تعارف:

آزادی اظہار رائے کا حق انسان کے بنیادی حقوق میں سے ہے یہ حق بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے دستور نے اس حق کی حفاظت کی ضمانت دی ہے خواہ عملی طور پر اس حق کی آزادی دی گئی ہو یا نہیں۔اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے جس نے سب سے پہلے اس حق کو تسلیم کیا اور ہر پیروکار پر لازم قرار دیا کہ وہ حق کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار اداکرے۔ حتی کہ جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کو جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔

تاریخ اسلام کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ مسلمانوں نے سچ اور حق بات کہنے میں کسی ظلم و جبر کی پروا نہیں کی خواہ اس کے لیے انہیں جان و مال کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اورخلفائے راشدین کا دور آزادی اظہار رائے کا مثالی دور رہا ہے ایسا دور جب عام آدمی بھی خلیفہ وقت سے نہ صرف دل کی بات کہہ سکتا تھا بلکہ بھری مجلس میں اسے ٹوک سکتا تھااحتساب کرسکتا تھا اور خلیفہ وقت کو اسی مجلس میں جوابدہی کرنا ہوتی تھی۔ آزادی اظہار رائے کا یہ روشن دور آئندہ آنے والی نسلوں ، جمہوری اداروں اور ذرائع ابلاغ عامہ کےلیے تابندہ مثال ہے۔ آیئے جائزہ لیں کہ خلفائے راشدین کے دور میں اظہار کی آزادی کی صورت حال کیسی تھی۔

آزادی اظہار رائے خلفائے راشدین کے عہد میں:

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:

آپ کا اصل نام عبد اللہ تھا کنیت ابو بکر اور صدیق لقب تھا۔ آپ کے والد کا نام عثمان اور ماں کا نام سلمیٰ تھا۔ آپ کی ولادت 573 میں ہوئی۔ آپ کا عہد خلافت 2 ربیع الاول سن 11 ہجری سے لے کر 21 جمادی الاول سن 13 ہجری یعنی 2 سال 3 ماہ 19 دن پر محیط ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے۔ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق دیرینہ اور جانثار ساتھی تھے آپ کی زندگی عاجزی اور انکساری کا مثالی نمونہ تھی۔ آپ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی آپ کادامن قناعت تقویٰ اور عمل صالح کی دولت سے مالامال تھا۔ جب آپ خلیفہ بنے تو آپ نے نہ صرف امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین کی بلکہ لوگوں کو دعوت احتساب بھی دی۔ آپ نے اپنے خطبہ خلافت میں حق تنقید و اختلاف رائے کے اظہار کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا’’میں بشر ہوں اور آپ لوگوں میں کسی ایک سے بھی بہتر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے اگر آپ دیکھیں کہ میں ٹھیک کام کر رہا ہوں تو آپ میرے ساتھ چلیں اور اگر دیکھیں کہ میں بھٹک رہا ہوں تو مجھے ٹوک دیجئے۔(۱)

آپ کے دور میں آزادی اظہار رائے کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص خلیفہ وقت یا حکام بالا کے بارے میں رائے کا اظہار کر سکتا تھا مثلاً سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کی ذمہ داری سونپنے سے پہلے عوام اور جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے و مشورہ لینا مناسب سمجھا اور انہوں نے اپنی واضح اور دو ٹوک رائے دی چنانچہ انہوں نے عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور ان سے پوچھا ’’عمر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ‘‘ عبدالرحمن : آپ رضی اللہ عنہ ان کے بارے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں؟ ابوبکر: اس کے باوجود میں تمہاری رائے معلوم کرنا چاہتاہوں؟ عبدالرحمن: عمر اس سے بہتر ہیں جیسا کہ آپ ان کو سمجھتے ہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے سیدنا عثمان غنی کو بلا کر انکی رائے مانگی تو انہوں نے کہا میں کیا بتاؤں آپ ان کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں جب ابو بکر صدیق نے اصرار کیا تو وہ بولے عمر کا باطن ان کے ظاہر سے بہتر ہے اور وہ ہم سب سے اچھےہیں۔ ابو بکر صدیق: خدا کی تم پر رحمت ہو اگر تم یہ رائے نہ دیتے تو میں تم کو ہی خلیفہ بناتا، ان دو کے علاوہ سیدنا ابو بکر صدیق نے چند دوسرے مہاجر و انصار صحابہ سے بھی رجوع کیا تو انہوں نے عمر فاروق کے حق میں رائے دی۔ (۲)

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی نرم خو طبیعت کے مالک تھے آپ نے مسلمانوں کے معاملات اور خلافت کے منصب کو نہایت خوش اسلوبی اور ذمہ داری سے پورا کیا آپ کے خطبات میں آج کے حکمرانوں اور عہدہ دار ان کے لیے سنہری اصول موجود ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے اس کا حق نہ دلاؤں اور تم میں سے قوی ترین شخص میرے نزدیک کمزور ہے حتی کہ اس سے دوسروں کا حق نہ لے لوں۔(۳)

سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اورحکومت کے مخالفین سے ہمیشہ نرمی اور عفوودرگزر سے کام لیا۔ آپ نے کبھی کسی کے ساتھ سختی یازیادتی نہ ہونے دی آپ کا دور حکومت شخصی آزادی اور حریت فکر کا سنہری دور تھا۔ جھوٹے نبیوں کی بیخ کنی اور منکرین زکوٰۃ سے جہاد آپ کے اہم کارنامے ہیں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

آپ کا اصل نام عمر اور لقب فاروق تھا۔ آپ کے والد کانام خطاب بن کفیل تھا جو قبیلہ عدی کے سردار تھے والدہ کا نام خنتمہ تھا ۔آپکا عہد خلافت 22جمادی الثانی سن 13 ہجری سے لے کر 27 ذوالحجہ سن 23 ہجری یعنی 10 سال 6 ماہ اور 4 دن پر محیط ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد آپ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ بنے آپ کی شجاعت، عدل و انصاف قناعت و بردباری اور معاملہ فہمی قابل ستائش تھی آپ گفتار و کردار میں اللہ کے برہان تھے آپ کے قبول اسلام کی دعا پیغمبر الٰہی صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی جو مستجاب ہوئی۔ آپ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کو تقویت ملی اور دین اسلام کی تبلیغ میں وسعت اور ہمہ گیری پیدارہوئی آپ کا دور مسلمانوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا۔ جبکہ ہر شخص سر عام خلیفہ وقت کا محاسبہ کرسکتا تھا۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں آزادی اظہار رائے کا یہ عالم تھا کہ ایک آدمی راہ چلتے یا بھری محفل میں برسر منبر جہاں چاہتا آپ کو ٹوک سکتا تھاآپ سے اپنی شکایت بیان کر سکتا تھا آپ کا مواخذہ کرسکتا تھا اور آپ اظہار رائے کی اس روح کو بیدار رکھنے کے لیے ہمیشہ شکایت کنندہ کی بات پر پوری توجہ دیتے اس کو کوئی دوسرا درمیان میں ٹوکتا تو آپ سخت ناراض ہوتے اور کہنے والے کو پوری بات کہنے کا موقع دیتے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے اور اسکی شکایت پر فوری کاروائی عمل میں لاتے۔ (۴)

آپ کے دور حکومت میں بسا اوقات ایسا ہوا کہ عام آدمی نے آپ سے سخت لہجے میں باز پرس کی مگر آپ نےکبھی اس کا برا نہ منایا مثلا سیدنا عمر فاروق ایک بار امت کو قوت احتساب کا جائزہ لینے کی خاطر فرمایا ’’ اگر میں بعض معاملات میں ڈھیل اختیار کر دوں تو تم کیا کروں گے؟ سیدنا بشیر بن سعد کھڑے ہوئے تلوار نیام سے کھینچ کر کہاـ ہم تمہارا سر اڑا دیں گے۔‘‘ سیدنا عمر فاروق نے ڈان کر کہا کیا میری شان میں تو یہ الفاظ کہتا ہے انہوں نے کہا ہاں تمہاری شان میں، سیدنا عمر فاروق نے خوش ہو کر کہا ’’ الحمد للہ ‘‘ قوم میں ایسےلوگ موجود ہیں کہ میں کج ہو جاؤں تو وہ سیدھا کر دیں گے۔(۵)

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور اسلام کی عظمت دعوت و تبلیغ اور اظہار رائے کی آزادی کا روشن دور تھا۔ آپ نے اعلان کر رکھا تھا کہ جب کسی کو کوئی ضرورت ہو یا ظلم کیا جائے یا میری کسی بات پر ناراض ہو تو مجھے اطلاع کرے میں بھی تم ہی میں سے ایک فرد ہوں۔(۶)

آپ مسلمانوں کے درویش صفت خلیفہ تھے۔ اگرچہ آپ کی سخت مزاجی مشہور تھی مگر اختلاف رائے رکھنے والوں کی بات آپ ہمیشہ صبر وتحمل سے سنتے اور رائے قرآن وسنت کے مطابق ہوتی تو فورا اس پر عمل درآمد کرتےاور یہ نہ دیکھتے کہ رائے دینے والا کوئی بڑا آدمی ہے یا چھوٹا، عورت ہے یامرد مثلا سیدنا عمرفاروق نے حق مہر کو کم کرنے کا قانون بنایا اور ممبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سے اس کا اعلان کیاایک عورت جو اس مجمع عام میں موجود تھی اس نے سوچا کہ اس قانون سے تو عورتوں کے حقوق متاثر ہوں گے۔ اس نے مجمع عام میں اپنی رائے کا کھلم کھلا اظہار کیا اس نے کہاعمر تمہیں یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ عورتوں کے حقوق میں کمی کرو۔ خدا کا تو یہ حکم ہے کہ اگر تم ایک بڑاخزانہ بھی حق مہر میں دے چکے ہو تو اسے واپس نہ لو۔ سیدنا عمرفاروق اس خاتون کےاظہار رائے سے متاثر ہوئے اور سمجھے کہ ان کی رائے کے مقابلے میں اس عورت کی رائے صائب اور قرآن کی روح کے مطابق ہے انہوں نے اپنا بنایا ہواقانون واپس لے لیا اور عورت کی رائے کے مطابق عمل کیا۔ (۷)

آپ نے عوام کو جوآزادی دے رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر طرف امن و امان اور بھائی چارے کا دوردورہ تھا اسلامی سلطنت ترقی کر رہی تھی فتوحات کا سلسلہ وسیع ہو رہا تھا اور قرب و جوار کے ممالک کے لوگ آپ کی سیرت و کردار اور عدل و انصاف کی وجہ سے قبول اسلام کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ شام اور مصر میں رومی شہنشاہیت کا چراغ گل ہوگیا اور ایران کی بادشاہت ختم ہوگئی اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ نے عوام کو شخصی آزادی دے رکھی تھی اور لوگ اپنے دل و ضمیر کی بات برملا اور ہر وقت خلیفہ وقت کے سامنے کر سکتے تھے۔محمد صلاح الدین عہد فاروقی کا ایک بصیرت افروز واقعہ لکھتے ہیںایک خاتون راہ چلتے آپ پر برس پڑیںاور بولیں عمر تمہارے حال پر افسوس ہے میں نے تمہارا وہ زمانہ دیکھا ہے جب تم عمیر کہلاتے تھے اور لاٹھی لئے دن بھر عکاظ میں بکریاں چراتے پھرتے تھے اس کے بعد میں نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب تم عمر کہلانے لگے اور اب یہ زمانہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ امیر المؤمنین بنے پھرتے ہو رعایا کےمعاملے میں اللہ سے ڈرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرے گا اور آخرت کے بعید عالم کو اپنے آپ سے بالکل قریب پائے گا اور جس کو موت کا ڈر ہوگا وہ ہمیشہ اسی فکر میں رہے گا کہ اللہ کی دی ہوئی کوئی فرصت رائیگاں نہ جائے جارودعیدی جو سیدنا عمرفاروق کے ساتھ تھے یہ تقریر سن کوبولے آپ نے امیر المؤمنین کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے سیدنا عمر فاروق نے انہیں فورا ٹوکا اور فرمایا یہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں انہیں کہنے دو تمہیں شاید علم نہیں کہ یہ خولہ بنت حکیم ہیں ان کی بات تو اللہ تعالیٰ نے ساتھ آسمانوں کے اوپر سے سنی تو عمر کی کیا ہستی ہے کہ ان کی بات نہ سنے۔ (۸)

تاریخ اسلامی میں سیدنا عمرفاروق ایک سخت گیراور انصاف پسند حکمران کی حیثیت سے معروف ہیں لیکن آپ کی یہ سختی ظالموں کےلیے تھی آپ ہر مظلوم کی داد رسی کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ نے ہر خاص و عام کو جرات اظہار دے رکھی تھی۔ آپ کا دور خلافت آزادی رائے کے بے شمار قابل تقلید واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ایک دفعہ (سلمان فارسی) نے سیدنا عمر جیسے جاہ و جلال اور شان و شوکت رکھنے والے خلیفہ کا خطبہ جمعہ مجمع عا م میں ممبر رسول پر سننے سے انکار کردیا تھا اور حق اظہار رائے کے استعمال سے مطالبہ کیاتھا کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ آپ کے بدن پر جو نیا چغہ ہے یہ کہاں سے آیا ہے تمام مسلمانوں کو ایک ایک یمنی چادر حصے میں ملی ہے ایک چادرسے آپ کے لمبے بدن پر اتنا چغہ پورانہیں آسکتا آپ نے اضافی کپڑا کہاں سے لیا؟ سیدنا عمر فاروق نے اپنے بیٹے عبداللہ کو جواب دینے کو کہا جس نے بتایا کہ اس نے اپنا حصہ اپنے باباکو دے دیا تھا انہوں نے اپنے اور میرے حصوں سے یہ چغہ سلایا اس سے بدو کو اطمینان ہوا اور سیدنا عمر نے خطبہ جاری کیا نہ سیکورٹی گارڈ نے روکا نہ مجمع نے ٹوکا اور نہ قانون توہین خلیفہ حرکت میں آیا مگر آزادی اظہار رائےکے ان جیسے واقعات نے معاشرے کو جو قوت استحکام امن و سلامتی اوراخوت و مساوات کی لازوال دولت عطاکی وہ انمول تھی۔ (۹)

آپ نے اپنے عہد خلافت میں کسی پر جبراً زیادتی نہکی کسی کی زبان بندی نہ کی بلکہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی کسی بات کو اپنی شان میں گستاخی قرار نہیں دیا بلکہ احتساب کو عوام کا حق قراردیا۔ ایک شخص نے سرراہ آپ کو مخاطب کرکے کہا ’’ عمر اللہ سے ڈرو اس نے یہ جملہ کئی بار دہرایا اس پر کسی نے ٹوکا چپ رہ تو امیر المؤمنین کو یہ کچھ کہہ سنایا سیدنا عمر فاروق نے فورا مداخلت کرتے ہوئے فرمایا اسے مت روکو یہ لوگ اگر ہم سے ایسی بات کہنا چھوڑ دیں تو پھر ان کا فائدہ ہی کیا ؟ اور اگر ہم ان کی باتوں کو قبول نہ کریں تو ہمیںبھلائی سے عاری سمجھنا چاہیے اور بعید نہیں کہ یہ بات اپنے کہنے والے پر ہی چسپاں ہو جائے۔ (۱۰)

آپ کے دور میں اگر کسی ادنیٰ سے ادنیٰ شخص کو بھی کسی گورنر سے شکایت ہوتی تو آپ فورا کاروائی کا حکم دیتے۔ سیدنا سعد بن عبادہ نے آپ کی بیعت نہ کی مگر آپ نے کچھ نہیں کہا عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، ابو موسیٰ اشعری اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابی اور گورنروں کے خلاف سیدنا عمر فاروق نےکھلے اجلاس میں شکایات سنیں اور داد رسی بہم پہنچائی۔(۱۱)

آپ نے پیغام رسانی کا شعبہ اور پولیس کا نظام قائم کیا بیت المقدس کو فتح کیا اس کے علاوہ عراق، اردن، مصر اور ایران تک کا علاقہ آپ کے عہد خلافت میں اسلامی مملکت میں شامل ہوا۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ:

آپ کا نام عثمان اور لقب غنی تھا۔آپ کے والد کا نام عفان بن أبی العاص اور والدہ کا نام اروی بنت کریز تھا آپ قریش کی سب سے بڑی شاخ امیہ سے تعلق رکھتے تھے جوکہ ایک مقبول اور طاقتور قبیلہ تھا آپ نے حساس دل زندہ ضمیر سیر چشم اور دریا دل انسان تھے۔ آپ کا عہد خلافت یکم محرم 24 ہجری سے لے کر 18 ذوالحجہ 35 ہجری یعنی 11 سال 11 ماہ اور 17 دن پر محیط ہے۔ سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ اور داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے آپ عفوودرگزر سخاوت اور شرم و حیا کے پیکر تھے آپ نے ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کو سہولتیں بہم پہنچائیں۔ آپ کے دور سے کبھی کوئی خالی ہاتھ واپس نہ گیا آپ نے ہمیشہ مظلوموں کی داد رسی کی اور مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ منکسر المزاجی آپ کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک ایک مرتبہ مجمع عام میں فرمایا تھا کہ اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہو یا ظلم کرنے کا دعویٰ ہو تو میں حاضر ہوں اگر چاہے تو مجھ سے بدلہ لے لے اور اگر چاہے تو معاف کردے۔ (۱۲)

سیدنا عثمان غنی اللہ کاخوف رکھنے والے دردمند انسان تھے آپ ہر معاملے میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی تھے آپ نے 29 ہجری میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توسیع فرما کر اسے دعوت تبلیغ کا مرکز بنادیا۔آپ کے عہد میں مخالفتوں نے جنم لیا مخالفین آپ کی نرم مزاجی کی وجہ سے سازشوں پر کمر بستہ ہو گئے مگر آپ نے پھر بھی شخصی آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ آپ نے کبھی سخت رویہ اختیار نہ کیا اگرچہ آپ کا عہد حکومت کم تھا مگر آپ نے کوشش کی کہ ہر مظلوم کی داد رسی ہو سکے۔ آپ نے ہمیشہ سیاسی اختلافات کو بات چیت سے طے کرنیکی کوشش کی۔ سیدنا عثمان نےتو سیاسی اختلاف کے اظہارکی اتنی کھلی چھوٹ دی کہ مخالفین کو طاقت سے کچلنے یا انکی زبان بندی کرنے پر اپنی جان دینے کو ترجیح دی۔(۱۳)

غرض آپ کا دور حکومت اختلافات اور اظہار رائے کی آزادی کا بے مثال دور ہے۔ آپ نے سب کی عزت نفس کا خیال رکھا اختلافات کے باوجود اپنے مخالفین سے کوئی زیادتی نہ کی۔ آپ نے ہمیشہ دوسروں کی عزت و احترام کا پورا خیال رکھا آپ نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ان میں حفاظت قرآن کا کارنامہ سر فہرست ہے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ:

آپ کا نام علی کنیت ابو تراب اور لقب اسد اللہ تھا۔ ماں کا نام فاطمہ اور والد کا نام ابوطالب تھا۔ آپ نے بچپن ہی سے سایہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں پرورش پائی آپ کے عہد خلافت 24 ذوالحجہ 35 ہجری سے لے کر 17 رمضان سن 40 ہجری یعنی 4 سال 7 ماہ اور 23 دن پر محیط ہے۔ آپ بہادری شجاعت اور علم و عرفان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپ ایک مفتی عالم اور فقیہہ کی حیثیت سے ممتاز تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ اور داماد رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ آپ نے اوائل عمری ہی میں اسلام قبول کیا ہے آپ بے پناہ خود اعتمادی قوت ارادی اور شجاعت کے مالک تھے دنیا سے بے نیازی و رغبتی میں آپ بلند مقام پر فائز ہیں آپ کا سینہ علم و حکمت کا سفینہ تھا سیدنا علی کے تعلقات اپنے پیش رو تینوں خلفائے راشدین سے نہایت خوشگوار تھے، چاروں یاران رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپس میں رحماء بینھم کی عملی تصویر تھے۔ سیدنا علی کی ذہانت و فطانت مثالی تھی آپ بلا کے معاملہ فہم تھے آپ کا دور عدل وانصاف کا مثالی دور تھا جس میں ایک عام آدمی کی طرح خلیفہ وقت کو عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔ مثلا ایک مشہور واقعہ ہے کہ سیدنا علی نے ایک نصرانی کو بازار میں اپنی زرہ فروخت کرتے دیکھا تو کہا یہ میری ہے۔اس کے انکار پر مقدمہ قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوا سیدنا علی کوئی شہادت پیش نہ کرسکے چنانچہ فیصلہ نصرانی کے حق میں سنا دیا گیا اور خود سیدنا علی نے اسے قبول کرتے ہوئے فرمایا شریح تم نے ٹھیک فیصلہ کیا فیصلہ سن کر نصرانی حیران زدہ ہوگیا اور بولا: یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے کہ امیر المؤمنین کو عدالت میں آنا پڑتا ہے اور انہیں اپنے خلاف فیصلہ بھی سننا پڑتا ہے حقیقت یہ کہ زرہ امیر المؤمنین کی ہے یہ ان کے اونٹ سے گر گئی تھی میں نے اٹھالی۔ (۱۴)

آپ کے دور میں خوارج کی سازشیں اور فتنہ انگیزیاں عروج پر تھیں مگر آپ نے پھر بھی انہیں طاقت سے نہ دبایا۔ سیدنا علی نے خوارج کو جو تحریری پیغام بھجوایا اس میں صاف لکھا تھا کہ تم کو آزادی ہے جہاں چاہو رہو البتہ ہمارے اور تمہارے درمیان یہ قرارداد ہے کہ ناجائز طور پر کسی کا خون نہیں بہاؤ گے بدامنی پیدا نہیں کروگے اور کسی پر ظلم نہیں ڈھاؤ گے۔ (۱۵)

سیدنا علی کے عہد حکومت میںخارجی آپ کو برا بھلا کہتے قتل کی دھمکیاں دیتے اور ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتے مگر آپ نے انکے طرز عمل کا برا نہ منایا اور انکی زبان بندی نہ کی نہ انہیں گرفتار کیا اور نہ جیل کے اندھیرے دکھائے حالانکہ مخالفین آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔وہ اعلانیہ آپ کو گالیاں دیتے تھے قتل تک کرنے کی آپ کو دھمکیاں دیتے تھے مگر ان باتوں پر جب ان کو پکڑا گیا تو آپ نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنی حکومت کے افسروں سے فرمایا کہ جب تک وہ باغیانہ کاروائیاں نہ کریں محض زبانی مخالفت اور دھمکیاں ایسی چیز نہیں جن کی وجہ سے ان پر ہاتھ ڈالا جائے۔ (۱۶)

غرض تمام خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عوام کے حق تنقید اور آزادی اظہار کو مقدم رکھا اور کبھی عوام الناس پر بے جا پابندیوں اورظلم و جبر سے کاروبار حکومت چلانے کی کوشش نہیں کی یہی وجہ ہے کہ خلفاء راشدین کا دور خلافت نیکی و شرافت ایثار و قربانی آزادی رائے اور عدل و انصاف کا مثالی اور روشن دور ہے یہ مثالیں صرف خلفائے راشدین کے دور تک محدود نہیں بلکہ انکی جھلک ہمیں مسلمانوں کی تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیںوہ دور خواہ عمر بن عبدالعزیز کا ہو یا حجاج بن یوسف کا عباسی خلیفہ ہارون الرشیدکا دور ہو یا برصغیر پاک و ہند میں جلال الدین اکبر کے عہد میں مجدد الف ثانی کی حق گوئی و بے باکی کا تذکرہ ہو۔ غرض مسلمانوں کے اندر جب تک خوف خدا اور قرآن وحدیث سے اکتساب نور کی روایت باقی رہے گی آزادی اظہار رائے کی شمع روشن رہے گی۔

حوالہ جات:

(۱)۔ سیدنا ابو بکر صدیق کے سرکاری خطوط(ڈاکٹر خورشید احمد فارق) ناشر: ادارہ اسلامیات لاہور

(۲)۔ سیدنا ابو بکر صدیق کے سرکاری خطوط(ڈاکٹر خورشید احمد فارق) ناشر: ادارہ اسلامیات لاہور

(۳)۔ اسلام کا قانون صحافت(ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی) ناشر: بک ٹاک لاہور

(۴)۔ بنیادی حقوق(محمد صلاح الدین) ناشر: ادارہ ترجمان القرآن لاہور

(۵)۔ الفاروق(مولانا شبلی نعمانی) مدینہ پبلیشنگ کراچی

(۶)۔ عمربن خطاب(طنطاوی مترجم عبدالصمد صارم) مطبوعہ البیان لاہور

(۷)۔ مضمون: اسلام میں اظہار رائے کا تصور(ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ) روزنامہ جنگ راولپنڈی یکم مارچ

(۸)۔ بنیادی حقوق(محمد صلاح الدین) ناشر: ادارہ ترجمان القرآن لاہور

(۹)۔ مضمون :آزادی رائے کی اہمیت(محمد صلاح الدین) نوائے وقت راولپنڈی

(۱۰)۔ کتاب الخراج(قاضی ابویوسف)مطبوعہ چراغ راہ کراچی

(۱۱)۔ اسلام کا قانون صحافت(ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی) بک ٹاک لاہور

(۱۲)۔ اسلامی ریاست(مولانا گوہر رحمٰن)المنار بک سنٹر لاہور

(۱۳)۔ بنیادی حقوق(محمد صلاح الدین) ناشر: ادارہ ترجمان القرآن لاہور

(۱۴)۔ تہذیب تاریخ جلد ششم(ابن عساکر) مطبوعہ دمشق

(۱۵)۔ اسلامی ریاست(امین احسن گیلانی) مکتبہ جماعت اسلامی لاہور

(۱۶)۔ تفہیمات جلد چہارم(سید مودودی) ناشر: ادارہ ترجمان القرآن لاہور.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے