محبانِ علی رضی اللہ عنہ کو چاہیے کہ وہ فضائل علی  رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی حیات طیبہ اور عملی زندگی و کردار کا بھی مطالعہ ضرور کریں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ان کی عملی زندگی کیا تھی اور ان کو کیا کتنا محبوب تھا اور ہم ان سے کتنا دور ہیں ۔موجودہ دور میں بعض نام نہاد حبدار علی رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرکے محبت اہل بیت کا جھوٹا دعوی کرکے اپنے آپکو حبدار علی رضی اللہ عنہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں ہم یہاں بزبان حیدر قرار رضی اللہ عنہ فضائل صحابہ رضی اللہ عنہ پیش کرکے یہ ثابت کریں گے کہ صحابہ کادشمن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حبدار نہیں ہوسکتا ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی ذات پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ترجیح و افضلیت دیا کرتے تھے اس سلسلے میں صراحت

سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے متعدد آثار و روایات ثابت ہیں ۔سیدنا محمد بن الحنفیہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد ( علی رضی اللہ عنہ ) سے پوچھا کہ :  أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ، قَالَ : ثُمَّ عُمَرُ وَخَشِيتُ أَنْ يَقُولَ : عُثْمَانُ ، قُلْتُ : ثُمَّ أَنْتَ ، قَالَ : مَا أَنَا إِلَّا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ .

رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میں نے پوچھا پھر کون ہیں؟ انہوں نے بتلایا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ مجھے اس کا اندیشہ ہوا کہ اب ( پھر میں نے پوچھا کہ اس کے بعد؟ ) کہہ دیں گے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اس لیے میں نے خود کہا، اس کے بعد آپ ہیں؟ یہ سن کر وہ بولے کہ میں تو صرف عام مسلمانوں کی جماعت کا ایک شخص ہوں۔ ( صحیح بخاری : 3671 )
آپ رضی اللہ عنہ شیخین یعنی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ کسی کو افضل نہیں سمجھتے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ : اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی لایا گیا جو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر مجھے فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر تہمت کی حد نافذ کروں گا۔( منھاج السنہ : 3 / 162 )
اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صداقت کے قائل وفاعل تھےآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق اللہ تعالی نے آسمان سے نازل فرمایا ہے ۔( المعجم الکبیر / الطبرانی : 1 / 55 )
امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سخاوت اور کارخیر میں سبقت لے جانے کی گواہی بھی دیا کرتے تھے ۔ صلہ بن زفر العبسی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کبھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوتا تو فرماتے : سبقت لے جانے والے کی بات کرتے ہو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کبھی ہم نے خیر کے کاموں میں حصہ لیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں ہم سے آگے نکل گئے.  ( المستدرک / حاکم : 3 / 67)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت تھی آپ اپنی محبت کا لوگوں کے ہاں اظہار فرمایا کرتے تھے ایک روایت میں ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک کو ڈھانپ کر اس پر کپڑا ڈال دیا گیا تو علی رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور کہا : چادر سے ڈھانپے ہوئے اس جسد اطہر سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں ہے کہ میں اس کےصحیفہ کو لے کر اللہ سے ملوں.  ( تاریخ الذھبی / عھد الخلفاء الراشدین ، ص : 120 )
اور آپ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی بے تحاشا محبت کیا کرتے تھے آپ نے اس محبت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں انتہائی تاریخی کلمات فرمائے۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ : میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو ( وفات کے بعد ) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا: تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کا عمل آپ کے عمل سے زیادہ مجھے عزیز و پیارا ہو کہ میں اس عمل کو لے کر اللہ سے ملوں، اور قسم ہے اللہ کی! میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں ( نبی اکرم ﷺ و ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ رکھے گا، اس وجہ سے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو اکثر فرماتے ہوئے سنتا تھا: میں اور ابوبکرو عمر گئے، میں اور ابوبکرو عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکرو عمر نکلے ، لہٰذا میں آپ کی ان باتوں کی وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ( جنت میں ) رکھے گا ۔( سنن ابن ماجہ : 98 )
حیدر قرار سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلفاء ثلاثہ سے بے انتہا محبت ہوا کرتی تھی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو بہت دکھی ہوئے اور فرمایا: «اللہ میدان، پہاڑ، خشکی اور تری میں قاتلین عثمان پر لعنت کرے(قاتلین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جہاں بھی ہوں ان پر اللہ کی لعنت ہو)۔» (مصنف ابن أبي شيبة، ح : 37793، وسندہ صحیح)
مجھے یہاں انتہائی افسوس اور دکھ ہوتا ہے ان لوگوں پر جو صحابہ کرام کو گالی گلوچ کرکے حبدار علی رضی اللہ عنہ کا دعوی کرتے ہیں واللہ! جو کسی ایک بھی صحابی کو گالی دیتا ہے وہ حبدار علی رضی اللہ عنہ نہیں ہوسکتا کیونکہ میرے محبوب علی رضی اللہ عنہ تمام صحابہ رضی اللہ عنھم سے محبت کرتے اور انکا دفاع فرماتے ۔
مروی ہے کہ جب امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ ان کے دو ساتھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرتے اور اہل شام کو لعن و طعن کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا ۔ وہ دونوں آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے : امیر المومنین ! کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ؟! آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ، مجھے رب کعبہ کی قسم! وہ گویا ہوئے : تو پھر آپ ہمیں ایسا کرنے سے کیوں روکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ تم لعن وطعن کرنے والے بن جاو ۔ تم یہ دعا کیا کرو : اے اللہ! ہمارے اور ان کے خون محفوظ فرما ، ہمارے معاملات کی اصلاح کیجیے ، اور انہیں گمراہی سے دور لے جائیے ۔( الاخبار الطوال ، ص : 165 , نقلا عن تحقیق موافق الصحابة فی الفتنة : 2 / 232 )
جنگ صفین کے بعد کچھ لوگوں نے اہلِ شام اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک گشتی مراسلہ اپنے زیر حکومت علاقہ کے لوگوں کو بھیجا۔ اس مراسلہ کو نہج البلاغہ کے شیعہ مصنف نے صفحہ 151پر درج کیا ہے:
ہمارے معاملے کی ابتداء یوں ہوئی کہ ہمارا اور اور اہل شام (معاویہ )کا مقابلہ ہوا اور یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا اور ان کا خدا ایک، ہمارا اوران کانبی ایک، ہماری اور ان کی دعوت اسلام میں ایک، اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول ﷺ کی تصدیق کرنے میں نہ ہم ان سے زیادہ نہ وہ ہم سے زیادہ، پس معاملہ دونوں کا برابر ہے ۔صرف خونِ عثمان کے بارے میں ہم اور ان میں اختلاف ہوااور ہم اس سے بری ہیں ۔معاویہ میرے بھائی ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے موقع پر پوچھا گیا :جو لوگ آپ کے مقابلے میں آئے کیا وہ مشرک ہیں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ مشر ک نہیں ہیں۔پوچھنے والے نے کہا: کیا وہ منافق ہیں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ منا فق بھی نہیں ہیں۔پوچھنے والے نے کہا: پھر آپ کی نگاہوں میں ان کی حیثیت کیا ہے؟جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

إِِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا

وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نےہمارے خلاف زیادتی کی ہے۔( مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد : 4 ، ص : 1013)
آپ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتب اٹھائیں اور پڑھیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے قیدی بن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان میں سے کسی کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں غسل دیا جائے اور کفن دیا جائے، پھر انہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ دونوں لشکروں کے مقتولین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ

ہمارے لشکر کے مقتول اور معاویہ کے لشکر کے مقتول سب جنت میں جائیں گے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد : 4 ،ص : 1036)
کتنے افسوس کامقام ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کو اپنے جیسا ایماندار اورمسلمان اور ان کے مقتولین کو جنتی بتلائیں اور دشمنانِ صحابہ سبائی انہیں کافر اور منافق قرار دیں۔ اب قارئین خود فیصلہ فرمائیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بات معتبر سمجھی جائے یا سبائی گروہ کی؟!
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی کہ بیٹا معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت سے نفرت نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو ضائع کر دیا تو آپس میں کشت و خون دیکھو گے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد: 8ص: 131، شرح نہج البلاغہ ابن ابی لحدید شیعی جلد: 3ص: 836)
بفضل اللہ اب میزان مقرر ہوگیا جو امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا حبدار ہوگا وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی محبت کرتا ہوگا اور ان کا دفاع بھی کرے گا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرے گا وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کاحقیقی حبدار نہیں ہوسکتا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے