پاکستان کی بنیاد کلمۂ توحید پر رکھی گئی ، پاکستان کے قیام کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمان سید الانبیاء ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ بابائے قوم محمد علی جناح ؒ نے مسلم قومیت کی بنیاد کے بارے واضح الفاظ میں کہا تھا’’مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے نہ وطن ہے نہ نسل ہے ، ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تھا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا آپ غور فرمائیں کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا اس کی وجہ نہ ہندؤوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ ( مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 8 مارچ 1944ء) محمد علی جناح  ؒنے کہا :”اسلامی اقدار کو اپنانا انسانی ترقی کی معراج پر پہنچنے کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ ایک طرف قیام پاکستان کا جواز ہیں اور دوسری طرف ایک مثالی معاشرے کی تخلیق کی ذمہ داری ہیں۔ (26 مارچ 1948ء) بانیٔ پاکستان نے اپنے ایمانی جذبہ کا اظہار ان روشن الفاظ میں کیا :”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون عطا کرنےوالے پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پررکھیں۔“ (14 فروری 1947ء) اسلامیہ کالج پشاور میں بالکل واضح الفاظ میں کہا: اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ (13 جنوری 1948ء) بابائے قوم کے یہ تمام الفاظ ،خطبات، اسلامی روح کے آئینہ دار اور واضح اظہار ہے بلکہ انہوں نے تو ان الفاظ میں چیلنج کیا اور کہا :”ہندؤو اور انگریزو! تم دونوں متحد ہو کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔ تم اس اسلامی تہذیب کو کبھی نہ مٹا سکو گے جو ہمیں ورثہ میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہ ہے۔ ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا“۔ (مرکزی اسمبلی 22 مارچ 1930ء) جبکہ میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان نے بھی کچھ ایسا ہی کہا’’ علماء کرام کو فتووں کی دنیا سے نکل کر دین اسلام کا اصل بیانیہ پیش کرنا چاہیے تاکہ مذہب کے نام پہ نفرت کا پرچار ختم ہوسکے انتہا پسندی اور جہاد میں فرق واضح ہونا چاہیے، مدارس دین کے عالم پیدا کرنے کی بجائے اپنے اپنے مسلک کے مبلغ پیدا کر رہے ہیں۔ (11 مارچ 2017ء جامعہ نعیمیہ لاہور) مگر افسوس صد افسوس کہ جو ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا اس میں بعض نام نہاد مسلمان بلکہ شیطان صفت لوگ رسول معظم ﷺ کی شان اقدس میں مسلسل گستاخی کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ کیا ہماری غیرت ایمانی ختم ہوچکی ہے کسی کی ماں ، باپ، بہن ،بیٹی کو گالی دی جائے یا برا بھلا کہا جائے تو کوئی غیرت مند انسان برداشت نہیں کرسکتا اور جہاں معاملہ محسن اعظم،معلم انسانیت اور رحمۃ للعالمین کا ہو تو ہر انسان ناموس رسالت کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتاہےویسے تو ابھی تک ہم کاغذی شیرکا کردار ادا کررہے ہیں باتیںتو بہت ہو رہی ہیں وزیر داخلہ صاحب بھی بہت کچھ کہہ چکے ہیں مگر عملی طور پر کچھ سامنے نہیں آیا بہر حال محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنی حرارت ایمانی کا اظہار کیا ہے خانوادہ صدیقی کی لاج رکھنے کی کوشش کی کیونکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہر مشکل وقت میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔فاضل جج صاحب نے زبردست بات کہی ہے کہ جغرافیائی حدود کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نظریاتی حدود کی حفاظت از حد ضروری ہےکیونکہ نظریاتی حدود کے ختم ہونے سے ایمانی حدود کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے گستاخانہ پیجز کیخلاف مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا ’’ اللہ کی قسم! جب سے میں نے گستاخانہ پیجز دیکھے ہیں ، میں سو نہیں سکا۔ میری جان، میرے والدین اور عہدے سب ناموس رسالت پر قربان ہیں۔ قانون پر عمل نہ کرنے سے ہی ممتاز قادری جنم لیتے ہیں۔ گستاخ پیجز چلانے والے اور اس پر خاموشی اختیار کرنے والے بھی مجرم ہیں انہیں سزا ملے گی، غیرت ایمانی سے سرشار جج ایک گھنٹے کی عدالتی کارروائی کے دوران کئی بارروئے مزید فاضل جج نے کہا’’یہاں لوگوں کو ویلنٹائن ڈے بہت یادرہتا ہے انسانی حقوق بھی نظر آجاتے ہیں(عاصمہ جہانگیر بھی عدالت میں موجود تھیں) جب قانون پر عمل نہیں ہوتا اور کوئی گستاخ مارا جاتا ہے تو مرنے والے کی یاد میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں ۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ’’ پی ٹی اے والو، ایف آئی اے والو، پولیس والو،فوجیو نبی کریم ﷺ اور ان کے اہل بیت اَطہار کے بارے میں اتنا کچھ ہو۔ میرے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی گئی لیکن آپ لوگوں نے خاموش رہ کر اللہ کے بہت بڑے عذاب کو دعوت دی ہے روزِ محشر کس طرح ان سے شفاعت طلب کرو گے اگر عدالت کو یہ غلیظ مواد بند کرانے کیلئے پورا سوشل میڈیا بھی بند کرانا پڑا تو میں کردوں گا اور آخری حد تک جاؤں گا۔انہوں نے علمائے کرام سے اپیل کی کہ وہ نبی کریمﷺ کی عزت وحرمت کے تحفظ کے لیے مسلکی اور فروعی اختلافات مٹاکر ایک ہوجائیں۔یہی نسخۂ کیمیا اور واحد علاج ہے ان گستاخ بلاگرزکا۔
 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے