پہلا خطبہ:

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ(آل عمران : 102)

 ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں ۔
شریعت اسلامیہ کی بنیاد حکمت اور انسانیت کی دنیاوی و اخروی خیر و بھلائی پر ہے، اسلامی شریعت سراپا عدل و رحمت اور خیر و حکمت ہے۔
شریعتِ اسلامیہ انسانیت کے مابین عدل، تمام مخلوقات کیلیے رحمتِ الہی، اور اہل زمین کیلیے سایہ الہی ہے، اس سے اللہ تعالی کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے دلائل رونما ہوتے ہیں، یہی لوگوں کیلئے ذریعۂِ نجات اور دھرتی کیلیے دوام کا باعث ہے۔
انسانی زندگی اُسی قانون کے تحت پر سکون ہوگی جس کا تعلق شریعت اسلامیہ سے ہوگا، اور جس میں اسلامی قانون کا نفاذ ہوگا۔
اگر امت شریعت پر کار بند رہے تو نکتہ چینی کرنے والوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، نیز راہِ ہدایت سے روکنے والے اور گمراہی میں اوندھے گرنے والوں سے متاثر بھی نہیں ہوگی؛ کیونکہ مسلمان تو اپنے منہج پر ثابت قدم رہ کر آگے بڑھتا ہے، اور اسی پر قائم رہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيم وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ اللهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ(الحج : 67 – 69)

 ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے، لہذا انہیں اس بارے میں تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہیے، آپ ﷺ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، بلاشبہ آپ ﷺ ہی راہ راست پر ہیں اور اگر پھر بھی تنازعہ کھڑا کریں تو آپ ﷺ کہہ دیں: اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خوب تر واقف ہے اللہ تعالی تمہارے اختلافی امور میں قیامت کے دن فیصلہ کریگا۔
شریعت اسلامیہ کے اہم ترین مقاصد میں یہ شامل ہے کہ: فائدہ زیادہ سے زیادہ جبکہ نقصان کم سے کم ہو، اس دھرتی کی عدل اور امن و سلامتی کی بنیاد پر آباد کاری ہو، اور نظریاتی حدود سمیت پورے معاشرے کی حفاظت کی جائے۔
شریعت اسلامیہ کا درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ: شریعت کے تمام احکامات، حدود اور تعلیمات حسن و خوبی پر مبنی ہیں؛ کیونکہ یہ شریعت ہے ہی حسن و خوبی والی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’یقیناً اللہ تعالی نے ہر چیز کیلیے حسن و خوبی کو لازم قرار دیا ہے‘‘
اور فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ(البقرة: 195)

 (عمل کرتے ہوئے)حسن و خوبی اپناؤ، بیشک اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے
ایک مقام پر فرمایا:

 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ(النحل : 90)

 ’’بیشک اللہ تعالی عدل اور اچھے انداز سے کام کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘
اور ان خوبیوں کی حامل شریعت کو حکمت و خبر رکھنے والے اللہ تعالی نے بہترین امت کیلیے نازل فرمایا ہے۔
شریعت کی وجہ سے ہی ہمیں آسودگی میسر آئی، ہم خوش حال ہوئے، ہمیں دہشت کے بعد امن و سلامتی ملی، اللہ تعالی نے ہمارے لیے زمینی خزانوں کے انبار لگا دیے، اور ہمیں پینے کیلیے وافر پانی میسر فرمایا:

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ(العنكبوت : 67)

 ’’کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پر امن بنایا حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے‘‘
نفاذ شریعت اور حدود لاگو کرنے سے ملکی امن کو تحفظ ملا، اور لوگوں کیلیے آسودگی و اطمینان میسر آیا، حالانکہ ارد گرد کے لوگوں کو رطب و یابس ہر چیز کو تباہ کر دینے والی جنگوں سمیت قتل و غارت کا سامنا ہے، یہ اللہ تعالی کا ہی احسان اور فضل ہے، ہم ظاہری اور باطنی ہر انداز سے اسی کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں۔
شریعتِ الہی کا نفاذ ہی پر سکون زندگی کا واحد ذریعہ ہے، اس سے مثبت سرگرمیاں پھلتی پھولتی ہیں، سب خوشحال ہوتے ہیں، وقار اور دفاع مضبوط ہوتا ہے، نیز شریعتِ الہی کا نفاذ قومی وسائل کیلیے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
نفاذِ حدود اسلام کی سر بلندی، امت کے غلبے اور قوت کا باعث ہے۔
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، اس کیلیے ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بیوقوف، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا، آپ ﷺ نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شریعت نے جرائم کا علاج جرائم رونما ہونے سے پہلے ہی حکمت، وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب، احیائے ضمیر، اور اللہ کا خوف دلوں پیدا کر کے کیا ہے۔
اس دین کی عظمت دیکھیں کہ اس کی طرف سے نافذ کی جانے والی حدود بھی عدل و انصاف پر مبنی ہیں، ہر گناہ اور غلطی کی نوعیت اور حقیقت کے مطابق اس کی سزا مقرر کی۔
چنانچہ شریعت نے جہاں نرمی کی ضرورت تھی وہاں نرمی برتی اور جس جگہ پر سختی کی ضرورت تھی وہاں سختی اپنائی؛ لہذا دعوت و اصلاح کیلیے نرمی اور شفقت بھرا انداز اپنایا، اگر یہ بلا سود ثابت ہوں ؛ انسان سر چڑھتا جائے تو اس کیساتھ سختی بھی اپنائی اور اس بارے میں ایسے اقدامات کیے جو گناہ ترک کرنے اور غلطی تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں اور فسادیوں کی سزا سخت ترین اور عبرتناک بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ (المائدة : 33)

جو اللہ تعالی اور رسول اللہ سے اعلان جنگ کریں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا صرف یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔
اور کوئی بھی عقل مند شخص سزا میں سختی کا پہلو کا انکار نہیں کرسکتاشریعت اور عقل دونوں کی یکساں رائے کے مطابق ایسے اعضا کو کاٹ کر جدا کر دیا جاتا ہے جو خرابی کا باعث بنے، فتنہ پرور ہو، ہیجان پرداز ہو، اس کی حرکتوں سے شر انگیزی پھیلے، امن و امان مخدوش ہوں، اور اس کے مزید باقی رہنے سے انفرادی اور معاشرتی نقصانات سامنے آئیں۔
سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے حقیقت میں مجرم سے اظہار ہمدردی تو کرتے ہیں لیکن پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ان سزاؤں سے اللہ تعالی کے عدل و انصاف اور اس کی حکمت کا پتہ چلتا ہے؛ کیونکہ یہ سزائیں مفاد عامہ کے حصول اور امن و امان برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ (البقرة : 179)

’’اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘
یعنی ہمہ قسم کی زندگی ہے، چنانچہ معصوم جانوں کو زندگی بخشی اس کیلیے معصوم جانوں کا قتل حرام قرار دیا، املاک کو زندگی بخشی اس کیلیے کسی کا حق غصب کرنے سے روکا، عزت آبرو کو زندگی بخشی کہ ہتک عزت حرام قرار دی۔
حدود شریعت کا حصہ ہیں ان کی وجہ سے ہر شخص کی انفرادی خوشیوں کو تحفظ ملتا ہے، اور پورے معاشرے میں امن و امان قائم ہوتا ہے، لہذا منہج الہی پر چلنے والوں کو حدود اللہ کی وجہ سے مستحکم اور پر سکون زندگی ملتی ہے۔
حدود کی وجہ سے معاشرے کو طیش مزاج لوگوں اور گھٹیا حرکتوں سے تحفظ ملتا ہے، کینہ پرور لوگوں کی دسیسہ کاریوں کیلیے راستے بند ہوتے ہیں، اور انتہا پسند فکر زمین دوز ہوتی ہے، منحرف لوگوں کو راہِ اعتدال ملتی ہے، جس سے خطرات و خدشات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
حدود کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے، بلکہ حدود کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں، ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ : پورے معاشرے کیلیے بڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔
حدود اصل میں جرائم کی جانب مائل لوگوں پر رحمت و شفقت کا اظہار ہیں، حدود کے ذریعے انہیں جرائم سے روکا جاتا ہے، چنانچہ سزا دیکھ کر مجرم اپنے ارادے تبدیل کر لیتے ہیں، حدود کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگوں کیساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی جرائم سے دور رہنے کا سبق براہِ راست ملتا ہے۔
امت کے حالات قابو میں رکھنے کیلیے حدود کا نفاذ اصل میں مجرموں کے ساتھ رحمت و شفقت ہے، تبھی تو تعمیر و ترقی کا پہیہ رواں دواں رہے گا، اور بد عنوان و شر انگیز عناصر کو اپنے انجام کا بھی علم ہو گا۔
جن لوگوں کو مجرم کے جرم سے دلی صدمے پہنچے ہوتے ہیں انہیں حدود کے نفاذ سے قلبی سکون ملتا ہے، نیز جرائم سے متاثر ہونے والے لوگوں میں دہشت کی جگہ امن و سکون سرایت کر جاتا ہے۔
حدود کے نفاذ سے اللہ تعالی کی طرف سے برکت، فضل، اور خیر و بھلائی حاصل ہوتی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الأعراف : 96)

 ’’اگر بستی والے ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیں‘‘
چنانچہ اسی بنا پر ایک عبرتناک فیصلے کے ذریعے تعزیری اور حد کے طور پر شرعی حکم کو نافذ کیا گیا، یہ فیصلہ شرعی عدالت کی جانب سے گمراہ لوگوں کے بارے میں کیا گیا تھا، جن میں تکفیری، دہشت گرد، معصوم جانوں کے قاتلین، اقدام قتل پر ترغیب، قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے لوگ شامل تھے، یہ ان کا اپنا فعل تھا جو کہ اس وطن کے سپوتوں کی ترجمانی بالکل نہیں کرتا۔
عجیب و غریب باتیں اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رد عمل ظاہر کرنے والے لوگ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے یہ رد عمل فرقہ واریت میں غرق لوگوں کی جانب سے فتنہ پروری کا ایک انداز ہے، وہ ہمارے ملک کی خوشحالی اور استحکام کو مٹانا چاہتے ہیں، حقیقت میں ایسی باتیں کرنے والے ہی دہشت گردی کی بنیاد، منبع اور جڑ ہیں، سادہ لوح لوگوں کو جھوٹے دعووں سے اپنا اسیر بناتے ہیں، جن زرق برق نعروں کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے بڑے زور و شور سے لگاتے ہیں، مزید دسیسہ کاریوں کیلئے کمزور نظریات کے حامل لوگوں کو خرید کر انہی کے معاشروں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
پورا عالم اسلام ان کی فتنہ پرور اور تخریبی کاروائیوں سے بخوبی آگاہ اور واقف ہے، تمام مسلمان ان کی حرکتوں سے نمٹنے کیلیے مکمل طور پر متحد، شانہ بشانہ، اور چاق و چوبند ہیں۔
ہم سیکورٹی فورس اور ملکی حدود کے محافظین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فسادی لوگوں کے خفیہ ٹھکانوں کو ختم کرنے کیلیے جان جوکھوں میں ڈال کر محنت کی، ان کی تمام منصوبہ بندیوں کو غارت کیا، اللہ تعالی ہمارے اور تمام مسلم ممالک کو اپنی حفاظت میں رکھے، اور انہیں ہمہ قسم کے شر و فساد سے بچائے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:’’جب تم کسی شخص کو متفقہ طور پر اپنا سربراہ تسلیم کر لو اور ایسے میں کوئی آ کر تمہاری متفقہ رائے کو مخدوش کرنا چاہے، یا تم سے الگ ہو کر اتحاد کو سبوتاژ کرے تو اسے قتل کر دو‘‘( مسلم)
آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:’’عنقریب شر و فساد بپا ہوگا، چنانچہ جو شخص پوری امت کے کسی ایک فرد کو اپنا سربراہ ماننے کے وقت پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کر دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو‘‘( مسلم)
اللہ تعالی ہم سب کیلئے قرآن مجید کو با برکت بنائے، مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

عظیم اور ڈھیروں نعمتوں پر تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے، نیز )یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ ﷺ پر، آپ ﷺکی آل، نور و ہدایت کے امام صحابہ کرام پر درود و سلامتی نازل فرمائے ۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
جن لوگوں پر حد نافذ کر دی جائے یا ان سے قصاص لے لیا جائے تو ان کے بارے میں کسی بھی مسلمان کو غلط الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، آپ ﷺ نے رجم کی جانے والی ایک خاتون کو برا بھلا کہنے پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ڈانٹ پلائی تھی۔
سزا ملنے سے مجرم کا گناہ اسی طرح معاف ہو جاتا ہے، جس طرح توبہ کرنے سے گناہ مٹ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ: اللہ کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری، زنا اور اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان بازی، اور نیکی کے کاموں میں نا فرمانی نہیں کرو گے، اس بیعت کی پاسداری کرنے والے کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ ہے، اور اگر کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کر لے پھر اسے دنیا میں اس کی سزا بھی مل جائے تو یہ اس کیلیے کفارہ ہوگی، اور اگر کسی نے گناہ کا ارتکاب کیا تاہم اللہ تعالی نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، وہ چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے ‘‘( بخاری و مسلم)
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰ ﷺپر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ! محمد ﷺ پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد ﷺ پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما،یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، اے دعاؤں کے سننے والے!
یا اللہ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، تمام لشکروں کو شکست سے دو چار فرما، محاصرہ کرنے والے ظالموں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! ان کے جتھوں کو تتر بتر فرما، ان میں پھوٹ ڈال دے، یا ارحم الراحمین! تو ہر چیز پر قادر ہے، اور تو ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔
اللہ رب العزت مشرکین کی بنائی ہوئی باتوں سے پاک ہے، تمام رسولوں سلامتی نازل ہو، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے