پہلا خطبہ:
تمام تعریف

یں اللہ کیلئے ہیں اسی کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ سب کے اعمال کی نگرانی کر رہا ہے اور وہ سب کو اعمال کا پورا بدلہ دے گا وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا

وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا [النساء: 40]

اور اگر کوئی نیکی ہوئی تو وہ اسے بڑھا دیتا ہے اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔
میں اپنے رب کے فضلِ عظیم پر اسی کی تعریف اور شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی جاننے اور خبر رکھنے والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ بشیر و نذیر اور سراج منیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول جناب محمدﷺ جنہیں روشن کتاب دے کر بھیجا گیا ان پر ، ان کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما جن کے ذریعے اللہ تعالی نے دین کو غالب فرمایا اور شرک کو ذلیل و رسوا کیا۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اپناؤ ؛ اس کیلئے بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرو اور حرام کاموں سے بچو، تو تم اعلی درجات پا لو گے نیز تباہ کن نتائج سے بچ جاؤ گے۔
مسلمانو!بیشک اللہ تعالی نے تم سے سچا وعدہ کیا ہے، وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اس کے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکتا ہے، اللہ تعالی نے اپنے فرمانبردار بندوںسے دنیا میں اچھی زندگی کا وعدہ فرمایا اور آخرت میں اچھے نتائج کا وعدہ دیا، اللہ تعالی ان پر راضی ہو گا اور انہیں سرمدی جنتوں میں دائمی نعمتوں سے نوازے گا، انہیں انبیائے کرام اور نیک لوگوں کی رفاقت بھی ملے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

اور اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے ضرور کھول دیتے۔ [الأعراف: 96]
ایسےہی فرمایا

:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [المائدة: 65۔ 66]

اگر اہل کتاب ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کر لیتے تو ہم ان سے ان کے گناہ زائل کر کے انہیں نعمتوں والے باغات میں داخل کرتے اور اگر یہ لوگ تورات ،انجیل اور جو دوسری کتابیں ان پر انکے پروردگار کی طرف سے نازل ہوئی تھیں ان پر عمل پیرا رہتے تو انکے اوپر سے بھی کھانے کو رزق برستا، اور پاؤں کے نیچے سے بھی ابلتا۔
یعنی اگر وہ قرآن پر ایمان لے آتے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ساتھ میں اپنی کتابوں پر بھی بغیر کسی تحریف کے ایمان رکھتے تو اللہ تعالی انہیں دنیا میں خوشحال زندگی سے نوازتا اور آخرت میں ا نہیں نعمتوں والی جنت میں داخل فرماتا۔
اسی طرح نوح علیہ السلام نےجب اپنی قوم کو ترغیب دی تو اسے اللہ تعالی نے بیان کرتے ہوئے فرمایا:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا

تو میں[نوح] نے کہا: اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو؛ بیشک وہی بخشنے والا ہے وہ تم پر آسمان سے موسلا دھار بارش برسائے گا نیز تمہاری دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں بہا دے گا۔[نوح: 11۔12]

میرے قرب کی تلاش میں لگا رہتا ہے یہاں تک میں ہی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضرور دوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دے دوں، مجھے اپنے کسی بھی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مجھے موت سے ڈرنے والے مؤمن کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے، مجھے مؤمن کی ناگواری پسند نہیں۔( بخاری)
اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ : اللہ تعالی اپنے لطف و کرم اور رحمت و قدرت کے ساتھ اپنے فرمانبردار بندوں کے امور چلاتا ہے، اور دنیا و آخرت میں ان کے لیے بہترین منصوبہ بندی فرماتا ہے۔
ہمارے پروردگار کا وعدہ سچا ہے، اس میں ذرہ برابر بھی خلاف ورزی نہیں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ [آل عمران: 9]

اےہمارے پروردگار! بیشک تو ہی اس دن کیلئے لوگوں کو جمع کرنے والا جس میں کوئی شک نہیں ہے، بیشک اللہ تعالی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا۔
اسی طرح فرمایا:

رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ

اےہمارے رب ! تو نے اپنے رسولوں (کی زبان) پر ہم سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، بیشک تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔[آل عمران: 194]
مومنوں سے آخرت کے متعلق بھی اللہ تعالی کے وعدے سچے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَعَدَ اللهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبہ: 72]

اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغات کا وعدہ کر رکھا ہے جن کے نیچےنہریں بہہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے نیز سدا بہار باغات میں پاکیزہ قیام گاہوں کا بھی (وعدہ کر رکھا ہے) اور اللہ کی خوشنودی تو ان سب نعمتوںسے بڑھ کر ہوگی۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔
مومنین اپنی دنیاوی زندگی میں بھی اللہ تعالی کے وعدوں کی تکمیل کا مشاہدہ کرتے ہیں اور انہیں اللہ تعالی کی جانب سے مسلسل نعمتیں اور رحمتیں موصول ہوتی رہتی ہیں جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَآتَاهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

تو اللہ نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی خوب ہے۔ اور ایسے ہی نیک عمل کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے ۔[آل عمران: 148]
انہیں آخرت میں بھی وعدہ شدہ اجر و ثواب اور ابدی نعمتیں ملیں گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ

بھلا جسے ہم نے کوئی اچھا وعدہ دیا ہو اور وہ اسے پانے والا ہو، اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کا سامان دے رکھا ہو پھر وہ قیامت کے دن پیش کیا جانے والا ہو ؟ [القصص: 61]
جس طرح اللہ تعالی نے اپنے فرمانبردار بندوں سے نعمتوں کا وعدہ کیا ہے بالکل اسی طرح نافرمان کافروں اور سرکش گناہگاروں کو وعید بھی سنائی ، انہیں عذاب اور عقاب سے ڈرایا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ

اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ [محمد: 12]
اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔[الجن: 23]
ان کی دنیا کی زندگی بھی بد ترین زندگی ہے، اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى

اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ [طہ: 124] اور اگر انہیں دنیا مل بھی جائے تو بھی وہ بد ترین زندگی میں ہوتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا:

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ

ان لوگوں کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں دنیا کی زندگی میں سزا دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت یہ کافر ہی ہوں۔ [التوبہ: 55]
اور یہ ممکن ہے کہ انسان کسی ایسی آزمائش میں پھنس جائے جو انسان کو مفید چیزوں سے موڑ کر نقصان دہ چیزوں میں مبتلا کر دے، آزمائش اور امتحان کے طور پر اسے نیکیوں سے موڑے، گناہوں کو خوبصورت بنا کر دکھائے؛ تا کہ اللہ تعالی اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنے والوں اور نفس پرستی سے بچنے والوں کو ان لوگوں سے الگ کر دے جو نفس پرستی میں پڑ جائیں اور شیطان کے پیچھے چل پڑیں؛ تا کہ اللہ تعالی ہدایت یافتہ لوگوں کو درجات سے نوازے اور ہوس پرستوں کو کھائیوں میں گرا دے،

سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:بیشک اللہ تعالی فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی روا رکھے تو اس کے خلاف میں اعلانِ جنگ کرتا ہوں، فرائض سے بڑھ کر میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا، میرا بندہ تسلسل کے ساتھ نوافل کے ذریعے

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ

ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے یہاں تک کہ یہ معلوم کر لیں کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور صابر کون ؟اور تمہارے احوال کی جانچ پڑتال کریں گے ۔[محمد: 31]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ

اور جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں ہم یقیناً انہیں اپنی راہیں دکھا دیتے ہیں۔ [العنكبوت: 69]
اس لیے انسان کا نفس ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور شیطان اسی کے ذریعے ہی انسان پر حملہ آور ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي

نفس تو اکثر برائی پر اکساتا رہتا ہے مگر جس پر میرے پروردگار کی رحمت ہو۔ [يوسف: 53]
اسی طرح فرمایا:

وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [الحشر: 9]
نفس جس قدر جہالت اور ظلم سے متصف ہو گا انسان اسی قدر اللہ تعالی کے وعدوں کی تصدیق سے دور ہو گا، انسان کو استقامت اور راہِ اعتدال سے منحرف کر دے گا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو شخص اپنی حقیقت اور فطرت سے آشنا ہو جائے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ اس کا نفس ہر قسم کی برائی اور بدی کا منبع ہے، جبکہ اس میں ہر قسم کی خیر محض فضلِ الہی اور احسان کی وجہ سے ہے، اس میں نفس کا اپنا کوئی کمال نہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا

اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ رہ سکتا تھا۔ [النور: 21]انتہی
شریعت کے لائے ہوئے علمِ نافع سے جہالت کا خاتمہ ہوتا ہے، مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالی کی جانب راغب رہے، اپنے نفس کی اصلاح کیلئے اللہ تعالی سے دعا مانگتا رہے، چنانچہ سیدنازید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اَللّٰهُمَّ إني أَعُوْذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا

یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما، اور اس کا تزکیہ فرما تو ہی اس کا بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی تزکیہ کر سکتا ہے اور میرے نفس کا مولی ہے، یا اللہ! میں غیر مفید علم، خشوع سے عاری دل، سیر نہ ہونے والے نفس، اور مسترد ہو جانے والی دعا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔( مسلم)
اسی طرح ترمذی میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے والد کو دو جملے دعا کیلئے سکھائے تھے:

اَللَّهُمَّ أَلْهِمْنِيْ رُشْدِيْ وَأَعِذْنِيْ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ

یا اللہ! میری رہنمائی میرے دل میں ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما دے۔
لہذا اگر نفس شرعی علم اور عمل صالح کے ذریعے پاکیزہ نہ بنے تو انسان پر جہالت اور ظلم کا راج ہوتا ہے، نفس ہوس کے ساتھ مل کر انسان سے اللہ تعالی کے وعدوں کی تکذیب کرواتا ہے، جس کی بنا پر نفس شہوت پرست بن جاتا ہے اور خسارہ، عذاب، ذلت اور رسوائی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے، اور دونوں جہانوں میں نامراد ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر محض اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہو۔ اور اللہ تعالی ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ [القصص: 50]
اس کے بر عکس اگر نفس کا تزکیہ ہو ، علمِ نافع اور عملِ صالح کے ذریعے نفس پاکیزہ ہو جائے تو انسان اللہ تعالی کے وعدوں کو سچا مانتا ہے اور مطمئن ہو کر اپنے پروردگار سے تعلق بناتا ہے، اسے موت کے وقت بھی عزت افزائی کی خوشخبری دی جاتی ہے، اسی کے متعلق فرمانِ باری تعالی ہے:

يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اِرْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي [الفجر: 27 – 30]

اے اطمینان پانے والی روح اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی، وہ تجھ سے راضی میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
بھلائی کے تمام راستے بند کرنے والا، برائیوں کی طرف دعوت دینے والاانسان کا ازلی دشمن -اللہ کی پناہ- شیطان مردود اور پلید ہے اللہ تعالی نے شیطان کو مکلف لوگوں کیلئے آزمائش بنایا ؛ لہذا شیطان کے پیچھے چلنے والا شخص بد ترین مقام پر ہو گا اور شیطان کی نافرمانی کرنے والا بلند ترین مقام پر فائز ہو گا۔
شیطان انسان کو گمراہ کر کے لذت اور سرور محسوس کرتا ہے، اسے اللہ تعالی کے وعدوں اور وعیدوں کو جھٹلانے کی دعوت دیتا ہے، وہ اس کے سامنے حرام چیزوں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، فرائض اور مستحبات سے روکنا شیطان کا مشغلہ ہے، وہ انسان کو سبز باغ دکھا کر دھوکا دیتا ہے اور وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ

شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے۔ لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرو کاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ دوزخی بن جائیں ۔[فاطر: 6]

َخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ

شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے۔ لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو اپنے پیرو کاروں کو صرف اس لئے بلاتا ہے تا کہ وہ دوزخی بن جائیں ۔[فاطر: 6]
اللہ تعالی نے جہنم میں شیطان کا اپنے چیلوں سے خطاب ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

اور جب (تمام امور کا) فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا : “اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور میں نے بھی تم سے ایک وعدہ کیا تھا جس کی میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔ اور میرا تم پر کچھ زور نہ تھا بجز اس کے کہ میں نے تمہیں (اپنی طرف) بلایا تو تم نے میری بات مان لی۔ لہذا (آج) مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو کرو۔ (آج) نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری کر سکتے ہو۔ اس سے پہلے جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتا ہوں۔ ایسے ظالموں کے لئے یقیناً درد ناک عذاب ہے۔ [ابراہیم: 22]
شیطان اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کیلئے سات انداز اپناتا ہے:[1]سب سے پہلے شیطان -اللہ کی پناہ-کفر کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان پہلے داؤ پر ہی اس کی دعوت قبول کر لے تو شیطان کا ہدف پورا ہو جاتا ہے اور شیطان اسے اپنی رذیل جماعت میں شامل کر لیتا ہے، [2]لیکن اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو پھر اسے بدعت کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان سنت نبوی اور کتاب و سنت پر کار بند رہتے ہوئے بدعات سے بچ جائے [3]تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں کی دعوت دیتا ہے اور اس کیلئے کبیرہ گناہ خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، پھر اسے توبہ نہیں کرنے دیتا ، اس پر انسان کبیرہ گناہوں کا دلدادہ بن جاتا ہے اور وہ مکمل طور پر گناہوں کی جکڑ میں آ کر ہلاک ہو جاتا ہے، [4]اگر انسان کبیرہ گناہوں کی دعوت بھی قبول نہ کرے تو شیطان صغیرہ گناہوں کی دعوت دیتے ہوئے صغیرہ گناہوں کو معمولی بنا کر پیش کرتا ہے؛ چنانچہ انسان کے صغیرہ گناہوں پر اصرار اور تکرار کے باعث صغیرہ بھی کبیرہ کے برابر ہو جاتے ہیں اور انسان ہلاک ہو جاتا ہے؛ کیونکہ انسان ان گناہوں سے توبہ نہیں کرتا۔ [5]انسان اگر صغیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے تو شیطان مباح چیزوں میں مگن رکھ کر دیگر نیکیوں سے دور رکھتا ، اسے مباح چیزوں میں اتنا مشغول کر دیتا ہے کہ آخرت اور نیکیوں کیلئے جد و جہد کا وقت ہی نہیں ملتا، [6]اگر اس داؤ سے بھی انسان بچ نکلے تو انسان سے افضل کام چھڑوا کر غیر افضل کام کرواتا ہے تا کہ انسان کے اخروی اجر و ثواب میں کمی واقع ہو؛ کیونکہ نیکیوں کا ثواب یکساں نہیں ہوتا ، اور [7]اگر انسان اس مکاری سے بھی بچنے میں کامیاب ہو جائے تو شیطان اپنا لاؤ لشکر تکلیف دینے کیلئے مومن کے پیچھے لگا دیتا ہے ، جو کہ مومن کو انواع و اقسام کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔
انسان ہمیشہ شیطان کے شر سے تحفظ اور نجات کیلئے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، دائمی طور پر اللہ تعالی کا ذکر کرے، نماز با جماعت کا اہتمام کرے؛ یہ اعمال شیطان سے تحفظ کیلئے قلعہ، جائے پناہ اور حرزِ جان کا مقام رکھتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی پر توکل اور شیطان کے خلاف دائمی جد و جہد، اسی طرح ظلم سے اجتناب بھی باعث نجات اعمال ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [فصلت: 36]

پھر اگر کسی وقت تمہیں کوئی شیطانی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
راہِ حق،استقامت اور نیکی کے راستے میں یہ عمل بھی رکاوٹ بن سکتا ہے کہ دنیا سے محبت اور آخرت کے مقابلے میں دنیا پر راضی ہو جائیں، دنیا داری میں حلال و حرام کا فرق مٹا دیں، دنیا میں اتنے مگن ہو جائیں کہ آخرت بھول جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ أُولَئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [يونس: 7۔8]

جو لوگ ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور وہ لوگ جو ہماری قدرت کی نشانیوںسے غافل ہیں یہی لوگ ہیں ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کا ٹھکانا آگ ہے۔
اسی طرح فرمایا:

أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ

کیا تم آخرت کے مقابلے میں دنیاوی زندگی پر راضی ہو گئے ہو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں معمولی ترین ہے۔[التوبہ: 38]
حقیقت میں دنیا بھی انسان کی دشمن ہے، یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے دل پر دنیا کی محبت غالب ہو جائے تو انسان دنیا داری میں مشغول ہو جاتا ہے اور آخرت کیلئے کوئی کام نہیں کرتا اور تباہ ہو جاتا ہے، اس دھرتی کے اکثر لوگ دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى

بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت کی زندگی بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔[الأعلى: 16۔17]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

اور کافروں کے لئے سخت عذاب (کی وجہ) سے تباہی ہے جو آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں (اپنی خواہشوں کے مطابق) ٹیڑھ پیدا کرنا چاہتے ہیں

لوگ گمراہی میں دور تک نکل گئے ہیں۔ [ابراہیم: 2، 3]
دنیا کے شر و ضرر سے نجات اور بچاؤ ایسے طریقے سے دنیا کمانے پر ملے گا جو کہ شرعی طور پر جائز ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے حلال کردہ چیزوں کو بغیر اسراف اور فضول خرچی کے استعمال کریں، اللہ تعالی کی مخلوق پر تکبر اور گھمنڈ مت کریں، ان پر نخوت اور غرور نہ جمائیں، اپنی قوت کے بل بوتے پر حقوق العباد پامال مت کریں۔
یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ دنیا فانی اور دھوکے والی ہے، یہاں حالات تہ و بالا ہوتے رہتے ہیں، اگر یہ حقیقت ہمیشہ یاد رہے تو اس کی وجہ سے دلوں کی اصلاح ہوتی ہے۔
جیسے کہ سیدنامستورد فہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: آخرت کے مقابلے میں دنیا صرف اتنی سی ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے اور دیکھے کہ انگلی پر کتنا پانی ساتھ آتا ہے۔( احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے اسے روایت کیا ہے)
انسان کو ہمیشہ دنیا کے شر اور انجام بد سے چوکنا رہنا چاہیے، اور یہ بات کبھی ذہن میں نہ آئے کہ تمہیں یہ دنیا تمہارے علم یا کسی خوبی کی وجہ سے ملی ہے! جیسے قارون نے اسی طرح کا دھوکا کھایا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ وہ آپ کو معلوم ہے۔
دنیا کے بارے میں ایک اہم بات جسے پورا کرنا ہر شخص کی ذمہ داری ہے ، وہ یہ ہے کہ دنیاوی مال و متاع میں سے حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کریں جیسے کہ : زکاۃ کی ادائیگی، اہل خانہ اور اولاد کے اخراجات، مہمان نوازی، کمزوروں کی مدد، رفاہِ عامہ کے کاموں میں تعاون،ان سب کیلئے اخلاص ہونا اور ریاکاری سے دوری لازمی امر ہے، ان کاموں کے بدلے میں شہرت، ناموری، کلمات تشکر کچھ بھی مطلوب نہ ہو؛ کیونکہ ریا کاری سے عمل برباد ہو جاتا ہے۔
بڑے بڑے صحابہ کرام بھی دولت مند تھے، لیکن اس کے با وجود وہ دنیا سے انتہائی بے رغبت تھے، ابو سلیمان کے مطابق: عثمان اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما اللہ تعالی کی اس دھرتی پر اللہ تعالی کے خزانچیوں میں سے خزانچی تھے، وہ اللہ کی اطاعت میں خرچ کرتے ، ان کا اللہ تعالی کے ساتھ گہرا دلی معاملہ تھا۔
ایک حدیث ہے کہ : دنیا سے بے نیاز ہو جاؤ اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا، اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہو جاؤ تو لوگ تم سے محبت کریں گے۔( ابن ماجہ نے اسے سیدناسہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
لوگوں کے مال سے بے نیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر لوٹ مار نہ کرے اور نہ ہی ان کے حقوق غصب کر کے ان پر ظلم ڈھائے، ان کو حاصل نعمتوں کے زائل ہونے کی تمنا نہ کرے، لوگوں کی دولت پر لالچ بھری آنکھوں سے مت دیکھے،اور اس کیلئے دست درازی مت کرے۔
سب سے زیادہ قابل ستائش زُہد یہ ہے کہ دنیا میں تکبر نہ کرے، اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
یہ آخرت کا گھر تو ہم نے ان لوگوں کے لئے مخصوص کر دیا ہے جو زمین میں بڑائی یا فساد نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیز گاروں کیلئے ہے۔ [القصص: 83]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دےاور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ تعالی سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں وہی میرا پروردگار ہے، دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں اسی کیلئے تعریفیں ہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہم اس کی بلند و بالا صفات کے ذریعے اسی کی ثنا خوانی کرتے ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور چنیدہ رسول ہیں یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ انکی آل اور متقی صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

کما حقُّہ تقوی اختیار کرو ، اور مضبوط دین کو اچھی طرح تھام لو۔
اللہ کے بندو!اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُورُ

لوگو ! اللہ کا وعدہ سچا ہے لہذا تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ ہی اللہ کے بارے میں وہ دھوکا باز (شیطان) تمہیں دھوکا دینے پائے۔ [فاطر: 5]
اور ایک حدیث میں ہے کہ:عقل مند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے اور موت کے بعد کی تیاری کرے، عاجز وہ ہے جو ہوس پرستی میں ڈوبا رہے اور اللہ تعالی سے امید لگائے رکھے۔
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا منقول ہے کہ : فرشتہ دل میں احساس پیدا کرتا ہے جو کہ اللہ کے وعدوں اور حق کی تصدیق پرمشتمل ہوتاہے اور بسا اوقات شیطان دل میں منفی احساس پیدا کرتا ہے جو کہ اللہ کے وعدوں اور حق کی تکذیب پر مشتمل ہوتا ہے۔
مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے نفس کا مسلسل محاسبہ کرے اور اسے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے، نفس کو شیطانی مکاریوں اور ہتھکنڈوں سے بچاتے ہوئے ہوس پرستی سے بھی دور رکھے، نیز دنیا کے دھوکے میں نہ آنے دے؛ کیونکہ دنیاوی فائدے سب عارضی ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے