دین اسلام نے ہمیں مہذب زندگی گزارنے کی دعوت دی  او رنبی کریم  نے زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی کی ہے چاہے وہ معاشی،معاشرتی یا سیاسی ہو یا اس کا تعلق معاملات،عبادات اور اخلاقیات سے ہو ۔

اور یہ واضح کر دیا کہ ہمارے کیا حقوق ہیں اور دوسروں کے ہم پہ کیا حقوق ہیں آپ  نے فرمایا : 

أَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ

’’ ہر حق دار کو اس کا حق ادا کیجیے ۔‘‘ (رواہ بخاری ومسلم)

اور اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم  ان حقوق کو بجالانے کے آداب بھی سکھلائے ۔

اللہ تعالیٰ کا ہم پہ یہ حق ہے کہ اس کی وحدانیت کا صدق دل سے اقرار کیا جائے اور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔

نبی کریم کا اپنی امت پہ حق یہ ہے کہ آپ  کی تعلیمات کی اتباع اورپیروی کی جائے اور بندوں کا بندوں پہ حق یہ ہے کہ ایک دوسرے کی بھلائی کی جائے اوراس کو تکلیف نہ پہنچائی جائے ۔ اسی طرح آپ  ہمیں راستہ کے حقوق اور اس کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنے کی تعلیم دی ہے ۔

راستہ پہ کسی ایک انسان کا حق نہیں بلکہ یہ مشترکہ ملکیت ہے اور لوگوں کے اس سے اجتماعی اور انفرادی فوائد وابستہ ہیں، کسی ایک شخص یا گروہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس اجتماعی حق کو سلب کرنے اور لوگوں کا اس پہ چلنا محال کر دے اور نہ ہی کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی زبان،کلام طرز تکلم سے راستہ پہ چلنے والوں کو تکلیف دے ان کا مذاق اڑائے، اشاروں سے ان کا استہزاء کرے نظروں سے حسد وبغض کے تیر برسائے اور ہر آنے جانے والے پہ نظر رکھے کہ وہ کیا لارہا ہے کیاخرید رہا ہے اسی طرح لوٹ مار کا بازار گرم نہ کرے حماقتیں اور سازشیں نہ کرے پراپگنڈہ اور افواہیں نہ اُڑائے ، بدامنی اور بے یقینی کی کیفیت پیدا نہ کرے۔

شارع،طریق،راستہ مشترکہ ملکیت ہے کوئی بھی اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، راہ اور راہی کا احترام کرنا لوگوں کے لیے چلنا پھرنا آسان کرنا، اعلیٰ اخلاق، مہذب اورترقی یافتہ معاشرے کی علامت ہے۔

آیئے دیکھتے ہیں وہ راستہ جس پہ ہر امیر،غریب، چھوٹے، بڑے ، مردوعورت کا برابر حق ہے نبی محترم اس کے بارے میں ہمیں کیا تعلیمات دیتے ہیں؟ 

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاكُمْ وَالجُلُوسَ عَلَى الطُّرُقَاتِ، فَقَالُوا: مَا لَنَا بُدٌّ، إِنَّمَا هِيَ مَجَالِسُنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا، قَالَ: فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا المَجَالِسَ، فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهَا ، قَالُوا: وَمَا حَقُّ الطَّرِيقِ؟ قَالَ: غَضُّ البَصَرِ، وَكَفُّ الأَذَى، وَرَدُّ السَّلاَمِ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ المُنْكَرِ (رواہ البخاری،حدیث:2465 )

سيدنا ابوسعید خدری نبی کریم  سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو، لوگوں نے عرض کیا ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہم وہیں بیٹھتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جب تم وہاں بیٹھنے پر مجبور ہو تو راستے کو اس کا حق عطا کرو لوگوں نے عرض کیا راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نگاہیں نیچی رکھنا ایذاء رسانی سے رکنا سلام کا جواب دینا اور اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا۔

اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم  نے راستہ کے حقوق کو واضح کیا جس میں سب سے پہلے

1غَضُّ البَصَرِ: نظر کی حفاظت کرنا اس کو نیچا رکھنا کیونکہ راستہ میں صنف نازک اپنی ضروریات پوری کرنے کی خاطر نکلتی ہیں راستہ میں بیٹھ کرتیکھی اور طنزیہ نظروں سے گھورنا ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ رب کائنات فرماتے ہیں :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ (النور:30)

’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔‘‘

2 كَفُّ الأَذَى: دوسری چیز جس سے آپ  نے بچنے کی تلقین کی وہ ہے لوگوں کو تکلیف دینے سے بچنا۔ ارشاد نبوی  ہے :

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ(رواه البخاري:10)

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی تکلیف) سے لوگ محفوظ رہیں۔ ‘‘

آپ کا ارشاد ہے :

الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ(رواه البخاري:35)

’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں سب سے افضل لاالہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا۔‘‘

اسی طرح صحیح مسلم میں ہے کہ آپ  نے فرمایا :

يُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ

’’راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے ۔‘‘

آیئے دیکھتے ہیں کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانے والے کو کیا اجر وثواب اور انعام ملتاہے ۔

لَقَدْ رَأَيْتُ رَجُلًا يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ، فِي شَجَرَةٍ قَطَعَهَا مِنْ ظَهْرِ الطَّرِيقِ، كَانَتْ تُؤْذِي النَّاسَ (رواہ مسلم)

’’ آپ  فرماتے ہیں کہ ایک شخص جنت میں اس بنیاد پہ داخل ہوا کہ اس نے راستہ سے ایک درخت کو کاٹ دیا جس سے لوگوں کو گزرتے ہوئے تکلیف پہنچتی تھی۔‘‘

منزل تیری تلاش میں گھومے گی در بدر

خلقِ خُدا کی راہ سے روڑے ہٹا کے دیکھ

اور جو ایسے کام سر انجام دیتا کہ جس سے راہگیر کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے

اتَّقُوا اللَّعَّانَيْنِ قَالُوا: وَمَا اللَّعَّانَانِ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ فِي ظِلِّهِمْ

’’ دوموجب لعنت والی چیزوں سے بچو، صحابہ نے کہا اللہ کے رسول وہ دو چیزیں کونسی ہیں ؟ آپ  نے فرمایا: لوگوں کے راستہ میں یا سایہ دار جگہ پہ قضائے حاجت کرنا۔ ‘‘ (مسلم )

تیسری چیز آپ  نے جس کا حکم دیا وہ ہے

3 رَدُّ السَّلاَمِ: سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دینا

سلام کا جواب دینا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا  (النساء:86)

’’اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو بےشک اللہ تعالیٰ ہرچیز کا حساب لینے والا ہے۔‘‘

سلام کرنے سے آپس میں الفت محبت بڑھتی ہے حسد بغض ختم ہوتاہے۔

نبی کریم فرماتے ہیں :

لَا تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ(رواہ مسلم)

’’ تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان والے نہیں بنتے اور تم مؤمن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگ جاؤ، کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس پہ عمل کرنے سے تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگ جاؤ، آپس میں سلام عام کرو۔‘‘

چوتھی چیز کا آپ  نے جو حکم دیا وہ یہ ہے کہ

4 وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَهْيٌ عَنِ المُنْكَرِ: بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا

فرمان باری تعالیٰ ہے : 

كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ 

’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔‘‘(آل عمران:110)

اس امت کو امت مسلمہ ، خیر امت قرار دیا گیا اور اس کی علت بھی بیان کی گئی جو امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔

اسی طرح راستہ کے اور بہت سے آداب ہیں جن پہ عمل کرنا چاہیے جیسے راستہ میں کسی ضرورت مند کی مدد کرنا۔

بھولے بھٹکے کو راستہ بتلانا ، کسی کی بھاری چیز اُتارنے یا اُٹھانے میں مدد کرنا اگر فریقین کے درمیان لڑائی جھگڑا چل رہا ہے تو ختم کروانا ، ان کی صلح کروانا ، مظلوم کی مدد کرنا ، جب راستہ کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا تو

1باہمی الفت ومحبت پروان چڑھے گی۔

2معاشرہ مہذب اور بااخلاق کہلائے گا اور ملک وملت کی نیک نامی ہوگی۔

3لوگ بے خوف وخطر اپنی حاجات پوری کرنے کے لیے گھر سے نکل سکیں گے۔

4سب سے بڑھ کر تعلیمات نبوی پر عمل کرکے اجروثواب کے مستحق ٹھہریں گے۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے