اللہ تعالیٰ نے جو آسمانی ہدایت اس دنیا کو عطا فرمائی وہ بنیادی طور پر تین عقائد پر مشتمل تھی: یعنی توحید،نبوت و رسالت اور آخرت۔ اس کا خلاصہ یہ ہے اس کائنات کو ایک رب نے تخلیق کیا ہے۔ تخلیق کرنے کے بعد وہ اس کائنات سے لا تعلق نہیں ہو ا بلکہ اس کائنات کا نظام وہی چلا رہا ہے۔ اس نے انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھائی ہے جسے اخلاقیات (ethics)یا دین فطرت کہتے ہیں۔ مزید برآں اس نے انسانوں میں چند لوگوں کو منتخب کرکے ان سے براہ راست خطاب کیا ہے اور انہیں مزید ہدایات دی ہیں جس کے مطابق انسانوں کو اپنی زندگی گزارنا چاہئے۔ انسان کی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے دوبارہ ایک نئی دنیا میں پیدا کیا جائے گا جہاں اس سے موجودہ زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا۔ جس نے اس دنیا میں دین فطرت اور دین وحی پر عمل کیا ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ کی ابدی بادشاہی یا جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس سے اعراض کیا ، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
موجودہ دور کی اصطلاح میں الحاد کا لفظ عموماً لادینیت اور اللہ پر عدم یقین کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر بیان کئے گئے تینوں عقائد ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا اس سے اعراض باقی دو کو غیر موثر کردیتا ہے اس لئے ان میں کسی ایک کا انکار بھی الحاد ہی کہلائے گا۔ چنانچہ اس تحریر میں ہم جس الحاد کی تاریخ پر گفتگو کریں گے وہ وجود باری تعالیٰ، نبوت و رسالت اور آخرت میں سے نظریاتی یا عملی طور پر کسی ایک یا تینوں کے انکار پر مبنی ہے۔ ہماری اس تحریر میں الحاد کی تعریف میں مروجہ Atheism, Deism اور Agnosticism سب ہی شامل ہیں۔
قدیم زمانہ سے ہی بعض لوگ الحاد کے کسی نہ کسی شکل میں قائل تھے لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار بہت ہی کم کیا گیاہے ۔ بڑے مذاہب میں صرف بدھ مت ہی ایسا مذہب ہے جس میں کسی رب کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہندو مذہب کے بعض فرقوں جیسے جین مت میں رب کائنات کا تصور نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صرف چند فلسفی ہی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اللہ کا انکار کیا۔ عوام الناس کی اکثریت ایک یا کئی خداؤں کے وجود کی بہرحال قائل رہی ہے۔ نبوت و رسالت کا اصولی حیثیت سے انکار کرنے والے بھی کم ہی رہے ہاں ایسا ضرور ہوا کہ جب کوئی نبی یا رسول ان کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا تو اپنے مفادات یا ضد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انہوں نے اس مخصوص نبی یا رسول کا انکار کیا ہو۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہر دور میں کافی بڑی تعداد
میں دنیا میں موجود رہے۔نبی اکرم ﷺکے دور کے
مشرکین کے بارے میں بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے منکر تو نہ تھے لیکن ان میں آخرت پر یقین نہ رکھنے والوں کی کمی نہ تھی۔
عالمی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالص الحاد دنیا میں کبھی قوت نہ پکڑ سکا۔ دنیا بھر میں یا تو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ماننے والے غالب رہے یا پھر دین شرک کا غلبہ رہا۔ دین الحاد کو حقیقی فروغ موجودہ زمانے ہی میں حاصل ہوا ہے جب دنیا کی غالب اقوام نے اسے اپنے نظام حیات کے طور پر قبول کرلیا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی بنیاد پر الحاد کو اس قدر فروغ حاصل ہوا ؟ دنیا بھر میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا فتوحات حاصل کیں اور اسے قبول کرنے والے ممالک اور اقوام کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ تاریخ کے مختلف ادوار میں الحاد کی تحریک نے کیا کیا رنگ اختیار کئے اور دور جدید میں الحاد کی کونسی شکل دنیا میں غالب ہے؟ مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو چکے ہیں اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
یورپ عیسائی عہد میں
یورپ میں قرون وسطیٰ ہی میں عیسائی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں اور چرچ کا ادارہ پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا۔ جب تیسری صدی عیسوی میں عوام الناس کی اکثریت نے عیسائیت قبول کرلی تو ان کے بادشاہ قسطنطین نے بھی عیسائیت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد عیسائی علماء اور ان کے قائد پوپ کو حکومتی معاملات میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہوگیا۔ حکومتی طاقت کو استعمال کرکے انہوں نے معاشرے میں پھیلے ہوئے شرک اور بت پرستی کا خاتمہ کردیا اور اس کے ماننے والوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ جن لوگوں نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کیا انہیں تہہ تیغ کردیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر عیسائیت میں بھی حلول اور مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کا عقیدہ پیدا ہوگیا اور شخصیت پرستی اور اکابر پرستی نے جنم لیا۔
عیسائی علماء نے وقت کے مسلمہ نظریات جن میں ارسطو اور افلاطون کے سائنسی اور فلسفیانہ افکار بھی شامل تھے کی مقبولیت کے پیش نظر انہیں اپنے دین میں داخل کر لیا۔ حکومتیں پوپ اور مذہبی رہنماؤں کی رہنمائی میں چلنے لگیں جسے آج تھیو کریسی کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی رہنما اپنے مسلک اور عقیدے میں شدت اختیار کرتے گئے۔ صدیوں کے انحطاط (Degeneration) کے عمل سے ان میں بہت سے فرقے بھی پیدا ہوگئے اور ان میں اخلاقی کمزوریاں بھی پیدا ہو گئیں۔ مذہبی انتہا پسندی اس حد تک پہنچ گئی کہ کوئی بھی شخص جو مرکزی چرچ کے معمولی سے حکم سے بھی اختلاف کرتا، اسے مرتد قرار دے کر قتل کر دیا جاتا۔ نئے علوم و فنون کی تحصیل پر پابندی عائد کردی گئی ۔
اسی دور میں مسلمانوں نے یونانی فلسفے کی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل قدر اضافے کئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اہل یورپ میں بھی علم حاصل کرنے کا شعور پیدا ہوااور وہ یہی چیزیں سیکھنے کے لئے مسلم دنیا میں آئے۔ ایک ممتاز امریکی مصنف کے الفاظ میں:
جیسے جیسے مسلمانوں کا اقتدار پھیلتا گیا، یہ لوگ اچھے سیکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ثابت ہوئے۔مسلمان حکمرانوں نے مفتوحہ علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیب کے مقابلے میں اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے مقامی اداروں، خیالات، نظریات اور ثقافت کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیا ۔ انہوں نے اپنے زیادہ ترقی یافتہ مفتوحین سے سیکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔عظیم لائبریریاں اور دار التراجم قائم ہوئے۔ سائنس، طب اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتابوں کو مشرق و مغرب سے اکٹھا کرکے ان کے ترجمے کئے گئے۔یونانی، لاطینی، فارسی، شامی اور سنسکرت زبانوں سے ترجمہ کرنے کا کام عام طور پر یہودی اور عیسائی مفتوحین نے سر انجام دیا۔اس طرح ادب، سائنس اور طب کی دنیا بھر کی بہترین کتابیں عوام الناس کے لئے میسر ہو گئیں۔ترجمے کے دور کے بعد تخلیقی کام کا دور شروع ہوا۔تعلیم یافتہ مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں نے حاصل شدہ علم میں قابل قدر علمی اضافے کئے۔یہ وہ دور تھا جس میں سائنس اور فلسفہ کے عظیم امام ابن سینا، ابن رشد اور الفارابی پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے شہروں قرطبہ، نیشاپور، قاہرہ، بغداد، دمشق اور بخارا میں بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں جبکہ یورپ اس وقت دور تاریک سے گزر رہا تھا۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کی سیاسی اور ثقافتی زندگیوں کو ، ان کے قبائلی اور مذہبی پس منظر کی رعایت سے اسلام کے فریم ورک میں لایا گیا۔نئے نظریات اور طور طریقوں کو اسلامائز کیا گیا۔اسلامی تہذیب ایک متحرک اور تبدیلی کے تخلیقی عمل کا نتیجہ تھی جس میں مسلمانوں نے دوسری تہذیبوں سے آزادانہ اچھی چیزوں کو لیا۔ یہ خود اعتمادی اور کھلے پن کا مظہر تھا جو اس خیال سے پیدا ہوا کہ ہم آقا ہیں غلام نہیں ہیں، فاتح ہیں مفتوح نہیں ہیں۔بیسویں صدی کے مسلمانوں کے برعکس، وہ مسلمان تحفظ اور اعتماد کے احساسات سے بھرپور تھے۔ان کو مغرب سے کچھ لینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوتی تھی کیونکہ مغرب اس وقت ان پر سیاسی یا ثقافتی غلبہ نہ رکھتا تھا۔کلچر کا یہ بہاؤ اس وقت الٹی سمت میں بہنے لگا، جب یورپ تاریک ادوار سے نکل کر مسلم مراکز میں اپنا کھویا ہوا ورثہ سیکھنے کے لئے آیا جس میں مسلمانوں کی ریاضی، طب اور سائنس کے اضافے بھی شامل تھے۔
(John L. Esposito, The Islamic Threat: Myth or Reality, 2nd Ed. p. 33-34)
ری نی ساں اور ریفارمیشن کی تحریکیں
تیرہویں سے سترہویں صدی تک یورپ میں چرچ کے اقتدار اور تنگ نظری کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا ہو چکے تھے۔ اس دور میں یورپ میں ری نی ساں (Renaissance)اور ری فارمیشن (Reformation) کی تحریکیں چلیں جن میں چرچ پر بھرپور تنقید کی گئی۔
اسی دوران مارٹن لوتھر کی مشہور پروٹسٹنٹ تحریک بھی چلی جس نے دنیائے عیسائیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ یورپ میں ایسے مفکرین بھی پیدا ہونے لگے جن کی تحقیقات نے ارسطو اور افلاطون کے ان سائنسی نظریات کو بھی چیلنج کردیا جنہیں اہل کلیسا نے طویل عرصے سے مذہبی عقائد کا حصہ بنایا ہوا تھا۔ ان میں سب سے مشہور زمین کے کائنات کا مرکز ہونے اور اس کے ساکن ہونے اور سورج اور تمام اجرام فلکی کے زمین کے گرد گھومنے کا نظریہ تھا۔ ان مفکرین میں لیونارڈو ڈاونسی (1452-1519) ، جیارڈینو برونو (1548-1600) ، گلیلیو (1564-1642) اور جوہانس کپلر (1571-1630) زیادہ مشہور ہیں۔
مذہبی علماء نے اس تنقید اور جدید نظریات کا سختی سے نوٹس لیا۔ انہوں نے عقل و منطق اور مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے سائنسی علم کو طاقت سے دبانا چاہا۔ احتساب(Inquisition) کی مشہور عدالتیں قائم ہوئیں جو اس قسم کے نظریات رکھنے والے مفکرین کو سخت سزائیں دیا کرتے۔ برونو کو کئی سال قید میں رکھنے کے بعد آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ گلیلیو کو اپنے عقائد سے توبہ کرنا پڑی ورنہ اسے بھی موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔
ری نی ساں کے دور میں فکر انسانی :
اس دور میں آزادانہ سوچ اور الحاد کو فروغ حاصل ہوا۔ صرف اور صرف چرچ کے حکم کی بنیاد پر کسی چیز کو قبول کرنے کی پابندی کے بڑے مخالفین میں لیونارڈو ڈاونسی تھے۔ انہوں نے علم کے حصول کے لئے تجربے کی اہمیت پر زور دیا۔ نکولو میکیاولی بھی چرچ پر مسلسل تنقید کرتے رہے۔ ان کی شہرت بھی ایک ملحد کی ہے۔ جیارڈینو برونو کی موت (1600) آزادی فکر کے نئے دور کا آغاز ہے۔ برونو اٹلی کے رہنے والے ایک مصنف تھے جو علم کلام کے ماہر تھے۔ اپنی تحریروں کے باعث انہیں محکمہ احتساب (Inquisition) کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے پورے یورپ کا سفر کیا جس کے دوران وہ اپنے نظریات کو تقریر و تحریر کے ذریعے پھیلاتے رہے۔ انہیں گرفتار ہوجانے کا خطرہ بھی لاحق رہا۔ چودہ سال کے بعد ، وینس شہر میں انہیں ان کے ایک پرانے شاگرد نے احتساب والوں کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ برونو احتساب کی عدالت کے سامنے اپنے نظریات سے انحراف نہ کرسکے جن میں مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام )کی الوہیت سے انکار، اس دنیا کے ہمیشہ باقی رہنے کا عقیدہ اور روح کے حلول کا عقیدہ شامل ہے۔ وہ نظام شمسی کے کوپر نیکی نظریے (یعنی سورج نظام شمسی کا مرکز ہے) پر بھی یقین رکھتے تھے اور اس پر لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ برونو پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالت کے سامنے ان کا جرم ثابت ہوگیا۔ برونو نے روم میں سات سال جیل میں گزارے۔ بالآخر فروری 1600 انہیں آگ میں زندہ جلا دیاگیا۔ اگلے دو سو سال میں ان کے علاوہ آزادی فکر کے اور بھی لوگ مارے گئے ہیں۔
(Dr. Gordon Stein, The History of Free Thought and Atheism, www.positiveatheism.org)
مذہبی علماء اور سائنس دانوں میں یہ چپقلش چلتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے پر اہل کلیسا کی گرفت کمزور ہوتی گئی اور فلسفیوں کا اثر و ٍرسوخ بڑھتا چلا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط تک ملحد فلسفیوں اور سائنس دانوں کی فکر اہل یورپ میں غالب فکر بن چکی تھی۔ چونکہ اہل کلیسا نے اپنے اقتدار کے دور میں سائنس دانوں کے ساتھ بہت ظالمانہ اور جابرانہ رویہ رکھا تھا اس لئے مذہب اور سائنس میں ایک وسیع خلیج پیدا ہوچکی تھی۔ اہل سائنس نے مذہب کے بارے میں کوئی معقول رویہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے سائنسی نظریات کی روشنی میں یہی مناسب سمجھا کہ اسے خیر باد ہی کہہ دیا جائے۔ اس معاملے میں اہل مذہب کا کردار بھی اتنا معیاری نہ تھا کہ اس کی پیروی کی جاتی۔ چنانچہ مشہور برطانوی ملحد فلسفی برٹرینڈ رسل لکھتے ہیں:
میں تو یہاں تک سوچا کرتا ہوں کہ بعض ہی اہم نیکیاں مذہب کے علمبرداروں میں نہیں ملتیں۔ وہ ان لوگوں میں پائی جاتی ہیں جو مذہب کے باغی ہوتے ہیں۔ ان میں سے دو نیکیاں خاص طور پر قابل ذکر ہیںاور وہ راست بازی اور ذہنی دیانت ہیں۔ ذہنی دیانت سے میری مراد پیچیدہ مسائل کو ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کرنے کی عادت ہے۔ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ جب تک کافی ثبوت اور شہادتیں دستیاب نہ ہوں، تب تک ان مسائل کو غیر حل شدہ ہی رہنے دیا جائے۔ تحقیق کی حوصلہ شکنی ان میں سب سے پہلی خرابی ہے۔ لیکن دوسری خرابیاں بھی پیچھے نہیں رہتیں۔ قدامت پسندوں کو قوت و اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ تاریخی دستاویزات میں اگر کوئی بات عقیدوں کے بارے میں شبہات پیدا کرنے والی ہو تو ان کی تکذیب شروع کردی جاتی ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ جلد یا بدیر منحرف عقیدے رکھنے والوں کے خلاف مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ پھانسیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور نظر بندی کے کیمپ بنا دیے جاتے ہیں۔ میں اس شخص کی قدر کرسکتا ہوں جو یہ کہے کہ مذہب سچا ہے لہٰذا ہم کو اس پر ایمان رکھنا چاہئے (اور سچائی ثابت کرے) لیکن ان لوگوں کے لیے میرے دل میں گہری نفرت کے سوا کچھ نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب کی سچائی کا مسئلہ اٹھانا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے اور یہ کہ ہم کو مذہب اس لئے قبول کرلینا چاہئے کہ وہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ یہ نقطہ نظر سچائی کی توہین کرتا ہے ، اس کی اہمیت کو ختم کردیتا ہے اور جھوٹ کی بالادستی قائم کردیتا ہے۔اشتراکیت کی برائیاں وہی ہیں جو ایمان کے زمانوں میں مسیحیت میں پائی جاتی تھیں۔ سوویت خفیہ پولیس کے کارنامے رومن کیتھولک کلیسا کی قرون وسطیٰ کی عدالت احتساب کے کارناموں سے صرف مقداری طور پر ہی مختلف تھے۔ جہاں تک ظلم و ستم کا تعلق ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس پولیس نے روسیوں کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو ایسا ہی نقصان پہنچایا جیسا کہ مذہبی احتساب کی عدالت نے مسیحی اقوام کی ذہنی اور اخلاقی زندگی کو پہنچایا تھا۔ اشتراکی تاریخ کی تکذیب کرتے ہیں۔ نشاۃ ثانیہ تک چرچ بھی یہی کام کیا کرتا تھا۔ جب دو سائنس دانوں کے درمیان اختلاف ہوتا ہے تو وہ اختلاف کو دور کرنے کے لئے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔ جس کے حق میں ٹھوس اور واضح ثبوت مل جاتے ہیں، وہ راست قرار پاتا ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ سائنس دان ہونے کے حیثیت سے ان دونوں میں سے کوئی بھی خود کو بے خطا خیال نہیں کرتا۔ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہوسکتے ہیں۔ اس کے برخلاف جب دو مذہبی علماء میں اختلاف پیدا ہوتا ہے تو وہ دونوں اپنے آپ کومبرا عن الخطأ خیال کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہیں ہوسکتی۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہوتا ہے کہ صرف وہی راستی پر ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان فیصلہ نہیں ہوپاتا۔ بس یہ ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگتے ہیں کیونکہ دونوں کو یقین ہوتا ہے کہ دوسرا نہ صرف غلطی پر ہے ، بلکہ راہ حق سے ہٹ جانے کے باعث گناہ گار بھی ہے۔ اس صورت میں ظاہر ہے کہ جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور نظری مسائل حل کرنے کے لئے دنگا فساد تک نوبت جاپہنچتی ہے۔
(برٹرینڈ رسل: لوگوں کو سوچنے دو، اردو ترجمہ قاضی جاوید، ص 81-86 )
ڈی ازم کی تحریک
اسی دوران Deism کی تحریک بھی پیدا ہوئی۔ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ اللہ ہی نے اس کائنات کو تخلیق کیا ہے لیکن اس کے بعد وہ اس سے بے نیاز ہوگیا ہے۔ اب یہ کائنات خود بخود ہی چل رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس تحریک کا ہدف مذہب کے عقیدہ رسالت و آخرت کا انکار تھا۔ اس تحریک کو فروغ ڈیوڈ ہیوم اور مڈلٹن کے علاوہ مشہور ماہر معاشیات ایڈم سمتھ کی تحریروں سے بھی ملا۔ ان لوگوں نے بھی چرچ پر اپنی تنقید جاری رکھی اور چرچ کا جبر و تشدد جاری رہا۔ تقریباً دو سو سال تک یہ تحریک بھی موجود رہی۔ کلیسا کے انتہا درجے کے جبر وتشدد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اٹھارہویں صدی میں یورپ کے اہل علم میں بالعموم انکار اللہ کی لہر چل نکلی جو انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل تک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ ترکی کے مشہور عالم ہارون یحییٰ کے الفاظ میں:
یقینا الحاد یعنی وجودباری تعالیٰ سے انکار کا نظریہ پرانے وقتوں میں بھی موجود رہا ہے لیکن اٹھارہویں صدی میں کچھ اینٹی مذہب مفکرین کے فلسفے کے پھیلاؤ اور سیاسی اثرات سے اس کا عروج شروع ہوا۔ مادیت پرستوں جیسے ڈائڈرٹ اور بیرن ڈی ہالبیک نے یہ نظریہ پیش کیا کہ یہ کائنات مادے کا ایسا مجموعہ ہے جو ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے اور اس کا کوئی نقطہ آغاز نہیں۔ انیسویں صدی میں الحاد مزید پھیلا۔ بڑے بڑے ملحد مفکرین جیسے مارکس، اینجلز، نٹشے، ڈرخم اور فرائڈ نے سائنس اور فلسفے کی مختلف شاخوں کے علم کو الحادی بنیادوں پر منظم کیا۔ (ان میں سے مارکس اور اینجلز ماہر معاشیات (Economics) ، نٹشے ماہر فلسفہ (Philosophy)ڈرخم ماہر عمرانیات (Sociology)اور فرائڈ ماہر نفسیات (Psychology) تھے۔ )الحاد کو سب سے زیادہ مدد (ماہر حیاتیات) چارلس ڈارون سے ملی جس نے تخلیق کائنات کے نظریے کو رد کرکے اس کے برعکس ارتقاء (Evolution) کا نظریہ پیش کیا۔ ڈارون نے اس سائنسی سوال کا جواب دے دیا تھا جس نے صدیوں سے ملحدین کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ سوال یہ تھا کہ ’’انسان اور جاندار اشیاء کس طرح وجود میں آتی ہیں؟‘‘ اس نظریے کے نتیجے میں بہت سے لوگ اس بات کے قائل ہو گئے کہ فطرت میں ایسا آٹو میٹک نظام موجود ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادہ حرکت پذیر ہو کر اربوں کی تعداد میں موجود جاندار اشیاء کی صورت اختیار کرتا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک ملحدین کائنات کے بارے میں ایک ایسا نقطہ نظر (Worldview) بنا چکے تھے جو ان کے نزدیک اس کائنات سے متعلق ہر ایک سوال کا جواب دیتا تھا۔ انہوں نے کائنات کی تخلیق کا انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کائنات ہمیشہ سے ایسے ہی موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کائنات کا کوئی مقصد نہیں۔ اس میں جو توازن پایا جاتا ہے وہ محض ایک اتفاقی امر ہے۔ انہیں یہ یقین ہوگیا کہ جاندار اشیا کے وجود پذیر ہونے کا سوال ڈارون نے حل کردیا ہے۔ ان کے خیال میں تاریخ اور عمرانیات سے متعلق ہر مسئلے کی تشریح مارکس اور ڈرخم نے کر دی ہے اور ملحدانہ بنیادوں پر فرائڈ نے ہر نفسیاتی سوال کا جواب دے دیا ہے۔ (Harun Yahya, The Fall of Atheism, www.harunyayha.org)
سیکولر ازم کا فروغ
اسی الحاد کی بنیاد پر سیکولر ازم کا نظریہ وجود پذیر ہوا جو مذہب اور الحاد کے درمیان تطبیق (Reconciliation) کی حیثیت رکھتا تھا۔ فلسفیانہ اور ملحدانہ نظریات نے اہل یورپ کی اشرافیہ کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ ان کے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہی ملحد اور لادین ہونا تھا۔ دوسری طرف عوام الناس میں اہل مذہب کا اثر ورسوخ خاصی حد تک باقی تھا۔ اہل مذہب کا ایک اور مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ بہت سے فرقوں میں منقسم تھے اور ایک فرقے کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ دوسرے کی بالادستی قبول کرسکے۔ ان حالات میں انہوں نے یہ طے کر لیا کہ ہر فرد کو اپنی ذات میں تو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی دی جائے لیکن اجتماعی اور ریاستی سطح پر مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر خالص عقل و دانش اور جمہوریت کی بنیادوں پر نظام حیات کو مرتب کر لیا جائے۔ اگر حکومت کا کوئی سرکاری مذہب ہو بھی تو اس کی حیثیت محض نمائشی ہو، اسے معاملات زندگی سے کوئی سروکار نہ ہو۔
سیکولر ازم کے اس نظریے کا فروغ دراصل مذہب کی بہت بڑی شکست اور الحاد کی بہت بڑی فتح تھی۔ اہل مغرب نے اپنے سیاسی، عمرانی اور معاشی نظاموں کو مذہب کی روشنی سے دور ہوکر خالصتاً ملحدانہ بنیادوں پر استوار کیا۔ مذہب کو چرچ تک محدود کر دیا گیا۔ تمام قوانین جمہوری بنیادوں پر بنائے جانے لگے۔ عیسائیت میں بھی فری سیکس گناہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جمہوری اصولوں کے مطابق اکثریت کی خواہش پر اسے جائز قرار دیا گیا، حتیٰ کہ ہم جنس پرستی کو بھی قانونی مقام دیا گیا اور ایک ہی جنس میں شادی کو بھی قانونی ٹھہرا لیا گیا۔ سود ہمیشہ سے آسمانی مذاہب میں ممنوع رہا ہے، لیکن معیشت کا پورا نظام سود پر قائم کیا گیا۔
سیکولر ازم کے نتیجے میں الحاد اہل مغرب کے نظام حیات میں غالب قوت بن گیا ۔ان کی اکثریت اگرچہ اب بھی اللہ کی منکر نہیں ہے لیکن عملی اعتبار سے وہ توحید، نبوت و رسالت اور آخرت کا انکار کر چکی ہے۔ اگر کوئی مذہب کو حق مانتا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ وہ اسے اپنی پرائیویٹ لائف کے ساتھ ساتھ پبلک لائف میں بھی اپنائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدا کو ماننے کے باوجود وہ عملاً خدا ، نبوت اور آخرت کا انکار کرکے الحاد کو اختیار کرہی چکا ہے۔ اب اس کے بعد صرف انسانی اخلاقیات یا دین فطرت ہی باقی رہ جاتا ہے جسے ملحدین بھی مانتے ہیں۔ اہل مغرب اگرچہ ان میں سے بہت سے اصولوں کو چھوڑ چکے ہیں لیکن اب بھی وہ ان اخلاقی اصولوں کے بڑے حصے کو اپنائے ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے