اس ایک عنوان میں دو موضوعات پنہاں ہیں۔ ایک ’’برائی‘‘ اور دوسرا ’’احساس‘‘۔ موضوع کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے ان دونوں کا علیحدہ علیحدہ بیان کرنا ضروری ہے۔ ’’برائی‘‘ ہر اس عمل کو کہتے ہیں ‘ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی نافرمانی میں کیا جائے، یعنی وہ اُمورجن سے منع کیا گیا ہے‘ کا ارتکاب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’جو شخص برا عمل کرےگا‘ اس کی سزبھگتے گا اوروہ کسی کو نہ پائے گا‘ جو اس کی حمایت اور مدد اللہ کے پاس کرسکے۔‘‘ (النساء:123)
اس موضوع کا دوسرا حصہ ’’احساس ‘‘ہے۔ یعنی لائق ِ حس۔ محسوس کرنا۔ احساس کا تعلق صرف زندوں کے ساتھ ہے؛ اس لئے کہ مردہ بے حس ہوتا ہے۔ احساس کرنے کیلئے زندہ ہونا ضروری ہے، جبکہ بے حس ہونے کیلئے مردہ ہونا کافی ہے۔
اب ہم اس موضوع کے عنوان کو اس طرح مکمل سمجھ سکتے ہیں۔ ’’ہمیں برائی کا احساس کرنے کیلئے زندہ ہونا ضروری ہے، بے حسی مردہ ہونےکی علامت ہے۔‘‘ اگر چاہیں تو شاعر کے الفاظ میں یوں بھی سمجھ سکتے ہیں:
زندگی‘ زندہ دلی سے ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں!
یہ بات مسلمہ ہے کہ انسانی زندگی ’’زندہ دلی‘‘ ،یعنی حرکت ِ قلب سے وابستہ ہے۔ حرکت ِ قلب بند ہوگئی تو انسان مردہ ہوجاتا ہے۔ یہ جملہ ہم اپنی زندگی میں کتنی ہی مرتبہ سن اور پڑھ چکے ہونگے کہ ’’فلاں حرکت ِ قلب بند ہونے سے انتقال کرگیا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العالمین اور اس کے پیارے پیغمبرﷺ نے بھی انسان کی ایمانی حیات بھی اسی ’’حرکت ِ قلب ‘‘ کو قرار دیا ہے۔ دل اگر احکاماتِ الٰہیہ پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے میں متحرک ہے تو بندے کا ایمان زندہ ہے۔ اور اگر انسان کا دل اسے برائی سے روکنے کی صلاحیت سے محروم ہے تو یقیناً وہ شخص ’’مردہ دل ‘‘ اور ’’بے حس‘‘ کہلائے جانے کا ہی مستحق ہے۔
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’کیا انہوں نے زمین میں سیر و سیاحت نہیں کی کہ ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے اور کان ان واقعات کو سننے والے ہوتے، حقیقت یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ (الحج:46)
اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ کا مزید فرمان ہے: ’’اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کیلئے پیدا کئے ہیں ‘ جن کے دل ایسے ہیں‘ جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے، یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔ ‘‘ (الاعراف:179)
مذکورہ دونوں آیاتِ مبارکہ میں اللہ سبحانہ ٗ وتعالیٰ نے صاحب ِدل ہوتے ہوئے ’’بے دل‘‘ لوگوں کا ذکر کیا ہے، یعنی وہ صاحب ِ حس ہونے کے باوجود ’’بے حس‘‘ ہیں، آنکھوں والے اندھے اور کانوں والے بہرے ہیں۔ بلاشبہ ایسے لوگ ’’جانور‘‘ بلکہ جانوروں سے بھی کمتر ہیں، اس لئے کہ جانور ان نعمتوں کے استعمال سے یکسر قاصر ہیں، جبکہ اللہ نے انسان کو دل میں فقاہت جیسے عظیم نعمت سے نوازا ہواہے، مگر انسان اس نعمت ِ کبریٰ سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنے آپ کو جاہل ِمطلق بنائے ہوئے ہے۔
اب ہم وہ اسباب ذکر کریں گے ‘جو ایسے لوگوں کو ’’بے حسی‘‘ اور ’’بے دِلی‘‘ کی ایسی دَلدلی، متعفن اور اَسفل منزل تک پہنچاتے ہیں کہ جہاں جانور بھی انسان سے افضل قرار پاتا ہے۔
1-کثرتِ گناہ:
گناہوںکی کثرت انسان کی حسِ قلبی کو معدوم کردیتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ گناہ کی اس گھٹن اور طبعی کراہیت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے‘ جسے وہ ابتداء میں اپنے دل میں محسوس کرتا تھا۔ انسان جب پہلے پہل گناہ کی دلدل میں اُترتا ہے تو اس میں ایک حیا ہوتی ہے، جھجھک اور عار ہوتی ہے، مگر جتنا وہ اس دَلدل میں دھنستا جاتا ہے اس کی وہ شرم اور احساسِ گناہ کا جذبہ ختم ہوتا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ گناہ اس کی ایسی ’’مجبوری‘‘ بن جاتا ہے کہ جس سے نکلنے کی وہ کوئی راہ نہیں پاتا۔
مثال کے طور پر کوئی شخص جب پہلی مرتبہ چوری کرتا ہے، رشوت لیتا ہے، کرپشن کرتا ہے، شراب پیتا ہے، زنا کرتا ہے، یا کسی بھی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کو ایک بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتا ہے، ہاتھ اس گناہ کی طرف بے تکلفی نہیں دکھاتے، زمین قدم پکڑ لیتی ہے، ہر شخص گھورتا ہوا محسوس ہوتا ہے، زبان لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوتی ہے اور جسم پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ وہی شخص گناہ کرتے ہوئے ضمیر کے بوجھ سے آزاد، بے حیائی کا مرقع، ظلم پر دلیر، زبان کا بے لگام اور نفسانی خواہشات کی تسکین کا درندہ بن جاتا ہے۔ یہ مثالیں تقریباً ہر شعبۂ زیست کا لاحقہ ہیں۔
اللہ خالق ِ کائنات نے ہر انسان کے دو ’’نفوس‘‘بنائے ہیں۔ 1- نفس ِ امارہ۔ 2- نفس ِ لوامہ۔ ’’نفس ِ امارہ ‘‘کا کام برائی پر آمادہ کرنا ہے، اس کیلئے راستے نکالنا اور سہولیات کو تلاش کرنا ہے۔ اس کے برعکس ’’نفس ِ لوامہ‘‘ کا کام نیکی پر اُبھارنا، اس کے طریقے تلاش کرنا اور چلنے پر راضی کرنا ہے۔
ہر شخص جب برائی کرنے لگتا ہے تو اس کے دل میں ہر دو طرح کے احساسات اُبھرتے ہیں۔ ایک یہ کہ گناہ کرلوں، کون دیکھ رہا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ نہ کروں، کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ان دونوں کے درمیان کشمکش جاری رہتی ہے، یہاں تک کہ یا تو انسان گناہ کرلے یا پھر اس کا ارادہ مکمل ترک کردے۔
اگر اس نے ’’نفس اَمارہ‘‘ کی بات مانی اور گناہ کرلیا تو اس نے جنت والے راستے کو چھوڑ کر جہنم کی راہ کو اختیار کرلیا اور اگر اس نے ’’نفس لوامہ‘‘ کی بات مانی تو جہنم کے راستے کو خیرباد کہہ کر جنت کی حسین شاہراہ کا راہی بن گیا۔ ان دونوں نفوس کا ذکر اللہ رب العالمین نے سورۃ یوسف: 53 اور سورۃ الشمس :10-7 میں کیا ہے۔ اس دلدل سے نکلنے کی صرف ایک ہی راہ ہے۔ اور وہ ہے: بشری تقاضے کے تحت ہوجانے والے کسی بھی گناہ پر اس کے ارتکاب کے فوری بعد اشک ِ ندامت، توبہ اور آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم صمیم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کربیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں، فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی گناہوں کو بخش بھی نہیں سکتا اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اَڑ نہیں جاتے۔ انہی کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔ ان نیک کام کرنے والوں کا ثواب بہت ہی اچھا ہے۔ ‘‘ (آلِ عمران: 135)
گناہ انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اصلاً وہ شخص برا نہیں ہے، جس سے بشری تقاضے کے تحت گناہ سرزد ہوگیا۔ اصل برائی اس گناہ کے اِعادے اور اسے اپنی عادت بنالینے میں ہے۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بنی آدم تمام کے تمام خطا کار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہے‘ جو توبہ کرلے۔ ‘‘ (سنن ترمذی: 2499)
اس حدیث میں توبہ کرنے والے شخص کو ’’بہترین خطا کار‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ مطلب وہی ہے کہ گناہ فطری ہے، مگر اس پر اصرار اور عادت غیر فطری ہے۔
یہ بات اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بھی بیان فرمائی ہے:

اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَي اللّٰهِ لِلَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰۗىِٕكَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلَيْھِمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا

’اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے‘ جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں، پھر جلد ہی اس سے توبہ کرلیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔اوراللہ تعالیٰ بڑے علم والا اور حکمت والا ہے۔‘‘ (النساء:17)
توبہ اور استغفار سے انسان کا دل شگفتہ ،منور اور کندن بن جاتا ہے۔ اس کی حیا، جھجھک اور احساسِ گناہ ہمیشہ باقی اور زندہ رہتا ہے؛ لہٰذا گناہ کے بعد فوری توبہ کریں، اشک ِندامت کو اپنی آنکھوں کا موتی بنائیں اور اپنے خالق و رازق کی طرف رجوع کرکے اپنے غلطی تسلیم کرتے ہوئے آئندہ نہ کرنے کا عزم کریں۔
2-گناہوں پر فخر:
آج کل ایک بہت بڑی برائی ‘جو ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے ، حالانکہ وہ کسی بھی معاشرے کیلئے زہر ِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ مسلم معاشرے کیلئے تو مکمل تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ اور وہ ہے ’’گناہوں پر فخر‘‘۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں تہذیب ِ مغرب کی یلغار کی صورت میں گناہ کو ’’فیشن ‘‘ کا رنگ دیدیا گیا ہے۔ ’’مسلم‘‘ نوجوان اب گناہوں پر اَشک شوئی کے بجائے فخر کرتے ہیں، عذابِ الٰہی سے ڈرنے کے بجائے اِتراتے اور شرمندہ ہونے کے بجائے بے حیا بن چکے ہیں۔
اس کی کئی مثالیں ہمارے ’’مسلم‘‘ معاشرے میں زیر ِ گردش ہیں۔ مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا موبائل اور انٹرنیٹ پر خفیہ دوستیوں کا چلن؛ حالانکہ یہ زنا اور حرام ہے۔ تعجب یہ ہے کہ اس گناہِ کبیرہ میں مبتلا لوگ مزعومہ احساسِ تفاخر میں مبتلا ہونے کے ساتھ اس سے ’’محروم‘‘ لوگوں کو نگاہِ حقارت سے بھی دیکھتے ہیں۔ یا پھر ایسے مبتلائے گناہ کے ساتھ رہنے والا لڑکا ازخود احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔
داڑھی کا مکمل صفایا، یا پھر مختلف انگریزی اور ہندی اسٹائل کی کٹنگ اور اس پر اِترانا اور اپنے آپ کو ’’خوبصورت‘‘ سمجھنا؛ حالانکہ داڑھی نہ صرف تمام انبیاء علیہم السلام کی مستقل سنت ہے ، بلکہ ہمارے آخری نبی، حبیب ِکبریاء ﷺ کا عمل اور باقاعدہ حکمی اور تاکیدی سنت بھی ہے۔ ہر روز یا چند دنوں میں اس سنت ِمطہرہ کو گندی نالیوں میں بہانا اور پھر مختلف اسٹائلز سے اسے اپنے چہرے پر سجا کر اپنے آپ کو’’حسین‘‘ تصور کرنا، کیا نادانستہ طور پر یہ الزام نہیں ہے کہ تمام انبیاء بالعموم اور اللہ کے آخری نبی علیہم السلام بالخصوص (نعوذباللہ) خوبصورت نہیں تھے؟ یا داڑھی بدصورتی کی علامت ہے اور اللہ خالق و مالک نے قرآن میں (نعوذباللہ) غلط کہا ہے کہ ہم نے انسان کو احسن شکل و شباہت میں پیدا کیا ہے؟ اور کیا داڑھی بگاڑنے والا اپنے آپ کو ان سب سے زیادہ خوبصورت بنانا چاہتا ہے؟ حد تو یہ ہے کہ لوگ سنت کی پیروی میں داڑھی رکھنے والے شخص کو ’’مولوئیت‘‘ کی گالی دیتے اورمختلف سے اسٹائلز سے سنت کی تضحیک کرنے والے کو ’’بابو‘‘ اور ’’صاحب جی‘‘ کی تکریم دیتے ہیں۔
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف احتجاج کرنے والے ذرا اپنے چہروں پر کھلی ہوئی گستاخی کی اس دکان کو بھی ذرا بند کریں۔
اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی پابند اور اُمہات المؤمنین رضی اللہ عنہنّ کی اتباع کرنے والی  باپردہ خواتین کو ’’قدامت پسند‘‘ اور ’’تاریک خیال‘‘ کہہ کر تذلیل کی جارہی اور احکاماتِ الٰہیہ و نبویہ کی تذلیل کرنے والی عورتوں کو ’’جدت پسند‘‘ اور ’’روشن خیال‘‘ کہہ کر تعظیم دی جارہی ہے۔ گھر میں رہ کر خاوند کی خدمت اور بچوں کی تربیت کرنے والی والی خواتین کو ’’قیدی‘‘ اور لوگوں کی نوکری کرنے اور بازاروںکی زینت بننے والی عورتوں کو ’’آزاد‘‘ کہا جارہا ہے۔ شلوار یا اَزار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا کبیرہ گناہ ہے، مگر سنت کے مطابق ٹخنوں سے اُوپر رکھنے والے گویا’’ پانی سے گزرنے والے‘‘ اور نیچے لٹکانے والے معاشرے کے ہم نوا !
آج ’’مسلم‘‘ نوجوان لڑکے،لڑکیاں، بلکہ پوری فیملی نہ صرف پوری آب و تاب سے سج دھج کر سینما میں فلم دیکھنے جاتے ہیں، بلکہ واپسی پر اس فلم کے کردار اور ڈائیلاگز سے متأثر ہوکر عین اسی طرح کا عمل دھرانا اپنے لئے باعث ِ فخر سمجھتے ہیں۔ والدین نہ صرف انہیں داد دیتے، بلکہ خاندان اور دوست واحباب میں ان کے اس طرح کے کارناموں کا دلچسپی سے تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ جو لوگ اس وقت تک اس گناہ سے محفوظ تھے انہیں بھی اس کے مختلف مناظر کی تعریف کرکے وہی گناہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ محض چند مثالیں ہیں۔
اس کے علاوہ مزید کچھ ایسے معاملات ہیں‘ جو براہِ راست حقوق العباد سے متعلق ہیں اور ان میں بھی آج کے مسلمان انتہائی غیرذمہ دارانہ طرزِ عمل کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر فی زمانہ شادی ہو یا میت، گلیوں، سڑکوں اور راستوں کو بند کردینا وَباءکی صورت اختیار کرچکا ہے، پھر ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری آواز سے فحش گانے یا نوحے بجاکر اہل محلہ کو مزید ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ ملکی ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، غلط سمت سے آنا، غلط پارکنگ کرنا، حد ِرفتار سے تیز گاڑی چلانا وغیرہ تو عام سا فیشن بن چکا ہے۔ ہنگاموں میں لوگوں کی املاک کو آگ لگانا، راستوں پر ناجائز قبضے کر کے پتھارے یا تجاوزات لگانا، دکانداروں کا اپنی دکان کے سامان کو اپنی حدود سے باہر نکالنا ، لوگوں کو اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے ڈرانا اور دھمکانا، دورانِ کلام گالیاں دینا، ہنسی مذاق میں بھی کثرت سے جھوٹ بولنا، تمسخر اڑانا، لوگوں کے مختلف برے القابات تجویز کرنا، الغرض اس طرح کے اور بے شمار کبیرہ گناہ ہیں‘ جو آج ہمارے ’’مسلم ‘‘ معاشرے کا لازمی جزء بن چکے ہیں اور لوگ انہیں اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور برائی کا احساس بھی انہیں ذرہ برابر چھو کر نہیں گذرتا۔
ایسے تمام لوگ یاد رکھیں کہ اللہ کے نبی ﷺ کا انہی جیسے لوگوں کے بارے میں واضح فرمان ہے کہ : ’’میری پوری امت کی معافی ہو سکتی ہے، سوائے گناہ پر فخر کرنے والوں کے، رات کو آدمی کوئی گناہ کرتا ہے، باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ پر پردہ ڈالدیتا ہے، مگر وہ لوگوں کواز خود بتادیتا ہے کہ میں نے رات کو فلاں فلاں گناہ کیا ہے اور وہ اللہ کے اس گناہ پر پردے کو کھول دیتا ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری: 6069)
یہ ایک مجموعی انجام ہے جو ان گناہوں پر فخر کرنے والوں کا ہے، ان کے ارتکاب کردہ انفرادی گناہ کا انجام اس کے علاوہ ہے۔ شریعت ِاسلامیہ نے ایسے لوگوں سے معافی جیسی عظیم رحمت ِخداوندی کو ہی اٹھا لیا ہے، اگر غور کیا جائے تو یہ بہت ہی بھیانک انجام کی طرف اشارہ ہے۔ قرآن میں شرک کرنے والوں کو ناقابل معافی مجرم ٹھہرایا گیا ہے اور حدیث میں گناہوں پر فخر کرنے والوں کو بھی۔ گناہوں کا معاف نہ ہونا، درحقیقت رحمت ِ الٰہی سے کلی دُوری کا اشارہ ہے، جبکہ جنت کا داخلہ بھی رحمت ِخداوندی کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ لہٰذا ہم اپنے طرزِ عمل پر غور کریں کہ ہمارا اس معاملے میں کیا کردار ہے؟
3-گناہ گاروں کی مسلسل صحبت:
اکثر لوگوں کی گمراہی کا ایک عام سبب صحبت ِ بد بھی ہے۔ ہم اکثر اخبارات اور میڈیا وغیرہ میں گرفتار ہونے والے خطرناک دہشت گردوں کے بیانات پڑھتے اور سنتے ہیں کہ : ہمیں ہمارے برے دوستوں کی صحبت نے اس کام پر لگایا۔ اس حوالےسے بھی دین اسلام نے ہمیں بڑے ہی واضح انداز میں  راہنمائی فراہم کی ہے۔ کاش ہم اس پر غور و فکر کریں۔
نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’نیک مصاحب کی مثال ، عطر فروش کی طرح ہے، اگر وہ تمہیں خوشبو ہدیہ نہیں کرےگا، تب بھی اس کی خوشبو سے تو تم مستفید ہوگے، برے ساتھی کی مثال بھٹّی بھڑکانے والے کی طرح ہے، اگر وہ کپڑوں کو سیاہ نہیں کرےگی ، مگر اس کا دھواں ضرور پہنچےگا۔ ‘‘ (ابوداؤد: 4829)
مزید فرمایا: ’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر شخص یہ ضرور دیکھے کہ اس کا دوست کون ہے؟‘‘ (ابوداؤد: 4833)
مزید فرمایا: ’’نہ تم دوست بناؤ، مگر صرف مومن کو ہی اور تمہارا کھانا نہ کھائیں مگر صرف نیک و پرہیزگار ہی۔‘‘ (ابوداؤد: 4832)
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں بڑے ہی عبرتناک انداز سے دنیا کے گہرے دوستوں کی قیامت کے دن کی کیفیت بیان فرمائی ہے:
’’اس دن متقین کے سوا تمام جگری دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔‘‘ (الزخرف: 67)
مزید ارشاد ہوا: ’’اور جس دن ہر ظالم اپنے دونوں ہاتھ دانتوں سے کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا : اے کاش! میں رسول کے ساتھ راہ اختیار کرتا۔ اے میری کم بختی! کاش! میں فلاں (شخص) کو دوست نہ بناتا۔ بلاشبہ اس نے میرے پاس ذکر (قرآن) آجانے کے بعد مجھے (اس سے) بہکا دیا اور شیطان انسان کو (مصیبت میں) بے یار و مددگار چھوڑدینے والا ہے۔‘‘ (الفرقان:27)
مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ بری دوستی کا انجام صرف دنیا تک ہی محدود نہیں، بلکہ آخرت کے برے انجام کا پیش خیمہ بھی ہے؛ لہٰذا ابھی سے اپنے دوستوں اور دوستیوں پر نظر ِ ثانی کرکے برے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں اور نیک ، مومن اور متقی لوگوں سے دوستیاں بڑھائیں۔ ورنہ ہر دوجہاں کا انجام ایسے ہی ہوگا جیسے اس شعر میں ہے؎
دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے            وہ جارہا ہے کوئی، شب ِغم گزار کے!
4-گناہ کی لذت:
یہ بات مسلمہ ہے کہ گناہوں کی اپنی ایک لذت ہوتی ہے، اگرچہ جزء وقتی ہی سہی اور یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ اس لذتِ گناہ کا ذکر اللہ رب العزت نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’شیطان نے ان کے (برے) اعمال ان کیلئے مزین کردیئے۔‘‘ (النحل: 63)
مزید ارشاد فرمایا: ’’لوگوں کیلئے خواہشاتِ نفس کی محبت مزین(پرکشش) کردی گئی ہے۔‘‘ (آل عمران: 14)۔
اس طرح کے جملے عام طور ہم اپنے لوگوں سے سنتے ہیں کہ ’’آؤ! فلم دیکھیں بڑا مزا آئے گا۔‘‘ یا ’’میں نے فلاں لڑکی سے بات کی بڑا مز ا آیا۔‘‘ یا ’’فلاں کا ہم نے خوب مذاق اڑیا، بہت مزا آیا۔‘‘وغیرہ۔ اسی طرح زنا کرنے سے انسان کو لذت ملتی ہے، شراب پینے سے سرور پاتا ہے، گانے سننے سے سکون ملتا ہے۔ اسی طرح ہر گناہ کی ایک لذتِ کام و دہن ہے، مگر اس بات کو ہمیشہ کیلئے یاد رکھ لیں کہ اس طرح کی ہر لذت شیطان کی طرف سے ہے اور اس کا انجام بہت ہی بھیانک ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایاہے: ’’میں تجھ سے اور ان سب سے‘ جنہوں نے تیری پیروی کی‘ جہنم کو ضرور بھردوں گا۔‘‘ (ص:85)
مزید اس بات کو خوب اچھی طرح جان لیں کہ عارضی لذت پر دائمی لذت کو ہرگز قربان مت کریں، بلکہ دائمی لذت پر عارضی لذت کو قربان کریں۔ یہ سراسر حماقت ہے کہ بڑے منافع کو چھوٹے منافع کی خاطر داؤ پر لگا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس لذت میں مبتلا لوگوں کو ‘ جو توبہ نہیں کرتے قیامت کے دن دائمی لذتوں سے محروم رکھے گا۔نبی ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے دنیا میں شراب پی، پھر توبہ نہیں کی تو ایسے شخص کو قیامت کے دن (پاکیزہ)شراب سے محروم رکھا جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری: 5575)
لہٰذا دنیا کی ’’ام الخبائث‘‘ کو جنت کی شراباً طہورا پر یقیناً قربان کیجئے! دنیا کے حسن ِ فانی کو جنت کی حورٌ عین کے حسن لازوال پر ضرور وَار دیجئے! لیکن۔۔۔۔دنیا کی عارضی زندگی کو آخرت کی دائمی زندگی کے بدلے ہرگز فروخت مت کیجئے !
اب ہم ذیل میں ان وجوہات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں‘ جو مذکورہ چاروں عوامل کی موجودگی میں وجود پاتی ہیں۔ اور وہ دو ہیں:
1- نیکی سے کراہیت:
ان مبتلائے گناہ لوگوں کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ نیکی سے دور بھاگتے، بلکہ اس سے کراہیت محسوس کرتے ہیں۔ یہ جملے ہماری سماعتوں سے بکثرت ٹکراتے ہیں کہ ’’میرا نماز میں دل نہیں لگتا‘‘ یا ’’اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں سستی ہوتی ہے‘‘ وغیرہ۔ان کیلئے کئی کئی گھنٹوں تک فضول محفلیں سجا لینا آسان ہے، مگر دروس کی محفلوں میں چند لمحے گزارنا مشکل ہے، فلمو ںاور ہوٹلنگ پر پیسہ خرچ کرنا معمول ہے، مگر اللہ کی راہ میں چند روپے خرچ کرنا دشوار، رات رات بھر جاگ کر کرکٹ کھیلنے سےنہ تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ ہی نیند کا حرج، مگر نماز میں ذرا سے لمبے قیام اور معتدل رکوع سے کمر میں درد ہوجاتا ہے، گھنٹوں موبائل اور کمپیوٹر پر گیمز کھیلنے سے ہاتھوں اور آنکھوں میں درد نہیں ہوتا، مگر اسلامی کتابوں کا مطالعہ اور نکات درج کرنے سے انکھیں بوجھل اور ہاتھ سُن ہوجاتے ہیں، سنیما گھروں کا کئی گھنٹے پہلے سے ٹکٹ بک کروا کرجلدی پہنچیں گے، تاکہ جگہ اچھی ملے، مگر جمعہ کے وقت سب سے آخر میں آئیںگے، تاکہ کچھ سننا نہ پڑے ، الغرض اس طرح کے لوگوں کیلئے نیکی کرنا گویا جوئے شیرلانا اور گناہ کرنا گویا ناک سے مکھی اڑانا ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں نے ’’نفس اَمارہ ‘‘ کو اپنے اورپر غالب کرلیا ہے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ لوگ اپنا تزکیۂ نفس کریں۔ اور کثرت سے ذکر و اذکار اور پابندی سے نمازوں کی طرف توجہ دیں اور لغویات سے جس قدر ہو سکتا ہے، دور رہیں؛ اسلئے کہ یہ چیزیں دلوں کا زنگ اتارنے اور انہیں صیقل(صاف و شفاف) کرنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔
2- انجام سے غفلت:
نیکی سے کراہیت اعلیٰ درجہ کی بدبختی ہے۔ اور یہ صرف اسی انسان میں پیدا ہو سکتی ہے‘ جو درحقیقت اپنے اُخروی انجام کو فراموش کر بیٹھا ہو۔ انجام سے غفلت عملی اعتبار سےا نکارِ قیامت ہی ہے۔ انسان اپنی گناہ آلود زیست ِ لاحاصل میں اس قدر مصروفِ عمل ہوجاتا ہے کہ اسے یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ موت کب اس کے درِ حیات پر دستک کناں ہوچکی ہے، مگر جب تک اسے معلوم ہوتا ہے، بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
اسی بات کا نقشہ اللہ رب العالمین نے قرآنِ مجید میں ان الفاظ میں کھینچا ہے: ’’(اہل جنت بالا خانۂ جنت سے مجرموں سے سوال کریں گے کہ) تمہیں کس چیز نے جہنم میں ڈالا؟ وہ کہیں کہ : ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔ اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ اور ہم (فضول کاموں میں) مشغول ہونے والوں کے ساتھ مشغول ہوجاتے تھے۔ اور ہم روزِ جزاء کی تکذیب کرتے تھے؛ حتیٰ کہ ہمیں موت نے آلیا۔‘‘ (المدثر:47- 40)
یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ الماعون اور دیگر سورتوں میں بھی بیان فرمایا ہے۔ معلوم ہوا کہ دنیا کی بے مقصد اور گناہ آلود زندگی درحقیقت انسان کے اپنے قیامت کے دن کے برے انجام سے غفلت کا نتیجہ اور تکذیب ِ آخرت کا حاصل ہے؛ لہٰذا ہر وہ شخص‘ جو اپنے آپ کو مذکورہ برائیوں میں یا ان میں سے کسی ایک میں بھی مبتلا پاتا ہے‘ وہ ابھی سے ہی اپنی اصلاح کا سامان کرکے اپنے انجام کو شاہراہِ بہشت پر گامزن کرلے، وگرنہ جہنم کے دروازے تو کھلے ہیں ہی۔ اب آخر میں ہم اللہ کے نبی ﷺ کی ایک حدیث کے ساتھ اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان لو! 1- جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ 2- صحت کو بیماری سے پہلے۔ 3- مالداری کو فقیری سے پہلے۔ 4- فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔اور 5- زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ (سنن الکبریٰ للنسائی:11832 )

وماعلینا الاالبلاغ المبین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے