ماہ ِمقدس رمضان المبارک ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں ایمانی مسرتوں اور روشنیاں بکھیرنے آرہا ہے۔ یہ مہینہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کے انعامات میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور یہ ہماری بڑی خوش نصیبی ہوگی کہ اس مبارک مہینے کو پائیں، اللہ کی رحمت سے اس میں روزوں کی سعادت بھی حاصل کریں، اس ماہ عظیم سے مستفید ہونے کے لیے بہترین منصوبہ بندی ضروری ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک عقلمند کسان موسم برسات سے پہلے پہلے اپنی زمین کو تیار کرلیتا ہے تاکہ بارش کے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھاسکے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنے قلب وذہن کو تیار کرنا چاہیے، سچی نیت ، پختہ عزم اور مصمم ارادوں کے ساتھ تاکہ رمضان میں ہونے والی برکتوں اور رحمتوں کی بارش سے ہم خوب سیراب ہوسکیں۔ ہر فرد کواپنے علم وفہم اور استطاعت کے مطابق تیاری کرنی چاہیے۔ اللہ کی زمین پر معروف کو پھیلانے اور منکر کا ازالہ کرنے کا عزم رکھنے والوں کی تیاریاں عام انسانوں کی طرح نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کی تیاریاں بھی ویسی ہی ہونی چاہئیں جس طرح رسول مکرم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کیا کرتے تھے۔ رمضان المبارك ماہ تربیت ہے، یہ ماہ مبارک ہر فرد کی مکمل تربیت وتزکیہ اور اس کے سیرت وکردار کی تعمیر وترقی کے لیے مطلوب تمام بنیادی اوصاف کو جلا بخشنے والا ایک مکمل کورس ہے۔ اس ماہ میں عزم وحوصلہ، للہیت ، صبروشکر، نظم وضبط، ایثاروقربانی، اور عاجزی وانکساری جیسے اوصاف کا ارتقاء ہوتا ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جن سے ایک نئی زندگی کی تعمیر اور ایک غیرمعمولی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے۔ روزہ اللہ کے ماننے والے تمام انسانوں کے لیے ہر دور میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی بے شمار مصلحتوں میں سے بعض ایسی ہیں جن کا ہرلمحے شعور بے حد ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ روزہ بندے کا اپنے رب سے تعلق مضبوط کرتاہے اور اس سے وفاداری اور صرف اس کی اطاعت کے جذبے پر دل و دماغ کوتیارکرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے اس عہد کی تجدید کرتاہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں   روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے روزہ دار ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔  روزے کے دوسرے پہلوکا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ جن انبیائے کرام علیہم السلام کو کتاب سے نوازا گیا، ان کو یہ کتاب روزے کی حالت میں دی گئی ۔ رسول اکرم ﷺپر بھی وحی کا آغاز غارِحرا میں اس وقت ہوا جب آپﷺ وہاں مسلسل روزوں کی حالت میں تھے اور اس مقدس کتاب کا آغاز بھی روزے سے ہوا اور اس کی تکمیل ماہِ رمضان میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مصدرہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت اور داعیہ پیدا کرنے والی ہدایت ہے۔ ارشاد ربانی ہے

: شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ (البقرۃ 185)

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے، اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے، اس ماہ میں قرآن مجید سے زیادہ سے زیادہ تعلق مضبوط کریں، روزانہ تلاوت کا اہتمام، انفرادی اور اجتماعی سطح پر ترجمہ وتفسیرکے مطالعہ کا اہتمام، آیتوں پر ٹھہر ٹھہر کرغوروفکر اور تدبر کی مشق کریں۔ قرآن مجید سے ایسا مضبوط رشتہ قائم کیا جائے کہ پوری زندگی اس کی آغوش میں آجائے، قرآن زندگی کا رہنما بن جائے اور ہم ا س کی رہنمائی میں چلنے کے عادی ہو جائیں۔بس یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کے پیغام کو ہم دوسروں تک کس طرح پہنچا سکتے ہیں تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں اللہ کا دین اپنی مکمل اور آخری شکل میں ملتا ہے، جس میں وہ ہدایت ہے جو خالق کائنات نے اُتاری ہے اور جو تمام انسانوں کی دائمی خیروفلاح کی ضامن ہے۔ قرآن اپنی حیثیت اور اپنے مقصد کو یوں واضح کرتا ہے کہ

 ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ  فِیْہِ  ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ 2)

یہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔

اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ (بنی اسرائیل 9)

حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ یہ رہنمائی تمام انسانوں کے لیے ہے:

الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ (البقرۃ 185)

قرآن انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ یہ ہدایت کا ایسا منبع ہے جسم میں ازل سے نازل ہونے والی ہدایت جمع کردی گئی ہے اور یہ پورے خیر کا مجموعہ ہے:

وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (المائدۃ48)

پھر اے نبیﷺ! ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے ، اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے۔  یہ ہدایت ہر لحاظ سے محفوظ بھی ہے اور تاقیامت محفوظ رہے گی

:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر9)

بلاشبہ ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کو محفوظ رکھنے والے ہیں۔

انسانیت کے دُکھوں کا واحد علاج یہ ہدایت ہے

:یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ (یونس57)

لوگو!تمھارے پروردگار کی جانب سے تمھارے پاس ایک نصیحت آگئی ہے جو دل کے تمام امراض کے لیے شفا ہے اور ہدایت اور رحمت ہے اُن تمام لوگوں کے لیے جو اسے مانیں۔ قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔ اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی اصلیت بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی، اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچا سکتا ہےبشرطیکہ وہ اس کا حق ادا کرسکیں، انسانیت کا رہنما اور تاریخ کا معمار بناسکتا ہے۔جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نےفرمایا :

لَا یَصْلُحُ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا بِمَا صَلُحَ اَوَّ لُھَا،

اس اُمت کے بعد کے حصے کی اصلاح بھی اسی چیز سے ہوگی، جس سے اس کے اوّل حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر قرآن نے پہلے بنجر اور شور زمین سے ایک نیاجہاں آبادکردیا تھا، تو آج وہ یہ کارنامہ کیوں سرانجام نہیں دے رہا؟اگر وہ کل شفا و رحمت تھا، تو وہ آج یہ وظیفہ سرانجام دیتا ہوا کیوں نظر نہیں آتا؟ اگر ہم کل اس کی وجہ سے طاقت ور تھے، تو آج اس کے باوجود ہم کمزور کیوں ہیں؟ اگر کل اس کے ذریعے ہم دنیا پر غالب تھے، تو آج اس کے ہوتے ہوئے ہم مغلوب کیوں ہیں؟

اگر غور کیا جائے تو اس کےدو ہی اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم نے عملاً اس کتابِ ہدایت کو اپنا حقیقی رہنما نہیں بنایا۔ اس سے ہمارا تعلق، غفلت و سردمہری اور بے توجہی کا ہوگیا ہو۔ دوسرے، یہ کہ ہم بظاہر تو اس کا ادب واحترام کرتے ہیں لیکن اس کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح راستہ اور صحیح طریقہ اختیار نہیں کر رہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاملے میں یہ دونوں ہی باتیں صحیح ہیں۔

برف کی طرح پگھلتی اور ہر آن قطرہ قطرہ ختم ہوتی، اس زندگی میں یہ بڑا ہی سنہری موقع ہے کہ ہم لمحہ بھر رُک کر سوچیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس کتاب سے ہمارا تعلق کیا ہونا چاہیے؟ اور ہمیں اس سے کیا معاملہ کرنا چاہیے تاکہ یہ اپنے اثرات دکھاسکے اور اس کی روشنی دنیا کے گوشے گوشے کو اپنے نور سے منور کرسکے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دل قرآن حکیم کی عظمت اور بلندی، اس کے اعلیٰ اور برتر کلام ہونے کے احساس سے معمور ہو۔ یہ وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل ہوتا تو وہ شق ہو جاتے۔ اس پُرعظمت کلام کے مقابلے میں اپنی عاجزی کا احساس اور دل کا اس کے لیے نرم ہوجانا بہت ضروری ہے:

وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (المائدۃ 83)

جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اُترا ہے، تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔یہ معرفت حق کا لازمی نتیجہ ہے۔

قرآن سے رہنمائی اور رہبری کے لیے رجوع کرنا، اس کے بارے میں غفلت کی روش کو ترک کر کے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا، یہ دیکھنا کہ کس طرح وہ ہماری زندگی کا نقشہ بدلنا چاہتا ہے، اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنا اور ہرمعاملے میں اس سے ہدایت حاصل کرنا یہی وہ طریقہ ہے جس سے اس کتاب کے اصل اسرار و رُموز ہم پر منکشف ہوسکیں گے

:فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِلَیْکَ اِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ  وَاِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ وَسَوْفَ تُسْأَلُوْنَ (الزخرف  43۔44)

 اے پیغمبرﷺ! جو کچھ تمہاری طرف وحی کیا گیا ہے، اس کو خوب مضبوط پکڑے رہو۔ یقین رکھو کہ تم سیدھے راستے پر ہو اور یہ (قرآن) تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے یقیناًایک نصیحت نامہ ہے اور آگے چل کر تم سب سے اس کی بابت بازپُرس ہوگی۔

امام شاطبی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ جو شخص دین کو جاننا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن ہی کو اپنا مونس و ہم دم بنائے۔ شب و روز قرآن ہی سے تعلق رکھے۔ یہ ربط و تعلق علمی اور عملی دونوں طریقوں سے ہونا چاہیے۔ ایک ہی پر اکتفا نہ کرے۔ جو شخص یہ کرے گا وہی شخص گوہر مقصود پائے گا۔ (الموافقات، ج۳، ص۳۴۶)  قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور اس طرح کیا جائے جو اس کا حق ہے

: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرۃ121)

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔

اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ قرآن کی تلاوت کے ظاہری آداب پورے کیے جائیں، یعنی اسے پاک حالت میں چھوا جائے، ادب سے مطالعہ کیا جائے، ترتیل اور خوش الحانی سے پڑھا جائے ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے معنی کو سمجھا جائے اور ان پر غوروفکر کیا جائے۔قرآن کے الفاظ پر سے یوں ہی نہ گزرجایا جائے، بلکہ اس کی گہرائیوں میں اُترنے اور اس کے مفہوم کو سمجھنے کی پوری کوشش کی جائے۔ یہی قرآن کا مطالبہ ہے

: کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(یونس 24)

غور کرنے والوں کے لیے ہم نے اس طرح آیات تفصیل سے بیان کی ہیں

۔ لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ  اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(الانبیاء 10)

لوگو، ہم نے تمہاری طرف کتاب اُتار دی ہے، جس میں تمھارا ذکر ہے، کیا تم غور نہیں کرتے۔

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ 29)

اے پیغمبرﷺ! یہ قرآن برکت والی کتاب ہے، جو ہم نے تمھاری طرف اُتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔ جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں، وہ اس سے نصیحت پکڑیں۔ یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ تھاکہ وہ قرآنِ پاک کی آیات کو سمجھ کر پڑھتے تھے اور ان پر غوروفکرکرتے۔ قرآن پر عمل کیا جائے اور اس کے مطابق اپنے فکروعمل کو بدلا جائے۔ قرآن پر اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ قرآن کے احکام کے مطابق اپنے کو بدلنے کے بجائے اپنی بداعمالیوں کے لیے جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کو (نعوذباللہ) بدلنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح یہ بھی قرآن کے حقوق کے منافی ہے کہ اس کے احکام کو تو پڑھا جائے، مگر دوسری جانب ان پر عمل نہ کیا جائے۔ قرآن نازل ہی اس لیے کیا گیا ہے، کہ اس کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نقشے کو تعمیر کیا جائے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے مطابق عمل کی سعی کی جائے۔ سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ ’’جب کوئی شخص ہم میں سے ۱۰ آیتیں سیکھ لیتا تھا، تو اس سے زیادہ نہ پڑھتا تھا، جب تک ان کے معنی نہ سمجھ لیتا اور ان پر عمل نہ کرتا‘‘۔(ابن کثیر، جلداوّل، ص ۵)  پھر قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کے سلسلے میں رہنما اور نمونہ رسول مکرم ﷺکو ماننا، جس پر یہ کتاب نازل ہوئی:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء 80)

جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺکے اسوۂ حسنہ سے انحراف بھی قرآن سے دُور لے جانے والی چیز ہے۔

قرآن کے نظام کو قائم کرنے کے لیے جدوجہد اور آخری چیز یہ ہے کہ قرآن جس دعوت کو لے کر آیا ہے، اسے پھیلانے اور اس کے نظام کو قائم کرنے کی عملی جدوجہد کی جائےاور اگر قرآن کریم پر عمل کیا گیا تو قرآن اس کی سفارش کرے گا جیسا کہ فرمان رسول ﷺ ہے :

اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ الصِّیَامُ اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھَوَاتِ بِالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِی فِیہِ وَیَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِی فِیہِ قَالَ فَیُشَفَّعَانِ

’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔روزہ کہے گا کہ اے میرے رب!میں نے بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہشات سے روکا پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے اسے رات کو نیند سے روکے رکھاپس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما ۔ رسول معظم ﷺنے فرمایا کہ ان دونوں یعنی روزہ اور قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔‘‘ (مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمروبن العاص)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے