خالق اور مخلوق کا باہمی ربط

خالق کائنات کا سب سے بہترین اور دلآویز شاہکار انسان ہے۔ خالق نے انسان کو تخلیق کیا، اس کی صورت گری کی اور اسے اپنی بے شمار نعمتوں سے سر فراز کیا۔ سننے، دیکھنے اور بولنے کی اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت کر دیں ۔ تجسس، تعقّل اور تفکر کر نے والا ذہن اور شعور و ادراک عطا کیا ۔ ارادہ و اختیار کی آزادی دی ، ہوا ، پانی ،حرارت کی مادی ضروریات مہیا کیں اور موسمی تغیرات سے مقابلہ کرنے کی استعداد اور قوت سے بہرہ ور کیا۔ان سب کے علاوہ سب سے اہم اور قیمتی مطاع حیات، ہدایت ربانی ہے جس سے انسان کو سرفراز کیا گیا ،جو خالق و مخلوق کے رشتے اور تعلق کو مضبوط و مستحکم کرتی ہے۔ اور ہدایت ربانی کا یہ چشمۂ صافی ہر طالب ہدایت کے لیے جاری و ساری ہے، جو چاہے اپنے قلب و نظر کی بنجر زمین کو سیراب کر سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’ پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے، تو جو کوئی میری ہدایت کی اتباع کرے گا

تو ایسے لوگوں کو کچھ خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘( البقرہ ۳۸)

ان تمام انعامات و اکرام کا تقاضا یہ ہے کہ مخلوق خالق کی منشا ء و مرضی کے مطا بق اپنی پوری زندگی گزارے۔اس کی حیات دنیوی کا ہر لمحہ، ہر لحظہ، ہر آن خالق کی اطا عت و فرماں برداری میں بسر ہو بقول اقبال:

ہر لحظہ ہے مؤ من کی نئی شان ، نئی آن

کردار میں ،گفتار میں اللہ کی برہان

خلق اور امر کا باہمی ربط و تعلق با لکل وہی ہے، جو روح اور بدن کا ہے۔ روح نکل جائے تو بدن مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے، اور اگر اس مٹی کو مٹی میں نا ملا دیا جائے تو تعفن پھیلتا ہے اور فضا نا خوش گواراور نا قابل برداشت ہو جاتی ہے۔یہی انسان کی اصل حقیقت ہے جو ہمیشہ ذہن سے اوجھل رہتی ہے۔ عدل کا پر زور تقاضا بھی یہی ہے کہ خلق جس کی ہو امر بھی اسی کا مانا جائے ۔سورج کی کرن لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر کے زمین تک پہنچتی ہے مگر اپنے مرکز و محور سے اس کا ربط و تعلق قطعی منقطع نہیں ہوتا۔خالق و مخلوق کا رشتہ بھی ہر قسم کی قطع و برید سے ما وراء ہے۔

خالق و مخلوق کا تعلق کمزور تب ہوتا ہے جب خلق اور امر کے ما بین کچھ اور الٰہ در آتے ہیں۔یہ انسانی ذہن کے تراشے ہوئے الٰہ اپنے جیسے انسانوں کی صورت میں بھی ہوسکتے ہیں اور اپنے نفس کے تقاضوں کی شکل میں بھی۔انسانوں اور اپنے سر کش نفس کے معبودان باطل کی اتباع و پیروی کر کے انسان خود ہی اپنے گلے میں غلامی کے طوق ڈال لیتا ہے۔اور پھر اس مقام سے اس فتنۂ و فسا دکی شروعات ہوتی ہے جس کا خمیازہ آج امت مسلمہ معاشی، سماجی، سیاسی ، ذاتی اور اور اجتماعی پہلوؤ ں سے بھگت رہی ہے۔غلامی انسان کو ایک ایسی بند گلی میں پہنچا دیتی ہے جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی عقل کو اپنے لیے ذ ریعۂ ہدایت بنا لیناکھلی ہوئی گمراہی ہے۔کیونکہ عقل محدود بھی ہے اور پر فریب بھی۔ جیسا کہ اقبال کہہ گئے۔

؎ ’’عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے‘‘

اللہ کے اوامر و نواہی کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا گمراہی کا صدر دروازہ ہے جس میں داخل ہو کر انسان اپنے خالق و مالک کے احکام و فرامین کا انکار کر دیتا ہے۔ اگرچہ عقل کے استعمال کی دعوت تو خودقرآن حکیم کے صفحات میں جا بجا بکھری ہوئی ہے۔ مگر یہ محض مظاہر کائنات پر تدبر و تفکر کے لیے، قدرت کی صناعی اور کاریگری کے مشاہدے کے لیے، اچھا ئی اور برائی کو پرکھنے کے لیے ہے۔ اسی کو آفاق و انفس میں غور و فکر کا نام دیا گیا ہے۔

؎’’ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی‘‘

کے مصداق اس کینوس پر عقل کو ذ ریعہ ہدایت بنانا مقصود ہے ، دائرۂ عبدیت سے باہر نکل کر عقل کی عیاریوں کا شکار ہوجانا اصل مقصود نہیںہے۔

آج عالم انسانیت جن میں سر فہرست پوری دنیا کے مسلمان ہیں سب سے زیادہ مصائب و آلام ، ظلم و تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، اس کا اصل سبب ہی یہ ہے کہ ان عاقبت نا اندیش مسلمانوں نے ایک اللہ کی حاکمیت کو چھوڑ کر انسانوں کے انبوہ کثیر میں سے کچھ کو اپنا مالک و رازق اور نجات دہندہ سمجھ لیا ہے۔اللہ کے دئے ہوئے نظام عدل و قسط کو نظر انداز کر کے دنیا کے تراشے ہوئے نظام ہائے باطل کو اپنے فکر و عمل کا مرکز بنا لیا ہے۔انسان اپنے تئیں سود و زیاں کا مختار کل سمجھ لے یا کسی دوسرے انسان کو نفع و ضرر کا منبع و محور سمجھ بیٹھے ، نتیجہ بہر حال خسران اور بر بادی کی صورت میں ہی ظاہر ہوتا ہے۔اس لیے کہ خالق اپنی ذات و صفات میں ہر جہت اور ہر زاویے سے خالق ہے اور مخلوق ہر اعتبار سے مخلوق ہے۔خلق اور امر کی یہ پہچان ذہن کے افق سے معدوم ہو جائے یا دھندلا جائے تو پھر بربادی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔پھر ہر فیصلہ غلط ، ہر منصوبہ غیر مؤثراور ہر کامیابی وقتی اور عارضی ثابت ہوتی ہے۔خالق و مالک کی ہدایت کاملہ سے منہ موڑ کر بھلا کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ رب ذوالجلال کی تعلیمات جلیلہ اور ہدایت کاملہ کے بر خلاف ہمارا طرز عمل بحیثیت ایک مسلمان کیا ہے وہ ہمارے افکار و اعمال کے آئینے میں ملاحظہ فرما ئیے: رب تعالیٰ نے فرمایا: ’’لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جا ئو، جس نے بنایا تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اس سے میوے تمھارے لیے، اس لیے نہ ٹہرائو کسی کو اللہ کے مد مقابل اور تم تو جانتے ہو۔‘‘(سورۃ البقرہ ۲۲) اللہ کی اس تاکید کے باوجود ہم مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ ہم نے اپنے نفس کے علاوہ ان اقوام کو انپے الہٰ بنایا ہوا ہے۔جو محض دوست اوررفیق بننے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ امت مسلمہ کی تاریخ گواہ ہے کہ ان متعصب قوموں نے ہمیشہ دوست بن کر مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ رب نے فرمایا: ’’ اور سب مل کر اللہ کی (ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنااور متفرق نہ ہونا‘‘ (سورۃ آل عمران ۱۰۳ ) اس نصیحت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہم اپنی پسند اور خواہشات کی تکمیل کے لیے تتر بتر ہو گئے۔ ہم نے خود کو فرقوں ، گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کر لیاہے۔ بغض و عداوت کا عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو بھی تیار نہیں۔جبکہ وہ اقوام جن کی تقلید کرنا ہم باعث فخر سمجھتے ہیں، وہ بظاہر کتنے ہی فرقوں میں تقسیم ہوں ، مگر مقابلہ جب مسلمانوں سے ہو تو وہ سب کے سب ایک امت واحدہ بن کر سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔افغانستان میں ہونے والی بربریت سے کون واقف نہیں ہے، وہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے کیا وہ سب کچھ تنہا امریکا کر رہا ہے ؟ تقریبا ً 26 ممالک اور بھی ہیں جو اس دہشت گردی اور بہیمانہ ظلم و ستم میں امریکا کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ستم بالائے ستم ہمارے ملک کے حکمران اور مغرب نواز جدید طبقہ بھی اس ظلم و نا انصافی پر اپنی اپنی سطح پر پوری طرح ان کو قوت فراہم کر رہا ہے۔یہ وہ   بنیادی فرق و تفاوت ہے مسلم اور غیر مسلم میں جس کے سبب آج امت مسلمہ بحیثیت مجموعی ظلم و بربریت، دہشت گردی ، نا انصافی اور استحصال کا شکار ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ تمام مسلمان جسد واحد کی مانند ہیں کہ اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس کو محسوس کر تا ہے۔‘‘(مسلم) ہم نے خود کوامت کے سواد اعظم سے الگ تھلگ کر کے نسل پرستی کی بنیاد ڈال دی اور قومیت کے دائرے میں خود کو مقید کر لیا۔اب ہم عربی، عجمی، کالے اور گورے کی تفریق کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔

رب تعالیٰ نے اخوت و محبت کی راہ دکھاتے ہوئے فرمایا: ’’ مؤمن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو تم اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے ر ہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘ (سورۃ الحجرات ۱۰) افسوس کہ ہمیں رب کی یہ بات بھی پسند نہیں آئی اور ہم نے اپنے جائز اور نا جائز اغراض و مقاصداور ذاتی منفعتوں کے حصول کی خاطر اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنا شروع کر دیئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کذب بیانی، امانت میں خیانت، وعدہ خلافی اور فحش گوئی منافقت کی نشانیاں ہیں‘‘۔ (بخاری کتاب المظالم و الغضب) ہم نے اپنی معیشت، معاشرت، سیاست، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں ان ہی برائیوں کر خوب پر وان چڑھایا۔

رب تعالیٰ نے ایمان میں بڑھوتری کے لیے ہدایت فرمائی: ’’ اور نیکی اور پر ہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘ (سورۃ المائدہ ۰۲) اس کے برخلاف ہم نے نیکی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے بجائے لوگوں کے طرز عمل پر تکفیر و تضلیل کے متعدد پہلو ڈھونڈ لیے اور اس کی نشر و اشاعت بھی شروع کردی۔اگر کسی نے اخلاص نیت اور للہیت کے ساتھ نیکی کے کاموں کی طرف قدم بڑھایا تو ہم نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔ہمارے مذہبی رہنما، دانش ور، خطیب و مقرر اپنے خطبوں اور speeches میں اسلام کو ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات کے طور پر پیش کرتے ہیں اور امت مسلمہ کو ایک امت واحدہ تسلیم کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دل پھٹے ہوئے ہیں۔

؎’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘۔

دین کی آفاقیت اور اس کے اسرا ر رموز کے متعلق تحقیقات اور اس کے نتائج کے مطابق طرز عمل اختیار کرنے میں کوئی برائی نہیں، اس نوعیت کے اختلافات تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میںبھی ہوتے رہے ہیںلیکن کبھی کسی موقع پر بھی بغض و عداوت کا کوئی معاملہ نہیں ہوا۔مگر دور جدید میں ہم مسلمانوں نے اغیار کی سازشوں کے زیر اثران فروعی اختلافات میں بارود ڈال کر اس کو دیا سلائی دکھا دی ہے، اورکبھی نہ بجھنے والی آگ کو بھڑکا دیا ہے، چنانچہ اب ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنا کر بیٹھا ہے۔اسلامی معاشرے میں ہر آدمی بزعم خود مفتی بنا ہوا ہے۔وہ شریعت کے تابع ہونے کے بجائے ، شریعت کو اپنے تابع کر نے پر تلا ہوا ہے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

؎خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجے فقیہان حرم بے توفیق!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ فرمایا: ’’ لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کر تی ہیں اور لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشا بہت اختیار کر تے ہیں۔‘‘( رواہ البخاری)

ہم نے روشن خیالی اور آزادی کے نام پر مر د اور عورت کی تفریق ہی ختم کر دی۔اب ہمارے معاشرے کی عورت چراغ خانہ بننے کے بجائے شمع محفل بننے میں فخر محسوس کر تی ہے۔پردہ اور حجاب اس کے لیے دقیا نوسیت اور فرسودہ خیالی تصور کر لی ہے۔

مغرب کا فلسفہ یہ ہے کہ دنیا میں انسان کواپنی پسند کی زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہونا چاہئے۔ مذہب میں کسی قسم کی سختی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ نہ مذہب میں کسی کی ا جارہ داری تسلیم کی جاسکتی ہے۔مذہب تو وہ ہے جس کو ہمار دل اور ذہن قبول کر تا ہے اور ہمار ی طبیعت کو بھاتا ہے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔مغرب کے حوالے سے دین کو سمجھنے والے ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقوں کا نقطہ نظر بھی ہو بہو یہی ہے۔یہ نئی تہذیب کے رسیا ہیں اور اپنے من پسند معاملات میں کسی قسم کے breakers یا hurdles کو خاطر میں نہیں لاتے۔ مولانا ظفر علی خان نے شاید ایسی ہی صورت حال دیکھ کر کہا تھا:

تہذیب نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر

جو اس حرا مزادی کا حلیہ بگاڑ دے

اس کائنات رنگ و بو میں جس رنگ اور جس روپ میں بھی انسان کی فکری اور عملی گمراہیاں اپنے برگ و بار پھیلا رہی ہیں اس کی جڑ اور بنیاد صرف ایک ہی ہے۔ اور وہ ہے ایک اللہ کی حاکمیت مطلقہ کا صریح انکار ۔۔انسان کا بڑا عجیب معاملہ ہے کہ وحدہ لا شریک کی حاکمیت اس کی طبیعت پر گراں گزرتی ہے مگر اپنے ہی جیسے ہزاروں انسانوں کی غلامی کا طوق دل کی آمادگی کے ساتھ اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے۔ نادان یہ نہیں جانتاکہ ایک انسان دوسرے انسان کی غلامی سے نجات پالے پھر بھی بوئے غلامی نہیں جاتی۔ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نجات پائے تقریباً66 برس گزر چکے ہیں لیکن آج تک ہم ذہنی اور فکری اعتبار سے اسی فرنگی آقا کے غلام ہیں ۔ وطن عزیز کے موجودہ حالات بھی اس حقیقت کو آشکار کر رہے ہیں، امریکا کی وضع کی ہوئی پا لیسیوں کی اطاعت گزاری، افغانستان میں لگائی ہوئی امریکا کی آگ میں کود پڑنا ،امریکا ہی کی مرتب کئے ہوئے معاشی، سیاسی اور سماجی اصولوں کو قوم پر مسلط کرنا، ڈرون حملوں کا روز افزوں اضافہ اور اس پر ڈھٹائی پر اتر آنا کہ ڈرون حملے بند نہیں ہونگے۔ ا ن غیر منصفانہ اور جابرانہ امور پر ہمارے سیاسی اور عسکری حکمرانوں کی مجرما نہ غفلت اور چشم پوشی، محکومی اور غلامی کی بد ترین صورت ہے جس کی دلدل میں پاکستان بری طرح پھنس چکا ہے۔ علامہ اقبال کے خیال میں غلامی سیاسی، مادی، معاشی ہو یا روحانی اور ذہنی براہ راست ہو یا با لواسطہ، غیروں کی ہو یا اپنوں کی، ہر غلامی انسانیت کی توہین ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ قوت و طاقت اور حکمرانی کا سر چشمہ نہ عوام الناس ہیںنہ خواص نہ اشرافیہ ، نہ کوئی فرد بلکہ صرف اور صرف باریٔ تعالیٰ کی ذات ہے۔

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری

ہم نے ایک اللہ کی حاکمیت سے منہ موڑا تو ہزاروں قسم کی غلامی کے پھندے ہماری گردن میں آ گرے جن سے چھٹکارا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اس غلامی اور محکومی کے قلادوں کو خود اتارکر نہیں پھینکتے۔اسی ایک اللہ کے سامنے جو اپنی ذات و صفات میں وحدہ لا شریک ہے، جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اسی کے سامنے اپنے سر کو کسی بھی تذبذب اور تردد کے بغیر جھکانا ہوگا۔ جب تک خلق اور امر کے فلسفے کو نہیں سمجھیں گے، ہم بحیثیت امت مسلمہ اس دنیا کے طول و ارض میں راندۂ درگاہ ہی رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے