فتنہ قادیانیت تاریخ انسانی کا سب سے بڑا ارتدادی فتنہ ہے ۔ قادیانیوں کے کفروارتداد کے بارے میں ابتداء سے آج تک عالم اسلام کے علماء و مفتیان کرام ایک ہی نظریہ رکھتے آئے ہیں ،لیکن اس کے باوجود قادیانی کمال ڈھٹائی سے اپنے عقائد کفریہ کو اسلام ثابت کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔اس سلسلہ میں کبھی تو قرآن و حدیث میں تحریف کرتے ہیں ،کبھی اسلامی عقائد پر عقلی شبہات پیدا کرتے ہیں،کبھی قادیانیت سے ناواقفیت رکھنے والے سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے اپنے ظاہری اعمال رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم بھی کلمہ اسلام پڑھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ،مساجد تعمیر کرواتے ہیں ،قرآن و حدیث کو مانتے ہیںاور بڑے بڑے رفاہی کام بھی کرواتے ہیں ،پھر ہم کا فر کیوں ہیں ؟بعض مسلمان ان کے ظاہری اعمال کو دیکھتے ہوئےانہیں بھی مسلمانوں کا فرقہ سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ قادیانیوں کا مسلمانوں سے اسلام کے بہت سے بنیادی عقائد سے انحراف ثابت ہے۔ یہ بات قادیانی بھی جانتے ہیںکہ مرزا قادیانی نے مسیلمہ کذاب کی طرح دعویٰ نبوت کیا ہے اور مسیلمہ کذاب اور اس کے تمام پیروکار بھی کلمہ اسلام پڑھتے تھے ،توحید ، رسالت ، وجود ملائکہ ، قبر ، حشر غرض تمام عقائد کو بھی مانتے تھےاور اذان و اقامت اور مساجد بھی مسلمانوں جیسی تھیں ۔قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز بھی پڑھتے تھےیہاں تک کہ رسول اکرم ﷺکو نبی بھی مانتے تھے ،لیکن ان سب کے باوجود نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے متفقہ طور پر مسیلمہ کذاب اور اس کے ماننے والوں کو کافر و مرتد قرار دے کران کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے 27 ہزار مرتدین کو واصل جہنم کیا تھا ۔مرزا قادیانی کا نبوت و رسالت کا دعویٰ انبیاء علیہم السلام پر فضیلت اور اُن کی توہین ،حرمین شریفین کی توہین ،حرمت جہاد کا اعلان محمد رسول اللہ ہونے کا دعوی ،رسول اللہ ﷺ پر فضیلت اور آپ ﷺکی توہین ،قرآن مجید و احادیثِ نبویہ کی توہین صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنھم کی توہین امت مسلمہ کی تکفیر،اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات اس کی جملہ صفات کے بارے میں ادنیٰ توہین بھی بدترین کفر ہےجبکہ مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی ذات مقدسہ کے بارے میں وہ خرافات تراشی ہیں جو اس کے بدباطن کی عکاسی کرتی ہیں ۔جیسا کہ اس کا کہنا ہے کہ قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہےجس کے بے شمار ہاتھ پیراور ہر ایک عضو کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور لا انتہا عرض اور طول رکھتا ہےاور تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک پھیل رہی ہیں ۔(روحانی خزائن ج 3ص 90)اس عبارت میں مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو تیندوے سے تشبیہ دی ہے ۔جبکہ قرآن کا اعلان ہے :لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌٍ(نہیں ہے اس اللہ کی مثل کوئی شئ)کیا کوئی عقل مند اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ،پھر اس کے بعد یہ سوال ہو گا کیوں نہیں بولتا ؟کیا (اللہ کی) زبان پر کوئی مرض لاحق ہو گئی ہے ؟(روحانی خزائن ج 21 ص 312)وہ خدا جس کے قبضہ میں ذرہ ذرہ ہے اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہےوہ فرماتا ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا ۔(روحانی خزائن ج 20ص 396)اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی وحدانیت کے دلائل ذکر کیے ہیںاور ہر طرح کے رشتہ سےنا صرف برات کا اعلان کیا ہے بلکہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اولاد وغیرہ کا عقیدہ گھڑااُن کی سخت تردید کی ہے ۔سورۃ اخلاص توحید کے مضامین پر ہی مشتمل ہے لیکن مرزا قادیانی کے توحید باری تعالیٰ کے متعلق کیا نظریات ہیں ملاحظہ فرمائیں !مرزاقادیانی خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتا ہے :میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور میں نے یقین کرلیا میں وہی ہوں(روحانی خزائن ج 5 ص546)مرزا قادیانی کہتا ہے ،مجھ پر وحی نازل ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِی اے مرزا تو میرے نزدیک میری اولاد کی طرح ہے(تذکرہ ص 345 طبع چہارم)اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِی اے مرزا تو مجھ سے میرے بیٹے کی طرح ہے ۔(تذکرہ طبع چہارم ص422)اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ خدا نے مجھے کہا کہ :ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہوگاگویا آسمان سے خدا اتر ے گا(روحانی خزائن ج22 ص99)جہاداسلام کا ایک بڑا اہم فریضہ ہے جس پر ثبوت قرآن مجید کی بیسوں آیات اور احادیث رسول ﷺدلیل ہیں ۔ احادیث کے مطابق ”اَلْجِهَادُ مَاضٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ“ (المعجم الأوسط (5/ 96) جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ لیکن مرزا قادیانی نے انگریزی حکومت کو طول دلوانے کی غرض سے انگریز کی خوشنودی میں نہ صرف جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ دیابلکہ جہاد کرنے والوں کو غلیظ گالیاں بھی دی ہیں ۔حرمت جہاد پر مرزائی کتب کے چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے ۔ہر وہ شخص جومیری بیعت کرتا ہے اور مجھے مسیح موعود مانتا ہےاسی روز سے اس کو عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانے میں جہاد قطعاً حرام ہے ۔(مجموعہ اشتہارات ج3 ص21)میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے‘ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے ۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے(مجموعہ اشتہارات جلد سوئم ص 19 از مرزا غلام احمد قادیانی)ہم مرزا قادیانی کے پیروکاروں کو بتانا چاہتے ہیں کہ عقیده ختم نبوت کے تحفظ ودفاع کے لئے تاریخ اسلامی کی پہلی جنگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی لله عنہ کے عہد خلافت میں مسيلمه کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی اس جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ رضی الله عنہ اور تابعین رحمہم ا لله کی تعداد باره سو ہے جن میں 700 سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔

سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی لله عنہ کوآپ ﷺ نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کے پاس بھیجا، مسیلمہ کذاب نے سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی لله عنہ کو کہا  کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ﷺالله کے رسول ہیں ؟سیدنا حبیب رضی لله عنہ نے فرمایا کہ ہاں … مسیلمہ نے کہا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ ) بھی الله کا رسول ہوں؟؟سیدنا حبیب بن زید انصاری رضی لله عنہ نے فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا ….مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا ،وه یہی جواب دیتے رہے .. مسیلمہ  آپ کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب بن زید رضی لله عنہ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو شہید کردیا گیا.. اس سے اندازه ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت وعظمت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے اور ہم قادیان کے حواریوں کو باور کرواتے ہیں کہ ہم بھی اسی نبی رحمت کے دیوانے ہیں جن کا حبیب بن زید رضی اللہ عنہ تھا۔”سیدناابو مسلم خولانی رحمہ اللہ جن کا نام عبد بن ثوب ہے اور یہ امت محمدیہ کے وه جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئےا لله نے آگ کواس طرح گلزار بنادیاتھاجیسے سيدنا ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش نمرود کو بنایا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ہی اسلام قبول کر لیا تھالیکن رسول رحمت ﷺ کی خدمت میں حاضری کاموقع نہیں ملا تھا ۔رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کے جھوٹادعویدار اسود عنسی پیدا ہوا جولوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے پر مجبور کیا کرتا تھا اسی دوران اس نے سیدنا ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پرایمان لانے کی دعوت دی …. سیدنا ابو مسلم رضی لله عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کیا تم محمد کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو ؟سیدنا ابو مسلم رحمہ اللہ نے فرمایا :ہاں،اس پر اسود عنسی نے آگ دھکائی اور ابو مسلم کو اس خوفناک آگ میں ڈال دیا ، لیکن الله تعالی نے ان کے لئےآگ کو بے اثر کر دیا اور وه اس سے صحیح سلامت نکل آئے. یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقاء کو اس پر ہیبت سی طاری ہو گئی اسود کے ساتھیوں نے اسے مشوره دیا کہ ان کو جلا وطن کر دو .ورنہ خطره ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروکاروں کے ایمان میں تزلزل آجائے گا. چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کر دیا گیا ، یمن سے نکل کر آپ مدینہ منوره تشریف لے آئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی لله عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا : الله تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے اس نے امت محمدیہ ﷺکے اس شخص کی زیارت کرنامیرا مقدر ٹھہرایا جس کے ساتھ الله تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا۔ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے کہ’’أَنَا خَاتَمُ النَّبَيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘ (المعجم الأوسط (3/ 318) میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ہم اس حدیث مبارک کو دل و جان سے جانتے اور مانتے ہیں اور اگر کسی نے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانے کی کوشش کی تو ہم اس عقیدہ کی خاطر دل وجان قربان کرنا بھی جانتے ہیں۔

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!

سکھوں کے سیاسی رہنما رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی کے موقع پر 27 جون کو شاہی قلعہ لاہور فقیر خانہ میوزیم نے تیج فاؤنڈیشن برطانیہ کی معاونت ،حکومت پنجاب کی آشیربادو سرپرستی میں ’’رنجیت سنگھ ‘‘ کا مجسمہ نصب کیا ہے۔ سکھ اور اُن کی غلامی پر فخر کرنے والے اپنے گھروں اور گوردواروں میں رنجیت سنگھ کے مجسمے نصب کر کے اُن کی پوجا پاٹ کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن محمد عربی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ 20 کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری اور اُن کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے عوامی مقامات پر مسلمانوں کے دشمن اور سیدین شہیدین و شہداء بالاکوٹ رحمہم اللہ اجمعین کے قاتل کا مجسمہ نصب کرتا پھرے۔ سکھ دھرم کے بانی گرونانک نے تمام عمر طبقاتی تقسیم کے خلاف گزاری، دھرتی کےتمام انسان برابر ہیں اس فلسفے کا پرچار کرتے رہے۔ انہوں نے جس تحریک کا آغاز کیا اس کا اختتام رنجیت سنگھ کی حکومت کی شکل میں ہوا۔ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کے قتل عام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی،وہ ضدی اور ہٹ دھرم تھا ،اسکے دل کو کوئی چیز بھا جاتی تو اسکے حصول کے لئے جنگیں بھی کرگزرتاتھا ۔سر لیپل ہنری گرفن انیسویں صدی میں برٹش حکومت کی جانب سے ہندوستان میں سفیر اور ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ساتھ ساتھ مؤرخ بھی تھا جس نے1892 میں مشہور کتاب’’رنجیت سنگھ‘‘ بڑی تحقیق کے بعد لکھی تھی جس میں رنجیت سنگھ کی لڑائی و عادات کو بیان کیا ۔اس کتاب میں انہوں نے مہاراجہ کی ایک گھوڑی کی خاطر قبائلی پٹھانوں کے ساتھ جنگ کاذکر کیا ہے ،انہوں نے لکھا ’’ رنجیت سنگھ کے عہد میں پشاور کے صوبیدار سردار محمد خان کے پاس ایک خوبصورت گھوڑی ’’لیلیٰ ‘‘موجود تھی جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھی ۔جب رنجیت سنگھ تک اس گھوڑی کا چرچا پہنچا تو اس نے یہ گھوڑی حاصل کرنے کا پیغام بھیجا۔ سردار محمد خان کے انکار پر اس نے اپنے جرنیل سردار بدھ سنگھ سندھانوالہ کو گھوڑی چھین کر لانے کے لیے روانہ کیا۔ ایک خونریز معرکہ کے بعد، سردار بدھ سنگھ کو علم ہوا کہ یہ گھوڑی جنگ میں کام آچکی ہے۔ اس نے لاہور پہنچ کر یہ اطلاع رنجیت سنگھ کو پہنچائی تو پتا چلا کہ یہ اطلاع غلط ہے اور لیلیٰ زندہ ہے۔ اب رنجیت سنگھ نے اپنے شہزادے کھڑک سنگھ کی سرکردگی میں ایک اور لشکر پشاور روانہ کیا اور یار محمد خان کو معزول کر دینے کے احکام جاری کئے۔ یار محمد نے یہ صورت حال دیکھی تو گھوڑی کو لے کر پہاڑوں میں غائب ہوگیا اور اپنے بھائی سردار سلطان محمد خان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اسی دوران سید احمد شہید کا سکھوں اور انگریزوں سے جہاد شروع ہوگیا۔ سکھوں کی فوج کے ایک جرنیل دینورا نے سید احمد شہیداور ان کے ساتھیوں کو دھوکہ دے کہ شہید کرنے کے ساتھ ساتھ سلطان محمد اور یار محمد کو بھی شکست دے دی اور ان سے لیلیٰ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ گھوڑی لاہور پہنچائی گئی اور رنجیت سنگھ کو پیش کی گئی۔ رنجیت سنگھ نے اس کے ملنے کی بڑی خوشی منائی۔ اس کا بیان تھا کہ اس گھوڑی کے حصول میں اس کو ساٹھ لاکھ روپیہ اور بارہ ہزار جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔یہ ہے موصوف جن کو آج کے نام نہاد مسلمان ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ مگر یہ تو نصیب نصیب کی بات ہے؛ کوئی محمد بن قاسم سے محبت کرتا ہے تو کسی کو راجہ داہر سے پیار ہے، کوئی سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کا چاہنے والا ہے تو کسی کو رنجیت سنگھ جیسا قاتل اور لٹیرا شخص ہیرو نظر آتا ہےبلکہ اغیار کو خوش کرنے کے لیے اسے ہیرو بنادیاگیاہے ۔پاکستان میں مسائل کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے اپنے سے زیادہ غیروں کو خوش رکھا جاتاہے جو کہ اللہ رب العزت کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے کیونکہ ان تجربات کے نتیجے میں جگہ جگہ رب کائنات کے احکامات کی خلاف ورزی ہورہی ہے جبکہ اہل حل وعقد کو یادرہنا چاہیے کہ جن سے رب راضی ہوتاہےتو وہاں نعمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں اور جن سے ناراض ہوتاہے وہاں مسائل ، مشکلیں، مصیبتیں اور پریشانیاں خودرو گھاس کی طرح اگتی ہیں۔ ایسے حالات پیدا ہوں تو ر ب العالمین کی طرف رجوع کیا جائے اجتماعی توبہ واستغفار کیاجائے۔ ورنہ رب کی پکڑ بہت سخت ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے