وہ روایات جن میں رسولِ اکرم ﷺ اور امام بخاری رحمہ اللہ  کے درمیان صرف چار واسطے ہیں

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ
بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ
(الجامع الصحیح البخاری کتاب الایمان، باب دعائکم ایمانکم، حدیث رقم:8)

رایوں کا تعارف:

1-نام و نسب: عبیداللہ بن موسی بن باذام بن ابی المختار العبسی الکوفی
کنیت :ابو محمد، محدثین کےہاںرتبہ: حافظ ، حجہ اور ثقہ طبقہ: تبع تابعین، ولادت120ھ ،وفات 213 ھ۔
2-نام ونسب: حنظلہ بن ابی سفیان(ابی سفیان کا نام الاسود تھا) بن عبدالرحمٰن بن صفوان بن امیہ القرشی الجُمَحّی المکی،محدثین کےہاںرتبہ:  ثقۃ ثقۃ، طبقہ: تابعی ، وفات: 151 ھجری ۔
3-نام ونسب: عکرمہ بن خالد بن العاص بن ھشام بن المغیرہ القرشی المخزومی المکی محدثین کےہاںرتبہ: ثقہ، طبقہ: تابعی ، وفات: 116 ھجری۔
4-نام و نسب: عبداللہ بن عمر بن الخطاب بن نفیل العدوی، کنیت: ابو عبدالرحمٰن، طبقہ: صحابی، ولادت: نبوت کےکچھ عرصہ بعد ہوئی، غزوہ احد میں ان کی عمر 14 برس تھی رسول اللہ ﷺ کی اتباع وپیروی کا شوق سب سے زیادہ تھا، رسول اللہ ﷺ سے زیادہ روایت کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتا ہے 1730 احادیث کے روای ہیں 73 ھجری کے آخر میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی بعض ھجری74 بتاتے ہیں۔
الفاظ معانی:
بُنِيَ: بنیاد رکھی گئی، اساس۔
الإِسْلاَمُ:اسلام سلم سے ہے جس کا معنا اپنے آپ کو کسی کے سپرد کردینا،تابعدار ہونا، فرمانبردار بننا۔
عَلَى خَمْسٍ: پانچوں عبادات پر۔
شَهَادَةِ:اقرار و تصدیق۔
وَالحَجِّ:بیت اللہ کا موسم حج میں ارادہ و قصد اور سنت نبویﷺ کے مطابق اراکان حج کی ادائیگی۔
ترجمہ:
’’ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نےسیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘
تشریح :
یہ حدیث مبارکہ اسلام کی اصل اور اساس کی وضاحت کرتی ہے اسلام کی پوری عمارت پانچ ستونوں پر قائم ہے اگر ان میں سے ایک بنیاد بھی گرا دی جائے تو عمارت زمین بوس ہوجاتی ہے اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت سے پانچ چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، سب سے پہلے عقیدہ توحید کی وضاحت کی ہے جوکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس کے بغیر اعمال کی قبولیت ناممکن ہے توحید یہ ہے کہ پختہ اعتقاد کے ساتھ گواہی دینا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں جبکہ عقیدہ سے مراد دل ودماغ کی ہم آہنگی سے کسی چیزکی حقیقت کو ماننا ، جیسا کہ اللہ تعالی ہمیں نظر نہیں آتا مگر اس کے باوجود ہم دل ودماغ میں بغیر کسی شک و شبہ کے اللہ تعالی کی ذات کو ایک حقیقت تسلیم کرنا ہی عقیدہ ہے اور اس عقیدے کی پختگی اور اس کے عروج کا نام ایمان ہے اوریہی ایمان وتوحید اللہ تعالی تک پہچانے والے راستے کی چابی ہےاور تمام شریعتوں کی بھی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ تمام رسل اور انبیاء بھی بنیادی طور پر اسی حقیقت کی دعوت دیتے  رہے اللہ تعالی کی توحید کے اقرار کےبعد اس بات کا اقرار کرنا کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیںاوردل وجاں سےان کی لائی ہوئی شریعت کو دل ودماغ سے تسلیم کرنا ان کی شریعت کےہوتے کسی اور کی بات کو شریعت کا درجہ دینے سے باز آنا اس اقرار کے بغیر کوئی عمل بھی درجہ قبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔
توحید ورسالت کے بعد نماز کا تذکرہ ہے، شہادتین کا اقرار ایک دعوی ہے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اس دعوی کی دلیل نماز کا قائم کرنا ہےیہ وہ عبادت ہے  جو مقررہ اوقات میں حضور قلب او ر خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کی جاتی ہے جو کہ ہر مسلمان مرد وعورت عاقل و بالغ پر فرض ہےجوکہ سرور دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ ہے ، اس فرض کے بعد زکوۃ کا ذکر ہے ، ذکوۃ وہ عبادت ہے جو ہر صاحب مال پر سال کے بعد فرض ہوتی ہے جوکہ مال اور دل کی پاکیز گی کا ذریعہ ہے ، حج بیت اللہ یہ بھی اللہ تعالی کی ایک ایسی عبادت ہے جوکہ مخصوص دنوں میں ارکان حج اداکرنے کی غرض سے بیت اللہ کی زیارت کے ذریعے سے پوری ہوتی ہے اللہ تعالی کی اطاعت کے لیے تیار رہنا اور جہاں تک ہوسکے مالی اور جسمانی جدو جہد اور قربانی کے لیے اپنے دلوں کو مطیع بنانااس کا اصل فائدہ ہے اور یہ ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے، رمضان المبارک کے روزے رکھنا یہ وہ عبادت ہے جو کہ ماہ رمضان میں کھانے پینے کی چیزوں اور نفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو روکے رکھنے سے پوری ہوتی ہے یہ عبادت ہر مسلمان مرد وعورت عاقل بالغ پر ہر سال ایک ماہ کے لیے فرض ہے ہاں البتہ شرعی عذر کی وجہ سے فدیہ اور قضا دی جاسکتی ہے۔
——–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے