حذیفہ کے گھر میں آج شام بہت رونق تھی آج شام اس کے ابو نے ا س کی تمام کلاس کے بچوں اور بچیوں کو شام کے کھانے پر بلایا تھا۔ وہ ایسی دعوتیں اکثر بچوں کو دیا کرتے تھے۔اپنے دونوں بچوں کو خوش کرنے کے ساتھ ساتھ ان دعوتوں کا انہیں یہ فائدہ رہتا تھا کہ وہ ہر وقت اپنے بچوں کے تمام معاملات سے با خبر رہتے۔

باوجود ایک ڈاکٹر ہونے کے وہ اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس تھے ہر وقت وہ اپنے بچوں کے تمام معاملات سے باخبر رہنا چاہتے تھے۔ چاہے وہ معاملہ ان کے دوستوں کا ہو یا ان کی تعلیم کا۔ یہ دعوت اچانک دی گئی تھی جس کی ایک خاص وجہ تھی۔ دو دن پہلے بچوں کی اسکول وین کی خرابی کی وجہ سے جب انہیں بچوں کو لینے اسکول جانا پڑا۔تو وہاں ایک عجیب بات انہوں نے سنی۔ گاڑی پارک کر کے جب وہ اسکول کے مین گیٹ کے سامنے پہنچے تو وہاں درخت کے نیچے بچوں کا ہجوم کھڑا تھااور ایک بچہ چیخ چیخ کے بچوں سے کچھ کہہ رہا تھااور جواب میںبچے خاموش تھے۔ انہیں یاد تھا یہ وہی نیا بچہ تھا جس کا تعارف کچھ دن پہلے حذیفہ نے کرایا تھا۔ قریب پہنچنے پر ان کے کانوں میں آواز آئی۔ آخر تم بتا کیوں نہیں دیتے تمہارے گھر میں کتنے تک کا جانور آئے گا۔عمار نامی یہ نیا بچہ ان کے بچے سے پوچھ رہا تھا دیکھو سب بتا رہے ہیں تم کیوں نہیں بتا رہے۔ اچھا شاید تمہارے گھر میں اتنے پیسے نہیں ہوں گے کہ قربانی کر سکومیرے گھر میںتو بہت مہنگا جانور آیا ہے اور ایک نہیں پانچ پانچ آئے ہیںہر وقت رش رہتا ہے ۔ تعریفیں سن کر بہت مزہ آتا ہے۔ اتنے میں ہجوم میں سے ایک بچے کی آواز آئی وہ اس آواز سے مانوس تھے انہیں پہچاننے میں دیر نہیں لگی یہ ان کے بچے کا بہت اچھا دوست انس تھا جبھی عمار آج کل نہ تمہارا ہوم ورک مکمل ہوتا ہے اور نہ ہی آج تم نے ٹیسٹ اچھا دیا اور ٹیچر سے ڈانٹ کھائی۔ قربانی دکھاوے کرنے کا نام نہیں ہے یہ تو خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں۔ انس کی بات سن کر عمار نے جواب میں کہا ۔ ایسی بوڑھوں والی باتیں چھوڑو ایسے موقع زندگی میں بار بار نہیں ملتے اور وہ دیکھو حذیفہ تمہارے ابو کھڑے تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔

اسی وجہ سے انہوں نے اپنے گھر میں آج سب بچوں کو جمع کیا تھا جب سارے بچے جمع ہوگئے تو انہوں نے ملازم سے آئسکریم منگوا کر بچوں کو خود پلیٹ میں نکال کر دی اور بچوں کو اپنے قریب زمین پر بٹھا لیا۔ ہاں تو بچو! آپ سب ٹھیک ہیںاور قربانی سب کے گھر میں ہوتی ہے انہوں نے بچوں سے سوال کیا جس کے جواب میں سب بچوں نے ہاں میں سر ہلایا۔اس کے بعد ان کے ارد گرد ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ انکل میرے گھر میں تین جانور آئے ہیںتو کہیں سے یہ آواز آرہی تھی انکل میرے ہاں اتنے لاکھ کا بیل آیا ہے۔ انہوں نے جواب میں ماشاء اللہ کہا اچھا بچو، تو کیوں نہ آج ہم ایک ایسے جانور کی کہانی سنیں جس کو اللہ تعالیٰ نے جنت سے قربانی کے لئے بھجوایا تھا۔ یہ بات سن کر سارے بچےخاموش ہوگئے۔

انس نے حیرت سے سوال کیا ؟ کیا واقعی انکل کبھی جنت سے بھی قربانی کے لئے جانور آیا ہے۔ ہاں انس ایک جانورایسا بھی آیا ہے جو جنت سے قربانی کے لئے آیا تھااور یہ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کو خود بھجوایا تھا۔ اب تو بچوں کی حیرت کی انتہا تھی اور پھر ان بچوں نے ایک ساتھ کہا انکل جلدی سے ہمیں یہ کہانی سنا دیں۔ یہ بہت پہلے کی بات ہے شاید چار ہزار سال پہلے کی ۔ایک بہت بوڑھا آدمی تھا لیکن وہ اللہ کا بہت اطاعت گزار بندہ تھا۔ وہ ساری زندگی قربانی دیتا آیا تھا اور یہ قربانی صرف جانور کی نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے اس سے مختلف قسم کی قربانیاں مانگی تھیں اور وہ ہر قربانی دیتا چلا آیا تھا۔لیکن اس کی کوئی اولاد نہیں تھی جب اس آدمی کی عمر 80سال ہوگئی تو اللہ نے اس کو ایک اولاد دی اس بچے کا نام انہوں نے اسماعیل رکھا۔

ہاں بچو!یہ وہی اسماعیل ہیں جو بڑے ہو کراللہ کے پیارے نبی اسماعیل علیہ السلام بنے اور یہ بوڑھا آدمی کوئی اور نہیں اللہ کے خلیل ابراہیم علیہ السلام تھے۔سیدنا اسماعیل علیہ السلام ابھی دودھ پینے کی عمر میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنی بیوی اور بچے کو بیت اللہ کے پاس چھوڑ آؤ اس وقت بیت اللہ اور اس کے ارد گرد کوئی آبادی نہ تھی بالکل ویران جگہ ہونے کے ساتھ وہاں پانی اور کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا ۔یہ کیا بچو؟ آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے؟ انکل اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ بالکل اکیلے تھے اور ان کے والد انہیں چھوڑ کر جارہے تھے اور وہ تو بالکل ابھی ننھے سے بچے تھے ۔ ہاں بچو، ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے سے محبت تو بہت تھی لیکن یہ اللہ کا حکم تھا اور اللہ کی محبت اپنے بیٹے کی محبت سے کئی گنا زیادہ تھی۔ آپ کے جانے کے بعد تھوڑے دن میں ہی جو تھوڑا بہت کھانے اور پینے کا سامان اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حاجرہ علیہ السلام کے پاس تھا وہ ختم ہوگیا ۔ اسماعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے بلک بلک کر رونے لگے۔ ماں سے یہ حال دیکھا نہ گیا تو انہوں نے ان کے قریب جو پہاڑی تھی اس پر چڑھنے لگیں وہاں چڑھ کر انہوں نے دیکھا شاید کوئی قافلہ نظر آئے یا کہیں پانی کا چشمہ دکھے پھر وہ نیچے اتر آئیں ۔ ننھے اسماعیل علیہ السلام کے رونے کی وجہ سے وہ پھر دوسری پہاڑی پر چڑھیں اور انہوں نے وہی اپنی تلاش میں ادھر اُدھر دیکھا لیکن انہیں کچھ دکھائی نہ دیا پھر نیچے اتر آئیں۔ یہ وہی دونوں پہاڑیاں ہیں جو آج صفا مروہ کے نام سے جانی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ انداز اتنا اچھا لگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رہتی دنیا تک سعی کے طور پر جاری رکھا۔

ساتویں دفعہ کے چکر کے بعد جب اُمّ اسماعیل علیہ السلام واپس آئیں تو انہیں ایک آواز آئی۔ اسماعیل علیہ السلام کے پاس ایک فرشتہ موجود تھا اوراسماعیل علیہ السلام کے پیروں کے پاس سے پانی جاری تھا۔ آپ نے خود پانی پیا ننھے اسماعیل علیہ السلام کو پانی پلایااور یہ پانی آبِ زم زم کہلایا۔ پھر بچو، اسماعیل علیہ السلام اور حاجرہ علیہ السلام وہیں رہنے لگے تھوڑے دن بعد وہاں پر اور لوگ بھی آکر آباد ہوگئے اب ننھے اسماعیل علیہ السلام تھوڑے بڑے ہوگئے تھے ابراہیم علیہ السلام بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور اکثر آ پ سے ملنے آجاتے تھے ۔ پھر اسماعیل علیہ السلام جب جوانی کے قریب پہنچے اب ان کی عمر اتنی تھی کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کا سہارا بنتے ۔ان دنوں ابراہیم علیہ السلام کو ایک خواب نظر آیا اور انبیاء کے خواب ہمیشہ سچے ہوتے ہیں اس خواب میں انہیں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے نام پرقربان کر رہے ہیں۔جس کا ذکر قرآن میں یوں آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ: جب (اسماعیل علیہ السلام ) ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر )کوپہنچے تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ بیٹا میں خواب دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو تمہارا کیا خیال ہے انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ جب دونوں نے حکم مان لیااور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ان کو پکارا اے ابراہیم علیہ السلام آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سخت آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کو ان کو فدیہ دیا اور پیچھے آنے والوں میں ابراہیم علیہ السلام کا (ذکر خیرباقی) چھوڑ دیا۔ کہ ابراہیم علیہ السلام پر سلام ہو۔ (سورہ صٰفّٰتْ)

بچوں ابراہیم علیہ السلام نے جب اسماعیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے ان کے آگے اپنا سر تسلیم کر لیا اور صبر کے ساتھ اللہ کے لئے قربان ہونے کے لئے تیار ہوگئے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے انہیں زمین پر لٹایا اور ان کی گردن پر چھری پھیرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے چھری کو حکم دیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی گردن نہ کاٹے پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی کہ اے ابراہیم علیہ السلام آپ اپنی آزمائش پر پوری طرح پورے اترے۔ اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر یہ مینڈھااللہ کی راہ میں قربان کیجئے جو جنت سے بھیجا گیا تھا ۔ سفید رنگ کا یہ مینڈھا جو دیکھنے میں خوبصورت اور صحت مند تھا یہ اسماعیل علیہ السلام کے بدلے میں فدیہ کے طور پر ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے نام قربان کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اتنا خوبصورت لگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو آنے والے تمام لوگوں کے لئے فرض کر دیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اندر بھی اس قربانی کو جاری رکھا گیا اب ہر سال عید الاضحٰی کے موقع پرجو قربانی ہم کرتے ہیں وہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی یاد میں کرتے ہیں ۔

پیارے بچوں انہوں نے یہ قربانی بالکل صاف اور اچھی نیت سے اللہ کے لئے کی تھی یہ قربانی کرنے کے بعد انہوں نے لوگوں کے سامنے اس کو نہ ہی بیان کیانہ دکھاوا کیا تو ہمیں بھی قربانی صرف اللہ کے لئے سچی نیت سے کرنی چاہیے کیونکہ اگر ہماری نیت صاف نہیں ہوگی تو اس کا اجر ہمیں اللہ تعالیٰ سے نہیں ملے گا۔ کہانی کے اختتام کے بعدکھانے کے دستر خوان پر عمار ان کے پاس آیااور آکر انہیں بتانے لگا کہ کس طرح اس نے اسکول میںسب کو بتایا تھا کہ میرے گھر میں اتنے جانور آئے ہیں۔ کیا انکل اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دیں گے؟ اس نے ان سے سوال کیا۔ہاںبیٹااللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے والے بہت پسند ہیںاب ہمارا فرض بنتا ہے ہم دوسروں کو بھی اس قربانی کا مقصد اور وجہ بتائیں جن کو معلوم نہیں ان کو سمجھائیں کہ قربانی دکھاوے کا نام نہیں ہے یہ تو ابراہیم علیہ السلام کی سنت تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے زندہ رکھا ۔ ہمیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کمزور ایمان والوں سے ہماری اولادوں کی قربانی نہیں مانگی ورنہ آج کے دور میںیہ قربانی دینے والے چند لوگ ہوتے اور دیکھنے والا ہجوم۔اور ایک اور بات جو آپ سب بچوں نے کرنی ہے وہ یہ کہ اس دعا کے پیپر کو ہر بچے نے اپنے والد کو دیناہے اور دوسرے دوستوں میں بھی تقسیم کرنا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی کرتے وقت ہم سنت کے مطابق دعا نہیں پڑھتے اور ہم میں سے کئی لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ قربانی کرتے وقت کوئی دعا بھی پڑھنی ہے چلیں سب مل کرایک دفعہ اس دعا کو پڑھتے ہیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ ( اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ) اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ (مسلم)

ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ ( ذبح کرتا ہوں) اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ ! ( یہ قربانی) تیری ہی طرف سے اور تیرے ہی لئے ہے ، اے اللہ ! مجھ سے قبول فرما۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے