انسان خطا کا پتلا ہے۔اس سے دانسہ لغزشیں ہوتی رہتی ہیں یقینا یہ فطرتی امر ہے  یہ اتنی عیب کی با ت نہیں جتنی خطا ہوجانے کے بعد اس غلطی کا احساس تک نہ ہونا اور اسکی تلافی نہ کرنا یا معافی نہ مانگنا یہی بڑی معیوب ہے اللہ تعالی کو اپنے وہی بندے پسند ہیں جو غلطی ہوجانے کے بعد معافی کے خواستگار ہوتے ہیں سب سےبڑی غلطی شرعی معاملات میں کوتاہی کرنا ہے جسے گناہ کہا جاتا ہے ۔یہ گناہ انسان کے لیے نا صرف معاشی تنگیوں اور بے شمار مصائب ومشکلات کا باعث بنتے ہیںبلکہ اخروی فوز وفلاح اور جنت کے حصول میں بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔لہٰذا مسلمان کے لیے ہر دو زندگیوں میں فلاح ، راحت و کامیابی اور کامرانی پانے کے لیے گناہوں سے حتی الوسعت (طاقت وقدرت )پاک ہونا ضروری ہے جسکا پہلا ذریعہ تو اللہ تعالی سے اپنے گناہوں سے پکے وسچے دل سے اور خلوص سے معافی مانگتے رہنا ہے،اور دوسرا ذریعہ ان اعمال کو اپنانا ہے جو گناہوں کی باعث بنتے ہیں ۔

آج کے اس موضوع میں ہم احادیث صحیحہ سے اخذ کر کے ان اعمال کا تذکرہ کریں گے جن کے ذریعے گناہوں کا کفارہ ہوتاہے ۔ان اعمال کو ۔کفارات۔اس  لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ گناہوں کو چھپالیتے ہیں ،اور ان پر پڑدہ ڈال دیتے ہیں (لسان العرب5/148)

جیسے قسم توڑنےکا کفارہ ،ظہار کا کفارہ اور قتل خطاوغیرہ کا کفارہ ادا کرنے پر اس خطا کی تلافی ہو جاتی ہےاسی طرح ان اعمال کے اہتمام سے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے گویا کفارہ گناہوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (النھایۃ فی غریب ا لحدیث والاثر 4/189۔مفردات الفاظ القرآن 717)

1۔توحیدکے ذریعے گناہوں کا کفارہ

  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ۔

 يا ابن آدم إنك ما دعوتني ورجوتني غفرت لك على ما كان فيك ولا أبالي، يا ابن آدم لو بلغت ذنوبك عنان السماء ثم استغفرتني غفرت لك، ولا أبالي، يا ابن آدم إنك لو أتيتني بقراب الأرض خطايا ثم لقيتني لا تشرك بي شيئا لأتيتك بقرابها مغفرة) (سنن الترمذی  ص۔511/2/4۔3540)

کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں :اے ابن آدم تو جب تک مجھ سے دعا کرتا رہے گااور مجھ سے مغفرت کی امید رکھے گا میں تب تک تجھے بخشتا رہوں گا ۔خواہ تجھ میں جوبھی برائی ہو ،مجھے کوئی پرواہ نہیں ۔اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے کناروں تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے مغفرت مانگےتو میںمعاف کر دوں گا،اور کوئی مجھے پرواہ نہیں ہے ۔اے ابن آدم! اگرزمین بھر کر بھی گناہ لے کر میرے پاس آجائے لیکن مجھ سے ایسی حالت میں ملے کہ تونے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو میں تجھے زمین بھر کر مغفرت سے نوازوں گا۔

2۔نیکیاںگناہوںکومٹادیتی ہیں

سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھ سے فرمایا

اتق الله حيثما كنت، وأتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن

اور تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو،برائی کے بعد نیکی کرو،وہ اسے مٹادیتی ہے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔(سنن الترمذی:1987)

3۔اچھی طرح وضو کرنے سے گناہوں کا کفارہ

 سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا

من توضأ فأحسن الوضوء خرجت خطاياه من جسده، حتى تخرج من تحت أظفاره

جس شخص نے وضو کیا،اور اچھی طرح وضو کیا، اس کے جسم سے اسکے گناہ خارج ہوجاتے ہیں ،یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں۔(صحیح مسلم:245)

4۔کامل وضو کے بعدفرض نماز پڑھنے سے گناہوں کا کفارہ

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا

لَا يَتَوَضَّأُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ فَيُصَلِّي صَلَاةً إِلَّا غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي تَلِيهَا

جو بھی مسلمان آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس نماز اور اگلی نماز کے درمیان میں ہونے والے اس گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے(صحیح البخاری 160،صحیح مسلم 227)

5۔نماز کے لیے جانا گناہوں کی معافی،بلندئ درجات اور اجرو ثواب کا ذریعہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا

صلاة الرجل في الجماعة تضعف على صلاته في بيته وفي سوقه خمسة وعشرين ضعفا، وذلك أنه إذا توضأ، فأحسن الوضوء، ثم خرج إلى المسجد، لا يخرجه إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفعت له بها درجة، وحط عنه بها خطيئة

آدمی کی باجماعت نمازکو اس کے گھر یا بازار میں نماز پڑھنے پر پچیس گنا فضیلت حاصل ہے اور یہ فضیلت تب حاصل ہوتی ہے جب آدمی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر مسجد کی جانب روانہ ہوجائے اسے صرف نماز (کےارادے)نے ہی (گھر سے)نکالا ہو تو وہ جو بھی قدم اٹھاتا ہے اسکے بدلے میں اسکا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ ختم کردیا جاتا ہے ۔

6۔نماز پنجگانہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

الصلوات الخمس والجمعة إلى الجمعة كفارة لما بينهن ما لم تغشاه الكبائر

پانچ نمازیں اور ایک جمعے سے دوسرا جمعہ؛ ان کے دورانی عرصے میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہیں،جب تک کہ ان میں کبیرہ گناہوں کی ملاوٹ نہ ہو ۔

7۔فرض نماز کے بعد اذکار کے اہتمام سے گناہ کا خاتمہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا

من سبح الله في دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين، وحمد الله ثلاثا وثلاثين، وكبر الله ثلاثا وثلاثين، فتلك تسعة وتسعون، وقال: تمام المائة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير غفرت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر ” (صحیح مسلم597)

جو شخص ہر نماز کے بعد 33مرتبہ سبحان اللہ33مرتبہ الحمدللہ ،33مرتبہ اللہ اکبر پڑھتا ہے جو کہ کل ننانوے بن جاتے ہیں اور پھر سو کا عدد پور ا کرنے کے لیے ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیءقدیر پڑھ لیتا ہے تو اسکے گناہوں کو بخش دیا جاتاہے خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی ہوں۔

8۔نوافل کی ادائیگی سے گناہ معاف ہوتے ہیں

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ر سول اللہ

نے فرمایا

عليك بكثرة السجود؛ فإنك لا تسجد لله سجدة إلا رفعك الله بها درجة، وحط عنك بها خطيئة

اللہ کے لیے کثرت سے سجدے کرنا خود پر لازم کر لوکیونکہ تم جو بھی اللہ کوسجدے کرتے ہو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہارا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور ایک گناہ ختم کردیتا ہے ۔

9۔صلاۃ التوبہ کی ادائیگی سے گناہوں کو معاف کردیاجاتاہے۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا:

ما من عبد يذنب ذنبا فيحسن الطهور ثم يقوم فيصلي ركعتين، ثم يستغفر الله إلا غفر الله له

جس بندے سے بھی گناہ سرزد ہوجاتا ہے پھر وہ وضو کرتا ہے اور کھڑےہوکر دو رکعت نماز پڑھتا ہے پھر اللہ تعالی سے مغفرت مانگتا ہے تو اس کو بخش دیا جاتا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ

اور وہ لوگ کہ جب ان سے کوئی فحش کام سرزد ہوجاتا ہے (یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے)وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھے ہیںتو فورا انہیں اللہ کی یاد آجاتی ہے پھر وہ اپنی گناہوں کی مغفرت مانگتے ہیں،کیونکہ اللہ کے سوااورکون ہے جو معاف کر سکتا ہے۔،

10۔ماہ ر مضان کے صیام وقیام سے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح البخاری:38)

جس شخص نے ایمان کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئےجاتے ہیں۔

مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح البخاری1901)

اور جس نے ایمان کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے لیلۃالقدر کاقیام کیاتو اس کے بھی گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتاہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (صحیح البخاری37)

جس شخص نے ایمان کی حالت میںاور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کا قیام کیا،اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

11۔قیام اللیل سے درجات بلنداور گناہ معاف ہوجاتےہیں ۔

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا:

عَلَيْكُمْ بِقِيَامِ اللَّيْلِ فَإِنَّهُ دَأَبُ الصَّالِحِينَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّ قِيَامَ اللَّيْلِ قُرْبَةٌ إِلَى اللهِ، وَمَنْهَاةٌ عَنِ الإِثْمِ، وَتَكْفِيرٌ لِلسَّيِّئَاتِ، وَمَطْرَدَةٌ لِلدَّاءِ عَنِ الجَسَدِ (سنن الترمذي 3549)

قیام اللیل (نماز تہجد)کا التزام کیا کرو،کیونکہ یہ تم سے پہلے لوگوںکی پختہ عادت تھی اور بلاشبہ قیام اللیل،اللہ کی قربت پانے کا ذریعہ،گناہوںسے روکنے کاباعث برایئوں کاکفارہ اور جسم سے بیماری کے خاتمہ کا سبب ہے

12۔نماز جمعہ خطاؤں کے کفارے اور گناہوںکی معافی کی موجب۔

نماز جمعہ کے آداب کو ملحوظ رکھنا گناہوںکی مغفرت کا ذریعہ ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا

مَنِ اغْتَسَلَ؟ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ، فَصَلَّى مَا قُدِّرَ لَهُ، ثُمَّ أَنْصَتَ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ خُطْبَتِهِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَهُ، غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، وَفَضْلُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ

جس نے غسل کیا، پھر جمعہ پڑھنے آیااور جس قدر ہوسکی نمازپڑھی ،پھر خطبہ جمعہ سے فارغ ہونے تک خاموشی اختیار کی ،پھرامام کے ساتھ نماز ادا کی تو اسکے اس جمعہ سے لے کر اگلے جمع تک کے گناہ اور مزید تین دن کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔(صحيح مسلم:857)

13۔مصائب پر صبر کرنے سے گناہوں کی مغفرت اور درجات کی بلندی۔

 سیدنا ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا :

مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (صحیح البخاری 5641)

مسلمانوں پرجو بھی پریشانی اور مصیبت رنج وغم اور تکلیف وملال آتاہے،یہاں تک کہ اسے کانٹا بھی چھبتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے میںبھی گناہوںکا کفارہ فرمادیتا ہے۔

14۔صدقہ ،گناہوں کی بخشش کاباعث۔

سیدنا معاذ t بیان کرتے ہیںرسول اللہ نے فرمایا

الصَّدَقَةَ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ

صدقہ گناہوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتی ہے ۔(سنن ا لتر مذی )

15۔حج مبرور سے جنت کا حصول اور عمرے سے گناہوںکا کفارہ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ نے فرمایا

من حج لله فلم يرفث، ولم يفسق، رجع كيوم ولدته أمه (صحیح البخاری 1521)

جوشخص اللہ کی رضا کے لیے حج کرے پھرنہ ہی گناہ اور فسق کا کوئی کام کرےتو اس طرح (گناہ سے پاک ہوکر)واپس آتاہے جیسے وہ اس دن( گناہوں سے پاک )تھاجب اسکی ماں نے اسے جنم دیاتھا۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا:

العمرة إلى العمرة، كفارة لما بينهما، والحج المبرور، ليس له جزاء، إلا الجنة(سنن ابن ماجة2888)

ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے دوران ہونے والے گناہوںکا کفارہ بن جاتا ہے اور حج مبرور کی جزاءجنت کے سوا کچھ نہیںہے۔

16۔ذکر الٰہی کی مجالس گناہوں کی بخشش کاباعث بنتی ہیں۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ’’جو لوگ بھی جمع ہوکراللہ کا ذکر کرتے ہیںاور ان کی اس سے غرض صرف رضاۓ الٰہی کا حصول ہو تو انہیں آسمان سے ایک آوازلگانے والا (فرشتہ)آواز لگاتا ہے کہ تم اس حالت میں اٹھوگے کہ تمہیں بخش دیا گیا ہوگا اور تمہاری برائیوں کونیکیوںمیں تبدیل کردیا گیا ہوگا۔‘‘

17۔کھانے اور لباس کی دعا سے گناہوںکی مغفرت۔

سیدنا معاذبن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ

 رسول اللہ نے فرمایا:جوشخص کھاناکھائےاوریہ دعا پڑھے

الحمد لله الذي أطعمني هذا، ورزقنيه من غير حول مني، ولا قوة، غفر له ما تقدم من ذنبه

تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیںجس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور بغیرمیری قوت وطاقت کے مجھے یہ عنایت فرمایاتو اسکے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)

من لبس ثوبا فقال: الحمد لله الذي كساني هذا الثوب ورزقنيه من غير حول مني ولا قوة

’’تمام تعریفیںاللہ کے لیے ہیںجس نے مجھے یہ لباس پہنایااور بغیرمیری قوت وطاقت کے مجھے یہ عنایت فرمایا

تو اسکے گزشتہ گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔

18۔آمین بالجہر  سے گناہوں کی مغفرت

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا

وَإِذَا قَرَأَ {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}  فَقُولُوا: آمِينَ فَإِنَّهُ إِذَا وَافَقَ قَوْلُ أَهْلِ السَّمَاءِ قَوْلَ أَهْلِ الْأَرْضِ غُفِرَ لِلْعَبْدِ مَا مَضَى مِنْ ذَنْبِهِ”(صحيح مسلم 410)

جب امام(غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )پڑھتا ہے تو تم آمین کہا کرو، کیونکہ یقیناجسکا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے سے مواقفت اختیار کر گیا اسکے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

19 ۔ایک کلمے سے گناہ معاف!

سیدنازید tسے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم کو فرماتے ہوئے سنا جس شخص نے

أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الْعَظِيمَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ثَلَاثًا، غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ، وَإِنْ كَانَ فَارًّا مِنَ الزَّحْفِ

 (میںاس اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوںجس کے سواءکوئی معبود نہیں وہ ہمیشہ زندہ رہنے اور تھامے رکھنے والی ذات ہے ،اور میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں) تین مرتبہ پڑھااسکو بخش دیا جاتاہے،خواہ وہ میدان جہاد سے بھاگاہو۔(مستدرک حاکم1884)

20۔مسلمان بھائی سے مصافحہ کرناگناہوں کی مغفرت کا ذریعہ۔

سیدنا براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی نے فرمایا:جب بھی دو مسلمان شخص ملاقات کرتے ہیںاور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے جدا ہونے سے پہلے پہلےانہیںبخش دیاجاتاہے۔

21۔ناراضگی ختم کرنے کے ذریعے سے گناہوں کا کفارہ۔

سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُصَارِمَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَإِنَّهُمَا مَا صَارَمَا فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَإِنَّهُمَا نَاكِبَانِ عَنِ الْحَقِّ مَا دَامَا عَلَى صِرَامِهِمَا، وَإِنَّ أَوَّلَهُمَا فَيْئًا يَكُونُ كَفَّارَةً لَهُ سَبْقُهُ بِالْفَيْءِ، وَإِنْ هُمَا مَاتَا عَلَى صِرَامِهِمَا لَمْ يَدْخُلَا الْجَنَّةَ جَمِيعًا(أدب المفرد:407)

’’کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ تک بول چال کرنا ترک کر دے، اس لیےکہ جب تک وہ ناراض رہتے ہیںتب وہ حق سے برگشتہ رہتے ہیں،ا ن دونوں میںسے جس نے پہلے ناراضگی کو ختم کیا اس کایہ عمل گزشتہ گناہوںکا کفارہ بن جاتا ہے اور اگر ان دونوںکواسی حالت میں موت آجائےتو یہ دونوں جنت میں داخل نہیںہوسکیں گے۔‘‘

22۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت پانا ہرگناہ کے کفارےکا موجب

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:

الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللهِ يُكَفِّرُ كُلَّ شَيْءٍ، إِلَّا الدَّيْنَ

’’اللہ کی راہ شہادت پاناقرض کے سوا ہر چیز کا کفارہ بن جاتا ہے ۔(صحیح مسلم 1886)

23۔توبہ تمام گناہوں پر معافی کاقلم پھیر دیتی ہے۔

سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

التائب من الذنب، كمن لا ذنب له

گناہ سےتوبہ کرنے والا ایسا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہ کیاہو۔(سنن ابن ماجہ4250)

24۔کفارہ مجلس کی دعا پڑھنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایاجو شخص کسی مجلس میںبیٹھے اور اس میں اس سے بہت سی فضول باتیں ہوجائیںتو وہ اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ کلمات پڑھ لے تو اس مجلس میںسرزد ہونے والی تمام کوتاہیاں بخش دی جائیںگی

سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك وأتوب إليك (سنن الترمذی 3433)

اے اللہ تو پاک ہے اپنی تعریف سمیت میںگواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،میںتجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری  طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔

25۔درود پڑھنے سے گناہ معاف ،نیکیوں کا حصول اور بلندی ٔدرجات ۔

سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ایک روز بہت خوش دکھائی دے رہے تھے اور آپ کہ چہرے مبارک سے خوشی کے آثار جھلک رہے تھے، لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آج آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں اور چہرے سے بھی خوشی کے آثار واضح ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایاجی ہاں، آج میرے پاس میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا (یعنی فر شتہ )آیا اور اس نے کہاآپ کی امت میں سے جو بھی شخص آپ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا اللہ تعالی اس کے بدلے میںاسکی دس نیکیاں لکھ دے گا،اس کے دس گناہ مٹادے گا اور اس کے دس درجات بلند فرمادے گا۔‘‘(مسند احمد 16350)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے