نبوت کے دوسرے دعویداروں میں مسیلمہ کذاب ایک نہایت بد صورت حیوان نما پست قد، چپٹی ناک والا شعبدہ باز اور جادو گر تھا۔ مسیلمہ نے بھی اسود کی طرح رسولِ اکرمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔

اس نے دو قاصدوںکے ذریعہ رسولِ اکرمﷺ کی خدمت عالیہ میں ان الفاظ کے ساتھ پیغام بھیجا۔

’’مسیلمہ رسول اللہ کی جانب سے محمدرسول اللہ کے نام۔ آپﷺ پر سلامتی ہو۔ اماّ بعد

واضح ہو کہ’’ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں۔لہٰذا نصف زمین میری ہےاور نصف قریش کی،مگر قریش انصاف نہیں کرتے۔‘‘

رسولِ اکرمﷺ نے خط سنااور قاصدوں سے پوچھا کہ مسیلمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟

ہم وہی کہتے ہیں، جو اس خط میں لکھا ہے، ایک قاصد نے جواب دیا۔آپ ﷺ نے فرمایا :

’’اللہ کی قسم! اگر قاصدوں کے قتل کو میں جائز سمجھتا، تو تم دونوں کے سر تن سے جدا کر دیتا۔‘‘

اورآپﷺ نے مسیلمہ کذاب کے خط کا جواب لکھوایا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد رسول اللہ کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام:

’’ زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد مسیلمہ کو سب کذاب کہنے لگے اور آج تک اسے کذاب ہی کہا جا رہا ہے۔

اسی مناسبت سے مرزا قادیانی کو بھی ’کذابِ قادیان ‘کہاجاتا ہے۔

مسیلمہ کذاب نے بھی قادیانیوں کی طرح اپنی کذب بیانیوں کو اسلام کا نام دے رکھا تھا اور شراب کو حلال قرا ر دیاتھا۔

کہتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کا دربار بڑی دلفریبی کا منظر پیش کرتا، حسین او رجوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں ہوتیں، گویا قادیانی نبوت کی طرح مسیلمی نبوت میں بھی عیش و عشرت کی آزادی حاصل تھی۔

مسیلمہ کذاب شعبدہ بازی میں ایسی ہی مہارت رکھتا تھا جیسے مرزا قادیانی شیطانی الہامات کے سنانے میں ماہر تھا۔

مسیلمہ کذاب پرندے کے پَر اس کے جسم سے الگ کر کے دکھاتا، پھر پرندے اور اسکے پَروں کو لے کر ایک ساتھ اوپر پھینکتا، تو پرندہ پَروں سمیت اُڑ جاتا جسے لوگ ایک معجزہ خیال کرتے۔

مسیلمہ ایک بد صورت حیوان نما انسان تھا۔ مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ:

’’ مسیلمہ اپنے خاص مہمانوں کے لیے بڑا خوشنما خیمہ نصب کرایا کرتا تھا۔ جس کی ساخت مکان جیسی ہوتی۔ یہ خیمہ اندر سے بڑے دلفریب طریقوں سے سجایا جاتا، اور خیمے میں خوبصورت آتش دان رکھوایا کرتا تھا۔ اس آتش دان میںکوئی ایسی چیز یا جڑی بوٹیاں رکھ دی جاتیں۔ جن سے اُٹھنے والی خوشبو حواسِ انسانی کو متاثر کرتی۔ جیسے کسی کو ہیپناٹائز کر لیا گیا ہو۔ اس کے حواس اپنے کنٹرول میں نہیں رہتے تھے۔ وہ بے ہوش اور بے خبر ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ مسیلمہ کے اشاروں پر ناچنے لگتا۔

 وہ خیمے میں داخل ہوتے ہی مسحورسا ہو جاتا۔

مسیلمہ کذاب نے اس خیمے میں سجاح (مدعیہ نبوت) کو مذاکرات کے لیے بلایا۔ جب سجاح نے مسیلمہ کو دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن اس کی مسکراہٹ میں تمسخر تھا، طنز تھا۔ کیونکہ سجاح نے اس قدر بد صورت اور پست قدکا آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔

لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد اس خیمے کی دلفریبی و دلآویزی اور اس میں اُٹھنے والی خوشبوئوں نے اسے مسحورکرنا شروع کر دیا۔

اور مسیلمہ بدمعاش کی رومان انگیز باتوں نے سجاح پہ ایسا خمار ساطاری کردیاکہ جب صبح طلوع ہوئی۔ تو سجاح اس انداز سے باہر نکل رہی تھی ۔ جیسے کوئی دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کر نکلی ہو۔

مسیلمہ کذاب کی چال کامیاب رہی۔ اس طریقہ سے ایک کذاب نے مدعیہ نبوتِ کاذبہ کو بھی رام کر لیا۔

حالانکہ وہ بڑی کروفر سے بستیوں کی بستیاں لوٹتے ہوئے مسیلمہ کی طاقت کو کچلنے کے لیے آئی تھی مگر خود کچلی گئی۔

ایسی ہی چال مسیلمہ کذاب نے ایک صحابی رسولﷺ نہار الرجال کے ساتھ چلی ، جو کہ مسیلمہ کو راہِ راست پر لانے اورمرتدین کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا تھا۔

نہارایک پڑھا لکھا اور عالم فاضل تھا۔ ان دنوں آپﷺ بستر علالت پر تھے۔ آپﷺ نے مسیلمی سرگرمیوں کے اثرات زائل کرنے کے لیے اس شخص کو یمامہ بھیجا۔

لیکن سجاح کی طرح اس خیمہ میں داخل ہوتے ہی، ایسا مسحور ہوا کہ سجاح کی طرح مسیلمی نبوت کے گن گانے لگا اور مرتد ہو گیا۔ آخر اسی حالتِ ارتداد میں مسیلمہ کے ساتھ واصل جہنم ہوا۔

مسلیمہ کذاب کا عبرت ناک انجام اور منکرین ختم نبوت کے لیے لمحہ فکریہ!

رسول اللہﷺ کی وفات حسرتِ آیات کے ساتھ ہی ہر طرف بغاوت اور عہد شکنی کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔

سیدنا ابوبکر صدیق t جب خلافت پر متمکن ہوئے تو ان کے لیے بہت سے چیلنجز (Challenges)  تھے۔ ان میں اہم ترین مسیلمہ کذاب کی سرکوبی اور لشکرِ اُسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کا مسئلہ تھا۔ دوسری طرف بہت سے قبائل نے بغاوت کر دی۔ یہودی و نصرانی بھی سر گرم ہو گئے اور باغیوں کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔

مدعیانِ نبوت کاذبہ (منکرینِ ختم نبوت) یعنی مرتدین کے علاوہ منکرین زکوٰۃ کا بھی ایک فتنہ اُبھر آیا۔

فَقَالَ بَعْضُہُمْ نُصَلِّیْ وَلَا نُزَکِّیْ (درِّ منثور۔ج۳)

’’کسی نے کہا، کہ نماز پڑھیں گے اور زکوٰۃ نہیں دیں گے۔‘‘

تو ان نازک حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اعلان کیا:

فَوَاللّٰہِ لَومَنَعُوِنِیْ عِقَالًا مِمَّا کَانُوْا یُعطُونَ لرَسُوْلِ اللّٰہِ، لَقَاتَلتُہُمْ عَلَیْہِ۔

’’اللہ کی قسم! جو لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں (اونٹ باندھنے والی رسِّی)پیش کیا کرتے تھے، اگر انہوں نے اسے روکا، تو میں ضرور ان سے قتال کروں گا۔ (بخاری و مسلم)

کتب احادیث میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال کی وضاحت موجود ہے۔ چنانچہ خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے مرتدین سمیت تمام تر شورشوں اور بغاوتوں کے خلاف لشکر کشی کرنے کا عزم کر لیا۔ حالانکہ اس وقت پوری امت رسول اللہﷺ کے غم میں نڈھال تھی،اور غم کے ساتھ ساتھ بہت سے خدشات بھی ان کے دلوں میں پیدا ہو رہے تھے،کہ نامعلوم ان حالات میں اب کیا ہو گا؟

لیکن خلیفۃ المسلین کسی قسم کے خوف اور خدشے کو خاطر میں نہ لائے،اور ان تمام فتنوں کے خلاف فوجی کارروائی کا اعلان کر دیا۔

ان فتنوں میں سب سے طاقتور فتنہ مرتدین کا تھا۔ حدیقۃ الرحمان ، جو کبھی ایک سر سبز اور ہرا بھرا باغ ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کو پھل دیاکرتا تھا۔ تھکے ماندے یہاں آ کر آرام کیا کرتے۔ وہاں پھولوں کی مہک ہواکرتی تھی اور کبھی بلبل کا ترنم۔

مگر اب وہ ’’حدیقۃ الرحمان‘‘ نہیں رہا تھا۔ اب وہ ’’حدیقۃ الموت‘‘ بن چکا تھا۔ اس خوبصورت باغ کا حسن خون میں ڈوب چکا تھا۔ اس کی رعنائیاں لاشوں کے تلے دب چکی تھیں۔ وہ دلفریب باغ… جہاں کبھی پرندے چہچہاتے تھے، وہاں زخمیوں کی چیخ و پکار تھی اور زخمی گھوڑے بے لگام اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ان کے قدموں کی ٹاپ یوں سنائی دے رہی تھی جیسے موت بے ہنگم قہقہے لگا رہی ہو۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل، ثابت رضی اللہ عنہ بن قیس، شرجیل رضی اللہ عنہ ابو دجانہ رضی اللہ عنہ ، براء رضی اللہ عنہ بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ ، زید رضی اللہ عنہ بن خطاب (برادر عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور وحشی رضی اللہ عنہ بن حرب کے علاوہ (13000) تیرہ ہزار فدائین کا یہ لشکر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ،چالیس ہزار کے طاقتور مسیلمی لشکر سے برسرِ پیکار تھا۔ سیّدنا حبیب رضی اللہ عنہ بن زید رضی اللہ عنہ (شہید اول ختم نبوت) کو مسیلمہ کذاب نے اذیت ناک طریقہ سے شہید کیا تھا۔

ان کی والدہ محترمہ اُم عمارہ رضی اللہ عنہا بھی شریک جہاد تھیں۔ غزوئہ اُحد میں بھی یہ عظیم خاتون شریک لشکر رہیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی (نرسنگ) Nursingاور دیکھ بھال کرتی رہیں۔

یہ بہادر خاتون( اُم حبیب ) اپنے دوسرے بیٹے کے ہمراہ مسیلمہ کو قتل کرنے کی نیت سے جنگ یمامہ میں لشکر اسلام میں شامل تھیں۔ اس مہم میں ان کا ایک ہاتھ بھی کٹ گیا تھا۔ مگر جذبۂ جہاد و انتقام سے سرشار مسیلمہ کذاب کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی درپے تھیں۔

یہ بڑا گھمسان کارن اور بڑا خونی معرکہ تھا۔ مسیلمہ کذاب کے پیروکار قادیانیوں کی طرح اسے حقیقی معنوں میں نبی اور رسول تصور کرتے تھے اور وہ بھی خون کے آخری قطرے تک بڑی جانبازی کے ساتھ مسلمانوں سے لڑ رہے تھے۔ اس جنگ کی خون ریزی و سخت جانی کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ 21 ہزار مرتدین مارے گئے جبکہ مسلمانوں میں 12سو کی تعداد میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ جن میں700 حافظ قرآن اور 200 بدری صحابہ تھے۔

اب تک کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔اور نہ ہی ان کا آج تک ایسے سخت جان معرکہ سے واسطہ پڑا تھا۔

بهر کیف مسیلمہ کذاب قتل ہوا اور اس کے ساتھ ہی جھوٹی نبوت کا یہ ڈرامہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اس کا دستِ راست نہار الرجال مرتد بھی مارا گیا اور خود مسیلمہ وحشی رضی اللہ عنہ بن حرب کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ وہی وحشی رضی اللہ عنہ جس کے ہاتھوں غزوئہ اُحد میں عمِ رسولﷺ سید الشّہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے۔

آج اسی وحشی رضی اللہ عنہ نے اسلام کے اس دشمنِ اعظم کو ٹھکانے لگا کر اپنے مشن کی تکمیل کی۔

اس طرح سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگرے تمام فتنوں اور شورشوں کو بفضل اللہ جہادی ضرب سے کچل کے رکھ دیا۔

لشکر اُسامہ رضی اللہ عنہ بھی کامیابی کے ساتھ اپنا ہدف پورا کر کے واپس لوٹا اور اس وقت کی سپر پاور (Super Power)روم، جس کے حملے کا ہر وقت خطرہ رہتا تھا وہ خطرہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔

اُدھر یمن کو بھی ایک کذاب اورلعنتی سے نجات مل گئی۔ اگر مسیلمی فتنے کو قدرے ڈھیل مل جاتی یا مسلمان لا پرواہی کامظاہرہ کرتے ۔ جیسا کہ آج قادیانیوں کے بارے میں بعض سیکولر قسم کے لوگ یا اپنی سادگی کے سبب قادیانیت سے لا علمی کی وجہ سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔تو مسیلمہ کو کچلنا بھی صحابہ  کے لیے مشکل ہو جاتا اور آنے والے وقتوں میں مسلمانوں کے لیے (قادیانیوں، مرزائیوں) کی طرح یہ فتنہ بھی ایک مستقل دردِ سر بنا رہتا۔

اس لیے امت مسلمہ پر سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  کا یہ ایک عظیم احسان ہے،اور وہ شہدائے ختم نبوت اور مجاہدینِ ختم نبوت نہایت قابل تحسین ہیں،جنہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر گلشنِ رسالتﷺ کے تحفظ کا حق ادا کر دیا۔(الحمدللہ)

امت مسلمہ تا قیامت ان کی رہینِ منت رہے گی۔

جنہوں نے رہتی دنیا تک ایک مثال قائم کرتے ہوئے مسئلہ ختم نبوت کو استحکام بخشا۔

اب قیامت تک کے لیے یہ مسئلہ واضح ہو چکا ہے،کہ سیدنا محمد عربیﷺ کے بعد کسی بھی شخص کو یہ حق ہرگز ہرگز نہیں دیا جا سکتا،کہ وہ نبی یا رسول کہلا سکے۔ یا دعویٰ نبوت کے ذریعہ خود کو انبیاء المرسلین کی فہرست میں شامل کرنے کی جسارت کرسکے۔چاہے وہ کسی بھی قبیلہ اور خاندان سے کیوں نہ ہو؟

مسئلہ ختم نبوت پہ اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور امت مسلمہ کا اتفاق ہو چکا ہے۔اور اس میں کسی قسم کا تساہل نہیں ہوسکتا۔

آج ہماری بے حسی کہ بعض سیکولرسیاستدانوں اور حکومتوں کی Diplomacyکے سبب قادیانیت کو تقویت مل رہی ہے اور ہم نے محض انہیں غیر مسلم اقلیت کے طورپر تسلیم کرنے پہ ہی اکتفا کر لیا ہے۔ جبکہ وہ خود کو غیر مسلم تسلیم ہی نہیں کرتے۔

جب تک انہیں باقاعدہ مرتد قرار نہیں دیا جاتا،اس فتنے کا تدارک نہیں کیا جا سکتا۔

اور جب تک اسلام کی بالادستی قائم نہیںہو جاتی یہ فتنۂ قادیانیت بھی ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ کے مترادف ہی رہے گا۔

برصغیر میں انگریز بہادر نے سامراجی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے دو طرح کے اقدام کئے۔

اوّلاً، جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں پر بے پناہ ظلم ڈھایا گیا۔

ثانیاً، مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کا جذبہ ختم کرنے کے لیے قادیانی نبوت کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کے لیے عالمی بیماریوں کے چیمپیئن مرزا غلام قادیانی کو منتخب کیا گیا۔

مرزا ملعون نے 1880ء میں ملہم من اللہ اور مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔ پھر اپنے جھوٹے الہام کا سہارا لیتے ہوئے جہاد کی منسوخی کا اعلان کردیا۔

قادیانی تحریک مسلمانوں کی بے حسی اور غفلت کے سبب آج تک انگریزوں سے اپنی اس وفاداری کا صلہ وصول کر رہی ہے،اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف یا پھر خود غرض و حریص مسلم نوجوانوں کو ’’مرتد‘‘ بنانے میں بھی مصروف ہے۔

الغرض دشمن کے تمام تر حربوں اور سازشوں کے باوجود مسلمانوں میں ہمیشہ جہاد کی تڑپ اور جہادی فکر زندہ رہی ۔

اس وقت عالمی سطح پر دشمنانِ جہاد، جہاد اور مجاہدین کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کر کے اپنے خبث ِباطن کا اظہار کر رہے ہیں۔

اہلِ علم اور ہمارے لیڈروں کا فرض ہے کہ دشمنانِ اسلام کے اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈا کا مؤثر جواب دیں۔

اور عظمت ِجہاد کو اُجاگر کر کے مخالفین و حاسدین اور مرتدین کی زہریلی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دشمنوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے مرعوب ہو کر بعض مسلم حکمرانوں نے اپنے ملک میں اپنی ہی قوم کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

اگر اسلام کا نام لیا جائے، تو انہیں ناگوار گزرتا ہے اور انہیں اس جرم کی پاداش میں بارود کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ لال مسجد کی مثال ہی لیجئے۔ کہ ان کا کیا جرم تھا؟ کیا وہ ملک دشمن تھے؟ کیا وہ باغی تھے؟ کہ فاسفورس بموں کے ذریعے ان کا نشان تک مٹا کر رکھ دیا۔ افغانستان، اراکان، شام، فلسطین، عراق، بو سنیا او رمصر میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔یہاں جمہوریت کی آڑ میں تو سب اچھا ہے۔ وہ ہماری نام نہاد لولی لنگڑی جمہوریت ، جس کا دنیا بھر میں مذاق اُڑایا جا رہا ہے،اور ہمارے بچے جمورے (لیڈرانِ جمہور) نے پاکستان اور جمہوریت کا وقار مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔

’’کہ دیکھو! یہ ہے پاکستانی جمہوری تماشا اور سلطانِ جمہور کا اندازِ سلطانی!‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے