گذشتہ شماروںمیں ہم کتاب و سنت کے نصوص نقل کرآئے ہیں،جنکے مطابق جسم کی اصلاح،دل کی اصلاح پر ،جبکہ جسم کا فساد دل کے فساد پر موقوف ہے،نیز یہ بھی کہ ایمان و نفاق کا محل دل ہے،ان دونوں حقائق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان و نفاق کا محل اظہار جسم انسانی ہے،یعنی اگردل میں ایمان و اخلاص و اطاعت ہوگی تو اعضاء سے بھی اتباع کا مظاہرہ ہوگا ،اور اگر دل میں نفاق ہو گا تو اعضاء سے بھی معصیت کا اظہار ہوگا،چنانچہ منافقین سے جب بھی کسی برائی کا ارتکاب ہواتو اللہ تعالی نےاسکا سبب انکے دلوں کی بیماری کو قرار دیا، جبکہ جب اہل ایمان کے اعمال اور انکی صفات کے تذکرے کئے تو ساتھ ہی ایمان کا بھی ذکر کیا ،یہ بتانے کے لئے کہ اصل محرک ایمان ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آَيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ(الانفال:2-3-4)

حقیقی مومن وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو انکے دل دہل جائیں،اور جب ان پر ہماری آیات تلاوت کی جائیں تو وہ انکا ایمان بڑھادیں،اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں،اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں،یہی سچے مومن ہیں،ان کے لئے ان کے رب کے پاس مراتب،بخشش اورعمدہ رزق ہے۔
یعنی سچا ایمان ہی اعمال صالحہ پر تیار کرتا ہے اور اعمال صالحہ اس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں،گویا ایمان اور اعمال صالحہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔
نیز فرمایا:

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آَمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ (التوبۃ:124-125)

جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو کوئی پوچھتا ہے کہ:اس آیت نےتم میں سے کس کا ایمان بڑھادیا؟ پس ایمان لانے والوں کا ایمان تو وہ بڑھادیتی ہے،اور وہ خوش ہوتے ہیں،لیکن جن کے دلوں میں بیماری ہے،تو ان کی برائی میں مزید اضافہ کردیتی ہے،اور وہ کافر ہی مرجاتے ہیں۔
أبو الفرج عبد الرحمن بن أحمد بن رجب احنبلي نے کہا:
انسان کے اعمال ظاہری کی اصلاح،اس کا محرمات اور شبہات سے اجتناب کا انحصار اس کے دلی اعمال کی اصلاح کے بقدر ہے،اگراس کا دل سلیم ہو، اس میں صرف اللہ کی محبت،اسکی پسند کوچاہنا اور ناپسند میں واقع ہونے کا ڈر ہوتواس کے جسم کے تمام اعمال بھی درست ہوجاتے ہیں،جس کے نتیجے میں وہ حرام کاموں سے بچتا ہے،بلکہ شبہے والے کاموں سے بھی بچتا ہے ،کہ کہیں حرام نہ کر بیٹھے،اور اگردل ہی بگڑا ہو،اس پر خواہش کی اتباع اور اسکی پسند کو ترجیح دیناغالب ہو،اگرچہ اللہ کو ناپسند ہو،تونفسانی خواہشات کی اتباع کے بقدراسکے تمام ظاہری اعمال بھی بگڑ جاتے ہیں،اور اسکے اعضاء ہر طرح کی نافرمانیوں اور شبہات کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں،اسی لئے کہا جاتا ہے کہ:تمام اعضاء کا بادشاہ دل ہے اور اعضاء اسکا لشکر،جو اپنے بادشاہ کےوفادار،اسکی اطاعت اوراس کے احکامات کی تعمیل میں سرگرم رہتے ہیں،کسی بھی شے میں ا س کی مخالفت نہیں کرتے،نیز اگر بادشاہ نیک ہو تو اسکی سپاہ بھی نیک ہوتی ہے اور اگرباد شاہ ہی بد کردار ہو تو اسکی سپاہ بھی اسی کی مانند بدکار ہوتی ہے۔(جامع العلوم والحکم:1/74)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے کہا:
اصل ایمان دل میں ہوتاہے،جودل کا قول و عمل ہے اور تصدیق ،محبت و اطاعت کا اقرار کرناہے،اور دل میں جو بھی ہوگا اعضاء پر اسکا مُوجَب و مُقتَضیٰ لازما ظاہر ہوگا،اور اگر وہ اسکےمُوجَب و مُقتَضیٰ پر عمل نہ کرے تو یہ دلیل ہوگی کہ اسکے دل میں کچھ نہیں،یا کمزور ہے،لہذا ظاہری اعمال موجب و مقتضی ہیں دلی ایمان کا،اور(ظاہری اعمال)دل میں جو کچھ ہو اسکی تصدیق ہیں ،اس پر دلیل ہیں،اسکے گواہ ہیں،اور مجموعہ ایمان مطلق کا ہی ایک جزء ہیں،لیکن جو دل میں ہے وہ ظاہری اعمال کے لئےاصل ہے،جیسا کہ ابوہریرہ نے کہا:دل بادشاہ اور اعضاء اسکا لشکر ہیں،اگر دل اچھا ہو تو لشکر بھی اچھا ہوگا،اور اگر دل برا ہو تو لشکر بھی برا ہوگا۔(مجموع الفتاوی:7/644)
نیزنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَثْقَلَ صَلاَةٍ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلاَةُ الْعِشَاءِ وَصَلاَةُ الْفَجْرِ وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا(مسلم:1514)

منافقین پر سب سے بھاری نماز عشا اور فجر ہیں،اگر انہیں یقین ہو کہ اس میں کیا کچھ ہے تو وہ ان میں ضرور آئیں اگرچہ گھسٹ کر آئیں۔
یعنی فجر و عشا میں سستی انکے نفاق کا موجب و مقتضی اور اسکی دلیل اور شاہد ہے،اور اس سستی کی اصل(بنیاد)ان کی دلی نفاق ہے۔
نیز فرمایا:

تِلْكَ صَلاَةُ الْمُنَافِقِ يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَىِ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا لاَ يَذْكُرُ اللَّهَ فِيهَا إِلاَّ قَلِيلاً

منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا سورج کو تاڑتا ہے،جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آجائے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مارلیتا ہے،اور ان میں اللہ کا ذکر بھی کم کرتا ہے۔(مسلم:1443)
یعنی یہ اسکا نفاق ہی ہے جس کا اظہار اسکے عمل سے ہورہا ہے۔
مومن اور منافق کی ظاہری کیفیات کےمابین فرق:
صاحب ایمان سے اگر اسکی لاعلمی یا غفلت کے سبب نافرمانی ہو بھی گئی تو اسکا دل اسے استغفار و توبہ کے لئے مجبور کردیگا،جبکہ صاحب نفاق سے اطاعت کا اظہار ہو تو وہ ریاکاری،مفاد پرستی ،شہرت طلبی سے خالی نہ ہوگا،یا کم ازا کم اخلاص سے خالی ہوگا،گویامومن بنیادی طور پر شریف النفس اور باکردار و فرمانبردار ہوتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

مومنین کامیاب ہوگئے،جو اپنی نمازوں میں عاجزی برتتے ہیں،اور فضولیات سے بچتے ہیں،اور جو زکاۃ دیتے ہیں،اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،سوائے اپنی بیویوں یا لونڈیوں کے،تو یہ قابل ملامت نہیں،لیکن جو کچھ اور چاہیں تو یہ ذیادتی کرنے والے ہیں،اور جو اپنی امانتوں اور وعدے کا پاس رکھتے ہیں،اور جو اپنی نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔(المومنون:1تا9)
نیز اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ (آل عمران:135)

اور جب ان سے گناہ سرزد ہوجائے یا وہ اپنی جان پر ظلم کربیٹھیں،اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں،اور اللہ کے سوا کون گناہ معاف کرسکتا ہے،اورجب انہیں معلوم ہو تو اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔
جبکہ منافق خبیث النفس ،بدکردار اور ”فاسق“ ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (التوبۃ:67)

منافق مرد و عورت ایک دوسرے سے ہیں،برائی کا کہتے اور اچھائی سے روکتے ہیں،اور اپنے ہاتھ سمیٹ کر رکھتے ہیں،وہ اللہ کو بھول چکے سو اللہ نے انہیں چھوڑ دیا،منافقین فاسق ہیں۔
نیز فرمایا:

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا

منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ انکے ساتھ تدبیر کرتا ہے،اور جب وہ نماز کے لئے اٹھتے ہیں تو سستی کرتے ہیں ،لوگوں کو دکھانے کے لئے،اور اللہ کو کم یاد کرتے ہیں۔(النساء:142)
مومن اپنے تمام امور میں اللہ اور اسکے رسول ﷺکے فیصلےکا منتظر رہتااور اس پر عمل کرتا ہے،جبکہ منافق اللہ اور اسکے رسول ﷺکے فیصلوں کو اپنی نجی زندگی میں بےجا مداخلت تصور کرتا ہے،اورانکی مخالفت میں بے باک ہوتا ہے۔
الغرض کسی بھی شخص کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ اسکے اعمال کرتے ہیں،جبکہ اسکے اعمال کو اچھا یا برا بنانے والے اس کے دلی حالات وکیفیات ہیں، دلوں کی اچھائی اعضاء سے مترشح جبکہ دلوں کی برائی اعضاء سے جھلکتی ہے۔
دل کی تبدیلی ظاہر کو تبدیل کرتی ہے:
انسان کی دلی کیفیات کی تبدیلی کا اسکے ظاہر کی تبدیلی پر گہرا اثر پڑتا ہے،بسا اوقات وہ تبدیلی فورا آشکار ہوجاتی ہے،جیسا کہ سیدنا ابو ہریرۃ نے کہا کہ: ’’نبی مکرمﷺ نے ایک کافر کی ضیافت کی اور اسے ایک کے بعد ایک بکری کا دودھ پیش کیا حتی کہ وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا،پھر صبح میں وہ مسلمان ہوگیا،تو نبی ﷺ نے اسے ایک بکری کا دودھ پیش کیا وہ پی گیا،پھر دوسری کا پیش کیا تو وہ اسے پورا نہ پی سکا،تو نبی ﷺ نے فرمایا:

الْمُؤْمِنُ يَشْرَبُ فِى مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ يَشْرَبُ فِى سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ(مسلم:5500)

مومن ایک آنت میں پیتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں پیتا ہے۔
نیز ثمامہ بن اثال نے اسلام قبول کرنے کے بعد نبی ﷺسے کہا:

يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَىَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَىَّ وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَىَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلاَدِ كُلِّهَا إِلَىَّ وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِى وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ قَالَ لَهُ قَائِلٌ أَصَبَوْتَ فَقَالَ لاَ وَلَكِنِّى أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَلاَ وَاللَّهِ لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم(مسلم:4688)

اللہ کے نبی اللہ کی قسم،روئے زمین پر مجھے کوئی چہرہ آپکے چہرے سے زیادہ ناپسند نہ تھا،اللہ کی قسم،اب آپکا چہرہ سب چہروں سے عزیز ہوگیا،کوئی دین آپکے دین سے زیادہ ناپسند نہ تھا ،اب آپکا دین ہر دین سے محبوب ہوگیا،اللہ کی قسم،کوئی شہر آپکے شہر سے زیادہ ناپسند نہ تھا، اب آپکا شہر سب شہروں سے عزیز ہوگیا،آپکے دستے نے مجھے پکڑلیا تھا جبکہ میں عمرہ کرنے جارہا تھا،اب آپکا کیا حکم ہے،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے بشارت دی اور عمرہ کرنے کا حکم دیا،جب وہ مکہ آئے تو کسی نے ان سے کہا،کیا تو بے دین ہوگیا؟انہوں نے کہا:نہیں،لیکن میں رسول اللہ ﷺ کا مطیع ہوگیا ہوں،اور اللہ کی قسم یمامہ(جسکے وہ سردار تھے)سےگندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہ آئے گا ،حتی کہ رسول اللہ ﷺ اسکی اجازت دے دیں۔
اللہ اکبر،انکے ایمان کی کیا حلاوت ہوگی جس نے پل بھر میں دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن بنادیا،اس سے بڑھ کر کیا دلیل ہوگی کہ ایمان جب دل میں راسخ ہوجائے تو اندر کے ساتھ باہر کی دنیا بھی تبدیل کردیتا ہے
دلی کیفیات ظاہری کیفیات کے لئے اصل ہیں:
انسانی دل بہت سی صفات اور صلاحیتوں کاحامل ہوتا ہے،جنکے ذریعے وہ اسکی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما کرتا ہے،اور اسکی زندگی کے ہر موڑ پر فیصلہ کرتا ہے،وہ تبدیلی مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی،اسی طرح وہ فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی،اسکا دارومدار اسکی کیفیات و صفات پر ہے،اگر اس میں صفات حسنہ کا غلبہ ہے تو وہ مثبت تبدلیاں رونما اور درست فیصلے کرے گا،اور اگر وہ فتنہ زدہ ہے ،اس پر صفات سیئہ کا غلبہ ہے تو لازما وہ منفی تبدیلی لائے گا اور غلط فیصلے کرے گا،ذیل میں انسانی قلوب کی بعض صفات وافعال ذکرکئے جارہے ہیں:

افعال وصفات حسنہ:

عقل ،ادراک اور فہم دراصل دل کے افعال ہیں:
اللہ تعالی نے فرمایا:

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آَذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ
(الحج:46)

کیا وہ زمین پر گھومتے پھرتے نہیں رہے،کہ انہیں ایسے دل میسر ہوں جن کے ذریعے وہ عقل کریں،یا ایسے کان جن سے وہ سنیں،کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں،لیکن دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
یعنی حق کی معرفت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی عقل سے کام لیتے ہوئےگذشتہ اقوام کی تباہی کو ملاحظہ کرلیا جائے۔
نیز فرمایا:

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ(الزمر:21)

اس میں ان لوگوں کے لئے نصیحت ہے،جس کے پاس دل ہو،یا وہ توجہ سے سنے۔
أبو جعفر محمد بن جرير الطبري نے اس آیت میں ”دل“کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا:
یعنی اس امت میں جس کے پاس عقل ہوگی وہ اس کام سے رک جائے گا جو وہ (عذاب شدہ اقوام)کرتے رہے،یعنی اپنے رب کے ساتھ کفر کرنا،اسے ڈر ہوگا کہ،کہیں اس پر بھی وہی عذاب نہ آجائے جو ان پر آیا۔(جامع البيان في تأويل القرآن:22/372)
علامہ البانی نے کہا:’’مفسرون نے کہا:(دل)سے عقل مراد ہے،لیکن دل کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکہ عقل کا محل دل ہے‘‘(الصحیحۃ:تحت حدیث رقم:2708)
نیزعلی نے کہا:إن العقل في القلب
عقل دل میں ہوتی ہے۔(صحیح الادب المفرد:425)
تدبر اور غور و فکر بھی دل کے افعال ہیںنیزدل حق و باطل کی معرفت کی صلاحیت رکھتا ہے:
جیسا کہ چند سطور قبل پیش کردہ سورۃ الحج کی آیت نمبر:46سے واضح ہوتا ہے،نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آَذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:179)

ہم نے جہنم کے لئے بہت سے جن و انس پیدا کئے ،وہ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں، آنکھوں سے دیکھتے نہیں، کانوں سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، غافل یہی لوگ ہیں۔
یعنی انکے جہنمی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ عقل کو غور و فکر اور تدبر میں استعمال نہیں کرتے،بلکہ محض اپنی آسائشوں اور مفادات میں مگن رہتے ہیں۔
نیز فرمایا:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآَنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا

کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے،یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں۔(محمد:24)
یعنی جو لوگ قرآن میں غور و فکر اور تدبر نہیں کرتے گویا انکے دلوں پر تالے پڑے ہیں،اورعقل جو تدبر کا آلہ ہے وہ انکےدلوں میں قید ہے۔
البتہ حق(مثلاً:عقیدہ توحیدورسالت)اور باطل (مثلاً: شرک و کفر) جس قدر واضح ہوگا اسی قدرجلد اور آسانی سےدل اسے پہچان لے گا،یہی وجہ ہے کہ اس صورت میں جہالت عذر نہیں،جبکہ حق یا باطل جس قدر مبہم ہوگا دل کو بھی اسے پہچاننے میںاسی قدر مشکل ہوگی اور علم کی ضرورت پڑے گی ،لہذا اس صورت میں” جہل“ عذر بن سکتا ہے۔
نیز فرمایا:

الَّذِينَ آَتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرۃ:146)

جنہیں ہم نے کتاب دی،وہ انہیں(محمد ﷺ کو نبی کی حیثیت سے)اسطرح پہچانتے ہیں جسطرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں،اور ا ن کاایک گروہ(علماء یہود و نصاری) حق کو جان بوجھ کر چھپاتا ہے۔
نیز فرمایا:

وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ

انہوں(فرعون و آل فرعون)نے ان(معجزات موسی ﷺ)کوظلم و تکبر کرتے ہوئےماننے سے انکار کردیا،حالانکہ انکے دل انہیں مان چکے تھے،پس تو دیکھ فسادیوں کا کیا انجام ہوا۔(النمل:14)
نیز کتنی ہی احادیث میں ہے کہ کوئی ایک یا چند افراد نبی ﷺ کےپاس آئے،آپکی دعوت سنی ،آپکو پہچانا اور کلمہ پڑھ کر تاحیات آپکے غلام و جانثار بن کر رہ گئے۔
نیکی و اچھائی پر دل اطمنان و سکون محسوس کرتا ہے،جبکہ گناہ اوربرائی پر ملامت کرتا ہے:
انسانی دل نہ صرف نیکی و گناہ کو پہچانتا ہے بلکہ ان پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کرتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد:28)

جو لوگ ایمان لائے اور انکے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہوگئے،یاد رکھو ،دل اللہ کےذکر سے ہی دل مطمئن ہوتے ہیں۔
نیز فرمایا:

لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ (القیامہ:1-2)

’’میں روز قیامت کی قسم اٹھاتا ہوں،اور اس نفس کی جو بہت ملامت کرنے والا ہے‘‘
یہاں نفس سے مراد دل ہے ،عربی میں لفظ نفس کا استعمال دل کے لئے بھی ہوتا ہے،یا یہ دل ہی کی کوئی صفت ہے،ہمارے عرف میں اسے ضمیر کہا جاتا ہے،جسکا معنی ہے پوشیدہ شے،اور دل پوشیدہ ہوتا ہے اور اسکی ملامت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔
نیز نبی ﷺ نے نیکی اور گناہ کی پہچان کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

اسْتَفْتِ قَلْبَكَ ، البرُّ : مَا اطْمَأنَّت إِلَيْهِ النَّفسُ ، وَاطْمأنَّ إِلَيْهِ القَلْبُ ، وَالإثْمُ : مَا حَاكَ في النَّفْسِ ، وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ ، وَإنْ أفْتَاكَ النَّاسُ وَأفْتُوكَ

اپنے دل سے پوچھو،نیکی وہ ہے جس پر ضمیر اوردل مطمئن ہوں،اور گناہ وہ ہے جوتیرے دل میں کھٹکتارہے،اگرچہ لوگ تجھ سے کچھ بھی کہتے رہیں۔(سنن دارمی:2533-مسند احمد:18006-صحیح الترغیب ولترہیب:1734)
یعنی انسان کا دل نیکی پر خوش اور گناہ پر ناخوش ہوتا ہے اور ضمیر بھی ملامت کرتا ہے۔
نرمی،رأفت و رحمت بھی دل کی صفات ہیں:
اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً

انکی پیروی کرنے والوں کے دلوں میں ہم نے رافت و رحمت ڈال دی۔(الحدید:27)
نیز نبی ﷺ نےدلوں کی سختی کو دور کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

إِنْ أَرَدْتَ تَلْيِينَ قَلْبِكَ فَأَطْعِم الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْيَتِيمِ

اگر تو دل نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا،اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ(یعنی اسکی سرپرستی کر)۔
(مسند احمد:7576-بیہقی کبری:6886،الصحیحۃ:854)
نیز ایک اعرابی نبی ﷺ سے کہنے لگا کہ:تم لوگ بچوں کا بوسہ لیتے ہو ،ہم لوگ ایسا نہیں کرتے،تو نبی ﷺ نے فرمایا:

أَوَأَمْلِكُ لَكَ أَنْ نَزَعَ اللهُ مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَۃ

اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو چھین لیا تو میں کیا کرسکتا ہوں؟۔(بخاری:5652)
صبر و ثبات بھی دل کی صفات ہیں:
انسان کیسے ہی بدتر حالات سے دوچار کیوں نہ ہو،اگراللہ پر توکل ہو اور اسکا دل مضبوط رہے تو کوئی بھی مادی یا شیطانی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی،اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے کہا:

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآَنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا(الفرقان:32)

کافروں نے کہا:اس پر قرآن یکبارگی کیوں نہ اتارا گیا؟(جسطرح موسی و عیسی علیہما الصلاۃ والسلام پر یکبارگی تورات و انجیل اتاری گئیں،تو اللہ تعالی نے جواب دیا)اسطرح اسلئے کہ ہم اسکے ذریعے تیرے دل کو مضبوط کرتے رہیں،اور ہم نے اسے بتدریج نازل کیا ہے۔
نیز نبی ﷺ اکثر و بیشتر یہ دعا کرتے:

يا مقلِّبَ القلوبِ ثبِّت قلبي على دينِكَ

اے دلوں کو پھیرنے والے ،میرا دل اپنے دین پر ثابت رکھ۔(ترمذی:2140،الصحیحۃ:2091)
شکر و کفر(ناشکری)بھی دراصل دل کے افعال ہیں:
اللہ تعالی نے فرمایا:

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ(المومنون:78)

وہی تو ہے جس نے تمہاری سماعت و بصارت اور دلوں کو پیدا کیا،تم کم ہی شکر کرتے ہو۔
یعنی مذکورہ نعمتیں اسلئے دیں تاکہ تم ان سے اللہ کا شکر ادا کرو۔
نیز،ایک مرتبہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے پوچھاکہ:یارسول اللہ ہم کونسا مال اختیار کریں؟تو آپ نے فرمایا:

ليتخذ أحدكم قلبا شاكرا ولسانا ذاكرا وزوجة مؤمنة تعين أحدكم على أمر الآخرة

تم انتخاب کرو شکر کرنے والے دل کا ،ذکر کرنے والی زبان کا،اور مومن بیوی کا جو آخرت کے سلسلے میں تمہاری مدد کرے۔(ابن ماجہ:1856،الصحیحۃ:2176)
عجز و انکساری اور توضع بھی دل کی صفات ہیں:
عجز و انکساری کا معنی ہے ،خود کو کمتر اور سامنے والے کو خود سے بہتر جانتے ہوئے اسکے سامنے اپنی عاجزی و بے بسی کا اظہار کرتے ہو جھک جانا،گویا اصل عجز دل میں ہوتا ہے ،اعضاء سے بس اسکا اظہار ہوتا ہے،اس معنی کی رو سے انسان کو ہر لمحہ اللہ بزرگ و برتر کے سامنے ذل وعجز کا اظہار کرنا چاہیئے،جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ (الحدید:16)

کیا اب تک اہل ایمان پر وہ وقت نہ آیا کہ انکے دل اللہ کے ذکر کے سامنے جھک جائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے