برادران اسلام! اسلام دین علم ہے ۔ وہ پہلی بات جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیتے ہوئے فرمایا :

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ [العلق:1 – 5]

’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔‘‘
امام بخاری نے فرمایا کہ:’’العلم قبل القول والعمل‘‘
’’ قول وعمل سے پہلے علم ہے۔‘‘
کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ [محمد: 19]

’’سو (اے نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
علم اور اصحاب علم کی فضیلت:
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو طلب علم کی ترغیب دی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ انسان علم کے بغیر اللہ کی کما حقہ عبادت کر ہی نہیں سکتا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [فاطر: 28]

’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں‘‘
اور فرمایا:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّ رُ أُولُو الْأَلْبَابِ [الزمر: 9]

’’آپ کہہ دیجئے، کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں، فرمایا:

وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا [طه: 114]

اور آپ کہیے کہ میرے رب مجھے مزید علم عطا کر ۔
اور فرمایا:

يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ [المجادلة: 11]

’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دےگا۔‘‘
حضرت کثیر بن قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں دمشق کی مسجد میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ اتنے میں ایک شخص نے ان کے پاس آکر عرض کیا اے ابو درداء ! میں آپ کے پاس مدینہ سے آیا ہوں ۔ میں کسی اور ضرورت کے تحت نہیں۔ بلکہ اس حدیث کے لیے آیا ہوں، جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جو طلب علم کے لیے کسی راستہ پر چلے گا تو اللہ اس کی وجہ سے جنت کی راہ پر اسے چلائے گا۔ اور فرشتے طالب علم کی رضا وخوشنودی کے لیے اپنے پر پھیلا دیتے ہیں، اور عالم کےلیے زمین و آسمان کی ساری مخلو قات استغفار کرتی ہیں۔ اور پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں ۔ اور عابد پر عالم کی وہی فضیلت ہے جو چودہویں رات کے چاند کی سارے ستاروں پر ہے۔ اور علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ انبیاء دینارودرہم کے وارث کسی کو نہیں بناتے، وہ علم کے وارث بنا تے ہیں ۔ جس نے علم کو پا لیا ، اس نے پورا حصہ پالیا ۔ (أبوداود)
اس حدیث کے اندر علم اور اصحاب علم کی فضیلت کی واضح دلیل ہے کہ علم جنت کی راہوں میں سے ایک راستہ ہے، فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر پھیلا دیتے ہیں ۔ اور اس کی مغفرت کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوقات، حتی کہ سمندر کے اندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔
اے اللہ کے بندو!مذکورہ فضیلت سے بھی بڑھ کر کوئی اور فضیلت ہو سکتی ہے ؟
اے اللہ کے بندو!دین کی سمجھ ملنی، بندے کے ساتھ اللہ کے ارادہ ٔ خیر کی علامت ہے ۔ چنانچہ سیدنامعاویہ t کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

“من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین، واللہ المعطی وأنا القاسم، ولا تزال ھذہ الأمۃ ظاھرین علی من خالفھم، حتی یأتی أمر اللہ وھم ظاھرین” (متفق علیہ)

’’اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ اللہ دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت ہمیشہ اپنے مخالفین پر بالآخر غالب ہی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے اور وہ غالب ہی رہیں گے۔‘‘
علم کی فضیلت ومقام ہی کی وجہ سے، علم میں رشک کرنا جائز ہے۔ چنانچہ سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رشک دو ہی باتوں میں موزوں ہے: ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال عطا کیا تو وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے اوردوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے علم وحکمت سے نوازا تو وہ اس کی روشنی میں فصیلہ کرتا اور اسے سکھا تا ہے۔‘‘(بخاری)
فضیلت علم کے سلسلے میں علماء کے اقوال :
مطرف بن شخیر نے فرمایا کہ:

“فضل العلم خیر من فضل العمل وخیر دینکم الورع”

’’ فضیلت علم فضلیت عمل سے بہتر ہے اور تمہارابہتر دین ورع ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

“طلب العلم أفضل من صلوۃ النافلۃ”

’’ طلب علم نفل نماز سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
لیکن یہ اس کے بارے میں ہے، جو علم سے استفادہ کرتا ہے۔
اور سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ میں تھے تو ان کے پاس گورنر مکہ نافع بن حارث خزاعی آئے سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ نے مکہ میں کسی کو اپنا جانشین بنایا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: میں نے اپنے غلام کو جانشین بنا دیا ہے۔ سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غلام کو جانشین بنایا؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ حافظ قرآن اور عالم فرائض ہے۔ اس پر سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہے:

إن اللہ یرفع بھذا الکتاب أقواما ویضع بہ آخرین

’’اللہ اس کتاب کی وجہ سے کچھ لوگوں کے مقام بلند کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس کتاب پر عمل نہ کرنے کے سبب ذلیل کردیتا ہے۔‘‘

علم نافع کے اصول:

علم کے کچھ آداب واصول ہیں، جو اسے اللہ کی عبادت بنا دیتے ہیں۔ جیسے اخلاص اور سبھی عبادتوں میں یہ مطلوب ومقصود ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ [البينة: 5]

’’اور ان کو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت یکسوئی کے ساتھ اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے کریں۔‘‘
اور حدیث میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی (دین کا)علم دنیوی غرض کے لیے حاصل کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو نہیں پائےگا۔‘‘(أبوداود)
اور صحیح مسلم میں ہے۔
“القرآن حجۃ لک أو علیک”
’’قرآن تمہارے حق میں ہوگا، یا پھر تمہارے خلاف جائےگا۔‘‘
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ: جس کی نیت صحیح ہو، اس کے لیے علم جیسی کوئی چیز نہیں۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیسے؟ فرمایا کہ وہ اپنے اور دوسرے سے جہالت دور کرنے کی نیت سےاسے حاصل کرتا ہے۔
ابن جماعہ کا بیان ہے کہ: علم اور علماء کی جو فضیلت آئی ہے، وہ نیک یعنی عامل علماء کے بارے میں ہے، جن کا مقصد اللہ کریم کی رضا اور جنت میں اس کی قربت ہوتی ہے، نہ کہ وہ جس کی نیت بری ہو یا دنیوی غرض، جیسے جاہ ومنصب یا وہ مال ودولت یا پیروکاروں اور شاگردوں کی کثرت کے لیے اسے طلب کرتا ہو۔ (تذکرۃ السامع: 38)
اسی طرح طالب کی ذمہ داری ہے کہ اہم اور اس سے اہم کا خیال کرتے ہوئے قرآن کریم کے حفظ وتجوید اور قراءت سے آغاز کرے، پھر سنت کی تعلیم حاصل کرے اورآگے بھی اسی طرح۔ اسی طرح اس کی ذمہ داری ہے کہ جو سیکھا ہے، اس پر حسب استطاعت عمل بھی کرے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

“لیس العلم ما حفظ، العلم ما نفع” ( تذکرۃ السامع )

’’علم وہ نہیں جو محفوظ رہے، بلکہ علم وہ ہے جو نفع پہنچائے ۔‘‘
چنانچہ صحیح علم وہ ہے، جو صاحب علم کے اندر اللہ کے لیے خشیت وسکینت، وقار اور خاکساری وتواضع پیدا کرے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیا ن فرماتے ہیں کہ:

“تعلموا العلم وتعلموا لہ السکینۃ والوقار” (تذکرۃ السامع: 44)

’’علم حاصل کرو اور اس کے لیے سکینت ووقار بھی سیکھو ۔‘‘

سلف کی علمی زندگی کی چند مثالیں:

برادران اسلام!طلب علم کے سلسلے میں ہمارے سلف صالحین نے بڑی مشقتیں اور پریشانیاں برداشت کیں ہیں، دور دراز کے اسفار کیے ہیں۔
علی بن احمد خوارزمی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں نے عبد الرحمن بن ابو حاتم سے بیان کرتے ہوئے سنا: جسمانی راحت کے ساتھ علم نہیں حاصل کیا جاسکتا۔ سات مہینوں تک ہم مصر میں رہے، وہاں ہم نے شوربہ نہیں کھایا، اس لیے کہ ہم کسی شیخ کی مجلس میں صبح صبح ہی جاتے، کسی کی مجلس میں دوپہر کو اور کسی کی مجلس میں عصر کے وقت، پھر رات میں لکھنے اور مذاکرہ کرنے میں رہتے اور کچھ کرنے کا ہمیں موقع ہی نہیں ملتا۔ میرا ایک خراسانی دوست تھا میں اس کی تحریر سنتا اور وہ میری تحریر سنتا ۔ میں جو لکھتا وہ نہیں لکھتا۔ اور وہ جو لکھتا میں نہیں لکھتا۔ ایک دن صبح سویرے ہم لوگ کسی شیخ کی مجلس میں گئے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ واپس ہولیے، ہم لوگوں نے راستے میں مصر کی وہ مچھلی دیکھی، جس کے پیٹ کو چاک کرنے کے بعد چھوٹی مچھلی نکلتی ہے۔ ہم کو بڑا تعجب ہوا (اسے خرید کر) ہم لوگ اپنی جگہ پر آئے تو دوسرے شیخ کی مجلس کا وقت ہوگيا، اس لیے مچھلی نہیں بنائی جاسکی اور برابر مشائخ کی مجلسوں میں جاتے آتے رہے یہاں تک کہ اس پر تین دن بیت گئے، جو خراب ہونے کے قریب تھی، اس لیے ہم لوگ اسے کچا ہی کھا گئے۔ کہا گیا کہ کسی کو دے دیتے، وہ پکا دیتا؟ جواب دیا کہ ہمارے پاس اس کے لیے بھی کہاں فرصت تھی ؟
(سیرأعلام النبلاء: 13/266)
اور یہ ہیں شعبہ بن حجاج، جو اپنے شہر بصرہ سے مکہ گئے، پھر مدینہ اور پھر اپنے وطن لوٹے، صرف ایک حدیث کے تعلق سے مطمئن ہونے کے لیے، جس کو انہوں نے سنا تھا، مگر ان کا دل مطمئن نہیں تھا ۔
یہ علماءئے دین کے چند واقعات ہیں، جن سے کوئی نصیحت لینے والا ہے؟ ہم لوگ شرعی علم کے طلبہ ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ سے دھوکہ نہ کھائیں اور ہم وقت سے پہلے ہی جا کر مجلس علم میں بیٹھیں، کیوں کہ شروع کی علمی گفتگو چھوٹے گی توخیر کثیر چھوٹ جائےگا۔ جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اور علم تواضع سکھاتا ہے۔ اس لیے خود کو ہر وقت طالب علم سمجھنے کی کوشش کرو اور یہ کہ کسی سے فائدہ اٹھانے میں کوئی ہچکاہٹ ہرگز محسوس نہ کرو، خواہ وہ علم میں تم سے کم تر ہو یا تمہارے برابر ہو۔
سیدناسعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آدمی جب تک سیکھتا رہتا ہے عالم ہوتا ہے اور جب سیکھنا چھوڑ دیتا ہے اور خود کو بے نیاز اور اپنے سیکھے ہوئے پر اکتفا کرلیتا ہے تو وہ سب سے بڑا جاہل ہو جاتا ہے۔ (تذکرۃ السامع: 60)
سلف کو جس چیز کا علم نہیں ہوتا اسے اپنے شاگردوں سے سیکھنے میں بھی کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے شاگرد حمیدی کا بیان ہے کہ، میں مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ اللہ کے ساتھ رہا، میں ان سے مسائل سیکھتا تھا اور وہ مجھ سے حدیث سیکھتے تھے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : امام شافعی رحمہ اللہ نے ہم سے کہا کہ تم لوگ مجھ سے زیادہ حدیث جاننے والے ہو، جب کوئی حدیث تمہارے نزدیک صحیح ثابت ہو جائے تو ہم سے بھی بیان کردو، تاکہ میں بھی اسے حاصل کروں۔
اے لوگو!اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور دین کی سمجھ حاصل کرو، تاکہ تم بصیرت کے ساتھ اللہ کی عبادت کرو، کیوں کہ اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے کیوں کہ دین کی سمجھ خیر اور عمل صالح کی بنیاد ہے، اسی سے بندہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کیسے کرے؟کیسے وضو بنائے، کیسے غسل کرے، کیسے نماز پڑھے، کیسے روزہ رکھے، زکوۃ اور حج کیسے ادا کرے، عمرہ کیسے کرے، اسی سے واجبات اور سنن میں تمیز وفرق کرتا ہے، جہالت اور فتنوں کے گھٹاٹوپ بادل جب چھاجاتے ہیں تو اسی سے بندہ سمجھتا ہے کہ علم کی روشنی میں وہ اپنے رب تک کیسے جائے، اسی سے جانتا ہے کہ معاملات کیسے ہوں، کیسے نکاح کیا جائے، کیسے خرید وفروخت کی جائے، گناہوں کا کفارہ کیسے ادا ہو؟ اسی سے بندہ اپنی قوم کے لیے مشعل راہ بنتا ہے اور اسے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ اسی سے بندہ اپنی زندگی میں اور بعد ازمرگ بھی روشنی حاصل کرتا۔ چنانچہ علم قلب کا بھی نور ہے اور قبر کا بھی۔ حشر کا بھی اور پل صراط کا بھی ۔ عالم آدمی مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور جاہل اپنی زندگی میں بھی مردہ ہوتا ہے ۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ [الزمر: 9]

’’آپ کہہ دیجئے، کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘
بندہ جب مر جاتا ہے تو سوائے تین باتوں کے اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے :

صدقہ جاریہ

علم، جس سے اس کی وفات کے بعد بھی فائدہ اٹھایا جاتا ۔
نیک اولاد ، جو اس کے حق میں دعا کرے۔
فرشتے اپنے پر طالب علم کے لیے پھیلا دیتے ہیں۔ عالم کے لیے زمین وآسمان کی ساری مخلوقات، حتی کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی استغفار کرتی ہیں۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر اسی طرح ہےجیسے چودہویں رات کے چاند کی تمام ستا روں پر۔ اور علماء نبیوں کے وارث ہیں، انبیاء دینار ودرہم کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں۔ جس نے وہ پالیا، اس نے بھرپور حصہ پایا۔
آخر میں اپنے دین اور امت کے لیے غیرت رکھنے والے تمام ذمہ دار حضرات سے میری یہ اپیل ہے کہ وہ اپنے علاقے کے تعلیمی منہج کی اصلاح کا کام کریں۔ خصوصاً جس کا تعلق دین سے ہے کیونکہ اس سے علم میں صرف کمزور بچے تیار ہوں گے۔ چنانچہ ان کے اندر صحیح شرعی علم نہیں ہوگا بلکہ وہ علم ہوگا حس سے زیادہ سے زیادہ نقصان ہو گا۔ اور اس میں سب سے خطرناک وہ اشعری عقیدہ ہے جو کتاب وسنت کے ساتھ طریقہ سلف کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے ہر غیور اور ذمہ دارآدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ وقت گذرنے سے پہلے ہی اس کی اصلاح کا کام کرلیں ۔
اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو اور اپنے دینی امور کو اسی طرح سیکھو، جیسے تمہارے رب نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اور جان لوکہ عبادت اسی وقت درست ہوگی جب اخلاص کے ساتھ صحیح علم یعنی کتاب وسنت کی روشی میں کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں علم صحیح اور عمل صالح کی دولت سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے