ڈاکٹر مقبول احمد مکی

کشمیر وہ خطہ ہے جس کی ماضی میں مثال خوبصورتی،سرسبز وشادابی،قدرتی حسن، بلند وبالا پہاڑوں،دنیا کے بہترین پھلوں،میووں ،برف پوش چوٹیوں، حسین وادیوں،یہاں کے باسیوں کے مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلام دوستی، محبت ، بھائی چارہ، دنیا کے مختلف خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے دی جاتی تھی۔ریاست جموں وکشمیر بنیادی طور پر 7 بڑے ریجنوں وادی کشمیر،جموں،کارگل،لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل 84 ہزار 471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔آج کی دنیا میں جس ریاست کی بات کی جاتی ہے وہ 15 اگست 1947 میں قائم ریاست جموں وکشمیر ہے اور اقوام متحدہ میں یہ پوری ریاست متنازع کشمیر قرار پائی۔

 14/15 اگست 1947 کو جب انڈیا اور پاکستان وجود میں آئے اس وقت کشمیر ایک خود مختار شاہی ریاست تھی اور کشمیر کے پاس انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار موجود تھا ۔کشمیر میں اکثریت مسلمان تھی جبکہ وہاں کا حکمران ہندوں راجہ ہری سنگھ تھا. پاکستان کی کوشش تھی کہ کشمیر خود کو پاکستان میں ضم کردے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرلے ۔دوسری طرف بھارت اپنی جگہ انہی کوششوں میں سرگرم تھا. جبکہ کشمیری عوام جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی وہ پاکستان کے ساتھ نا سہی لیکن بھارت کے ساتھ الحاق پر بالکل بھی تیار نہیں تھی. کہانی تب مشکوک ہوئی جب کشمیری عوام نے راجہ ہری سنگھ کا جھکاو بھارت کی طرف جھکتا ہوا دیکھا اور کشمیری مسلم اکثریت میں بغاوت نے سر اٹھا لیا.مسلمان اکثریت نے راجہ ہری سنگھ کے سامنے اپنے مطالبات رکھتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہندوستان کا بٹوارا مذہب اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہوا ہے تو اگر الحاق ہی کرنا ہے تو پاکستان سے کرو کیونکہ کشمیر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔راجہ ہری سنگھ چونکہ ہندو تھا اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا سخت مخالف تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے اپنا اقتدار بھی عزیز تھا اس لیے اسے وہی ملک عزیز تھا جو اس کے اقتدار کی تاحیات ضمانت دیتا اور ایسی صورتحال میں ایک ہندو کے لیے ہندو ہی بہتر انتخاب تھا.22 اکتوبر 1947 کو راجہ ہری سنگھ کا جھکاو بھارت کی طرف دیکھ کر کشمیری مسلم اکثریت نے قبائلی جنگجووں کو اپنا دکھڑا سنایا اور مدد کی اپیل کی جس کے نتیجے میں 20 ہزار سے زائد قبائلی جنگجوں کشمیر میں داخل ہوگئےچونکہ کشمیری مسلم اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق پر راضی تھی وہ راجہ ہری سنگھ کو پاکستان کے ساتھ الحاق پر کسی بھی طرح راضی کرنا چاہتے تھے اس لیے اس کار خیر میں پاکستانی حکومت نے بھی یقینا اپنا حصہ ڈالا اور یہی راجہ ہری سنگھ کے بھارت سے الحاق کی وجہ بنی۔ادھر قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے ادھر راجہ ہری سنگھ اقتدار سے ہاتھ دھونے کے ڈر سے مدد کے لیے بھارت چلا گیا.بھارت نے مدد کے بدلے الحاق کی شرط رکھ دی جسے راجہ ہری سنگھ نے فورا قبول کرلیا لیکن راجہ ہری سنگھ حاضر دماغ تھا اس نے الحاق ایسا کیا کہ انڈیا کے ہاتھ بھی کچھ نا آیا۔راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ جس الحاق پر دستخط کیے تھے اس کے نقاط مندرجہ ذیل تھے:

1 بھارت کا ریاست کشمیر میں اختیار اس دستاویز میں درج شقوں کے مطابق ہوگا۔2 بھارتی پارلیمنٹ کو کشمیر میں صرف ان معاملات میں قانون سازی کا اختیار ہوگا جو 1935 ایکٹ کے شیڈول میں درج ہیں۔3 1935 ایکٹ میں یا بھارت آزادی ایکٹ 1947 میں کسی ترمیم کے ذریعے اس الحاق میں درج شرائط میں ردوبدل نہیں کرسکتا۔4بھارتی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جس کے ذریعے جموں و کشمیر میں جبراً زمین کا حصول کیا جائے، اور اگر بھارت کو اپنے کام کے لیے زمین کی ضرورت پڑی تو وہ زمین ریاست کشمیر ان کو حاصل کرکے دے گی ان شرائط پر جو باہمی طور پر طے پائی جائیں گی۔5 اس معاہدے کی کوئی شق مجھے اس کا پابند نہیں کرتی کہ میں بھارت کے آئندہ بننے والے آئین کو منظور کروں اور نہ ہی مستقبل کے آئین کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے میرے اختیار پر کوئی پاپندی عائد ہوتی ہے۔6 اس معاہدے میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جو اس ریاست میں اور اس کے اوپر میری خود مختاری کو متاثر کرے، سوائے اسکے جیسا کہ اس دستاویز میں بیان کردیا گیا ہے، ریاست کشمیر پر میرے اختیار، اقتدار اور استحقاق جو مجھے بحیثیت حکمرانِ ریاست حاصل ہیں کم نہیں ہونگے نہ ہی ان قوانین کی تنفیذ جو اس وقت نافذ العمل ہیں۔یہ وہ مضبوط الحاق تھا جو راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیاجس کے نتیجے میں بھارت نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کی اور پاک بھارت پہلی جنگ کا آغاز ہوا۔ جنگ کی صورتحال خطرناک حد میں داخل ہوچکی تھی پھر اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی تب تک پاکستان نے کشمیر کا 38فیصد حصہ فتح کرلیا تھا جو آج الحمدللہ آزاد کشمیر کی شکل میں پاکستان کے پاس ہے۔

غور کریں پاکستان نے اس وقت اپنے سے دوگنابڑے ملک بھارت سے جنگ لڑ کر کشمیر کا 38% حصہ اپنے نام کیا جب پاکستان کی عمر صرف 2 مہینے 10 دن تھی۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ  بھارت راجہ ہری سنگھ کے ساتھ کیے ہوئے اس تمام الحاق کی دھجیاں اڑا کر وہاں پر قابض ہوچکا ہے۔

1949 میں بھارت کے کشمیر کے ساتھ الحاق کے بعد جب بھارتی آئین بنایا جارہا تھا تب کشمیر کی حیثیت کا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔بھارت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ کشمیر کی حیثیت کو آئین کے اس حصے میں ڈال دیا جائے جو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات سے متعلق ہے۔اس کے لئے بھارتی آئین میں ایک نیا آرٹیکل شامل کیا گیا جس کا نمبر 370 ہے۔

1 اس آرٹیکل 370  کے مطابق بھارت کے آئین میں جو کچھ بھی لکھا ہو، ریاست کشمیر کے ضمن میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق صرف ان معاملات تک محدود ہے جو کشمیری حکومت کے مشورے سے صدر جمہوریہ طے کریں گے۔2 جو دستاویز الحاق سے مطابقت رکھتے ہیں ان کا تعین بھی صدر ہی کریں گے اور بھارتی آئین کے کون سے حصے کشمیر میں لاگو ہوں گے اس کا تعین بھی صدر ہی کریں مگر کشمیری حکومت کی منظوری کے بعد۔3 اس آرٹیکل میں صدر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اس آرٹیکل کو جب چاہے ختم کردیں، لیکن صدر یہ اختیار صرف اس صورت میں استعمال کرے گا جب کشمیری حکومت اس کو منظور کرلے گی۔ 1953 میں اُس وقت کے خودمختار حکمران شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعے آئین میں دفعہ 35A کو بھی شامل کیا گیا، جس کی مطابق بھارتی وفاق میں کشمیر کو واضع طور پر ایک علیحدہ ریاست کی حیثیت دی گئی۔آرٹیکل 35A آرٹیکل 370 کی ہی ایک مضبوط اور مکمل قانونی شکل ہے۔فرق بس یہ ہے 1949 میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو عارضی، انتقال اور خصوصی معاملات کے طور پر آئین میں شامل کیا گیا جب کہ 1953 میں آرٹیکل 35A کو مکمل قانونی حیثیت دے کر بھارتی آئین میں شامل کرلیا گیا تھا۔آرٹیکل 35A کے مطابق 1 کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ وہاں پیدا ہوا ہو۔2 کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں زمین جائیداد نہیں خرید سکتا۔3 کسی بھی دوسری ریاست کا شخص کشمیر میں سرکاری نوکری نہیں حاصل کرسکتا۔4 کوئی بھی دوسری ریاست کا شخص جموں کشمیر میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا ،آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا ہے اور راجہ ہری سنگھ کے بھارت کے ساتھ ہونے والا الحاق بھی چیخ چیخ کر یہی کہ رہا ہے۔بھارتی پارليمنٹ نے آرٹیکل 35A کو ختم کرکے نا صرف اس الحاق کی خلاف ورزی کی جو راجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ کیا تھا بلکہ بھارتی سابقہ حکومت کے اپنے ہی بنائے ہوئے قانون آرٹیکل 370 کی بھی نفی کردی۔آرٹیکل 370 ہو یا آرٹیکل 35A یہ دونوں آرٹیکل ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں کسی بھی ایک آرٹیکل کو ختم کردیا جائے دوسرا آرٹیکل اپنی موت خود مرجائے گااور ایسا ہوچکا ہے۔آرٹیکل 35A کو ختم کرکے بھارت نے اپنے مزموم مقاصد عالمی دنیا کو بتا دیے ہیں بھارت کاپوری طرح دنیا کے سامنے خبث باطل ظاہر ہوچکا ہے. جب کہ کشمیری عوام اور حکمرانوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس عمل کی ان کے نزدیک کوئی قانونی حیثیت نہیں۔بھارت فلسطین کی کہانی کشمیر میں بھی دہرانا چاہتا ہے بھارت کا مقصد یہ ہے کہ آرٹیکل 35A یا آرٹیکل 370 کو ختم کرکے بھارتیوں کو وہاں پر پراپرٹی خریدنے کی اجازت دے دی جائےپھر وہاں پر انڈیا کے لوگوں کو سرکاری نوکریاں آفر کی جائیں اور شہریت دے کر ووٹ کا حق بھی دیا جائے۔ آسان زبان میں کشمیر میں ہندو آبادی میں اضافہ کیا جائے کیونکہ انڈیا تب تک کشمیر حاصل نہیں کرسکتا جب تک ریفرنڈم کروا کر وہاں کی عوامی رائے میں بھارتی اکثریت حاصل نہیں کرلیتا۔اور آرٹیکل 35A میں ترمیم ایک طرح کا طبل جنگ ہے جو بھارت نے بجا دیا ہے اب اگر عالمی طاقتیں اس پر خاموش تماشائی بنی رہی تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ بھارت نے یہ کام امریکہ و اسرائیل کے زیر سایہ ہی کیا ہے۔پاکستان کو اس پر زبردست اقدامات اٹھانے چاہیے اور ایک جامع اور جارحانہ پالیسی اپنا کر عالمی طاقتوں کے سامنے کشمیری عوام کی بھرپور جنگ لڑنی چاہیے اور پاکستانی عوام کو بھی ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے۔عام لوگ جان لیں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35A اے کی منسوخی سلامتی کونسل کی قرادادوں کی کھلی توہین ہے اس آگ میں انڈیا ہی جلنے والا ہے۔ ان شاء اللہ

کشمیری عوام کو مسائل سے دوچار کرنے کےلیے بھارت نے سازشوں سے کام لیا وہی پربرصغیر پاک وہند کی تقسیم میں قادیانی جماعت کا بڑا ہی گھناؤنا کردار رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان باؤنڈری کمیشن کے سربراہ اوروائسرائے ہند سے مل کر پاکستان کےخلاف ایسی گھناؤنی اور شرمناک سازشیں کیں ، جن کی وجہ ریاستوںحیدرآباددکن،ریاست کشمیر،تحصیل پٹھان کوٹ ، گجرات، گورداسپور اور کئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں ریڈ کلف، ماؤنٹ بیٹن اور ظفر اللہ قادیانی شریک تھے۔ تاریخ کے اوراق میں اس سازش کے کئی پوشیدہ ثبوت موجود ہیں۔تقسیم کے وقت گورداسپور میں 51 فیصد مسلمان تھے۔49 فیصد ہند اور 2 فیصدقادیانی تھے۔ طے یہ تھا کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ اس موقع پر قادیانیوں نے ہندوؤں کا ساتھ دیا اور مسلمانوں سے الگ ہوئے۔ اس طرح ہندو 49 فیصد سے 51 فیصد ہوئے اور مسلمان 51 فیصد سے 49 فیصدرہ گئے۔ یوں قادیانیوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت سے گورداسپور جاتارہا۔ یہ وہ واحد زمینی راستہ تھا جو کہ گورداسپور سے کشمیر کو جاتا تھا۔بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے وادی پر ناجائز قبضہ کر لیا۔ دوسرے لفظوں میں ریاست کشمیر کے خلاف ریڈ کلف، ماؤنٹ بیٹن اور قادیانیوں نے ناپاک سازش تیار کی جس کے نتیجے میں کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ قادیانیت نے پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کشمیری مسلمان ستربرسوں سے بھارتی ظلم وجبر کی چکی میں پستے چلے آرہے ہیں۔یہ مہربانی بھی قادیانیت ہی کی تھی۔ جو آج کشمیر پر بھارتی ناجائزقبضہ ہے۔ پنجاب باؤنڈری کمیشن میں دو مسلم اور دو غیر مسلم ممبران شامل تھے اور سرظفر اللہ خان وکیل تھے۔ قادیانی اخبار الفضل(قادیان 19 جون 1947ء) کے مطابق اس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا بشیر الدین نے تقسیم کی اکائی ضلع کے بجائے تحصیل کو قراردیا۔ جسے حکم جان کر سرظفر اللہ خان سکہ بند قادیانی نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سراسر بھارتی مفاد میں ہے، اس کے باوجود حد بندی کی اکائی  تحصیل کی سطح پر منتخب کی۔ نتیجتاً ہندو اکثریت والی پٹھان کوٹ کی تحصیل بھارت کی جھولی میں جاگری جس کی بدولت بھارت کو کشمیر کا راستہ مل گیا۔ضلع گورداسپور مسلم اکثریتی ضلع تھا۔ اس کی صرف ایک تحصیل پٹھان کوٹ ہندو اکثریت رکھتی تھی۔ اگر حد بندی ضلعی سطح پر ہوتی تو بھارت کو کشمیر پر ناجائز قبضے کا راستہ نہ ملتا ، نہ ہی پاکستانی دریا بھارتی کنٹرول میں جاتے جن کے منبع کشمیر میں ہیں۔ قادیانیوں نے صرف ہندوؤں کی محبت میں انگریز سرکار کو کہا کہ انہیں امت مسلمہ میں نہ گنا جائے۔ وہ ایک الگ مذہب کے پیروکار ہیں لیکن جب مسلمان یہی کہتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے وہ اپنے آقاؤں سے اس کی شکایت کرتے ہیں اور روتے ہیں کہ ہمیں مسلمان کیوں نہیں کہا جاتا؟ان سب سازشوں کا اگر حل تلاش کیا جائے وہ ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ’’الجہاد‘‘ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’ کشمیر مذمت سے نہیں مودی کی مرمت سے آزاد ہوگا‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے