الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد:

اللہ تعالی کے لیے اس قدر تعریفات جتنی اس کی شان کے لائق ہیں درود وسلام نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کے لیے جو ہمارے آقا ،رہبر، رہنما اور اسوہ ہیں اور نبی اکرم ﷺ کی پیروی میں ہی ہماری نجات ہے نبی اکرم ﷺ کی پیروی اس وقت آسان ہو جاتی ہے جب نبی اکرم ﷺ سے محبت ہو جائےاور محبت کا خوبصورت ترین اظہار درود ابراہیمی ہے ۔
قارئین کرام !کثرت سے نبی ﷺپر درود بھیجا کریں یہ اللہ تبارک وتعالی کا ذکر بھی ہے اورنبیﷺ کے لیے دعا بھی ۔درود و سلام دنیا کے غموں کا مداوا ہے۔

عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللہَ اذْكُرُوا اللهَ جَاءَتِ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ، قَالَ أُبَيٌّ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلاَةَ عَلَيْكَ فَكَمْ أَجْعَلُ لَكَ مِنْ صَلاَتِي؟ فَقَالَ: مَا شِئْتَ. قَالَ: قُلْتُ: الرُّبُعَ، قَالَ: مَا شِئْتَ فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: النِّصْفَ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: فَالثُّلُثَيْنِ، قَالَ: مَا شِئْتَ، فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ، قُلْتُ: أَجْعَلُ لَكَ صَلاَتِي كُلَّهَا قَالَ: إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ (سنن الترمذی:2457)

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ آپ پر درود کے لئے مقررکروں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : جتنا تم پسند کرو۔ میں نے عرض کیا : ایک چوتھائی؟ آپﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : کیا آدھا حصہ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ٹھیک ہے لیکن اگر کچھ اور بڑھا دو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : دوتہائی ؟ فرمایا : اس میں بھی اضافہ کردو تو بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا : میں اپنی ساری دعا (کا وقت ) آپ پر درود کے لئے وقف کر دوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’تب تو تیرا ہر غم دور ہو گا اور ہر گناہ معاف کر دیا جائے گا۔‘‘
چنانچہ کثرت سے نبی اکرمﷺ پر درودابراہیمی پڑھا کریں یہ نبی اکرم ﷺ سے تعلق میں پختگی لاتا ہے ۔ میں نبی اکرم ﷺ کے بارے میں جو آیتیںپیش کررہا ہوں  وہ سورۃ ضحی کی ہیں ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں :

وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (الضحی:4)

’’یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا ۔‘‘
اور ترجمہ کچھ یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کی آ خرت دنیا سے بہتر بنائی ہے اور یہ بھی ترجمہ ہے کہ آنے والا زندگی کا ہر لمحہ گزرجانے والے زندگی کے ہر لمحات سے بہتر ہے ۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى   (الضحی:4)

’’تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی و خوش ہو جائے گا ۔‘‘
یہ اللہ تعالی نے نبی اکرمﷺ کو خوشخبری دی ہے نبی ﷺ بھی یہ فرمایا کرتے تھے۔

وَإِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالخَوَاتِيمِ (صحیح البخاری:6607)

’’تمام اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے ۔‘‘
زندگی کا اور ہماری آخرت کے فیصلہ کا دارومدار زندگی کے آخری لمحات پر ہےاسی لئے نبی اکرمﷺ کثرت سے فرمایا کرتے تھے کہ

اللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا(مسند احمد 17628)

ــ’’اے اللہ ہمارے انجام کو بہتر بنا دے ۔‘‘
نبی اکرمﷺ کی ساری زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور اس کا موازنہ کسی شخص سے نہیں کیا جاسکتا،جس طرح مثال دی جاتی ہے کہ یہ کتاب اللہ کی کتاب ہے مگر اس میں بہترین کلام وہ ہے جو اللہ کے بارے میں ہے اسی طرح نبی ﷺ کی ساری زند گی ہمارے لئے نمونہ ہےفرمایا :

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ(الأحزاب:21)

’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ (کی زندگی) عمدہ نمونہ ہے ۔‘‘
بچپن سے بڑھاپے تک الغرض نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی بہترین ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی زندگی قابل دیدنہیں البتہ اس میںسب سے بہترین وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کے آخری لمحات تھے اور یہ بات بیان کردہ آیات و احادیث سے واضح ہو تی ہے کہ سب سے قیمتی لمحات انسان کے آ خری لمحات ہوتے ہیںہمارا جو موضوع ہے وہـ نبی اکرم ﷺ کے آخری لمحات کا اجمالاً تذکرہ ہی مقصود ہے کہ جو وصیتیں نبی اکرم ﷺ نے اپنے آخر ی مرض وفات میں کی ہیں وہ قارئین کرام سے ذکر کرتا ہوں۔
قارئین کرام!چار بنیادی چیزیں آپ حضرات کے سامنے پیش کر رہا ہوں نبی اکرمﷺ نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم کو بہت پہلے سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھا آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جب فوت ہونے والا فوت ہوجاتا ہے تو پھر اس کی باتیں یاد آتی ہیں یہ ہمارے ہاں عام سی بات ہے والد صاحب جب فوت ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو ایسا فرما رہے تھےخلاصہ کلام یہ ہے کہ جب جانے والا اس دنیا سے چلاجاتا ہے تو پھر اس کی باتیں یاد آتی ہیں لیکن جب جانے والااس دنیا سے جا رہا ہوتا ہے تووہ کچھ ایسی باتیں کرتا ہے جو اللہ تعالی اس کے منہ میں ڈال دیتا ہے وہ بتا رہا ہوتا ہے ہے کہ میں جارہا ہوں اورنبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی کہ جن کی رہنمائی خود اللہ تعالی کرنے والا ہے جن کے استاد جبرائیل امین علیہ السلام ہیں نبی اکر مﷺ نے بھی دنیا سے جانے سے پہلے بہت ساری باتیں ایسی کیں ایک مرتبہ فرمایا ’’ایک شخص ہے جسے اللہ نے اختیا ر دیا کہ آخرت اور دنیا میں سے جسے اختیار کرنا چاہے کرلے تواس شخص نے آخرت کو دنیا پرترجیح دی سارے لوگوں کے نزدیک یہ ایک عام بات تھی مگر اس بات کا فہم سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہوافوراً رونے لگےاورعرض کیا۔

 فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي یَا رَسُولَ اللہِ !

’’اے اللہ کے رسول ﷺ !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔‘‘
لوگوں نے کہا نا معلوم اس بزرگ کو کیا ہوا ہے یہ کس طرح کی بات کر رہا ہے نبی اکرم ﷺ نے تو محض ایک شخص کی بات کی ہے مگر جب نبی اکرم ﷺ کا وصال ہوا تب لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ اپنے بارے میں بتلا رہے تھے تو نبی اکرم ﷺ کی زندگی کہ آخری لمحات آخرت کے طلب گار تھے اللہ تعالی ہمارے بھی آخری لمحات آخرت کے طلبگار بنادے ۔(آمین )
نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ سب سے اچھا وقت آخری ہو اور وہ وقت ہو جب میں اپنے رب کے سامنے ملاقات کے لیے کھڑا ہوں یہ نبی کریم ﷺ کی دعا ہوا کرتی تھی ۔ نبی معظم ﷺ نے بہت ساری نصیحتیں کی ہیں لیکن میں چار بنیادی باتیں عرض کروں گا ۔  نبی کریم ﷺ نے ساری زندگی ہماری توجہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف مبذول کرائی ہے ۔یہی نبی کریم ﷺ کی ابتداء وانتہاء تھی نبی کریم ﷺ کی پہلی دعوت یہ ہوا کرتی تھی

قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ

’’اےلوگو! اقرار کرو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی آخری نصیحتیں بھی اسی سے متعلق ہیں نبی کریم ﷺ نے قرب الموت میں یہی وصیت فرمائی

لَعَنَ اللہُ اليَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ (صحیح البخاری1390)

’’یہود ونصاری پر اللہ کی لعنتیں ہوں انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا ۔‘‘
اور واضح طور پر نصیحت کی ہے کہ میری قبر کو بت خانہ نہ بنادینا کہ اللہ کے مقابلہ میں پوجنا شروع کردیا جائے۔‘‘
اور آخری نصیحتوں میں سے یہ بھی ہے کہ ’’میری قبر کو عیدگاہ نہ بنادینا‘‘ اور عید کی تفسیر صحابہ نے یہ کی ہے کہ کثرت کے ساتھ قبر پر جانا جس صحابی کا قبر مبارک پر جانا ثابت ہے وہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں ،سفر پر نکلنے سے پہلے اور واپسی پر اکثر نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک پر جاتے تھےدوسرے صحابہ اس قدر نہ جاتےیہ کثرت  اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ان کی محبت ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہمارے لیے نبی کریم ﷺ  کی مدینہ میں داخلے والا دن خوشگوار تھا اور جس دن وہ مدینہ سے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے رخصت ہوئے تو وہ دن ہم صحابہ پر ناخوشگوار تھا یہاں تک کہ ہماری عقلیں کام کرنا چھوڑ گئی ،جسم جامد ہوگئے مجھے اپنے والد کا فوت ہونا یادآگیااس وقت ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے دماغ سن ہو گیا ہو کہاں میرے والد صاحب کا فوت ہونا اور کہاں نبی کریم ﷺ کا فوت ہوناصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ تعلق نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوئہ احد میں ایک صحابیہ عورت کو بتایا گیا کہ تمہارے والد شہید ہوگئے ہیں کہنے لگی مجھے نبی کریم ﷺ کے بارہ میں بتایئے پھر فرمایا کہ تمہارے بیٹے شہید ہوچکے ہیں اس نے پھر وہی دریافت کیا پھر اس کو بتایا گیا کہ تمہارا شوہر بھی شہید ہوگیا ہے اس پر وقتی طور رنجیدہ تو ہوئی لیکن محبت رسول ﷺ میں وہی دریافت کیا کہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں بتایئے جب نبی معظم ﷺ کا چہرئہ انور نظر آگیا تو کہتی ہے

 كُلُّ مُصِيبَةٍ بَعْدَكَ جَلَلٌ (تاریخ الاسلام 1/218۔ البدایۃ والنہایۃ 4/47)

’’آپ کے بعد ساری مصیبتیں ماندہیں۔‘‘
ایسا تعلق ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ کی قبر پر صحابہ کتنا جایا کرتے تھے؟ لوگ محبت میں گستاخی کرجاتے ہیں اس سے زیادہ بے ادبی نبی علیہ السلام کی کوئی نہیں کہ ان کو رب تعالیٰ کے ہمسر بنادیا جائے اس معاملہ میں نبی کریم ﷺ ادنیٰ سی بے ادبی بھی برداشت نہیں کرتےتھے نبی کریم ﷺ نے افراط وتفریط سے منع فرمایا :

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ، يَقُولُ عَلَى المِنْبَرِ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لاَ تُطْرُونِي، كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللہِ وَرَسُولُهُ (صحيح البخاري:3445)

سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےسیدناعمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر نبی کریم ﷺ کے حوالے سے فرماتے ہوئے سنا مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جتنا نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا ہے میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللہُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ: مَا شَاءَ اللہُ وَشِئْتَ، فَقَالَ: ” أَجَعَلْتَ لِلہِ عَزَّ وَجَلَّ عَدْلًا، قُلْ: مَا شَاءَ اللہُ وَحْدَهُ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی:667 )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’کیا آپ نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیا ‘‘ بلکہ اس طرح کہہ ’’ جو اللہ وحدہ لاشریک چاہے۔‘‘
آدمی کے اس مقولہ میںبنیادی عقیدہ پر ایک خفیہ وار تھا ليكن نبي كريم _ ﷺکی یہ عادت مبارکہ تھی کہ عقیدہ کے معاملہ میں کوئی سمجھوتہ اورادنیٰ سی بھی بے ادبی برداشت نہ کیا کرتے تھے بلکہ اس آدمی کو تنبیہاً صحیح بات کی طرف راہنمائی کی اور دیکھا جائے تو محمد ﷺ کی چاہت تھی کہ ابو طالب مسلمان ہوجائےلیکن اللہ کو منظور نہ تھا۔

إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص:56)

’’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ چاہے تو بلال،سلمان فارسی،خبیب جیسی ہستیوں کو نبی کریم ﷺ کا غلام بنادے اور اگر رب تعالیٰ کی چاہت نہ ہو تو نبی کریم ﷺ کے اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی ہدایت نہ دے۔
قارئین کرام ! سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے بارےمیں قرآن میں پڑھا ہوگا کہ روزِ قیامت عیسیٰ علیہ السلام کا کیا حال ہوگا؟ فرمان باری تعالیٰ ہے :

ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ  (المائدۃ:116)

’’کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو۔‘‘
گواسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ابتداء وانتہاء  قولوا لا إلہ الا اللہ کے فرمان سے کی نبی علیہ السلام کی جاتے جاتے یہ نصیحت ملی ہے کہ میرے ساتھ یہ ظلم نہ کرنااس بنیادی بات سے آپ ﷺ نے آگاہ کیا ہے۔
مزید ارشاد باری تعالی ہے :

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرحمن : 46)

رب كائنات كے سامنے کھڑا ہونا کوئی آسان اور سہل بات نہیں سیدنا آدم سے لیکر عیسی علیہم السلام تک تمام انبیاء کے پاس روزِ محشر لوگ جائیں گے اور کہیں گے کہ رب سے کلام کیجیے کوئی اس بات پر رضا مند نہیں ہوگا سب کا ایک ہی جواب ہوگا کہ آج ہمارا رب اتنا غصہ میں ہے نہ اس سے پہلے اتنا غصہ میں تھا اور نہ بعد میں ہوگا۔
ہمیں اللہ کے پیارے نبی ﷺ کے فوت ہونے سے قبل کے الفاظ ہیں جو کہ آپ ﷺ کی دوسری وصیت تھی

الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ(مسند أحمد26684)

یہ نبی کریم ﷺ کی آخری نصیحت تھی ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب نبی علیہ السلام بیمار ہوگئے تو ان پر بیماری کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی نبی علیہ السلام کو جب افاقہ ہوا تو فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ وہ نبی علیہ السلام کی عشاء کی آخری نماز تھی جواب ملا کہ نہیں آپ کا انتظار ہورہا ہے آپ نے فرمایا میرے لیے ایک ٹب میں پانی بھرو پانی بھرا گیا نبی علیہ السلام نے غسل فرمایا ابھی اٹھے ہی تھے کہ دوبارہ غشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا تو وہی سوال دہرایا پھر لوگوں کی جانب سے وہی جواب ملا پھر نبی کریم ﷺ نے پانی طلب فرمایاغسل فرماکر اٹھنے کی کوشش ہی کی تھی کہ غشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا وہی سوال وجواب پھرپانی طلب فرمایاغسل فرماکراٹھنے کی کوشش کی ہی تھی غشی طاری ہونے لگی تو فرمایا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائےیہ نبی کریم ﷺ کے آخری ایام ہیں چند ایام سیدنا ابو بکر امامت کرواتے رہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو ایک کندھے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کندھے سےسیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ پکڑ کر مسجد کی طرف لے جاتے ہیں ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے قدم مبارک زمین پر لکیر بناتے ہوئے جاتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مصلیٰ کے برابر میں بیٹھا یا جاتاہے۔
نماز سے ہی بندۂ مومن کی پہچان ہوتی ہے اسی سے انسان منافق اور کافر جانا جاتاہے یہ بطور شناختی کارڈ ہے اگر نماز میں خشوع وخضوع ہے تو یہ بندۂ مومن کی علامت وگرنہ پھر نفاق کے دائرہ میں ہے اور خدانخواستہ اگر نماز ترک کرنے کا معاملہ ہے تو یہ نعوذ باللہ من ذالک اسلام سے نکلنے کا سبب ہے۔
اور تیسری اور چوتھی وصیت  حقوق العباد سے متعلق ہے ایام اخیرہ کی حدیث میں سے ہے کہ اے اللہ ! اگر مجھ سے کسی کے بارے میں کوئی غلط بات ہوئی ہے تو اسے اس کے حق میں دعا بنا دینا پھر ایک دن نبی کریم ﷺ آخری ایام میں کھڑے ہوتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے ساتھ میں نے کوئی ظلم وزیادتی کی ہے اور کسی نے مجھ سے بدلہ لینا ہے تو میں بدلہ دینے کےلیے تیار ہوں کیونکہ میں اس دن سے قبل بات ختم کرنا چاہتا ہوں کہ جس دن مال واولاد کام نہ آئے گی اپنی بات کو دہراتے رہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رو رہے ہیں پیچھے سے ایک آواز آتی ہے کہ اے اللہ کےنبیﷺ میں نے بدلہ لینا ہے لوگ کانپ اٹھتے ہیں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیںآگے آؤ جب قریب آتے ہیں تو وہ صحابی عکاشہ ابن محصن رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں یہ وہ صحابی ہیں جنہیں اللہ کے نبی ﷺ نے ان ستر ہزار لوگوں کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنائی جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے نبی اکرم ﷺ فرماتےہیں اے عکا شہ! کیا تم نے بدلہ لینا ہے ؟فرمایا جی ہاں ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے اللہ کے نبی ﷺ !ہم آپ کی جگہ بدلہ دینے کے لیے تیار ہیں فرمایا نہیں میں خود اس کو بدلہ دونگا عکاشہ رضی اللہ عنہ نے کہا واقعہ یہ تھا کے جب آپ صفیں سیدھی کرا رہے تھے تب آپ نے میرے پیٹ میں چھڑی ماری تھی نبی اکر م ﷺ نے چھڑی طلب فرمائی پھر عکاشہ نے فرمایا جب آپ نے چھڑی ماری تھی تب میرے تن پر قمیض نہیں تھی آپ ﷺ نے اپنی قمیض اٹھا دی حدیث میں آتا ہے کہ تین دفع چھڑی کو لہراتے ہیں اور اس کےبعد چھڑی کو پھینک کر آپ ﷺ کے جسم اطہر سے لپٹ کر چومنا اور رونا شروع کردیتے ہیں فرماتے ہیں کہ میںیہ چاہتا تھا کہ سب سے آخری شخص میں ہوں جو آپ ﷺ کے جسم اطہر سے لپٹااور بوسہ دیاہو،آپ سے بدلے کاتومیں سوچ  بھی نہیں سکتانبی اکر م ﷺ فرماتے تھے کہ سارے متقیوں کےامام اورڈرنے والوںمیںسب سے زیادہ  اللہ تعالی سے ڈرنے والا میںہی ہوں ۔
قارئین کرام! یہ ہے وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد جس کا ساری زندگی نبی اکرم ﷺ نے خیال رکھا اور آخری نصیحت اللہ کےنبی ﷺ کی ’’الصلاۃ‘‘لوگوں نماز ’’وما ملکت ایمانکم ‘‘ جو آپ کےزیر کفالت لونڈیاں اورغلا م ہیںان کو میں قبل الموت حق دے کر جارہا ہوں  اپنے سب سے کمزور ترین لوگوں کا خیال رکھنا ہے جو خود کھاؤ انہیں کھلاؤجو خود پہنو انہیں پہناؤ ،کبھی ان سے وہ کام نہ لو جس کی وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں اور اگرایسا کام لو توانکی خود مدد کرو ۔
وفات سے قبل نبی اکرم ﷺ كي یہ چارنصیحتیںتھیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین )
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے