مسلمانوں کی کثیر تعداد کا خیال ہے کہ شاید مشرکینِ مکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے منکر تھے ۔اس لیے قرآن مجید نے انہیں مشرک اور کافر کے نام سے مخاطب کیا اور ان کے انجام کے بارے میںبتلایا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ہمیش جہنم میںجلتے اور چلّاتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے عقیدہ کے بارے میں یہ سوچ غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی درجنوں آیات میں یہ بات بتلائی گئی ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کو خالق ،رازق ،مالک اور معبود مانتے تھے گویا کہ وہ رب تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے قائل تھے۔ لیکن اس کے باوجود قرآن انہیں کافر اور مشرک کے لفظ سے پکارتا ہے اور ان کا انجام جہنم بتلاتا ہے۔ آئیں سب سے پہلے چند آیات کے حوالے سے مشرکین مکہ کا عقیدہ جانیں اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا غلط فہمیاں تھیں جس بنا پر وہ مشرک اور کافر قرار پائے اور ابدی جہنم کے سزاوار ٹھہرے حالانکہ ان کا عقیدہ تھا۔

وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنَّی یُؤْفَکُوْن (الزخرف:87)

’’اور آپ ان سے سوال کریںکہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے کہیں گے کہ ’’اللہ ‘‘ نے پیدا کیا ہے پھر وہ کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں؟‘‘

وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ وَ لَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِھَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ

اگر آپ ان سے پوچھیںکہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے۔ اور چاند اور سورج کو کس نے مسخر کیا ہے؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر کہاں سے دھوکا کھا رہے ہیں۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کون آسمان سے پانی برساتا ہے۔پھر اس کے ساتھ مُردہ زمین کو زندہ کرتا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے ’’ اللہ ‘‘ہی ایسا کرتا ہے۔ آپ کہہ دیجیےکہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ مگر ان میں اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔(العنکبوت:61۔63)
شکر ! اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے آ پ کو توحید کا علم اور سمجھ عطا فرمائی ہے
شکر ! اس بات پر کہ مشرک کے پاس توحید کے مقابلے میں حقیقی دلائل نہیں ہوتے ۔

قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْن (یونس:31)

فرما دیں ۔ کون ! تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے۔؟ یا کون ! تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا۔ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟ فوراً کہیں گے کہ ’’ یہ کام اللہ‘‘ہی کرتا ہے ۔ فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیںہو؟یعنی شرک سے کیوں نہیں بچتے۔
مزید فرمایا:

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَیَقُوْلُوْنَ لِلہِ قُلْ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ سَیَقُوْلُوْنَ لِلہِ قُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ یُجِیرُ وَلاَ یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَیَقُوْلُوْنَ لِلہِ قُلْ فَاَنَّا تُسْحَرُوْنَ (مومنون:84۔89)

فرمائیں۔ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور اس کی تمام چیزیں کس کی ملکیّت ہیں ؟ وہ ضرور کہیں گے ’’اللہ‘‘ کی ملکیّت ہیں ۔ فرمائیں۔ پھر تم حقیقت قبول کیوں نہیں کرتے؟ ان سے پوچھیں۔ کون ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک ہے؟ ۔ ضرور کہیں گے ’’اللہ‘‘ ہی مالک ہے۔ فرمائیں۔ پھر تم ڈرتے کیوں نہیںہو؟ ان سے پوچھیں کہ ہر چیز کا اختیار کس کے ہاتھ میںہے ؟ اور کون پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں۔ اگر تم جانتے ہو تو بتائو۔ وہ ضرور کہیں گے کہ تمام اقتدار اور اختیار ’’اللہ‘‘ ہی کے پاس ہے ۔ فرمائیں کہ پھر کہاں سے تمہیں دھوکہ لگتا ہے۔ ؟
مشرکین کی پہلی غلط فہمی
مکہ والوں کا خیال تھا کہ ہم گنہگار ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ہماری نہیں سنتاگناہگاربالخصوص بڑے بڑے جرائم کرنے والے لوگوں کو ہمیشہ سے یہ غلط فہمی رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم گناہگاروں کی نہیں سنتاوہ صرف نیک لوگوںکی دعاقبول کرتا ہے ،اس غلط فہمی کی بنا پر کچھ لوگ جرائم میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں موت آ لیتی ہے کچھ لوگوں کایہ یقین ہوتا ہے کہ جب تک کسی پیر یاقبر والے یا بزرگ کو راضی نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری توبہ قبول نہیں ہوگی ۔اس غلط فہمی کو ان لوگوںنے مزید پختہ کیا ہے جو مذہب کے نام پر مال بٹورتے اور لوگوں کی حرمتوں سے کھیلتے ہیں اس لیے مسلمانوں میںبے شمارپیر اور علماء،ہندؤوں میں سادھو اور جوگی ۔عیسائیوں میں پادری اور پوپ اور یہودیوں میں مربی اور درویش اس کام کے لیے بدنام ہیں اور یہ لوگ دین اورتوبہ کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کی یوں نشاندہی فرمائی ہے :

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّہْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (التوبۃ:34)

’’اے مسلمانو! کثیر علماء اورمشائخ ۔ ناحق لوگوں کے مال کھا تے ہیں۔ اوروہ ’’اللہ‘‘ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔‘‘
ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو بچانے اور گناہ گاروں کو تسلّی دینے کے لیے ارشاد فرمایا

قُلْ یٰاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (الزمر:53)

’’اے نبی ! میرے بندوںکو بتلائیںکہ جنہوں نے اپنی جانوں پرظلم کیا ہے ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ یقینا اللہ سب گناہ معاف کر دیتا ہے۔ یقینا وہ معاف کرنے اور مہربانی فرمانے والا ہے۔‘‘
ربِ کریم اور غفور الرحیم نے گناہگاروں بالخصوص کفر و شرک اوربڑے بڑے جرائم کرنے والوں کو نہایت پیارے انداز میں بلایا اوریقین دلایا ہے کہ اے میرے بھٹکے ہوئے بندو تمہیں مایوس ہونے ، کہیں جانے اور در در کی ٹھوکریںکھانے کی ضرورت نہیں، آئو میری بارگاہ میں آجائو، تم جیسے بھی ہو میرے ہی بندے ہو میری رحمت بے کنارہے اس لیے میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ یقین کرو کہ میں تمہارے سب کے سب گناہ معاف کردوں گا کیونکہ میں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں
حضرات ! اس آیتِ کریمہ کی باربار تلاوت کریں اور اس کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ اپنا عظیم نام’’ اللہ‘‘ لے کر نبی اکرمeکو فرمایا ہے کہ میرے بندوں کو کہیں کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہوناکیونکہ میں ہی گناہوں کو معاف کرنے اور توبہ قبول فرمانے والا ہوں:

غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ ذِیْ الطَّوْلِ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (المومن:3)

’’اللہ‘‘ گناہ معاف کرنے والاہے۔ اور توبہ قبول کرنے والا ہے ۔ سخت سزا دینے والا اور بہت فضل فرمانے والا ہے، اس کے سِواکوئی معبود نہیں۔سب نے اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔‘‘

وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذَنُوْبِھِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ (آل عمران:135)

اور جب وہ بے حیائی کا کام کرتے ہیں۔ یا اپنے آپ پر ظلم کربیٹھتے ہیں۔ تووہ اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا کون گناہ بخشنے والاہے؟اوروہ اپنی غلطی پر اڑا نہیںکرتے کیونکہ وہ جانتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ ہی گناہ معاف کرنے والاہے ۔

عَنْ اَنَسٍt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِیْنَ یَتُوْبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَتْ رَاحِلَتُہُ بِاَرْضٍ فُلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْھَا
طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ فَاَیِسَ مِنْھَا فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّھَا قَدْ اَیِسَ مِنْ رَّاحِلَتِہٖ فَبَیْنَمَا ھُوَ کَذَالِکَ اِذْ ھُوَ بِھَا قَآئِمَۃٌ عِنْدَہُ فَاَخَذَ بِخِطَامِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَاَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ(مسلم بَابٌ فِی الْحَضِّ عَلَی التَّوْبَۃِ وَالْفَرَحِ بِہَا)

سیدنا انس tبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم  نے فرمایا۔ جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے تمہارے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔ جس کی سواری کسی بے آب وگیاہ میدان میں گم ہوجائے۔ اس کے کھانے پینے کا سامان بھی اس پر ہو۔ وہ اس کی تلاش کرنے کے بعد مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے لیٹ جائے، مایوسی کے بعد اپنی سواری کواپنے سامنے کھڑا پائے ۔ اس کی لگام تھامتے ہوئے پھر خوشی کے عالم میں پکار اٹھتا ہے۔ اے اللہ! تومیرا بندہ ہے اور میں تیرارب ہوں۔وہ انتہائی خوشی کے باعث بے ساختہ اتنے گناہ کی بات کہہ دیتا ہے۔ مگرپھر بھی اس کا رب اس پر ناراض نہیں ہوتا ۔بندے کی توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ اس مسافرسے بھی زیادہ اپنے بندے پر خوش ہوتا ہے۔

عَنْ اَبِیْ مُوْسٰیt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّھَارِلِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِھَا(صحیح مسلم:بَابُ قَبُولِ التَّوْبَۃِ مِنَ الذُّنُوبِ وَإِنْ تَکَرَّرَتِ الذُّنُوبُ وَالتَّوْبَۃُ)

سیدناابو موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ e نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دستِ رحمت پھیلاتا ہے۔ تاکہ دن کے وقت گناہ کرنے والا توبہ کر لے۔ اور دن کو دستِ شفقت بڑھاتا ہے ۔ تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے ۔ یہ سلسلہ سورج کے مغرب سے نکلنے تک جاری رہے گا۔‘‘

عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ(سنن ابی دائود،باب ذکر التوبۃ)

سیدناابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہنے فرمایا۔ گناہوں سے توبہ کرنے والا۔اس طرح ہو جاتا ہے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
مکہ والوں کی دوسری غلط فہمی
اکثر لوگ اپنے گناہوں اوربے علمی کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہمارا اللہ تعالیٰ تک پہنچنا مشکل ہے اسی طرح ہماری فریاد بھی اس تک نہیں پہنچ سکتی۔اس لیے ہمیں ایسے طریقے اور وسائل بروئے کار لانے چاہئیںجس سے ہماری دعا’’اللہ تعالیٰ‘‘تک پہنچ سکے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں بعض صحابہ کرام کو بھی یہی غلط فہمی تھی جس بنا پر انہوں نے آپ سے سوال کیا کہ اے نبی کریمe! ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا رب ہم سے کتنی دوری اور مسافت پر ہے تا کہ ہم اپنی آواز کو اسی قدر بلند کرنے کی کوشش کریں، اس محدود سوچ اور فکری اُلجھن کے جواب میں فرمایا گیامیرے بندے میرے بارے میںآپ سے سوال کرتے ہیں کہ میں ان سے کتنا دور ہوں ۔؟اے نبیe! آپ ان کو اطمینان او ر یقین دلائیں کہ میں اپنے اقتدار اوراختیار ،علم وآگہی اور فضل وکرم کے لحاظ سے ہر وقت اپنے بندوں کے قریب رہتا ہوں میری رفاقت اور رحمت اس قدر قریب اور دائمی ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں، یہاں تک کہ انسان کے دل میں پیدا ہونے والے جذبات اور اس کے ذہن میں اُبھرنے والے خیالات سے ہرلمحہ آگاہ رہتا ہوں :

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْن (البقرہ:186)

جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھتے ہیں۔ انہیں بتائیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ ہر بلانے والے کی صدا کو قبول کرتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکارتاہے۔ انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پرمکمل ایمان لائیں۔ تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِینِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیدٌ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ (قٓ:16۔18)

یقیناہم نے انسان کو پیدا کیااور ہم اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات کو جانتے ہیں۔ ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہیں۔ اور ہمارے لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر بات لکھ رہے ہیں۔ وہ کوئی لفظ اپنی زبان سے نہیں نکالتا ۔مگر اسے لکھنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود ہوتا ہے۔

وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (الملک:13)

’’تم چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے ۔ یقینا وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔‘‘

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی ثَلاَثَۃٍ اِلَّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلاَ خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلاَ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلاَ اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَ مَا کَانُوْا ثُمَّ یُنَبِّیُٔہُمْ بِمَا عَمِلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْم (المجادلۃ:7)

کیا آپ نہیں جانتے ۔ کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان’’ اللہ‘‘ چوتھا نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اوروہ ان میں چھٹا اللہ ہو، خفیہ بات کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ وہ جہاں بھی ہوں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہوتا ہے، پھر وہ قیامت کے دن انہیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا عمل کیے۔یقینا ’’اللہ‘‘ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی شہ رگ سے قریب ترہونے کا تذکر ہ کرتے ہوئے اپنے لیے تین مرتبہ (نَحْنُ) جمع کی ضمیر (Pronoun) استعمال فرمائی ہے جمع کی ضمیر میں رعب اوردبدبہ پایا جاتا ہے جس میں انسان کو بار بار احساس دلایا گیا ہے ہم نے تجھے پیدا کیا ہے ہم تیرے دل کے احساسات اور جذبات کو جانتے ہیں۔ ہم تیری شہ رگ سے بھی زیادہ تیرے قریب ہیں اورجوکچھ بھی تو کرتاہے ہمارے ملائکہ اسے لکھتے جارہے ہیں۔ جسے قیامت کے دن تیرے سامنے مِن وعن رکھ دیا جائے گا ۔ اس بات کا انسان کو جتنا احساس اور خیال رہے گا اتنا ہی وہ اپنے رب کے قریب اور اس کا تابع فرمان رہے گا ، یہ خیال اورعقیدہ جتنا کمزور ہوگااتنا ہی انسان اپنے رب کا نافرمان اوراس سے دور ہوتا جائے گا جہاں تک اللہ تعالیٰ کا انسان کے قریب ہونے کا تعلق ہے وہ اپنے علم، اختیار اوراقتدار کے اعتبار سے انسان کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہے لیکن ذات کے اعتبار سے وہ عرشِ معلی پر جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی ذات کو لائق ہے:

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (طٰہ:5)

’’وہ الرحمن عرش پر مستوی ہے ۔‘‘

اَلَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِہِ خَبِیرًا (فرقان 59)

وہی ہے جس نے زمین و آسمانوںکو اور ان کے مابین تمام چیزوں کو چھ دنوں میں پید اکیا پھر خود عرش پر جلوہ افروز ہوا ۔ رحمن کی شان جاننے والے سے پوچھو۔

اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ مَا لَکُمْ مِنْ دُونِہِ مِنْ وَلِیٍّ وَلَا شَفِیعٍ أَفَلَا تَتَذَکَّرُونَ (السجدۃ4)

اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ۔ اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اسے چھ دنوں میںپیدا فرمایا ۔پھر عرش پر جلوہ نما ہوا ، اس کے سوانہ تمہارا کوئی مدد گار ہے ۔ اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔
مشرکین کی تیسری غلط فہمی
مشرکینِ مکہ کا خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ اکیلا کائنات کا نظام نہیں چلا سکتااس لیے اس نے کچھ اختیارات بعض بزرگوں کودے رکھے ہیں۔

وَعَجِبُوْا اَنْ جَائَ ہُمْ مُنْذِرٌ مِّنْہُمْ وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ اِلٰہًا وَاحِدًا اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ وَانطَلَقَ الْمَلاُ مِنْہُمْ اَنْ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰی آلِہَتِکُمْ اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ اِنْ ہٰذَا اِلَّا اخْتِلاَقٌ (ص:4۔7)

انہوںنے اس بات پر تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آگیا ہے ۔ کفارکہنے لگے ۔ یہ ساحر اور بڑا جھوٹا ہے۔ کیا اس نے تمام معبودوں کوچھوڑکربس ایک ہی معبود بنا لیا ہے۔ یقینایہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ کہتے ہوئے سرداراُٹھ کھڑے ہوئے۔کہ لوگوں کو سمجھاؤ کہ اپنے معبودوں پر قائم رہیں بلا شبہ یہ بات کسی اور مقصد کے لیے کہی جا رہی ہے۔ ہم نے یہ بات پہلے زمانہ میں نہیں سنی۔ یقینا یہ ایک بناوٹی بات ہے ۔
اسی عقیدہ کی بناء پر مشرکینِ مکہ حج اور عمرہ کے دوران تلبیہ میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے تھے :

لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًاھُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَ مَا مَلَکَ(رواہ مسلم: کتاب الحج، باب التلبیۃ)

’’میں حاضرہوں !اللہ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جس کو تو نے اختیار دیا ہے اور وہ خود کسی چیز کا مالک نہیں۔‘‘
جہاں تک اللہ تعالیٰ کی توحید کا معاملہ ہے یہ عقیدہ ان کے لیے اس لیے تعجب کا باعث تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ہر مشکل اورضرورت کے لیے الگ الگ خدا بنا رکھے ہیں اتنے خدائوں کے باوجود ہماری حاجات اور ضروریات پوری نہیںہوتیںاورہمیںاپنی انفرادی اوراجتماعی مشکلات کا مداوا نظر نہیں آتا تو ایک الٰہ ہماری مشکلات کس طرح حل کرسکتا ہے ؟ جس کی یہ رسول دعوت دیتاہے یہ عجب عقیدہ ہے۔
یہ بات طے کی کہ ہر قبیلے کا سردار اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کوسمجھائے کہ لوگو!اپنے اپنے خدائوں اور دیوتائوں پر پکے رہو !اگر تم نے کسی قسم کی غفلت اور سستی کامظاہرہ کیا تو یہ نبی تم پر برتری حاصل کرلے گااور اس کایہی مقصد ہے۔ جہاں تک اس کی دعوت کا تعلق ہے ہم نے پہلے لوگوں سے یہ بات نہیں سنی، حقیقت یہ ہے کہ یہ من گھڑت دعوت اور خود ساختہ عقیدہ ہے ۔
مکہ والوں کی یہ بات بھی پہلی دوباتوں کی طرح بے بنیاد تھی اس لیے ان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ تمہارے پاس اپنے عقیدے کی کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کرو:

قُلْ اَرَئَ یْتُمْ مَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِی مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اِئْتُوْنِی بِکِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ (الاحقاف:4)

اے نبیe! ان سے فرمائیں تم نے کبھی غور کیا ہے کہ وہ جنہیں ’’اللہ‘‘کے سوا تم پکارتے ہو؟ مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ اس سے پہلے نازل شدہ کتاب میں کوئی حوالہ ہے تو اُسے پیش کرو یا تمہارے پاس کوئی علمی دلیل ہو اگر تم سچے ہو!۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو باربار ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ یہ حقیقت بتلائی اورسمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک نہیںچاہے تو یہ کہ نسان اپنے خالق اور مالک کی بندگی کریں اور اس کا حکم مانیں لیکن لوگ حقیقت جاننے کے با وجود دوسروں کی بندگی اور غلامی کرتے ہیں ،ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے پھر فرمایا اے نبیeان لوگوں سے اس بات کا جواب طلب کریں کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے اورجن کی عبادت کرتے ہو بتائوانہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ یا آسمانوںکی تخلیق اور ان کے معاملات میں وہ کس کام میں شریک ہوئے ہیں؟ اگر تمہارے پاس کسی آسمانی کتاب کا کوئی ثبوت ہو یاکوئی علمی دلیل ہو تو اسے سامنے لاؤ اگر تم اپنے کفر وشرک کے بارے میں سچے ہو۔
ظاہر بات ہے کہ ان کے پاس کسی آسمانی کتاب اور کوئی عقلی اور علمی ثبوت نہیں تھا اور نہ ہوگا۔یہاں کفار اور مشرکین کے باطل عقیدہ کی کلی کھولتے ہوئے یہ بات بھی سمجھادی گئی ہے کہ دین کی بنیاد اللہ کی کتاب ،نبی کریمeکی سنت اور ٹھوس علمی ثبوت پر قائم ہے اس کے سوا کسی کی رائے دین کی تشریح میں معاون ہوسکتی ہے مگر دین کہلوانے کی حقدار نہیں ہوسکتی ۔جہاں تک کفار سے اس سوال کا تعلق ہے کہ جن کی یہ عبادت اورغلامی کرتے ہیں انہوں نے زمین و آسمانوں میں کیا پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہردور کا مشرک اورکافر اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ زمین وآسمان اور ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے:
اسی لیے اللہ اس کا فرمان ہے :

اللہُ الَّذِی خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ ہَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَفْعَلُ مِنْ ذَلِکُمْ مِنْ شَیْءٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ (الروم 40)

اللہ ہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیتا ہے پھر وہ تمہیں موت دے گا ۔ پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں سے کوئی ہے جو اِن میں سے کوئی کام بھی کرسکتا ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور بہت بلند و بالا ہے اُس سے جو وہ شرک کرتے ہیں ۔

قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ قُلِ اللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ قُلْ ھَلْ مِنْ شُرَکَآئِکُمْ مَّنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ قُلِ اللّٰہُ یَھْدِیْ لِلْحَقِّ اَفَمَنْ یَّھْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَھِدِّیْٓ اِلَّآ اَنْ یُّھْدٰی فَمَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ وَ مَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلَّا ظَنًّا اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ (یونس:34۔36)

فرما دیجیے ۔کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو پہلی بار مخلوق کو پیدا کرے پھر اسے دوبارہ پیدا کرے۔ فرما دیں۔ اللہ ہی پہلی بار پیدا کرتاہے اور وہی دوسری بار پیدا کرے گا۔ پھر تم کہاں بہکائے جاتے ہو؟ فرما دیں کیا تمہارے شریکوںمیں سے کوئی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرے ؟ فرما دیں اللہ ہی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ جو حق کی طرف رہنمائی کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔یا جوہدایت نہیں پاتا مگر اُسے ہدایت دے دی جائے؟ پھر تمہیں کیا ہواہے کہ کیسے فیصلہ کرتے ہو ؟ ان میں سے اکثر اپنے خیال کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے ۔ یقینا حق کے مقابلے خیال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔یقینا اللہ اچھی طرح جانتا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
یہاں ایک دفعہ پھر باطل معبودوں کے بارے میں براہ ِراست پوچھا گیا ہے کہ تمہارے معبودانِ باطل میں سے کون ہے جس نے ابتدا میں کائنات کو پیدا کیا اور پھر اسے دوبارہ وجود بخشے گا؟ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں تھا اور ہمیشہ نفی میں رہے گا۔ اس لیے نبی eکو حکم ہوا کہ آپ بے دھڑک فرما دیں کہ اللہ ہی نے انھیں پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے پیدا فرمایا اور وہی دوبارہ انھیں پیدا کرے گا جب تم اللہ تعالیٰ کو ان کا خالق اوردوبارہ پیدا کرنے والا مانتے ہوتو پھر کہاں بھٹکے پھرتے ہو؟ تمہیں جب پیدا کرنے والا اور اپنے ہاں لوٹانے والا صرف اللہ ہے تو پھر تمہارے معبودانِ باطل کہاں سے آٹپکے ہیںان کا کیا اختیار ہے کہ جس بنا پر تم انہیں حاجت روا ،مشکل کشا اور داتا، دستگیر کہتے ہو۔ پھر سوال ہے کہ تمہارے معبودوں میں کوئی ہے جو تمہاری حق کی طرف راہنمائی کر سکے؟
یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ پتھر ،مٹی اور لکڑی کے بت صراط مستقیم کی راہنمائی نہیں کرسکتے نہ فرشتے اور جنات اورنہ ہی سورج، چاند، ستارے ہدایت کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ جہاں تک انبیاء اور نیک لوگوں کا معاملہ ہے وہ اپنی زندگی میں صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں مگر کسی کو ہدایت پر گامزن نہیں کرسکتے جب وہ فوت ہوگئے تو ان کا تعلق دنیا سے کٹ گیا اب وہ بھی کسی کی رہنمائی اور مدد نہیں کر سکتے لہٰذا صرف ’’اللہ‘‘ ہی ہے جو ہدایت کی رہنمائی کرتا ہے اوراس پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ جو ہدایت کی طرف بلائے اور توفیق بخشے اس کی اتباع کرنی اور اس کا حکم ماننا چاہیے یا جو رہنمائی کرنے کی بجائے خود رہنمائی کا محتاج ہواس کی اتباع کرنی اور اس کا حکم ماننا چاہیے۔سوچو کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ظاہر ہے پیروی تو اس کی کرنی چاہیے جو ہدایت کی راہنمائی کرتا ہے ۔ درحقیقت اکثر لوگ فرسودہ خیالات،صرف سنی سنائی باتوں اور اپنے وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو:
حقیقت کی طرف آئوکہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارا رب اور بادشاہ ہے۔

یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ یُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ(فاطر:13)

وہ دن میں رات اور رات میں دن کو داخل کرتا ہے ، چاند اور سورج کو اُسی نے مسخر کر رکھا ہے ۔ ہر کوئی وقت مقرر تک چلاجا رہا ہے، وہی’’ اللہ‘‘ تمہارا رب ہے بادشاہی اُسی کی ہے اس کے سِوا جن کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے پردے کے بھی مالک نہیں ہیں۔‘‘
’’قِطْمِیْرُ‘‘کھجور کے اس پردے کو کہاجاتا ہے جو اس کی گٹھلی کے درمیان اس کی لکیرمیں پایا جاتا ہے یہ پردہ اس قدر باریک اور نازک ہوتاہے کہ اکثر اوقات کھجور کے گودے کے ساتھ ہی چمٹا رہتا ہے اوردیکھنے والے کو دکھائی نہیں دیتاگویا کہ بہت ہی باریک اور کمزور ہوتا ہے مگر مشرک ان لوگوں کو ’’اللہ‘‘ کی خدائی میں شریک کرتے ہیں جن کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں ہے۔
شرک کرنے والوں کی چوتھی غلط فہمی
مشرکینِ مکہ سمجھتے تھے کہ فوت شدگان ’’اللہ ‘‘کے ہاں ہمارا وسیلہ ہیںہر دور کے کمزور عقیدہ لوگ سمجھتے ہیںکہ جس طرح بڑے سے بڑا بادشاہ اپنے ملک کا اکیلا نظام نہیں چلا سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ کو بھی اپنا نظام چلانے کے لیے معاونین کی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کے تحت اس نے کچھ بزرگوں کو اپنی خدائی میں شریک کار بنایا ہے اور انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔جس طرح بادشاہ اور بڑے لوگوں کی قربت اور ان تک پہنچنے کے لیے وسیلے او ر واسطوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے بزرگ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور یہ ہمار ا وسیلہ ہیں جبکہ قرآن مجید نے اس عقیدے کو جھوٹ اور نا شکری قرار دیا ہے ۔

اَلاَ لِلہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفَی اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ فِیْ مَا ہُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ کَاذِبٌ کَفَّار

خبردار تابع داری خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم اُن کی عبادت نہیں کرتے مگر وہ ہمیں اللہ کے قریب کر تے ہیں یقینا اللہ اُن کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں یقینا اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور ناشکرا ہے۔(الزمر:3)
مشرکین کے دو گروہ :
1۔یاد رہے کہ ہمیشہ سے مشرکین کے دو گروہ رہے ہیں جو کسی نبی کا کلمہ نہیں پڑھتے ان کا عقیدہ ہے کہ چاند، سورج،ستارے اور آگ’’اللہ‘‘کی قدرت کا مظہر ہیں لہٰذا ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اس لیے ان کی حرمت اور واسطے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا زیادہ ثواب اور اقرب الی اللہ ہے۔
2۔جو لوگ آسمانی کتابوں کو مانتے ہیں اورکسی نہ کسی نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت سے خوش ہوکر انہیںاپنی خدائی میں کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے ہم ان کی روحوں کے وسیلے سے مانگتے ہیں۔ حالانکہ یہی بات بت پرست کہتے ہیں کہ ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ بت کے تصور سے عبادت کرنے میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے اوریہی ان لوگوں کا عقیدہ اور طریقہ ہے جو تصوّر شیخ کے قائل ہیں۔ اس قسم کے بے شمار لوگوںکا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں اور ان بزرگوں کی ردّ نہیں کرتا ۔اس مقام پر قرآن مجید اسی عقیدہ کی نفی کر رہا ہے کہ جب ان لوگوں کو صرف ایک اللہ کی بلاواسطہ عبادت کرنے کے لیے کہا جاتاہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیںکرتے ہم تو انہیںصرف وسیلہ بناتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں۔یہی لوگ زندہ اور مردہ بزرگوں کے بارے میںمن گھڑت کرامتیں بناتے اور سُناتے ہیںایسا عقیدہ اور طریقہ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا اس لیے کہ یہ لوگ اپنے عقیدہ ، طریقہ اوربات میں جھوٹے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ناشکرے ہیں قیامت کے دن ان کے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا مشر ک کو ہدایت اس لیے حاصل نہیںہوتی کیونکہ یہ شرک کو دین سمجھتاہے اور اس پراصرار اورتکرار کرتاہے۔
مشرک کیوں جھوٹے ہیں؟
1۔ اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے کہ میں نے اپنی خدائی میںکسی کو شریک نہیں کیا ۔
2۔مشر ک کہتے ہیں کہ اللہ نے زندہ اورفوت شدہ بزرگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور مجھ ہی سے مانگومشر ک نہ’’ اللہ ‘‘کی خالص عبادت کرتا ہے اور نہ ہی اس کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق مانگتا ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اپنے سامنے جھکنے اور صرف اپنی ذات سے مانگنے کا حکم دیا ہے مشرک ناشکرا ہوتاہے وہ اللہ کا شکر گزار بننے اور صرف اس سے مانگنے کی بجائے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اس اعتبار سے توحیدبہت بڑا شکر ہے اور شرک سب سے بڑی ناشکری ہے،توحید سچائی ہے اور شرک جھوٹ ہے۔
مشرکینِ مکہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ فوت شدگان ’’اللہ‘‘ کے حضور ہماری سفارش کرتے ہیں
مشرکین یہ بھی عقیدہ رکھتے تھے اور رکھتے ہیںکہ فوت شدگان کی روحیں ہمارے تراشے ہوئے بتوں میں حلول کر جاتی ہیں یعنی ان میں داخل ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری سفارش کرتی ہیں اس لیے وہ بتوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے،رکوع اور سجدہ کرنے کے ساتھ ان کے حضور نذرونیاز پیش کرتے تھے اور آج بھی بتوں کے پجاری یہی کام کرتے ہیں ان کے مقابلے میں یہودی اور عیسائی قبروں کے سامنے رکوع و سجود کرتے اور ان کے حضور نذرونیاز پیش کرتے تھے اور کرتے ہیں اور ان کا یہ بھی خیال تھا اور ہے کہ فوت شدگان کی روحیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کرتی ہیں اور ہم ان کے واسطے سے اپنے رب کے قریب ہو جاتے ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے نبی کریمeنے اپنی وفات کے وقت ان پر پھٹکار کی تھی ۔

عَنْ عَائِشَۃَ r عَنِ النَّبِیِّ  قَالَ فِیْ مَرَضِہِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسْجِدًا (رواہ البخاری: باب ماجاء فی قبر نبی)

’’سیدہ عائشہrنبی اکرم کا فرمان بیان کرتی ہیں کہ آپe نے جس بیماری میں وفات پائی اُس میں فرمایا کہ اللہ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرئے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
افسوس آج کروڑوں کلمہ پڑھنے والے حضرات بھی یہی کام کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ شرک ہے جو سب سے بڑا گنا ہ اور گمراہی ہے

وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّٰہَ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْن

’’اور وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاسکتے ہیں اور نہ نفع دے سکتے ہیں اور کہتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ فرما دیجئے کیا تم اللہ کو ان باتوںکی خبر دیتے ہو جنھیں وہ آسمانوں میںاور زمین میں نہیں جانتا؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے ان سے جن کو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘ (یونس:18)
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے