوں اپنے موضوع و محل کی طرف ۔

مکارم اخلاق و کمال ِنفس للرسول ﷺ :

نبی اکرم ﷺ ایسے جمال خلق اور کمال خلق سے متصف تھے جو احاطہ بیان سے باہر ہے اس جمال وکمال کا عالم و اثر یہ تھا کہ لوگوں کے دل آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم اور قدرو منزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہو جاتے تھے چنانچہ آپ ﷺ کی حفاظت اور اجلال وتکریم میں لوگوں نے بھی ایسی ایسی فداکار و جانثار ی کا جواز وثبوت پیش کیا جس کی مثال اس دنیا فانی میں کہیں نہیں ملتی ، نہ ہی اس دنیا فانی کی کسی شخصیت کےپیش ہو سکتی ہے آپ ﷺ کے رفقاء اور ہم نشین وار فتگی کی حد تک آپ ﷺ سے محبت کا پیش کرنے سے کبھی نہیں کتراتے تھے انہیں گورا نہ تھا کہ آپ ﷺ کو کوئی خراش تک آجائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی
کیوں نہ چلی جائیں اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادۃً جن کمالا ت پر جان وار کی جاتی ہے ان کمالات سے جس قدر حصہ آپ ﷺ کو عطا ہو اتھا کسی اور کو نہ ہوا تو میں اپنے مضمون کو سمیٹتے ہوئے ان اوصاف و اخلاق رسول اکرمﷺ کا ذکر کرتا ہوں جنکا ہمار امعاشرہ بڑی شدّت سے پیاسا ہے ۔

1 نبی اکرمﷺ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق:

باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنی رسالت و محبوبیت اور حسنِ اخلاق سے نوازا تھا اور آپ ﷺ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف فرمادئیے تھے آپﷺ عبادت میں سب سے زیادہ کوشاں اور اسکے سب سے زیادہ شائق و مشتاق تھےچنانچہ صحابی رسولﷺ مغیرۃ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ نماز میں قیام کی حالت میں اتنی دیر تک کھڑے رہے کہ آپ ﷺ کے قدم مبارک پر ورم آگیا عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ کے تواگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے گئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں اپنے رب کا فرمانبردار بندہ نہ بنوں؟(بخاری )
سیدنا ابو ذرغفّاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوئے ایک ہی آیت میں صبح کردی وہ آیت ِ مبارکہ یہ تھی۔

اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (المائدۃ:118)

’’اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔‘‘
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آپﷺ کو حا لتِ نماز (قیام اللیل ) میں دیکھنا چاہتا تو دیکھ سکتا اور اگر کوئی نیند میں دیکھنا چاہتا تب بھی دیکھ سکتا ۔
2 آ پﷺ کے سامنے دنیا کے مال ومتاع کی اہمیت اور اس سے آپ ﷺ کی بے رغبتی :
جہاں تک درہم ودینار اور دنیا کے مال ومتاع کا تعلق ہے الفاظ کا بڑے سے بڑا ذخیرہ او اعلیٰ درجہ کی قادر کلامی بھی آپ ﷺ کی نگاہ میں اس کی حیثیت کو مکمل طور پر واضح نہیں کرسکتی اسی لئےکہ آپﷺ کے ایمانی اور ربّا نی مدرسہ کے بوریہ نشین اور عرب و عجم میں ان کے شاگردوں کے شاگرداور خوشہ چیں بھی درہم و دینارخزف ریزوں کو ٹھیکروں سے زیادہ وقعت نہیں دیتے تھےانکی زاہدانہ زند گی متاع الدنیا کی بے وقعتی دوسروں پر اپنا مال خرچ کرنا  اور اس کا شوق اور دوسروں کو اپنے اوپرہر معاملے میں ترجیح دینے کا شوق و ذوق قدر کفاف پر قناعت،اور شاہ بے نیازی و استغناء کے جو واقعات تاریخی طور پر ثابت ہیں ان سے عقلِ انسان حیران و عاجز آجاتی ہےاسی سلسلے کی کڑی میں چند روایات کا ذکر کرتا ہوںجو صحابہ کی زبان مبارک سےہم تک پہنچیںآپﷺ کا ما ثور شہرت کا حامل شعر جس پر آپﷺ حرف باحرف عامل تھے اور جو آپ ﷺ کی پوری حیات کا اہم ہی نہیں بلکہ مرکزی نقطہ نظر اور محور تھا وہ یہ ہے۔

اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الآخِرَهْ

اے اللہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، مزید آپﷺ کی حیات ِ مبارکہ کے بارے میںسیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کو ایک چٹائی پر اس حالت میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے پہلو میں اس چٹائی کے نشانات پڑ گئےیہ منظر دیکھ کر ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا ـــ’’ یا رسول اللہ ﷺ آپ ساری دنیا میں سب سے زیادہ بڑھ کر برگزیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقرّب ترین بندوں میں ہیں اور کسری اور قیصر عیش کررہے ہیں یہ سن کر نبیﷺ کا چہرہ انور سرخ ہو گیا اور آپﷺ نے فرمایا اے ابنِ خطاب !کیا تمہیں کچھ شک ہے؟پھر آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دنیا میں ہی سارے مزے مراتب مہیا کردیے گئے ہیں۔
امّ المو منین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اہل ِ بیت محمدﷺ کو ایک چاند گزر کر دوسرا چاند نظر آجاتا اور ہمارے گھر میں چولھا نہیں جلتا تھا صرف کھجور اور پانی پر ہی گزر بسر ہوتا  تھا ۔(متفق علیہ )
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اکرمﷺ سے کسی چیز کاسوال کیا گیا ہو اور آپﷺ نے اس کے جواب میں نہیں کیا ہو ۔
3 خلقِ خدا کے ساتھ آپ ﷺ کا اخلاق
لیکن اس ذوقِ عبادت ، دنیا اور سامان ِ دنیا سے بے تعلقی ، کمال زید ، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ،اس کے سامنے آہ و زاری اور دعا ومناجات سے آپ ﷺ کی خندہ پیشانی حسنِ اخلاق شفقت و ملاطفت دلداری و دلنوازی اور ہر شخص کو اس کا حق جائز دینے اور اس کے مرتبہ و حیثیت کے مطابق سلوک کرنے میں کوئی فرق نہ آنے دیتے اور دونوں باتیں ایسی ہیں کہ ان کو اسی طرح کسی شخص کے اندر ایک وقت میں جمع کرنا محال ہے چنانچہ آپﷺ فرماتے ہیں:

 لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا وَلَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا

جو میں جانتا ہوں اگر وہ تم جان لو تو تم لوگ بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔(صحیحین)
سیدنا شرید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے امیّہ بن الصلت  کے اشعار سننے کی فرمائش کی چنانچہ میں نے انکو اس کے اشعار سنائے آپﷺ نے ایک مرتبہ اپنے نواسے حسن بن علی کو بلایا اور وہ دوڑتے ہوئے آئے اور آپ ﷺ کی گود مبارک میں گر پڑے اور پھر آپ ﷺ کی ریش  مبارکہ میں اپنی انگلیوں کو ڈالنے لگے اور اس کے بعد رسول اکرمﷺ نے اپنا دہن مبارک کھولدیا اور وہ اپنا منہ آپ ﷺ کے دہنِ مبارک میں ڈالنے لگے آپ ﷺ بچوں پر بہت مشفق و مہربان تھے اور ان سے بہت ہی محبت کا معاملہ فرماتےچنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ کا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو کھیل کودکر رہے تھے آپ ﷺ نے انکو سلام کیا ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ کو جو وعظ و نصیحت فرماتے تھے وہ وقفوں کے ساتھ ہوتی تھی اس خیال سے کہیں کہ کہیں ہمارے اندر اکتاہٹ ، سستی اور کاہلی نہ آجائے نماز سےاس تعلق اور شگفتگی کےباوجود آپ ﷺ اگر کسی بچے کا روناسن لے تو نماز مختصر فرما دیتے آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہوتاہوں اور چاہتا ہوں کہ طویل نماز پڑھوں گامگر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس خیال سے نماز مختصر کر دیتاہوں کہ کسی ماں کو دشواری اور تکلیف نہ ہو ۔(صحیح البخاری کتاب الصلاۃ)
4فطرت میں اعتدال اور سلامت ذوق
اللہ تعالی نے آپ ﷺ کوجس اعلی درجہ کے اخلاق اور اعلی وعظیم درجہ کی طبعی و خلقی کمالات سے نواز اتھا وہ آنے  والی نسلوں کے لیے معراج کمال ہےاسکو ہم اعتدال فطرت ،سلامت ذوق شعور اور توازن و جامعیت اور افراط و تقریظ سے تعبیر کرسکتے ہیں چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جب دو کاموں میں سے کسی ایک کام کو ترجیح دینی ہوتی تو ہمیشہ اس کو اختیار فرماتے جو آسان ہو تا بشرطیکہ اس کام میں گناہ کا شبہ نہ ہو اگر اس کام میں گناہ کا شبہ ہوتا تو آپ ﷺ اس سے دور وبعید ہوجاتے ۔(صحیح مسلم)
آپﷺ تکلفات ،ضرورت سے زیادہ زید اور نفس کے جائز حقوق سے رو گردانی سے بہت دور تھے چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کر تے ہیں کہ آپ ﷺ  نے فرمایا دین آسان ہے اور جو بھی دین سے زور آزمائی کرے گا دین اس پر غالب آجائے گا اس لیے میانہ روی  اور اعتدال کے ساتھ رہو اور چلو ،قریب کے پہلو کے ساتھ رعایت کرو اور صبح و شام کسی قدر تاریکی شب کی عبرت سے تقویت حاصل کرو ۔(بخاری کتاب الایمان)
آپ ﷺ نے فرمایا ٹھر اتنا ہی کرو جتنا کرنے میں تمہارے پاس طاقت اور قوت ہے اس لیےکہ اللہ کی قسم اللہ تعالی تو نہیں تھکے گا بلکہ تم ہی تھک جاؤ گے ۔سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالی کو کون سا دین سب سے زیادہ محبوب ہے آپ مﷺ نے فرمایا سہولت وآسان اورخلوص والا دین ابرہیمی ۔(الادب المفرد 18)

5آپ ﷺ کا اخلاق اپنے اہل عیال کے ساتھ:

آپ ﷺ گھر میں عام انسانوں کی طرح ہی رہتے تھے اور جیساکہ خود آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ ﷺ اپنے کپڑوں کو خود صاف فرمالیتے تھے اور بکریوںکا دودھ بھی دوہ لیا کرتے تھے اور اپنا کام خود سر انجام دیتے آگے فرماتی ہیں کہ اپنے کپڑوں میں پیوند لگالیتے تھے جوتا گانٹھ لیتے تھے اور اسی طرح کےاور کام بھی کرلیتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ اپنے گھر میں کس طرح رہتے تھے تو انہوں نے فرمایا آپ ﷺ گھر کے کام کاج میں لگےرہتے تھے جب نماز کا وقت آتا تو نماز کے لیے چلے جاتے ۔(بخاری کتاب الصلاۃ)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی کھانے میں عیب نہیں نکالااگر خواہش ہوتی تو تناول فرمالیتے اگر پسند نہ ہوتا تو چھوڑدیتے ۔ (متفق علیہ)
6آپ ﷺ کی تواضح اور انکساری
اور جہاں تک تعلق تواضح و خشیت الہی کا ہے تو وہ آپ ؔﷺ کے اندر انتہاء درجے کی تھی اور آپ کسی چیز میں نمایاں ہونا نہیں چاہتے تھے او ر نہ ہی آپ ﷺ اس چیز کو اچھا جانتے تھے کوئی آپ ﷺ کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ ﷺ کا استقبال کرے اور آپ ﷺ کی مدح و تعریف بیا ن کر نے میں مبالغہ سے کام لے جیسا کہ پہلی امتوں نے سابقہ انبیا ء کےساتھ کیا اور آپ ﷺکو عبدیت اور رسالت کے درجے سے بلند کرے ۔
آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ ’’یا خیر البریۃ ‘‘( اے مخلوق میں سب سے بہتر وافضل) توآپ ﷺ نے فرمایا ’’ذاک ابراہیم علیہ السلام‘‘ یہ مقام ومرتبہ ابراہیم علیہ السلام کا ہے۔ (مسلم کتاب الفضائل)
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :میری اس طرح بڑھ کر تعریف و توصیف نہ کرو جس طرح نصاری ٰنے سیدنا عیسی ابن مریم کی کے ساتھ کیا ، میں تو صرف ایک بندہ ہوں تم مجھے اللہ کا بندہ اوراس کارسول کہو۔(بخاری)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی لونڈیوں اور باندیوں میں سے آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور جو کچھ کہنا ہوتا ،کہہ دیتی اور جتنی دور چاہتی لے جاتی ۔ جو کہ اخلاق النبیﷺ کی عظیم مثال ہے ۔(مسند احمد 198)
7مشکلوں اور مصیبتوں میں آگے آگے :
مشکلوں اور مصیبتوں میں آگے آگےجبکہ انعام و اکرام میں پیچھے پیچھے اپنےاہل عیال ،اہل بیت کےساتھ مستقل معاملہ اور اصول یہ تھا کہ جو آپ ﷺ سے جس قدر قریب ہوتا آپ خطرات اور آزمائشوں میں اس قدر آگے  اور انعام اکرام میں اور مال غنیمت کی تقسیم کے وقت انکو پیچھے رکھتے جس کی مثال ہمیں بدر کے مقام پر ملتی ہے جب عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور خالد بن ولیدنے بدر میں قریش کو للکار ااور اور مبارز طلبی کی تو آپﷺ نےحمزہ ،علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم کو چنا اور انکو آواز دی اور مقابلہ بازی کے لیے بھیجا حالانکہ آپ ﷺ مکہ کے شہسواروں کی حیثیت اور اہمیت سے خوب واقف تھے مہاجرین میں متعدد ایسے بہادراور جری شہسوار موجود تھے جو ان سے دو دو ہاتھ کرسکتے تھے مگرابن ہاشم کے تینوں افراد وہ (حمزہ ،علی اور عبیدہ رضی اللہ عنہم )جو خونی رشتہ میں سب سے زیادہ آپ ﷺ سے مقریب تھے اور آپ ﷺ کو عزیز و محبوب بھی تھے لیکن آپ ﷺ نے انکو اس خطرہ سے بچانے کے لیے دوسرے حضرات (صحابہ)کو خطرات میں نہیں ڈالا اور انہیں مقابلہ بازی کےلیے بھیجا اوراللہ تعالی نےان تینوں کو دشمن پر غالب کر دیا اور فتح عطا فرمائی اور سیدنا علی، سیدنا حمزہ صحیح سالم لوٹے جبکہ سیدہ عبیدہ رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں واپس لایا گیا ۔
آپ ﷺ نے جب سود کو حرام اور جاہلیت کے خون کو کالعدم قرار دیا تو اس کی ابتداء اپنےچچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اوراپنے بھتیجے ربیعہ بن الحارث کے فرزندسے فرمائی چنانچہ حجۃالوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :زمانہ جاہلیت کا سود آج سے ختم اور کالعدم ہے اور پہلا سود جو میںختم کرتا ہوں وہ ہمارے ہاں عباس کا ہے اور زمانہ جاہلیت کا خون بھی کالعدم ہے اور وہ ہمارے ہی یہاں کا ربیعہ بن حارثہ کے فرزند کا خون ہے۔ (مسلم کتاب الحج بروایت جابر رضی اللہ عنہ )
اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مشہور واقعہ جب آپ ﷺ کے پاس کچھ باندیاں آئی تو سیدہ فاطمہ کا درخواست کرنا اور آپ ﷺ کا جواباًانکو اللہ کی تسبیح و تحمید وتکبیر کامشورہ دینا اس بات کی ایک عظیم مثال ہے کہ انعام و اکرام میں سب سے پیچھے پیچھے ہونا اور اپنے اہل عیال کو پیچھے پیچھے رکھنا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
8نرم خو، تحمل اور برد باری
رسول اللہ ﷺ مکارم اخلاق ،نوازش ،نرم خو اور تواضح میں سارے انسانیت کے امام و پیشواہیں چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم:4)

’’اور بیشک تو بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہے۔ ‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا

أَدَّبَنِي رَبِّي فَأَحْسَنَ تَأْدِيبِي (فیض القدیر:1262)

’’میرے رب نے میری تربیت بہترین فرمائی ہے ۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

إِنَّ اللہَ بَعَثَنِي لِتَمَامِ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ، وَكَمَالِ مَحَاسِنِ الْأَفْعَالِ (شرح السنہ مشکوۃ المصابیح 5770)

’’اللہ تعالی نے مجھے مکارم اخلاق و کمال محاسن کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپﷺ کےاخلاق کے  بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کیا خوب جواب دیا :

 كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (صحیح مسلم )

’’آپ ﷺ اخلاق میں قرآ ن کا مجسم نمونہ تھے ۔‘‘
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ اس وقت نجران کی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے راستے میں ایک اعرابی آپ ﷺ کو ملا اور آپ ﷺ کی چادر مبارک پکڑ کر زور سے کھینچنے لگاجس کی وجہ سے نشان پڑ گئے پھر اس اعرابی نے کہا ۔یا محمد ! اللہ کا جو مال آپ کے اصحاب کے پاس  ہے وہ مجھے دینے کا حکم دیجیے آپ ﷺ نے اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور ہنسنے لگے پھر یہ ہدایت کی کہ اس کو مال دے دیا جائے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہا د)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ایک بار مکہ سے 80مسلح آدمی ’’جبل تنعیم‘‘سے اچانک وارد ہوئے اور دھوکے میں رکھ کر آپ ﷺ کو گذند پہنچانہ چاہا آپ ﷺ نے ان سب کو  قیدی بنالیا اور ان کو  زندہ رہنے دیا ۔(مسلم کتاب الجہاد والسیر )
سیدنامعاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑ ھ رہا تھا کہ اچانک ایک شخص کو چھینک آئی میں نے کہا ’’یر حمک اللہ ‘‘ لوگ سن کر مجھے گھورنے لگے میں نے کہاتمہاری ماں تم پر روئےآخر کیا ہوا ہے کہ تم مجھے ایسی تیز نگاہو ں سے گھو ر رہے ہو یہ سن کر لوگ اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرنا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا جب رسول اللہ ﷺ نماز سےفارغ ہوئے ،تو میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ،میں نے نہ آپ ﷺ سے پہلے آپکی طرح کوئی مربی اور معلم دیکھا اور نہ آپ کے بعد !اللہ کی قسم نہ آپ ﷺ نے مجھے ڈانٹا ،نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا بس یہ فرمایا کہ نماز میں عام انسانی گفتگو مناسب نہیں ہوتی ،نماز صرف تسلیم و تکبیر اور تلاوت کےلیے ہے۔ (مسلم باب

تحریم الکلام فی الصلاۃ )

9آپ ﷺ کا حیا ء شجاعت اور دلیری
جہاں آپ ﷺ کے حیا کا تعلق ہے اس بارے میںسیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء دار اور پا کیزہ تھے جب آپ ﷺ پر کوئی چیز ناگوار گزرتی تو اس پر آپ ﷺ کا چہرہ انور سے صاف ظاہر ہوجاتا تھا ( بخاری کتاب المنقب،باب صفۃ النبی ﷺ )
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسین و جمیل سب سے زیادہ سخی و فیاض اور شجاع اور بہادر تھے ایک رات اہل مدینہ خوف زدہ ہوگئے کہ جس طرف سے آواز آتی وہ لوگ اس طرف رخ کرلیتے ،راستے میں رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لاتے ہوئے انکو ملے آپ ﷺ آواز سن کر ان سب سے پہلے وہاں تشریف لے گئے آپﷺ فرماتے چلے جارہے تھے کہ ڈرو نہیں دُور نہیںاور آپ ﷺ اس وقت سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑےپر سوار تھے جس پر زین بھی نہ تھا تلوار آپ ﷺ کے شان (کندھے) سے لٹک رہی ہے تھی آپ ﷺ نے گھوڑے کی تعریف فرماتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اس کو سمندر کی طرح رواں اور تیز رفتار پایا ۔(الادب المفرد بروایت صحیحین )
غزوہ احد اور حنین میںجب بڑے بڑے بہادر اور جگر دار تتر بتر ہوگئے تھے اورمیدان خالی تھا اس وقت بھی آپ ﷺ نے اپنےخچر پر اسی طرح سکون اور ثابت قدمی کےساتھ اپنے مقام پر موجودتھے معلوم ہوتا ہےکہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی آپ ﷺ پر رجز (قول) بھی پڑھتےجارہے تھے :

أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ
أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ

میں نبی ہوںیہ کوئی جھوٹی بات نہیں میں عبد المطلب کا فرزند ارجمند ہوں۔(بخاری ،کتاب الجہاد والسیر باب من وصف اصحابہ عند الھزیمہ و نزل عن دابۃ واستنصر،293)

شفقت اور محبت

اس شجاعت و بہادری کے باوجو د نرم دل و لہجہ تھے آپ ﷺ کی آنکھیں بہت جلد نم اور اشکبار ہو جاتیں کمزور اور بے زبان جانوروں کےساتھ بھی اپ نرمی کا حکم فرماتے چنانچہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چیز کے ساتھ اچھا معاملہ  اور نرم برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے اگر قتل بھی کرو تو اچھی طرح کرو ،ذبح بھی کرو تو اچھی طرح کرو تم میں سے جو ذبح کرناچاہتا ہے وہ اپنی چھری اچھی طرح تیز کرلے اور اپنے ذبیحہ کو آرام دے ۔(صحیح مسلم )
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت کو صرف اس بات پر
عذاب دیا گیا کہ اس نے اپنی بلی کو کھانا و پانی نہیں دیا اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ حشرات الارض (زمین کے کیڑے مکوڑوں پر گزارا کر سکے)ہی سے اپنا پیٹ بھر لے۔ (امام نووی بروایت مسلم )
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو تم کھاتےہو وہی ان کو کھلاؤ جو تم پہنتے ہو وہی انکو پہناؤ او ر اللہ تعالی کی مخلوق کو عذا ب میںمبتلا نہ کرو جن کو اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت کیا ہے تمہارے خادم ، تمہارےبھائی او ر مدد گار بیلی ،جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو اسے چاہیےکہ خود جو کھاتا ہے وہ ہی اس کو کھلائے جو خود پہنتا ہوں وہ اسے پہنائے اس کے سپرد ایسا کام نہ کرو جو انکی طاقت سے باہر ہو اگرایسا کرنا ہی پڑے توانکا ہاتھ بٹاؤ۔ (صحیح البخاری سنن أبي داؤد)
کامل عالمگیر اور لازوال نمونہ
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
رسول اللہ ﷺ کےکامل عالمگیر اور لافانی نقش حیات آپ ﷺ کی جامعیت و کاملیت اور تمام طبقات انسانی نیز ہر ماحول و زمانہ اور ہر پیشہ ومشغلہ غرض ہر قسم کے حالات اور ہر سطح و معیار کے لیے آپ ﷺ کی کامل و جامع اسوہ حسنہ نہایت احسن وواضح انداز میں تشریح کی جسارت کرتا ہوں اللہ تعالی قبول و منظور فرمائے۔ (آمین)
درِ خرمنِ کائنات کردیم نگاہ
یک دانہ محبت است باقی ہمہ کاہ
یہ باتیں بغیر کسی مبالغہ کے پیش کی گئی کہ سیرت النبی ﷺ کو انکی کوئی ضرورت نہیں انکا جمال قلب جہاں آراقلب ودفاع کو مو ہنے اور متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ ایک ایسی شخص پاکیزہ زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہراور ہر قسم کے پاکیزہ و صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا نمونہ ہے ومجموعہ صرف وصرف محمد الرسول اللہ ﷺ کی زندگی اور آپ کی سیرت مطہرہ ہے اگر تم دولت مند ہوتو مکہ کے تاجر او ر بحرین کے خزانہ دار کی تقلید کرو اگر تم غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو اگر تم واعظ و ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو اگر تم تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کے منادی کافریضہ انجام دینا چاہتےہو تو مکہ کے بے یاروں مددگار نبی کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے اگر تم بادشاہ ہو تو تم سلطان عرب کا حال پڑھو اگر تم رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھ لو اگر فاتح ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالار پر نگاہ ڈالو اگر تم نے شکست کھائی تو معر کہ احد سے عبرت حاصل کرلو اور اگر تم استاد ومربی اور معلم ہو تو صفہ کے درسگاہ کے معلم ومربی اعظم کو پڑھو اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں اور مخالفین کو مزید کمزور بنانا چاہتےہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو اگر تم اپنے کاربار اور دنیاوی جہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر ،خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو اور اگر تم یتیم ہو تو عبداللہ اور آمنہ کے جگر گوشے کو نہ بھلاؤ اگر تم بچے ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلےکو دیکھو اور اگر تم جوان ہو تو مکہ مکرمہ کےایک چرواہے کی سیرت پڑھو اور اگر تم سفری کاروبار میں ہو تو بصری کے کارواں سالار کی مثالیں ڈھونڈو اگر تم عدالت میں قاضی اور جج کے منصب پر فائز ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کی سیرت کو پرکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک کونے میں نصب کر رہا ہے مدینہ کے کچی مٹی کےصحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا امیر وغریب سب برابر اور اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہ وعائشہ رضی اللہ عنہما کے پاکیزہ شوہر کی حیات مبارکہ کا مطالعہ ضرور کرو، اور اگر تم اولاد والے ہوتو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے مکرم نانا کی طرف نظریں دوڑاؤ، غرض تم کچھ بھی ہو اور کسی حال میں ہی کیوں نہ ہو تمہاری زندگی کے لیے وہی بہترین نمونہ ہیں ۔
اس لیے طبقات انسانی کے ہرطالب کو چاہیے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے اور اپنانے میں ہمہ وقت استعداد وکوشش میں لگا رہے جو کہ وہی صرف اور صرف نجات اور اللہ جل شانہ کے غضب سے بچنے کا حل اور نمونۂ خیر ہے اور یادرہے کہ رسو ل اللہ ﷺ کی سیرت وحیات مبارکہ اور اخلاق واعمال دنیا کا سب سے بڑا بازار ہے جہاں پر جنس وصفت کے خریداروں اور ہر شے کے طلبگاروں کے لیے ہمہ وقت اپنی زندگی کو سنوارنے کے لیے بہترین سازوسامان موجود ہے ۔ ( خطبات مدراس96،98از سید سلمان ندوی)

آخرت میں عرض کرتا چلوں :

تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے