حذیفہ اور عائشہ بیٹا، جی بابا جان دونوں نے ایک آواز میں کہا۔ یہ آپ دونوں کے لئے تحفہ ہے ۔ بابا جان یہ کیا ہے؟ آپ خود دیکھیں پھر بتائیں۔ جنت کے حصول کی دعاؤں کا کارڈ، صرف جنت نہیں جنت الفردوس بیٹا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا! تم اللہ سے جنت الفردوس مانگو۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ الْجَنَّۃُ الْفِرْدُوْسَ ۔ اے اللہ ہمیں جنت الفردوس عطا فرما۔

بابا جان اس تحفہ کے لئے شکریہ ۔ اس کارڈ میں وہ ساری چیزیں ہیں جو ہمیں جنت میں لے جاسکتی ہیں۔ عائشہ ! حذیفہ نے کہا ! دیکھو یہ کتنی پیاری حدیث ہے۔ نبی مکرمﷺ نے فرمایا! یہ کلمہ

سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ

(سنن ابن ماجه (1/ 443)

’’ پاک ہے اللہ اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے‘‘

یہ کلمہ کہنا نبی اکرم ﷺکو ہر چیز سے محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ بھائی اس کا کیا مطلب: مطلب یہ عائشہ کے دنیا میں اور دنیا کی تمام چیزوں میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب کچھ یہ ایک کلمہ ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے اللہ کے نبی کو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کتنا پسند ہوگا۔

حذیفہ بھائی ! مجھے یہ حدیث بہت پسند آئی میں اس کو یاد کرونگی ان شاء اللہ! نبی اکرمﷺ نے سیدناعبد اللہ ابن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں۔ انہوں نے کہا ضرور بتائیں تو آپ نے فرمایا!وہ خزانہ کلمہ

لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (سنن ابن ماجه (2/ 1256)

’’ اللہ کے سواکسی کے پاس زور اور طاقت نہیں ہے ‘‘

حذیفہ ، عائشہ دیکھو آپ دونوں روز صبح و شام سو مرتبہ یہ کلمہ پڑھتے ہو نہ ’’ سبحان اللہ وبحمدہ ‘‘ ترجمہ اللہ پاک ہے ا ور اس کی تعریف ہے ۔ اس کی فضلیت کیا ہے ۔ جس نے ایک دن میں سومرتبہ یہ کہا اس کے تمام گناہ مٹادئیے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کے جھاگ کی مانند ہوں۔ الحمد للہ ! اللہ کی توفیق سے ہم یہ کرتے ہیں۔ میرے پیارے بچوں اللہ آپ کو استقامت دے۔ آمین۔ چلیں حذیفہ مغرب کے لئے مسجد چلتے ہیں۔ اور عائشہ آپ گھر میں اپنی امی جان کے ساتھ نماز پڑھیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے سیدھا پیر کیوں داخل کرتے ہیں بابا جان حذیفہ نے پوچھا۔ کیونکہ یہ سنت طریقہ ہے۔ آپ ﷺ ہر اچھی جگہ داخل ہوتے ہوئے دایاں پیر ہی داخل کرتے تھے۔

بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمُ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ

(مصنف عبد الرزاق الصنعاني (1/ 426)

’’ اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘

مغرب کی فرض 3رکعت ہوتی ہیں۔ سنت کتنی ہوتی ہیں بابا جان ! فرض کے بعد دو رکعتیں سنت موکدہ ہیں جو پڑھنا لازمی ہیں۔ لیکن جب ہم مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو لازمی ہے سب سے پہلے مسجد کی دور کعت ادا کریں یہ تحیۃ المسجد ہے ۔ یہ مسجد کا حق ہے۔ واپسی میں نکلتے ہوئے حذیفہ نے الٹا پیر باہر نکالا !

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ (السنن الصغير للبيهقي (1/ 189)

’’ اے اللہ میں آپ سے آپ کا فضل مانگتا ہوں‘‘

إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة: 156)

حذیفہ جلدی آؤ۔ادھر روڈ پر دیکھو ان بوڑھے بابا کو سائیکل والا ٹھوکر مارکر گرا کے چلا گیا ہے۔ جی بابا جان! کیا ہوا انکل آپ ٹھیک تو ہیں ۔ ہاں بیٹا میں بس روڈکراس کر رہا تھا ایک دم سائیکل والے سے ٹھوکر لگ گئی۔ آئیں میں آپ کو روڈ کر اس کرادوں۔ روڈ کر اس کرانے کے بعد حذیفہ اور اس کے والد گھر کی طرف مڑ گئے۔ شاباش بیٹا کسی مجبور بے کس کی مدد کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔ گھر آکر حذیفہ نے زور سے سلام کیا۔

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

(موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري (2/ 137)

وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ

عائشہ نے کہا۔

وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

( مسند أحمد ط الرسالة (20/ 62)

حذیفہ کی والدہ نے کہا۔ عائشہ بیٹا آپ کو جواب دینے سے 20 نیکیاں مل گئیں اور آپ کی امی کو 30 کیوں بابا جان مجھے 30 کیوں نہیں۔ بھئی ایک دفعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ آئے انہوں نے کہا ۔ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ تو جواب دینے والے نے جواب دیا وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے لئے دس نیکیاں ہیں پھر دوسرا کوئی آیا اس نے کہا السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ آپ نے فرمایا اس کے لئے 20نیکیاں ہیں پھر ایک اور کوئی آئے انہوںٍ نے کہا السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ تو آپ نے فرمایا اس کے لئے 30 نیکیاں ہیں تو اسی طرح آپ نے 20 اور آپ کی امی نے 30 نیکیاں کما لیں۔

اچھا اب آئندہ کبھی بھی میں 30 سے کم نہیں کماؤنگی ۔ ان شاء اللہ ! ان شاء اللہ سب نے کہا۔ چلو حذیفہ عشاء ہونے والی ہے ہم مسجد چلتے ہیں بابا جان مجھے تھکن ہورہی ہے اب یہ گھر میں پڑھ لیتا ہوں نہیں بیٹا مسجد میں نماز فرض ادا کرنا باجماعت 27 درجے زیادہ اجر ملتا ہے اور جو اپنا دل مسجد سے لگاتا ہے تو اللہ اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا۔

اللہ کے عرش کا سایہ ، کیا اس دن اور کوئی سایہ نہیں ہوگا؟ نہیں اچھے عملوں کا سایہ ہوگا بس یا اللہ کے عرش کا سایہ اور اس دن کتنی گرمی ہوگی کہ سورج ہم سے بہت قریب ہوگا۔ چلیں بابا جلدی چلیں پھر مجھے بھی عرش کا سایہ چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے