بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ وحدہ والصلاۃ
والسلام علی من لا نبی بعدہ أما بعد ، قال اللہ تبارک وتعالی
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)

’’یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

ایک دوسری جگہ فرمایا :

وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا    (الفرقان :33)

’’ اور نہیں وہ لاتے آپ کے پاس کوئی مثال گر ہم آپ کے پا س حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں۔‘‘

حدیث نبوی ﷺ جو احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے دورِ نبوی ﷺ سے ہی مدون ومرتب ہوتا چلا آرہا ہے یہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ کے ایک ایک قول،فعل اور تقریر کو محفوظ کرنے کی بہت زیادہ محنت وکوشش کی ۔ ہر صحابی میں اس بات کی خواہش اور تڑپ موجود تھی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو تاکہ احادیث کا علم ہو پھر یہ اصحاب ایک دوسرے سے آپ کے فرامین وہدایات معلوم کیا کرتے تھے۔ ضروریات زندگی اور ناگزیر مصروفیات کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے استفادہ کرنے کا اور حدیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے اس کا اندازہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے۔

’’ کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ، باری باری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں آتا دوسرے دن وہ آتا جس دن میں آتا اس دن کی احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ آتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا۔

(صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب التناؤب… الحدیث:89)

آخر ایسے کیوں نہ ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث کی حفاظت کا ذمہ خوداٹھایا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)

’’یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

اور دوسرے مقام پر فرمایا :

لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ    اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه ٗ    فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ    فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ   (القیامۃ: 16۔19)

’’ آپ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، تاکہ آپ اسے جلدی(یاد)کرلیں، یقیناً ہمارے ذمے ہے اس کا جمع کرنا(آپ کے سینے میں) اور اس کا پڑھنا (آپ کی زبان سے) سوجب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کیجیے پھر یقیناً اس کا واضح کرنا ہمارے ذمے ہے۔ ‘‘

بہر حال جس طرح قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کی ہے اسی طرح حدیث رسول ﷺ کی بھی حفاظت کی ہے۔ حدیث کی تدوین وترتیب عہد رسالت سے ہی شروع ہوچکی تھی لیکن اب تدوین حدیث کے بارے میں پہلا سوال جوابھر کر ہمارے سامنے آتاہے وہ یہ کہ خود عہدِ نبوی ﷺ میں حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ غیر معمولی تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس والہانہ محبت وعقیدت کی بنا پر جو وہ رسول اللہ ﷺ سے رکھتے تھے۔ آب کے ارشادات گرامی کو حفظ کرنے کا انہیں بہت اشتیاق تھا مگر یہ کہنا سراسر حق کی تکذیب ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں احادیث ضبط تحریر میں نہیں لائی گئیں اور کتابت وتدوین کا کام نبی کریم ﷺ کی وفات کے 90 برس بعد شروع ہوا اور اس درمیانی عرصے میں محض زبانی روایات پر بھروسہ رہا۔ حدیث اور تاریخ کی مستند کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط تحریر میں لاتے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ آپ کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو آپ ﷺ کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔

1رسول اللہ ﷺ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث

2 آپ ﷺ کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث

3 مجلس نبوی ﷺ کے برخواست ہونے کے بعد قلمبند کی جانے والی احادیث

1رسول اللہ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث

1صحیفہ عمرو بن حزم : نبی کریم ﷺ نے زکوۃ،صدقات اور خون بہا کے احکام پوری تشریح کے ساتھ عمرو بن حزم کو یمن کیلئے لکھوا کر دیئے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی 2/417)

2 سیدنا عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خلافت میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان صدقات کی تلاش کے لیے اہل مدینہ کے پاس قاصد بھیجا تو وہ مجموعہ احکام صدقات عمرو بن حزم صحابی کے لڑکوں سے مل گیا۔(دارقطنی ، ص:451)

3 صحیفہ عمروبن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمروبن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے پاس موجود تھیں۔

(دارقطنی ، کتاب الزکاۃ ، ص:209)

4عبد اللہ بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے ہوئے استعمال میں نہ لاؤ۔ (ترمذی1/206)

5 سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جب مدینہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے کچھ دن آپ کی خدمت میں حاضر رہے جب وطن جانے لگے تو آپ نے ایک صحیفہ لکھوا کر انہیں دیا جس میں نماز،روزہ،شراب اور سود وغیرہ کے احکام تھے۔ ( طبرانی صغیر ، ص:241۔242)

6 دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔ الفاظ یوں ہیں :

 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ، وَلَا طَلَاقَ قَبْلَ إِمْلَاكٍ، وَلَا عَتَاقَ حَتَّى يَبْتَاعَ (سنن دارمی،ص:393)

’’ بے شک رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرآن کو چھوئے مگر پاک آدمی ہی اور ملکیت سے پہلے طلاق نہیں ہے اور نہیں ہے آزادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘

7 سیدنا ا بن عمر  کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں اپنے عالموں کے پاس بھیجنے کیلئے کتاب الصدقہ لکھوائی تھی۔ (ترمذی1/79)

8 خطوط ووثائق : احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور وثیقے ہیں جو کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف اوقات میں بادشاہوں، قبیلوں،سرداروں اور دوسرے لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔

9 جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو عرب اوس وخزرج بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی دس قبیلوں میں منقسم تھے۔ ہر قبیلے کا الگ راج تھا۔ کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا تو آپ وہاں کے باشندوں مہاجرین وانصاری، یہود اور غیرمسلموں سے مشورہ کرنے کے بعد ایک دستورِ مملکت نافذ فرمایا جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق وواجبات کی تفصیل تھی۔ یہ ایک اہم دستاویز تھی جسے ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں، ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے کتاب الاموال اور بعد کے مصنفین میں سے حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، ابن سید الناس نے سیرت میں مکمل نقل کیا ہے اس دستاویز میں 53 جملے تھے قانون کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ 53 دفعات پر مشتمل دستورِ مملکت تھے۔

2 آپ  کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث

n سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کاتب حدیث اپنے ایک بیان کی ابتداء یوں فرماتے ہیں

بینما نحن حول رسول اللہ نکتب

’’ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔ ‘‘ ( دارمی ، ص:68)

اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ آپ درمیان محفل تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور جو کچھ آپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے تو یہ بالکل املاء کی شکل ہے اور ساتھ ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی پیش نظر رکھیے۔

’’ کہ رسول اللہ ﷺ کو بات کو دو دو ، تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں سہولت ہو۔‘‘

اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔

n سیدنا عبد اللہ بن عمرو مہاجرین میں سے ہیں تذکرہ نگاروں نے انہیں ’’العالم الربّانی‘‘ کا لقب دیا ہے ۔ تورات وانجیل کے بھی عالم تھے۔ پھر ان کا زہد وتقویٰ، عبادت وریاضت عہد رسالت میں ہی مسلم تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ ، 1/356)

n سیدنا عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :

بلی فاکتبوھا

’’ کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔‘‘ (ابو داود : 3646)

n اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات نے کتابت سے منع کیا۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ ( سنن ابی داود:3646، حاکم 1/106، مسند احمد 2/207)

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتاہے۔‘‘

اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کتابت حدیث کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور لکھتے لکھتے ان کے پاس احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا، حدیث کی اس کتاب کے بار ےمیں فرمایا کرتے تھے ۔

فَأَمَّا الصَّادِقَةُ، فَصَحِيفَةٌ كَتَبْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن الدارمی:513)

’’رہا صحیفہ صادقہ تو میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے لکھا ہے۔‘‘

اس صحیفہ صادقہ سے بڑی محبت کرتے تھے ، زندگی کا عزیز ترین سرمایہ سمجھتے تھے ، فرماتے تھے :

مَا يُرَغِّبُنِي فِي الْحَيَاةِ إِلَّا الصَّادِقَةُ (سنن الدارمی)

’’صادقہ مجھے زندگی میں بہت زیادہ مرغوب ہے۔‘‘

اب رہا یہ سوال کہ حدیث کی یہ کتاب ’’الصادقہ‘‘ کتنی بڑی اور ضخیم تھی اور اس میں کتنی احادیث درج تھیں اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی روایات کی تعداد 5374 ہے ، فرماتے ہیں :

مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُبُ (صحیح البخاری مع فتح الباری ، رقم الحدیث: 113، کتاب العلم ، باب کتابۃ العلم)

’’ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو آپ ﷺ سے زیادہ روایات بیان کرنے والا ہو میری بنسبت سوائے سیدنا عبد اللہ بن عمرو کے کیونکہ بیشک وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘

n اس بات کی توثیق سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بھی اور زیادہ ہوجاتی ہے ۔

كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ

(سنن ابی داؤد:3646۔ تحفۃ الاحوذی،ص:83)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صادقہ میں 5374 سے بھی زیادہ روایات تھیں جبکہ بخاری ومسلم کی غیر مکرراحادیث کی تعداد 4 ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن میں کافی حصہ ان حدیثوں کا ہے جو دونوں کتابوں میں مشترک ہے۔ مؤطا امام مالک جسے بعض حضرات بخاری ومسلم پر فوقیت دیتے تھے ان کی مرویات کی تعداد 1720 ہے۔

 سیدنا رافع بن خدیج فرماتےہیں کہ ہم لوگوں نے دربار رسالت میں عرض کی کہ ہمیں آپ کی بہت سی باتیں یاد نہیں رہتیںاور انہیں لکھ لیتے ہیں آپ نے فرمایا :’’ لکھ لیا کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ (کنزالعمال 5/223)

 ایک دن مروان نے خطبہ میں بیان کیا کہ مکہ حرم ہے۔  رافع بن خدیج نے پکار کر کہا اور مدینہ بھی حرم ہے یہ بیان میرے پاس موجود ہے اگر چاہو تو پڑھ کر سنادوں۔ (مسلم:3315 ، مجمع الزوائد 4/14)

 آپ کے آزاد کردہ غلام اور خادم ابو رافع نے بھی آپ سے حدیث لکھنے کی اجازت مانگی اور آپ نے انہیں اجازت دے دی تھی۔ ( طبقات ابن سعد جلد 4 حصہ دوم ، صفحہ :11)

 رسول اللہ ﷺ نے اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب بھی دلاتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’علم کو مقید کر لو سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مقید کرنے سے آپ کی مراد کیا ہے ؟ فرمایا ’’لکھنا۔‘‘ (مجمع الزائد ، ص:152)

 سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی کہ اسے احادیث یاد نہیں رہتیں آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنے ہاتھ سے مدد لو یعنی لکھ لیا کرو۔‘‘ ( مجمع الزوائد ، ص:152)

 سیدنا جابر اورسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے مدد لینے کا حکم دیا۔‘‘  (کنزالعمال ، 5/226)

 فتح مکہ کے موقع پر آپ نے خطبہ دیا تو ایک یمنی صحابی ابو شاہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر عرض کرنے لگے

اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ‏ﷺ

’’ مجھے بھی لکھ دو ‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا

اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ (بخاری:112۔ مسلم:3305۔ ابو داود:2017۔ ترمذی:2667۔نسائی:4799)

’’ابو شاہ کو لکھ دو۔‘‘

 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ صرف احادیث کو قلمبند کیا بلکہ اپنے بچوں سے کہا تھا کہ

يَا بَنِيَّ قَيِّدُوا هَذَا الْعِلْمَ (سنن الدارمی ، ص:491)

’’ اے میرے بیٹو! اس علم کو مقید کر لو۔‘‘

منع کتابت والی حدیث کی صحیح تشریح :

لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ (مسلم:7510۔ ترمذی:2665۔ شرح السنۃ 1/234)

’’ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو۔‘‘

اس حدیث اور کتابت حدیث کی ترغیب واجازت والی احادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہوتاہے کہ ایک میں کتابت سے منع کیا ہے اور دیگر روایات میں لکھنے کی ترغیب ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں ہے صورت حال یہ تھی کہ قرآن مجید آہستہ آہستہ نازل ہورہا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس کی توضیح فرماتے تو صحابہ احادیث اور قرآن کو ایک جگہ لکھ لیتے تھے اس کی تائید اس بیان سے بھی ہوتی ہے۔

عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى قَالَ: كَتَبْتُ عَنْ أَبِي كِتَابًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ فِيهِ كِتَابَ اللَّهِ لَأَحْرَقْتُهُ (مجمع الزائد1/60)

’’ سیدنا ابو بردہ بن ابی موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے ایک کتاب لکھی تو انہوں نے کہا اگر اس میں کتاب اللہ نہ ہوتی تو میں اسے ضر ور جلا دیتا۔‘‘

تو آپ نے فرمایا :

أَمْحِضُوا كِتَابَ اللَّهِ وَأَخْلَصُوهُ (مجمع الزوائد)

’’ کتاب اللہ کو مٹادو اور اس کو خالص کرلو یعنی الگ کرلو۔‘‘

صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہوا تھا سب اکٹھا کرکے جلادیا یعنی خلط ملط کرکے لکھنے سے منع کیامطلقاً منع نہیں کیا۔ جب قرآن وحدیث کا فرق واضح ہوگیا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اجازت دیدی اور صحابہ کرام نے احادیث کو قلمبند کیا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں منع کتابت والی حدیث اور اذن کتاب والی احادیث وروایات میں تطبیق دیتے ہوئے کئی احتمالات ذکر کیے ہیں مذکورہ بالا احتمال وقیع معلوم ہوتاہے۔

اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مشہور محدث مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے ایک دو فقروں پر غور کیجیے:

قد ظن بعض الجهلة في هذا الزمان أن الاحاديث النبوية لم يكن مكتوبة في عهد رسول الله ول في عهد الصحابة وإنما كتبت وجمعت في عهد التابعين قلت: ظن بعض الجهلة هذا فاسد مبني علي عدم وقوفه علي حقيقة الحال۔(مقدمة تحفة الاحوذي، ص:28 دار الحديث قاهرة)

’’اس زمانے کے بعض جاہل لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بےشک احادیث نبویہ نہ نبی کریم ﷺ کے دور میں لکھی گئیں اور نہ صحابہ کے دور میں بلکہ ان کی جمع وکتابت تابعین کے زمانے میں ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ بعض جھال کا یہ گمان فاسد ہے اور حقیقت حال پر عدم واقفیت پر مبنی ہے۔‘‘

بہر حال حکم واذن کتابت کی تمام احادیث وروایات کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے اور سیاق وسباق عبارت کو حذف کرتے ہوئے اور حکم کی علت پر پردہ ڈالتے ہوئے محض ’’لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ‘‘ کے فقرے پر ہنگامہ برپا کرنا علمی دیانت کے یکسر منافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے