کتنی جلدی دن ،مہینے،سال گزرتے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ چند دن پہلے کی بات ہے کہ جب ہم لیل ونہار گن رہے تھے منٹ اور سیکنڈ بے تابی سے گزار رہے تھے کہ کب ماہ ذوالحجہ شروع ہو اور اس مہینہ کی فیوض وبرکات کو سمیٹا جائے ۔

حجاج کرام اس انتظار میں تھے کہ کب وہ فریضۂ حج ادا کریں ، پاؤںارض مقدس کے لمس کو محسوس کریں ، ترستی آنکھوں کو بیت اللہ کی زیارت نصیب ہو ،مقام ملتزم پر کھڑا ہو کہ دعا کی جائے جنت سے اتارے گئے حجر اسود کی بلائیں(بوسے) لے، مقام ابراہیم پہ دو رکعت ادا کرے بیت اللہ کا طواف کرے، حطیم میں نوافل ادا کرے ، صفا ومروہ کی سعی کی چاشنی محسوس کرے، منی،عرفات اور مزدلفہ میں خلق خدا کے ساتھ ملکر آہء زاریاں کرے۔

عمومی طور پہ عالم اسلام لیال عشر کا انتظار کرتے رہے کہ وہ ان دنوں میں ریاضت وعبادت کریں ،گناہوں سے آلودہ دامن کو دھوئیں، یوم عرفہ کا روزہ رکھیں، اللہ کے دربار میں اپنی قربانیاں پیش کرکے اس کا قرب حاصل کریں۔

یہ قیمتی دن آئے ہر ایک نے اپنی استطاعت کے مطابق ان دنوں کی برکات کو سمیٹا، حاجیوں نے حج ادا کیا، اللہ کی رضا کے لیے سفید دو چادریں اوڑھیں، منیٰ ،عرفات مزدلفہ میں اپنی سابقہ لغزشوں اور خطاؤں کو دھونے کے لیے ندامت کے ہنجو(آنسو) بہائے، جمرات کو کنکریاں ماریں، طواف الوداع کرتے ہوئے بلک بلک کر رو دیئے، آنسوں کی جھڑی نہ ٹوٹنے والی لڑی میں بدل گئی ، آہیں سسکیوں کی صورت اختیار کر گئیں ، جسم پہ لرزہ طاری ہوگیا کہ اب مکہ سے فراق کا وقت آگیا ایک قدم آگے کو چلتا ہے تو مکہ کی محبت پھر دو قدم پیچھے کھینچ لیتی ہے اور پھر دل سے یہ دعا نکلتی ہے ۔ یااللہ بیت اللہ کی بار بار زیارت نصیب کرنا اور آخر ڈگمگاتے قدموں ، بھیگی پلکوں اور لرزتے ہاتھوں کے ساتھ مکہ کو الوداع کیا، اللہ کی اطاعت میں گزارے گئے دن حجر اسود کا لمس ، زم زم سے سیراب کے گئے ہونٹوں کو یادوں کا خزینہ مکہ میں گزرے قیمتی لمحات کو متاع حیات بنایا اور نہ بھولنے والے مشاہدات کی گٹھڑی سنبھالے واپس گھروں کو چل دیئے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اتنی محبت ،چاہت، تڑپ،اطاعت کے ساتھ ساتھ مالی اور بدنی تکالیف سے ادا کی گئی یہ عظیم عبادت(حج وعمرہ) ختم ہونے کے ساتھ ہی اللہ کی اطاعت اور اس کا ذکر بھی ختم ہوجاتاہے؟

یقیناً ایسا ہرگز نہیں ، بلکہ حج وعمره سے انسان کے دل میں اللہ کی مزید محبت اُجاگر ہوتی ہے اس کی زبان اللہ کے ذکر میں لگ جاتی ہے ، دل ونگاہ ایسے مسلمان ہوتے ہیں کہ پھر نافرمانی کا سوچتے بھی نہیں جتنی بھی عبادات ہیں یہ وقتی نہیں بلکہ ان کے پیچھے بہت سے مقاصد ہیں جن کے حصول کے بغیر انسان عبادت کی لذت کو نہیں پاسکتا۔

نماز فحاشی اور بری باتوں سے روکتی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ(العنکبوت : 45)

’’یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔‘‘

روزہ رکھنے کامقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(البقرۃ : 183)

’’اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیاگیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کیاگیا تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘

اسی طرح حج سے متعلق آپ کا فرمان ہے :

مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (صحيح البخاري كتاب الحج باب فضل الحج المبرور الحديث: 1521ومسلم:1350)

’’جو شخص بیہودہ باتوں اور گناہوں سے دور رہتے ہوئے حج کرتاہے وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوکر لوٹتا ہے جیسے آج اسے اس کی ماں نے جنم دیا ہو۔‘‘

کیا ہی اچھا ہو کہ حاجی جب حج اور عمرہ ادا کرکے واپس اپنے وطن اور اہل وعیال میں پہنچے اس کے اخلاق میں پہلے کی نسبت زیادہ نکھار آچکا ہو ، زبان میں چاشنی ،نگاہوں میں جھکاؤ اور عاجزی کے ساتھ ساتھ ہمیشہ چہرہ پہ مسکراہٹ سجی رہے ، معاملات میں صفائی ہو اور اہل وعیال کے ساتھ نرمی اور عدل وانصاف کے ساتھ پیش آئے۔

دل میں اللہ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر گئی ہو ، زبان ذکر الٰہی سے تر رہے ، تلبیہ کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے پکا موحد بن چکا ، نفع ونقصان ، بگڑی بنانے والا صرف اللہ کی ہی کو سمجھے۔

احرام کی دو چادروں میں عرفات کے میدان میں اللہ کے سامنے دی گئی حاضر ی کو سامنےرکھتے ہوئے یہ یاد رکھے آخر اسے ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے جس طرح آج اتنی خلقت اکٹھی ہوئی ہے کل قیامت کے دن ساری مخلوق کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

دنیا اکٹھی کرنے کی بجائے اخروی کامیابی کی تیاری میں لگ جائے اس میں زہد وتقویٰ پیدا ہو ۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ حج مبرور کی کیا علامات ہیں کہنے لگے انسان دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتے ہوئے آخرت کی تیاری میں لگ جائے۔

اللہ کے دربار میں قبول عمل کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ نیک عمل کرنے کے بعد انسان کو مزید نیک عمل کرنے کی توفیق ملے۔

اگر ایک حاجی یہ دیکھنا چاہتاہے کہ اس کی حاضری کو اللہ کے دربار میں شرف قبولیت حاصل ہوئی ہے یا کہ نہیں تو پھر وہ اپنے آپ کو دیکھے کہ حج کے بعد اس کا تعلق اللہ کے ساتھ کتنا جُڑا ہوا ہے، کیا اس کے ایمان اور یقین میں اضافہ ہوا ہے ؟ کیا نمازوں کی پابندی کر رہا ہے ، قرآن پاک کی تلاوت کس حد تک کرتا ہے ، زبان پہ ذکر الٰہی رہتاہے یا کہ ہر وقت گالی گلوچ اور غیبت میں لگی رہتی ہے۔

قرآن مجید کی تلاوت میں لذت محسوس ہوتی ہے یا گانے سننے کے لیے بے تاب رہتاہے ؟

کیا حرام کمائی سے اپنے پہلو کو بچایا ہوا ہے ؟ سودی لین دین کو ترک کر دیا؟ اپنے گناہوں سے تائب ہونے کے بعد کہیں دوبارہ تو انہیں گناہوں میں نہیں جکڑا گیا؟

اپنے حج سے پہلے اور حج کے بعد کا موازنہ کرے پتہ چل جائے گا کہ کتنے پانی میں ہیں ۔ انسان کو چاہیے کہ اس نے سفر حج میں جو عبادتیں شروع کی ہیں حج کے بعد بھی مستقل مزاجی سے انہیں ادا کرتا رہے آپ  کاارشاد ہے :

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللهِ تَعَالَى أَدْوَمُهَا، وَإِنْ قَلَّ (صحيح البخاري كتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل ومسلم : 783)

’’اللہ کو وہ اعمال زیادہ پسند ہیں جو مستقل مزاجی سے کیئے جائیں چاہے وہ مقدار میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘

ر ب کائنات ایسے عمل کو ناپسند فرماتے ہیں جو شروع کرکے پھر چھوڑ دیا جائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا (النحل:92)

’’اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا۔‘‘

مکہ میں ایک خاتون تھی جو سارا دن کپڑا بنتی اور شام کو ادھیڑ دیتی اسی طرح اس کی سارا دن کی محنت اکارت جاتی۔

اسی طرح وہ حاجی جس نےسفر حج کی مشقتیں اُٹھائیں اپنے ملک سے سفر کرکے مکہ مکرمہ آیا پرسکون زندگی کو چھوڑ کر سفر کی بےآرامی کو برداشت کیا اور حج ادا کرنے کے بعد پھر گناہ اور اللہ کی نافرمانی کرنے لگ گیا اس کی مکہ مکرمہ کی اس عورت کی طرح ہے جس کی سارا دن کی محنت رائیگاں جاتی ہے اور یہ حاجی بھی اللہ کی نافرمانیاں کرکے اپنے سفرِ حج کی محنت پہ پانی پھیر دیتاہے۔

مستقل مزاجی سے کئے گئے کاموں کےاچھے اثرات آدمی پہ پڑتے ہیں ، ہمیشہ دل اللہ سے جڑا رہتاہے ، اللہ کی مدد اور محبت حاصل ہوتی ہے ، مستقل اعمال صالحہ کرنے سے آدمی کے صغیرہ گناہ جھڑتے رہتے ہیں ، مستقل مزاجی سے اعمال صالحہ کرنے والے کا خاتمہ بالخیر کی امید کی جاسکتی ہے ، مستقل مزاجی سے اعمال صالحہ کرنے والے کو مصیبتوں اور سختیوں میں اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتے اور ان مصائب سے اسے نجات دیتے ہیں ۔ آپ  نے فرمایا :

تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ (احمد:2803 )

’’ اللہ کو فراخی میں یاد رکھو تمہاری تنگدستی میں اللہ تمہیں یادرکھے گا۔‘‘

نبی کریم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں سورۃ النصر نازل ہوئی جس میں رب کائنات نے اپنے حبیب کو تلقین کی کہ

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ (النصر:3)

اپنے رب کی حمد وثنا بیان کریں اور استغفار کرتے رہیں۔‘‘

اہل علم کہتے ہیں کہ انسان کو ہر عمل کے بعد استغفار کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ اور آپ سے راضی ہوجائے اور ہمیں اخلاص کی دولت سے نوازے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ ہو۔ آمین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے