طرزہائے حکومت کا مطالعہ کریں تو ہمیں بہت سے نظام حکومت نظر آئیں گے دنیا میں اشرافیہ حکومت بھی رہی ہے۔پاکیزہ خلافت کا زمانہ بھی اہل دنیا نے دیکھا ہے۔ بادشاہت اور آمریت کا دور بھی گزر چکا ہے اگرچہ اب بھی بعض ممالک میں آخر الذکر دو نظام کسی نہ کسی صورت میں رائج ہیں تاہم موجودہ دور میں جمہوری نظام حکومت مقبولیت پاچکا ہے تقریباً سبھی ممالک میں جمہوریت رائج ہے جمہوریت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی حکومت کو عرفِ عام میں عوامی حکومت تصور کیا جاتاہے لیکن دوسری طرف یونان کے مشہور سیاسی مفکر ارسطو جمہوریت کا شمار بُری حکومتوں کی فہرست میں کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت ’’ہجوم کی حکمرانی ‘‘ کا نام ہے۔

جمہوریت کی تعریف:

لغوی اعتبار سے لفظ ’’جمہوریت ‘‘ کا اشتقاق دو پرانے یونانی جملوں سے ہوا ہے۔

پہلا: (دیوس)Demosجوکہ عوام کے معنی میں ہیں اور دوسرا حصہ (کراتوس)Cratos اختیار اور حکم کے معنی میں ہے چنانچہ ان دونوں کو ملا کر جمہوریت کا مطلب ’’عوامی اختیار‘‘ یا ’’عوامی حاکمیت ‘‘ ہے۔

ویسے تو جمہوریت کی بہت سی تعریفیں کی گئی ہیں جن میں سے ابرہیم لنکن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سولہویں صدر کی تعریف زیادہ جامع قرار دی گئی ہے اور وہ یوں ہے۔

Government of the People, by the People, for the People

یعنی ’’عوام کی حکومت عوام کے لئے، عوام کی مرضی سے‘‘!

حکومت یا حاکمیت کی دو صورتیں ہوتی ہیں ان میں سے ایک تو ملک کے قوانین اور نظام بنانے کی صورت ہے اور دوسری صورت ان کی عملاً تنفیذ کی ہے،جمہوریت کا حاصل یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ اور زاویئے پر پیش آنے والے ہر ہر مسئلے کے حل کے لیے قوانین لوگوں کی طرف سے وضع کیے جائیں اورحاکم بھی لوگوں کی طرف سے منتخب کیاجائے اور فیصلہ بھی لوگوں کی طرف سے منتخب شدہ نمائندہ کرے،دین ،وحی یا آسمانی رسالت کے لیے جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں۔

مندرجہ بالالغوی اور اصطلاحی تعریفوں کے تناظر میں جمہوریت کی مکمل تعریف کی مندرجہ ذیل شکل حاصل ہوتی ہے:

جمہوریت زندگی گزارنے کے ایک ایسے سیاسی اور اجتماعی نظام کانام ہے جو ہر قسم کی دینی قید و بند سے آزاد ہو اور اس میں حاکمیت،تشریع اور فیصلے لوگوں کی طرف سے اور لوگوں کی اکثریت کے مفاد کے لیے انجام پاتے ہوں۔

جمہوریت کی نظریاتی بنیاد

عصری جمہوریت نے مغرب میں جنم لیا،یہ بات ایک حقیقت ہے کہ مغربی اقوام نے آج تک کوئی الٰہی دین سالم اور غیر تحریف شدہ حیثیت سے نہیں دیکھا،یہودیت صرف بنی اسرائیل کا دین تھا اور وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ اور لوگوں کو اپنے دین کی طرف دعوت دیں۔عیسائیت بھی اس وقت مغرب میں پہنچی کہ جب پاول کے ہاتھوں تحریف شدہ ہو چکی تھی اور توحید کی جگہ تثلیث نے لے لی تھی تحریف شدہ مسیحت انسان کے رابطے کے لیے کچھ ہدایات اپنے اندر رکھتی تھی لیکن انسانوں کے درمیان معاملات کے لیے کوئی شریعت اور قوانین ان کے پاس نہیں تھے چنانچہ اہل مغرب نے زندگی کے سیاسی، اجتماعی،اور اقتصادی معاملات کے لیے پرانے رومن اور یونانی قوانین اور رواجوں کو اپنایا ہوا تھا جس کی وجہ سے مغرب کے اکثر ذہنوں میں یہ بات پیدا ہوگئی کہ عملی زندگی کے معاملات میں دین بالکل دخل نہیں دیتا۔مسیحی دین میں عملی اور معاشرتی زندگی کے بارے میں قوانین نہ پائے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا کو بادشاہوں، سرداروں اور سرمایہ داروں نے اپنی طرف سے قوانین وضع کر کے پُر کیا تھا۔انہوں نے ایسے قوانین بنائے تھے کہ مغربی عوام کی اکثریت کو چند بادشاہوں کی خدمت میں مختلف ناموں اور بہانوں سے مسخر کر دیاتھا۔ یہ بادشاہ لوگوں پر حاکمیت کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنا حق سمجھتے تھے،ملت اور قوم کی طرف سے کسی معاہدے یا بیعت کے تحت ان کو اقتدار نہیں ملا تھا کلیسا کے پاس ایک طرف تو زندگی کے معاملات کے لیے قانون اور شریعت نہیں تھی تو دوسری طرف علم، دین تفکر اور عقل کو بھی اپنے تک محدود رکھا ہوا تھا،نظریات کی بنیاد پر ظلم ایسے مرحلے میں پہنچا ہوا تھا کہ کوئی بھی شخص اگر ایسا نظریہ پیش کرتا جو کلیسا کو پسند نہیں ہوتا تو فوراً اس شخص کو کافر اور اللہ جل شانہ کی رحمت سے محروم شمار کیا جاتا اور دین سے بغاوت کے جرم میں اس سے معاشی بائیکاٹ کر دیا جاتا۔

کلیسا کی طرف سے دین کی تحریف شدہ اور غیر معقول تصور اور بادشاہوں کے جابرانہ نظام نے یورپ میں لوگوں کو دین رسالت اور ملوکیت(بادشاہت) سے متنفر کر دیا جنہوں نے دین کی بجائے لوگوں کی خواہشات کو قوانین کا ماخذ بنا لیا حق و ناحق اور جائز و ناجائز کامعیار وحی کی بجائے عقل کو بنایا۔

دین کے بارے میں اہل یورپ دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ایک گروہ نے دین،رسالت اور روحانیت سے بالکل ہی انکار کردیا،یہی انکار کا نظریہ بعدمیں لبرل ازم کمیونزم کی صورت میںظاہر ہوا اور دوسرے گروہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ کوئی دین اپنانا انسان کا اپنا ذاتی اور نجی معاملہ ہے جس میں اسے آزادی حاصل ہے کیونکہ دین انسان اور اللہ جل شانہ کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے لیکن زندگی کے معاملات میں دین کا کوئی دخل نہیں، انسان اپنی زندگی کے لیے قوانین بنانے میں بالکل آزاد ہے۔ یہ نظریہ ’’سیکولرازم ‘‘ یا بالفاظ دیگر ’’دین سے زندگی اور امور سلطنت کے الگ ہونے‘‘ کے نام سے پہچانا گیا اور یہی نظریہ جمہوریت کے لیے نظریاتی بنیاد تشکیل دیتا ہے،جمہوریت کے مشہور فلسفیوں، توماس،ہوبز،جان لاک اور جاک روسو نے جمہوریت کے لیے اس بنیاد کو سماجی معاہدے کے فلسفے کی شکل میں پیش کیا جس کا خلاصہ درج ذیل سطور میں پیش خدمت ہے۔

’’انسان پچھلے زمانے میں فطری زندگی پر رہتے تھے، زندگی بالکل غیر منظم تھی قانون اورحکومت ان کے پاس نہ تھے کہ وہ معاملات کو منظم کریں بعد میں لوگوں نے قانون اور حکومت کے لیے ضرورت محسوس کی اور نظام اور قانون بنانے کے لیے اکٹھے ہو گئے اور اپنے درمیان ایک Social Contract (سماجی معاہدہ) کیا جس نے بعد میں حکومت اور قانون کی شکل اختیار کرلی، اس بنیاد پر قانون اور حکومت کا تصور لوگوں کے ارادے سے وجود میں آیا۔

مندرجہ بالانظریہ اللہ جل شانہ اور اس کے رسولوں اور الٰہی دینوں سے انکار پر مبنی ہے اور وہ اس طور پر کہ نعوذ باللہ نہ اللہ جل شانہ وجود رکھتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو پیدا کیا ہے اور نہ ہی نظام،قوانین اور رسول بھیجے یا پھر یہ کہ اللہ جل شانہ خالق تو ہیں مگر پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا نہ رسولوں کو بھیجا ہے نہ ادیان کو نازل کیا اور نہ انسانوں کو زندگی کے معمولات کے نظم و ضبط سے آشنا کیا ہے کیونکہ اگر یہ سب کچھ ہوا ہوتا تو پھر فلاسفروں کے جمہوری Social Contract(سماجی معاہدہ) کی کیا ضرورت تھی؟

کیا یہ جمہوریت حقیقت میں جمہوریت ہے؟

آج دنیا میں چند ملکوں کے علاوہ تمام دنیا میں جمہوریت کا غلبہ ہے لوگ ہر طرف سے جمہوریت کے استحکام کے بارے میں بولتے ہیں اور کوئی بغیر جھجک کے یہ کہتا ہے کہ استحکام جمہوریت ہونا چاہیے اور کوئی یہ فخر کرتا ہے کہ ہم نے اس کو اتنی تقویت دی ہے دوسرا کہتا ہے کہ ہم نے اس سے زیادہ دی ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت سرے سے ہی نہیں،خصوصاً پاکستان میں جیسا کہ الیکشن کمیشن نے رپورٹ میں دیا تھا کہ2008 ءمیں 44۔11 فیصد لوگوں نے اپنی رائے کا استعمال کیا ہے اور89۔55 فیصد نے نہیں کیا، تو معلوم ہوا کہ آدھے سے زیادہ لوگ اس نظام کو بالکل مانتے نہیں ہیں تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کوئی دوسرا راستہ اپنایا جاتا حکومت بنانے کے لیے۔

دوسری طرف پاکستان میں 1950ء سے اب تک جتنے انتخابات ہوئے ہیں سب میں دھاندلی کی گئی ہے۔ جیسا کہ حسن محمد جو کہ 1985ء سے 2004ء تک الیکشن کے ادارے سے منسلک رہے ہیں نے اپنی کتاب (General elections in pakistan)میں یہی انکشاف کیا ہے۔

تیسری بات یہ کہ پاکستان میں الیکشن تو نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اصل اختیارات تو امریکہ کے پاس ہیں وہ جسے چاہتا ہے صدر بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے وزیر اعظم۔جیسا کہ 2008ء میں انتخابات کے بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں شائع کیا تھا۔ اس میں تھا کہ امریکہ سے پاکستان میں سول حکومت لانے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ سول حکومت امریکہ کے لیے وہ کچھ نہیں کر پائے گی جو فوجی حکومت کر سکتی تھی۔

تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کسی کو حکومت دینا امریکہ کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ روزانہ اخبارات میں آتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں الیکشن سیل قائم کر لیے ہیں پارٹیوں کے امیدواروں اور لیڈروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور اپنے لیے کام کرنے کی شرط پر انہیں جتانے کی کوشش کرتے ہیں حتی کہ امریکہ کے کہنے پر ایک بڑی پارٹی نے اپنے چار امیدواروں کو دستبردار کیا ہے۔

اگر ہم امریکی جمہوریت کی ترقی کو دیکھیں تو امریکہ میں جمہوریت کو سوا دو سو سال ہو چکے لیکن یہ بات کون نہیں جانتا کہ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم امریکہ میں ہی ہوتے ہیں سب سے زیادہ خود کشیاں بھی امریکہ میں ہوتی ہیں تو کیا جمہوریت امریکی عوام کے مسائل کو حل کرسکی؟

جمہوریت میں حقوق اور آزادی کی تفصیل

1۔عقیدۃ کی آزادی:

جمہوریت میں انسان کا کسی عقیدے پر پختگی اور استقامت کوئی ضروری اور قابل مواخذہ عمل نہیں بلکہ یہ ایک اختیاری عمل ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان حتماً مسلمان رہے اور صرف اللہ ہی کی عبادت کرے جو اس کا خالق ومالک ہے بلکہ جمہوریت میں انسان عقیدے کے باب میں بالکل آزاد ہوتا ہے اس کی مرضی ہوتی ہے کہ جس دین کو چاہے اختیار کرے اور جس کا چاہے برملا انکار کردے۔اسی طرح انسان یہ حق رکھتا ہے کہ ایک دین چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہو جائے مثلاً آج مسلمان ہے تو کل عیسائی ہوجائے اگلے روز ہندو، یہودی،کیمونسٹ یا کوئی اور دین اختیار کرلے تو کوئی قانون دین کی تبدیلی پر اس کا مواخذہ نہیں کرسکتا کیونکہ جمہوریت میں یہ اس کا ذاتی فعل ہے معاشرے اورنظام کو اس کے عقیدے سے کوئی سروکار نہیں اور اگر کوئی اس سے یہ حق چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو جمہوریت اسے اس کا حق دلانے کے لیے پوری قوت سے اس کا ساتھ دیتی ہے۔

2۔نظریے اور رائے کی آزادی:

جمہوریت میں نظریے یا رائے کی آزادی کا حق بھی ان حقوق میں سے ہے جس پر کسی قسم کی قیدو بند لگانے کی اجازت نہیں ہوتی یعنی ہر انسان ہر چیز میں اپنی رائے دے سکتا ہے قطع نظر اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ انسانی رائے کے لیے دین میں کوئی جگہ ہے بھی یا نہیں؟نیز یہ رائے دین کے احکام اور قوانین کی بنیاد پر کھڑی ہے یا نہیں؟وہ دین جو کہ انسان سے مکمل تابعداری مانگتا ہے لیکن جمہوریت میں کیونکہ انسانوں کی رائے وحی اور دین سے بالاتر ہوتی ہے اس لیے اس میں دینی احکام لوگوں کی رائے کی بنیاد پر تبدیل ہو سکتے ہیں۔

3۔شخصی آزادی:

جمہوریت میں دوسری آزادی شخصی آزادی ہے یعنی انسان کو اپنی ذات کے بارے میں مکمل آزادی حاصل ہے وہ اپنی ذات کے ساتھ کچھ کرسکتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ آیا اس کایہ عمل شریعت محمدی کی نظر میں جائز ہے یا ناجائز، جمہوریت میں زنا، ہم جنس پرستی اور اس سے بالاتر دیگر افعال انسان کے ذاتی حقوق ہیں جس میں وہ آزاد ہے اور ان کے کرنے نہ کرنے میں کوئی اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتا۔

4۔بیان یعنی اظہارِ خیال اور تبلیغ کی آزادی:

جمہوریت میں بیان کی آزادی ایک مکمل حق کی حیثیت رکھتی ہے ہر شخص ہر چیز کے بیان کرنے کا حق رکھتا ہے اور کوئی دوسرا اس کواپنا نظریہ بیان کرنے سے روک نہیں سکتا۔چاہے اس کا یہ نظریہ اللہ کے بارے میں ہو اور اس کا نظریہ کتنی ہی بے ادبی پر مشتمل ہو جمہوریت میں اس کا اظہار اس شخص کا قانونی حق ہے۔اسی دلیل نے یورپ میں لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنانے کا حق دیا۔(نعوذ باللہ من ذلک!)

5۔ رہائش کا حق:

جمہوریت ہر انسان کو حق دیتی ہے کہ جہاں جی چاہے رہے اس جگہ اس کی ذات اور شخصیت کا احترام کیا جائے گا یعنی ایک کافر اگر چاہے کہ مکہ مدینہ میں رہے اس کومنع نہیں کیا جائے گا۔

6۔ملکیت کاحق:

جمہوریت میں انسان ہر چیز کی ملکیت رکھ سکتا ہے کسی بھی طریقے سے مال کمانے اور ہر طریقے سے اسے خرچ کرنے کا حق رکھتاہے جمہوریت مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں کسی بھی خارجی مداخلت کو برداشت نہیں کرتی چاہے وہ مداخلت دینی ہو یاکوئی اور،بلکہ جمہوریت اس کو خالص انسان کا انفرادی اور نجی حق گردانتی ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے مال کمائے اور اسے جہاں چاہے استعمال کرے۔

7۔ پیشہ اختیار کرنے کاحق:

جمہوریت ہر انسان کو ہر قسم کا پیشہ کرنے کا حق دیتی ہے اس بات سے بالکل قطع نظر کہ آیا وہ پیشہ حلال ہے یا حرام۔

8۔ مرد وزن میں مساوات اور برابری کاحق:

جمہوریت میں عورت اورمرد دونوں برابر کے حقوق اور آزادی رکھتے ہیں یعنی جوکام مرد کرسکتا ہے عورت کو بھی اس کی اجازت رکھنی چاہیے مرد عورت پر نگرانی اور حاکمیت کا حق نہیں رکھتا بلکہ دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنے کے مساوی حقوق رکھتے ہیں۔

یاد رہے ان حقوق میں جمہوریت کے وہ خاص حقوق بھی شامل ہیں جس کی ادائیگی کے لیے اہل مغرب حقوق نسواں کی رٹ لگائے رکھتے ہیں جیسے جماعتوں میں شرکت، مرد کے شانہ بشانہ کمانے کا حق اور ہر وہ حق جس میں عورت گھر کی چار دیواری سے نکل کر معاشرے کی تعمیر میں حصہ لے اور گھر بیٹھ کر قوم پر بوجھ نہ بنے۔

9۔ سیاسی گروہ بندی:

جمہوریت کی بنیادی چیزوں میں سے ایک سیاسی گروہ بندی بھی ہےیعنی جمہوریت معاشرے میں مختلف سیاسی جماعتیں بنا سکتی ہے۔یہ سیاسی جماعتیں الگ الگ قومی اور نظریاتی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے بنائی جاتی ہیں پھر اختیارات تک رسائی کے لیےہر جائز اور ناجائز مختلف وسیلوں اور طریقوں سے کام لیتی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ قدرت رکھنے والے استعماری ممالک دوسرے ممالک میں اپنے اہداف اور مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جماعتیں بناتے ہیں اور پھر ان جماعتوں کو مختلف طریقوں سے مضبوط کرتے ہیں اور حکومت تک پہنچاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے آزاد ممالک کو اپنے ماتحت بنائیں اور اپنی اصلاحات اور اپنی مرضی کی تبدیلیاں اس میں نافذ کریں۔

10۔ دینی گروہ بندی :

جمہوریت میں اگرچہ دین کو ممالک کے اجتماعی کاموں میں کوئی کردار حاصل نہیں ہوتا مگر چونکہ لوگوں کو فطری طور پر ادیان کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ فطری تقاضۂ دین کے علاوہ دیگر چیزوں سے پورا نہیں ہوسکتا اس لیے جمہوریت بھی عقیدے اور عبادت کی حد تک انسان کی ذاتی زندگی میں دین کی اجازت دیتی ہے اسی لیے جمہوریت میں دینی جماعتوں کو بھی اپنا کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے مگر اس شرط پر کہ سیاسی اور اجتماعی کاموں میں جمہوریت کو مانا جائے گا۔ اسی بنیاد پر جمہوریت میں ہر شخص اور ہر جماعت کو اپنے دین اور عقیدے کی پرچار کا حق حاصل ہوتاہے جیسے کہ مسلمان تبلیغی حضرات ہرجگہ تبلیغ کا حق رکھتے ہیں اسی طرح جمہوریت میں ہر دین اور ہرمذہب کے لوگوں کو یہ حق حاصل ہوتاہے کہ وہ اسلامی ممالک میں اپنے دین کی پرچار کے لیے آزادی کے ساتھ کام کرسکتے ہیں ۔ اس حق کے حصول میں اگر کوئی رکاوٹ آتی ہے تو جمہوریت کی محافظ قوتیں فوری طور پر حرکت میں آجاتی ہیں اور اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتی ہیں۔

جمہوریت کے یہ حقوق اور آزادی جوکہ مغربی مسیحی معاشرےکے روحانی،اجتماعی،سیاسی اور استعماری مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ ان کو پوری دنیا میں ایک قانون کی شکل دی گئی ہے اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے تحت درج کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ میں شامل ملکوں پر حتمی طور پر اس کی تابع داری لازم کی گئی ہے اور اس سے روگردانی کسی صورت بھی قبول نہیں کی جاتی۔

انسانی حقوق سے متعلق اس قانون میں یہ بات صراحت سے لکھی ہوئی ہے کہ:’’کسی بھی صورت یہ بات جائز نہیں کہ ان حقوق کے ساتھ ایسی صورت میں معاملہ کیا جائے جو اقوام متحدہ کے اصولوں اور اہداف سے متصادم ہو۔‘‘ یعنی آزادی اور حقوق انسانی کے اس قانون کو بالکل اسی شکل میں عملی جامعہ پہنایاجائے جس طرح اقوام متحدہ چاہتی ہے کسی ملک کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اس قانون کے خلاف عمل کرے،اقوام متحدہ کا یہ حکم اور فیصلہ ان لوگوں یا حکومت کے قول کو بالکل رد کردیتاہے جو یہ کہتے ہیں کہ:’’ہم انسانی حقوق کی وہی تعبیر کرتے ہیں جو اسلام نے کی ہے۔‘‘

کیا جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جاسکتاہے؟

جمہوریت کے پانچ ارکان ہیں۔

1۔ حق رائے دہی بشمول خواتین (سیاسی اور جنسی مساوات)۔

2۔ ہر ایک کے ووٹ کی یکساں قیمت۔

3۔ درخواست برائے نمائندگی اور اس کے جملہ لوازمات۔

4۔ سیاسی پارٹیوں کا وجود۔

5۔ کثرت رائے سے فیصلہ۔

ان ارکان خمسہ میں سے ایک رکن بھی حذف کردیا جائے تو جمہوریت کی گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتی جب کہ اسلامی نظام خلافت میں ان ارکان میں سے کسی ایک کو بھی گوارا نہیں کیا جاسکتا لہذا یہ دونوں نظام ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے سے متصادم ہیں یعنی نہ تو جمہوریت کو مشرف بہ اسلام کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظام خلافت میں جمہوریت کے مروجہ اصول شامل کر کے اس کے سادہ فطری اور آسان طریق کار کو خواہ مکدر اور مبہم بنایا جا سکتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک لادینی نظام ہے اور اس کے علمبردار مذہب سے بیزار تھے جب کہ خلافت کی بنیاد ہی خدا،اس کےرسول اور آخرت کے تصور پر ہے اور اس کے اپنانے والے انتہائی متقی اور بلند اخلاق انسان تھے۔

ہمارے خیال میں جیسے دن رات یا اندھیرے اور روشنی میں سمجھوتہ ناممکن ہے بالکل ایسے ہی دین اور لادینی یاخلافت اور جمہوریت میں بھی مفاہمت کی بات ناممکن ہے لہٰذا اگر جمہوریت میں بھی مفاہمت کی بات ناممکن ہے لہٰذا اگر جمہوریت کو ہر حال اختیار کرنا ہے تو توحید و رسالت سے انکار کے بعد ہی اپنایا جا سکتا ہے۔

باطل دوئی پرست ہے حق لا شریک

شریک میانہ حق و باطل نہ قبول کر

جمہوریت پر ایک تبصرہ

اگر کسی ملک کے باشندے کی منتخب کردہ پارلیمنٹ یا اسمبلی (soveregnty)یعنی حاکمیت مطلقہ کا دعوی کرتی ہے کہ ہمیں اختیار دیں۔جو چاہیں طے کردیں تو دراصل یہ بھی اپنی روح (spirt) اور اساس کے اعتبار سے ’’خدائی کا دعوی ‘‘ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ایک فرعون ایک نمرود ایک شداد ہوتا تھا جوزبان سے بھی خدائی کے دعویدار تھے۔ اب عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے پارلیمنٹ یا اسمبلی نے فرعون نمرود اور شداد کی جگہ لے لی ہے۔پس یہ عوامی حاکمیت جس کی تعبیر ’’جمہوریت ‘‘ ہے در حقیقت عوامی فرعونیت ہے۔ یہ عوامی نمرودیت ہے جس کا نام(popular sovereignty) (عوامی حاکمیت) رکھ دیا گیا ہے اس بات کو بڑے خوبصورت انداز میں علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’ابلیس کی مجلس شوری‘‘ میں ابلیس سے یوں کہلوایا ہے:

ہم نے خود شاہی کو پہنایا جمہوری لباس

جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

یہی کچھ ہوا ہے کہ پہلے کفر کا ایک شخص ایک ذات یا ایک طبقہ میں ارتکاز تھا۔اب اس کفر کوخداناآشنا جمہوریت کا نام دے کر پھیلا دیا گیا ہے رہے وہی کفر جو پہلے ایک طبقہ یا ایک شخص یا ایک خاندان میں مرتکز ہوتا تھا۔اب اسے عوام میں بانٹ دیا گیا ہے اقبال نے بہت خوب کہا تھا:

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کوہے

حکم راں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے

اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو

آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن اندروں چنگیزسے تاریک تر

(ڈاکٹر اسرار احمد )

جمہوریت نواز اسلامی جماعتوں کے نام

چہرہ روشن اندرون چنگیزسے تاریک تر

یہ تو ہوئی جمہوریت کی حقیقت۔لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو پوری دیانت کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہیں لیکن انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی دیانت دار کو تو ووٹ دے گاجو اپنے آپ پر اسلام کے نفاذ کے لیے تیار ہو گا۔ تو ان جماعتوں نے لوگوں کی کتنی تربیت کی ہے۔ اور کیا ان جماعتوں نے اتنی افراد سازی کی ہے کہ ان کو اکثریت مل جائے گی۔کلاوحاشا۔

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو وہ مکہ کا متفقہ صدر بن سکتے تھے اور اس بات کا اظہار کفار مکہ نے دو تین مرتبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ انقلاب اوپر سے مسلط نہیں کیا جاتا بلکہ وہ تو بنیاد سے کھڑا کیا جاتاہے۔لیکن پھر یہ لوگ کہتے ہیں چلیں ہم جمہوریت سے بائیکاٹ کرتے ہیں لیکن دوسرا راستہ کو ن سا ہے۔ راستہ تو وہی ہے جو جمہوریت کے نظام کے مقابل ہمیشہ کامیاب رہا۔ انقلاب ہمیشہ ایک منظم گروہ لے آتا ہے۔اور اسی گروہ میں چند محدود لوگ ہوتے ہیں او ر انتھک کوششوں کے بعد یہ قوم لوگوں کے دلوں کی آواز بن جاتی ہے اور یہ گروہ لوگوں کو صحیح سمت کی طرف قیادت کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ گروہ یا پارٹی انقلاب پر یقین رکھتی ہو۔اس کے لیے اپنے کارکنوں کوبھی تیار کرتی ہو اور ان کو انقلاب کے لیے تیار کرنے کامواد ترتیب دیتی ہو۔اس کا تمام لٹریچر انقلابی راستے کی طرف رہنمائی کرے۔ نمونے کے طور پر ہمارے سامنے انقلاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  موجود ہے اور موجودہ دور میں انقلاب فرانس، روس، چین اور ایران وغیرہ ہمارے سامنے ہیں۔ انقلاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے انقلابات کے ذکر سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ صحیح اور کامیاب انقلابات تھے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اگر ہم بھی کوشش کریں تو ہم بھی ایک قسم کا انقلاب لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ان شاءاللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے